کیاوجہ ہے کہ اس وقت دنیاکے کئی خطوں میں
صرف اور صرف مسلمان ہی ظلم وستم کانشانہ بن رہے ہیں اوراقوام عالم کے
رہنماؤں نے اپنی آنکھیں بنداورلب سی رکھے ہیں۔ ابھی شام کے مسلمانوں پرعذاب
ختم نہیں ہواکہ برماکے مسلمانوں کی چیخ وپکارنے دہلاکررکھ دیا ہے۔۲۵
نومبرکومیانمارمیں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اوران پرفورسزکے وحشیانہ
مظالم کے خلاف انڈونیشیا،ملائشیا،تھائی لینڈاوربنگلہ دیش میں مسلمانوں نے
میانمارمخالف مظاہرے کئے لیکن آج تک اقوام عالم میں کوئی جنبش نہیں ہوسکی
،مغرب توگویاصرف اپنے ہاں کے شہریوں کو انسان سمجھتاہے۔دوسری طرف اقوام
متحدہ نے ایک بارپھرکہاہے کہ میانمار،روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کررہاہے،
فرانسیسی نیوز ایجنسی کے مطابق ملائشیاکے دارلحکومت کوالالمپورمیں
میانمارکے سفارت خانے کے باہرمسلمانوں نے روہنگیامسلم برادری پرفورسزکے ظلم
وتشدداورقتل عام پر شدید احتجاج کیا۔ بنگلہ دیشی دارلحکومت ڈھاکہ میں پانچ
ہزار سے زائدافرادنے نمازجمعہ کے بعدمیانمار حکومت کے خلاف احتجاج کیا،اسی
طرح جکارتہ اوربنکاک میں بھی میانمار سفارتخانوں کے سامنے شدیداحتجاجی
مظاہرےکئے گئے۔ مظاہرین آنگ سان سوچی کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے
اورعالمی برادری سے روہنگیا مسلمانوں کاقتل عام رکوانے کیلئے کرداراداکرنے
کامطالبہ کرتے رہے۔
اس دوران اقوام متحدہ کے ایک سنیئراہلکارجان مک کسک نے ایک بارپھرکہاہے کہ
میانماراپنی سرزمین سے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل ختم کرنا چاہتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیں کے سربراہ جان مک کسک نے بنگلہ دیش
کے سرحدی حصے کاکس بازارمیں میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اس مسئلے کے
حل کیلئے میانمارمیں بنیادی اسباب پرفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔میانمارکی
فوج اورسرحدی پولیس ریاست رخائن میں گزشتہ ماہ ۹بارڈر گارڈز کی ہلاکت کے
بعدروہنگیابرادری کواجتماعی طور پر سزا دینے میں ملوث ہے۔سیکورٹی
فورسزمردوں کوگولیاں مارنے،بچوں کو ذبح کرنے، خواتین کوبے آبروکرنے،گھروں
کوجلانے،لوٹ ماراورلوگوں کوبنگلہ دیش کی طرف دریاعبور کرنے پر مجبور کررہی
ہیں۔ابھی پچھلے جمعہ کوپھراطلاع ملی ہے کہ فوج نے فرارہونے کی کوشش کرنے
والے دیہاتیوں پراندھادھندفائرنگ کرکے ان کوسرحدکی طرف جانے پرمجبورکردیا۔
دوسری طرف بنگلہ دیش نے کہاہے کہ اس کی سرحدپرہزاروں روہنگیامسلمان جمع ہیں
تاہم اس نے سرحدبندکررکھی ہے ۔ایک پچاس سالہ روہنگیا مسلمان نے سسکیاںبھرتے
ہوئے بتایا کہ :فوجیوں نے ہمارے گاؤں میں داخل ہوکرپچاس خواتین اورجوان
لڑکیوں کوکمروں میں بندکرکے ان سے اجتماعی زیادتی کی اور انہیں
شدیدتشددکانشانہ بنایا۔ایک اور مسلمان نے بتایاکہ ہمارے گاؤں میں درندہ صفت
فوجی جمعے کی صبح کوداخل ہوئے اوران کے خوف سے فرار ہونے والے نہتے
مسلمانوں پراندھادھندفائرنگ شروع کردی جس سے لاتعدادبے گناہ مسلمان شہیدہو
گئے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کا کہنا ہے :میانمارکی فوج ملک کے دس لاکھ
روہنگیامسلمانوں کواجتماعی سزادے رہی ہے۔انتہائی اذیت ناک حقیقت یہ ہے کہ
میانمارپرآنگ سان سو چی کی حکومت ہے ،وہ سوچی جوحقوق انسانی کی علمبردارتھی
مگراسے روہنگیاکے مسلمانوں سے خدا واسطے کابیرہے۔سوچی پر چاروں طرف سے
