عظیم قائدکی شخصیت نوجوانوں کے لئے مشعل راہ
(Akhtar Sardar, Kassowal)
|
قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسی عظیم ہستی
25 دسمبر 1876ء کے دن پیدا ہوئی ، باب الاسلام سندھ کے مشہور شہر کراچی میں
پونجا جناح کے ہاں آنکھ کھولنے والے محمد علی نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی
میں ہی حاصل کی جبکہ میٹرک کا امتحان ممبئی سے پاس کیا اور قانون کی اعلیٰ
تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان روانہ ہو گئے۔
محمد علی ایک ذہین لائق ور محنتی طالب علم تھے ۔ یہ 1888ء کا واقع ہے کہ
پورا شہر کراچی رات کی تاریکی میں دوبا ہوا تھا ہر طرف گہرا سناٹا چھایا
ہوا تھا سڑک پر کوئی بھی آدمی چلتا پھرتا دکھائی نہیں دیتا تھا، اسی علاقے
میں ایک دومنزلہ عمارت تھی وہاں بھی مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی لیکن ایک
کمرے میں لیمپ جل رہا تھا اور اس لیمپ کی ہلکی روشنی میں ایک لڑکا پڑھائی
میں محو تھا اسے اپنے اردگرد کی کوئی پرواہ نہ تھی۔
اس وقت تقریبا آدھی رات کا وقت تھا، اسی وقت ایک خاتون اس کمرے میں داخل
ہوئیں صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ نیند سے بیدار ہوئی ہیں وہ نہایت شفقت سے
بولیں میرے بیٹے تم ابھی تک پڑھائی کر رہے ہو کیا تمہیں خبر نہیں کہ آدھی
رات ہو چکی ہے بچے نے جواب دیالیکن میں ابھی سونا نہیں چاہتا اگر میں بھی
دوسرے بچوں کی طرح سو گیا تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا ، اس رات تو یہ بات ایک
عام سی بات ہوئی لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا کہ یہ لڑکا آگے چل کر دنیا کا
مشہور قانون دان، کامیاب لیڈر اور عظیم انسان بن گیا، اس کا نام محمد علی
جناحؒ تھا، انہوں نے بچپن ہی سے ایک قانون اپنایا کہ وہ ناصرف سامنے دیکھیں
گے بلکہ اپنا سر بھی بلند رکھیں گے، اور پھر ایسا ہی ہوا کہ وہ کبھی مشکلات
کے سامنے نہیں جھکے بلکہ ہمیشہ مشکلات کا چیلنج قبول کر کے اس پر قابو پانے
کی جدو جہد کی۔بلکہ زندگی کے آخری لمحے تک جدوجہد میں رہے۔
قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کہتی ہیں کہ آپ کی ہمیشہ یہ خواہش رہی
کہ وہ صنوبر کے ایک ایسے اونچے درخت کی طرح بنیں جسے طوفان چھو تو سکے لیکن
جھکا نہ سکے، اور پھر حقیقت میں انہوں نے اپنی زندگی طوفانوں کا مقابلہ
کرتے ہوئے گزاری، آپؒ فرماتے ہیں کہ طلباء قوم کا قیمتی سرمایا ہیں اور بچے
قوم کی امانت ہیں اور درسگاہیں قومی کردار کی آئینہ دار ہوتی ہیں، آپ سب
ایک فولاد کی طرح مضبوطی سے اپنی جگہ پر ڈٹے رہو اور راستے میں آنے والی
رکاوٹوں سے حوصلہ نہ ہارو اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے اور علم کی
روشنی پھیلانے میں وقت صرف کرو۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایجوکیشنل کانفرنس پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ علم کا مطلب صرف تدریسی علم نہیں ہے ہم کو اپنا اخلاق بنانا پڑے گا
جس سے آنے والی نسلیں مستفید ہو سکتی ہیں سب ے زیادہ ضرورت ہمیں سائنس اور
ٹیکنیکل تعلیم کی ہے جس سے ہماری اقتصادی زندگی میں مدد ملے گی، ہمیں چاہئے
کہ لوگ سائنس ، کامرس، تجارت اور صنعت میں ترقی کریں دیکھیں دنیا بہت تیزی
سے ترقی کر رہی ہے اور ہم کو بھی بہت جلد ٹیکنیکل اور فنی تعلیم عام کرنی
پڑے گی، ہم کو اپنی نئی نسل کا اخلاق بہت بلند کرنا پڑے گا جس سے ایماندری
عزت اور بے لوث خدمت جیسی چیزیں حاصل کرنی ہو گی۔
قوم کی خدمت کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے اور اس سے ہماری اقتصادی زندگی پر
بہت اثر پڑے گا اور پاکستان کا وقار بلند ہوگا۔
قائد اعظم کو نوجوان مسلم طلبا سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں اور نوجوانوں
نے قائد اعظم کی امیدوں کو ٹوٹنے نہیں دیا بلکہ اور زیادہ مضبوط کیا۔ 1937
کے کلکتہ کے اجلاس میں قائد اعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے
فرمایا:’’نئی نسل کے نوجوانوں آپ میں سے اکثر ترقی کی منازل طے کرکے اقبال
اور جناح بنیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ قوم کا مستقبل آپ لوگوں کے ہاتھوں
میں مضبوط رہے گا۔‘‘
قائد اعظم نے مزید فرمایا کہ’’میرے نوجوان دوستو اب میں آپ ہی کو پاکستان
کا حقیقی معمار سمجھتا ہوں اور دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنی باری آنے پر
کیا کچھ کرکے دکھاتے ہیں۔ آپ اسی طرح رہیں کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔
اپنی صفوں میں مکمل اتحاد اور استحکام پیدا کریں اور ایک مثال قائم کریں کہ
نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں۔‘‘
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
قائد اعظم کی عظیم شخصیت نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس
وقت ہمارے ملک میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم قائد اعظم کے
ان ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی مشکلات پر قابو پائیں تاکہ ہمارا
پیارا پاکستان، قائد اعظم کے نظریات اور اصولوں کے مطابق ہوسکے اور ہم دنیا
کی عظیم اور طاقت ورقوم بن سکیں۔ |
|