مسلم لیگ جیت گئی عوام ہار گئی

میں سب سے پہلے اپنے اُن محترم قارئین کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے مجھے پاکستان اور دُنیا بھر سے مثبت پیغامات بھیجے اور میرے گذشتہ کالم ’’اونٹ خیمے کے اندر اور عربی حضرات باہر‘‘ کو پسند کیا۔ آج کا کالم خالصتاً عوام کے دل کی آواز ہو گا۔ پنجاب بھر میں مسلم لیگ (ن) نے بھرپور کامیابی حاصل کی اور سچ تو یہ ہے کہ خبر یہ نہ تھی کہ مسلم لیگ جیت گئی بلکہ خبر یہ ہے کہ عوام ہار گئے۔ تقریباً ہر جگہ میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سے تھا، چونکہ بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور پھر یقینا ضلعی چیئرمین بھی انہی کے بننے تھے، مگر سوال یہ ہے کہ عوام کو کیا ملا؟ گذشتہ 35 سالوں میں وہی چہرے پارٹیاں بدل بدل کر عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ میں چکوال کی سیاست پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔ چکوال میں بھی اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کا مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ چکوال کے قومی اسمبلی کے دو حلقے این اے 60 اور 61 ہیں، دونوں کے ایم این اے یعنی حلقہ این اے 60 سے میجر (ر) طاہر اقبال، حلقہ 61 سے سردار ممتاز خان ٹمن اور پی پی 22 سے سردار ذوالفقار دُلہہ نے پارٹی قیادت سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اُمیدوار ملک نعیم اصغر اعوان کو میدان میں اُتارا اور پارٹی قیادت سے اختلاف کیا تھا کہ انہوں نے سردار غلام عباس کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کو پسند نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ بھی ایسے شخص کو دیا گیا جس کا مسلم لیگ (ن) سے تعلق نہ تھا۔ شیر کا نشان ملک طارق ڈھلی کو مل گیا جن کو ایم پی اے اور مسلم لیگ (ن) ضلع چکوال کے صدر چوہدری لیاقت، ایم پی اے اور صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم سیتھی، ملک سلیم اقبال اور سردار غلام عباس کی حمایت حاصل تھی۔ کامیابی شیر کے نشان کو ملی اور ملک طارق ڈھلی کامیاب ٹھہرے۔ جو کل تک شیر کی کھال اُتارنا چاہتے تھے آج شیر کا نشان اپنے سینے پر سجا کر دھمال ڈالتے نظر آئے۔ قارئین محترم! ذرا غور فرمائیں کہ کامیابی کس کو ملی اور ناکامی کس کے حصے میں آئی؟ 2013ء کے انتخابات میں چکوال کی تمام چھ سیٹیں مسلم لیگ (ن) نے جیتی تھیں، مخصوص نشستیں اور سینیٹر ملا کر 9 ارکان پارلیمنٹ بن گئے مگر پھر بھی حکمران جماعت کو چین اور قرار نہ آیا اور اُنہوں نے سردار غلام عباس کو شامل کر لیا۔ سردار غلام عباس تو اپنے ووٹ بنک کو استعمال کرتے ہیں کئی پارٹیاں بدل چکے ہیں مگر ان کی شمولیت سے مسلم لیگ (ن) کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہو گیا اور پارٹی کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ دونوں ایم این اے، ایک ایم پی اے اور ہزاروں نظریاتی مسلم لیگی سردار غلام عباس کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت پر قطعی خوش نہ ہیں مگر نظریاتی ورکرز کی کون سنتا ہے، وہ تو صرف قربانیوں اور نعروں کے لئے ہوتے ہیں۔ ذرا ملاحظہ کریں ضلع کونسل کے آخری نتائج، ضلع کونسل کے ایوان میں مجموعی طور پر 95 ووٹ تھے، سردار غلام عباس کے پاس 29 ووٹ تھے، پی ٹی آئی کے پاس 6 ووٹ تھے، پی ٹی آئی اور (ق) لیگ میں اتحاد ممکن نہیں تھا، باقی 7 ووٹ رہ گئے۔ اب نتائج ذرا ملاحظہ کریں، (ن) لیگ کو 55 ووٹ ملے، ملک نعیم اصغر اعوان باغی گروپ 32 ووٹ لئے وہ بھی اصل میں مسلم لیگ (ن) کے ہی تھے جبکہ ملک طارق ڈھلی کو 55 ووٹ ملے، اگر ان میں سے سردار غلام عباس کے 29 ووٹ نکال بھی دیں تو باقی 26 ووٹ رہ جاتے ہیں یہ بھی مسلم لیگ (ن) کے ہی تھے۔ اب مسلم لیگ (ن) کا حتمی ٹوٹل ملاحظہ کریں یہ 58 ووٹ بنتے ہیں۔ اگر پارٹی کی اعلیٰ قیادت اپنے قائدین پر اعتماد کرتی تو آج سردار غلام عباس کے بغیر بھی ضلع کونسل چکوال میں چیئرمین پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ہی ہونا تھا اور پارٹی کو انتشار اور ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچایا جا سکتا تھا۔ اس تمام صورت حال میں فائدہ صرف اور صرف سیاسی قائدین کو ہوا، عوام کو تو ماسوائے مایوسی کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا۔ اب ذرا ملاحظہ کریں کہ چکوال کی چھ سیٹیں حکمران جماعت کے پاس۔ ایک سینیٹر کے علاوہ مخصوص نشستوں پر 2 خواتین اور ایک وزیر اعلیٰ کے مشیر بھی موجود ہیں مگر ان ارکان پارلیمنٹ نے ماسوائے قومی خزانے پر اپنی تنخواہوں کا بوجھ ڈالنے کے علاوہ کچھ بھی نہ کیا۔ اب ڈسٹرکٹ چیئرمین کو بھی ساتھ شامل کر لیا۔ ممبران پارلیمنٹ لاہور جاتے ہیں کہ وہاں سے کوئی عوامی پراجیکٹ لے کر آئیں گے مگر یہ تمام لوگ جب بھی لاہور گئے تو ایک دُوسرے کی شکایتیں ہی لگاتے نظر آئے فلاں یہ کر رہا ہے، فلاں یہ کر رہا ہے۔ سردار غلام عباس کو پارٹی میں لیں اور نہ لیں۔ شکایتیوں کا ایک انبار لے کر یہ لاہور جاتے رہے۔ کیا عوام نے ان کو ووٹ اس مقصد کے لئے دئیے تھے۔ عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور پھر عوام کو بھول جاتے ہیں۔ اگر یہ ارکان اسمبلی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے پاس جا کر عوامی منصوبے مانگتے ، سب مل کر چکوال کی تعمیر و ترقی کے لئے ترقیاتی فنڈز مانگتے تو آج ضلع چکوال ایک ماڈل ضلع بن چکا ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ چکوال شہر کی حالت آپ سب کے سامنے ہے۔ کھنڈر نما شہر بن چکا ہے۔ مندرہ سوہاوہ روڈ نجانے کتنی قیمتی جانیں لے چکا ہے۔ ابھی تک اس کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ عوام چیخ چیخ کر تھک چکے ہیں۔ چکوال شہر میں نالہ بنا کر کروڑوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا اور نالہ بھی ایسی جگہ اُونچا کیا گیا جہاں پہلے ہی اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ جہلم روڈ پر پانی کی نکاسی کے لئے بہت گہرائی کے اندر کھائی موجود ہے اور وسیع پانی اُس میں جا سکتا تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا، اب تو عوام کی زبان سے یہ بات سننے کو مل رہی ہے کہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے شاید ہی مکمل ہو سکے۔ اسی طرح چکوال میں نہ یونیورسٹی کا وعدہ وفا ہو سکا اور نہ اچھے ہسپتال پر کوئی کام ہو سکا، واٹر سپلائی کا کام بھی اُدھورا ہے اور تلہ گنگ والوں کو ضلع کا خواب مزید دیکھنے کے لئے مزید نیند کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا اور اُن کو ضلع تو شاید ابھی نہ ملے البتہ تلہ گنگ سے ضلعی چیئرمین ملک طارق ڈھلی کا تعلق البتہ تلہ گنگ سے ہے اس لئے ابھی طارق ڈھلی پر ہی گزارہ کریں۔ ان چار سالوں میں کوئی بھی تعمیری کام نہ ہو سکا۔ چکوال شہر میں ان کے پورٹریٹ دیکھیں۔ چکوال کے مقامی اخبارات دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔ اتنے اتنے بڑے اشتہارات لگے ہوئے ہیں جیسے ان لوگوں نے چکوال کو پیرس بنا دیا ہو۔ کیا یہ لوگ اشتہارات کے قابل ہیں؟ عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور ان کو ووٹ بھی شیر کے نشان اور میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کے وژن کی وجہ سے ملتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی ذاتی ووٹ بنک موجود نہیں ہے۔ پارٹی سے ہٹ کر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے مگر افسوس صد افسوس کے بار بار شیر کا ٹکٹ لے کر شیر کے نشان پر کامیابی حاصل کر کے بھی عوام کے لئے کچھ نہ کر سکے۔ سوچتا ہوں کہ یہ لوگ 2018ء میں بھی بن جائیں گے۔ آگے ان کے بچے بھی منتخب ہوتے رہیں گے مگر عوام کدھر گئے؟ اس کا تو پھر یہی مطلب ہوا کہ مسلم لیگ جیت گئی اور عوام ہار گئے۔ کیا عوام ووٹ اپنے ہارنے کے لئے دیتے ہیں۔ اس کا فیصلہ عوام خود کریں گے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 63678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.