بھرپورتنقیدہورہی ہے مگراسے پرکاہ کے برابرپرواہ نہیں۔
آنگ سان سوچی میانمارمیں فوجی جنتاکے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی
تھی،بعض لوگ اب اسی طرح سمجھ رہے ہیں۔اس کی جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے
عدم تشددپرمبنی جدوجہدکومدنظررکھتے ہوئے ۱۹۹۱ء میں نوبل کا امن
ایوارڈدیاگیا۔اس وقت وہ میانمارمیں حکومت چلارہی ہے لیکن روہنگیا مسلمانوں
کونظراندازکرنے کی وجہ سے بین الاقوامی حلقوں میں شدیدتنقیدکانشانہ بن رہی
ہے۔اکانومسٹ نے اسے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں واضح اور اصولی مؤقف نہ
اپنانے کی وجہ سے شدیدتنقیدکاہدف بنایاہے جبکہ بی بی سی پرمشعل حسین نے
انٹرویوکے دوران میں اس کی توجہ روہنگیا مسلمانوں کی زبوں حالی کی طرف
دلائی تواس نے کہاکہ میانمارمیں مسلمانوں کے خلاف نسلی امتیازروانہیں رکھا
جا رہا جبکہ مسلمانوں کابہت طاقتورہونے کاتصوریعنی دہشتگردی کی وجہ سے
ایساہورہاہے۔انٹرویوکے بعداسے مشعل حسین کے مسلمان ہونے کاپتہ چلاتواس
پرسخت اعتراض کیاکہ ایک مسلمان نے اس کا انٹرویوکیوں لیا؟
چودھویں دلائی لامہ نے بھی سوچی کوروہنگیامسلمانوں کے حق میں آوازاٹھانے
کوکہا لیکن وہ ایسانہیں کررہی۔۲۰۱۶ ء میں میانمارمیں مقرر ہونے والے امریکی
سفیرکوسوچی نے کہا کہ روہنگیامسلمانوں کانام لئے بغیران کے بارے میں پبلک
میں بات کرے لیکن سفیرنے سوچی کی بات نہ مانی توسوچی نے اس کے خلاف برمی
عوام سے احتجاج کروادیا۔سوچی کی اصل سوچ کیاہے ،اب یہ پوری معقول ومتوازن
دنیاپرروزِ روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کانام لینے والی اس طرح
کی اوربھی شخصیات ہیں جومحض الفاظ کے ہیر پھیرسے دنیاکے عام وسادہ
افرادکوبے وقوف بنارہی ہیں۔
روہنگیامسلمان میانمارکی ریاست رخان کے باسی ہیں۔روہنگیااوربعض اسکالرزکا
کہناہے کہ ان کاتعلق رخائن ریاست سے ہے جبکہ بعض مؤرخ اس کاتعلق بنگال سے
جوڑتے ہیں اوران کاکہناہے کہ کہ وہ برطانوی دورِ حکومت میں رخان آ کر
آبادہوئے ،بعض انہیں ۱۹۴۸ء کے دوران میں آباد ہونے والوں میں شمارکرتے ہیں
اوربعض کاکہناہے کہ وہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران یہاں
آکرآبادہوئے تھے۔بعض ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سولہویں صدی سے یہاں
آبادہیں۔ایک تصوریہ بھی ہے کہ برطانیہ اور برما کے درمیان ۱۸۷۶ء میں لڑی
جانے والی پہلی جنگ کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کواس علاقے میں آبادکاری
کیلئے قائل کیاتاکہ وہ یہاں کسانوں کاکام کرسکیں۔ حقیقت کچھ بھی ہو
روہنگیامسلمان یہاں ایک لمبے عرصے سے رہ رہے ہیں۔۱۹۸۲ء میں میانمارکے فوجی
حکمران جنرل نی ون نے برماکی قومیت سے متعلق قانون نافذکیاجس کے مطابق
روہنگیامسلمانوں کوشہریت نہ دی گئی۔۲۰۱۳ء کی مردم شماری کے مطابق
روہنگیامسلمانوں کی تعداد۱۳لاکھ ہے۔رخان ریاست کے شمالی قصبوں میں ان کی
تعداد۸۰سے ۹۸فیصد ہے۔بین الاقوامی میڈیااورانسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق
روہنگیامسلمان دنیاکے سب سے زیادہ آفت زدہ لوگ ہیں اوروہ بالکل ایسی زندگی
گزاررہے ہیںجیسی ہٹلرکے دور حکومت میں یہودی گزارتے تھے۔
یہ بات کسی حدتک درست مانی جاسکتی ہے کہ میانمارکی فوجی حکومت
روہنگیامسلمانوں پرظلم کررہی تھی لیکن یہ بات بہت حیران کن ہے کہ میانمار
میں ایک ایسی خاتون حکمران ہے جسے ١٩٩١ء میں نوبل انعام اس کی جمہوریت سے
محبت اورانسانی دوستی کی وجہ سے دیاگیاہووہ پرتشددطریقے سے ١٣لاکھ مسلمانوں
کوبنیادی انسانی حقوق کی پامالی میں فوجی جنتاکا ساتھ دے رہی ہے،اس سے بھی
زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ میانمارکی فوج رخان ریاست یعنی
روہنگیامسلمانوں کے خلاف ملٹری آپریشن کاپلان تیارکررہی ہے جس سے
روہنگیامسلمان یقیناًمزیدمصیبت میں گرفتارہوجائیں گے لیکن اس سارے عمل میں
آنگ سان سوچی کہیں بھی انسانی حقوق کی علمبردارکی حیثیت سے ایک باعمل
لیڈرکے طورپرنظر آرہی ہے۔
جواس کے فوج مخالف تحریک کے آنگ سان سوچی دوہرے معیار،دوغلے پن اورمنافقت
کی بدترین مثال بن چکی ہے جواس کے فوج مخالف تحریک کے کردار سے یکسرمختلف
ردّ ِعمل ہے۔امریکی سابقہ صدربش نے نائن الیون کے بعد دہشتگردی کواس
قدرہوادی ہے کہ مودی جیسابدمعاش شخص بھی کشمیریوں کی جنگ آزادی کودہشتگردی
قراردے رہا ہے ۔یہی حال میانمارکی حکومت روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کررہی
ہے،انہیں دہشتگردقراردیکران کے خلاف غیرقانونی ریاستی طاقت کابھرپوراستعمال
کیا جا رہا ہے۔یہ عمل اقوام متحدہ کے چارٹراور انسانی حقوق کے مسلمہ بین
الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میانمارکی حکومت
روہنگیا مسلمانوں سے رخان ریاست کواس طرح پاک کرناچاہتی ہے جیسے کبھی ان کا
یہاں وجودہی نہ تھا۔ میانمارحکومت کاکہناہے کہ روہنگیامسلمانوں میں دہشتگرد
بھی شامل ہوگئے ہیں،اس لئے ان سے نجات حاصل کرناضروری ہے حالانکہ یہ سب
جھوٹ پرمبنی ہے ۔ اگر کسی بھی قوم ،نسل یاقبیلے پرچالیس پچاس سال تک مسلسل
تشدد،جبراورظلم وستم کے پہاڑ توڑے جائیں گے توعین ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ
نوجوان اس ظلم وستم کے خلاف لڑنے مرنے کیلئے تیارہو جائیں، ایسے لوگ
دہشتگردنہیں بلکہ آزادی کے متوالے ہوتے ہیں جو ظلم،ناانصافی اور بربریت کے
خلاف حق کی آوازاٹھاتے ہیں۔دنیااس قسم کے لوگوں کی وجہ سے بہتری کی منازل
طے کررہی ہے۔
یہاں سوال یہ نہیں کہ روہنگیاکے مسلمان کیاکررہے ہیں اورکیانہیں کررہے بلکہ
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جمہوریت ، انسانی حقوق کی علمبردار، امن کی نوبل
امن یافتہ میانمار حکومت کی سربراہ کے دورمیں ۱۳لاکھ مجبورومقہورانسانوں کے
ساتھ ظلم ہورہاہے۔دنیاکواس طرف توجہ دیناہوگی ، گہری غفلت کی نیندسوئے
مسلمان حکمرانوں کوخاص طورپرجگانے کی شدیدضرورت ہے کہ اوآئی سی کا ہنگامی
اجلاس بلاکرنہ صرف روہنگیا مسلمانوں بلکہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی
دادرسی کیلئے فوری ،ٹھوس اورنتیجہ خیزنتائج کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔امن
کاانعام دینے ہی نہیں واپس لینے کے طریقہ کار کا بھی تعین کیا جائے کیونکہ
جس مقصدکیلئے نوبل انعام دیاگیاہے،اگراسی مقصدکی نفی ہونا شروع ہوجائے تویہ
نہ صرف اس ادارے کی بھی توہین ہے بلکہ انعام کی توقیر بھی خاک میں مل جاتی
ہے۔
میانمارکی سرزمین روہنگیامسلمانوں کے خون سے ایک مرتبہ پھررنگین کردی گئی
ہے اوریہ ظالمانہ مشق برسوں سے جاری ہے مگراب وقت آگیا ہے کہ انسانیت کے
نام لیواانسانوں جیسا طرزِ عمل اختیارکریں ورنہ ان کے تمام دعوے ڈھونگ ثابت
ہوں گے اورسوچی جیسی خونخوارسوچ رکھنے والی شخصیات دنیا کاامن تباہ کرنے کی
ذمہ دارہوں گی۔
|