سوشل میڈیا کا عروج اور ہمارا بخار!

 دنیا میں جو چیزیں روز بروز زور پکڑتی جارہی ہیں۔ان میں ایک جانا پہچانا سا نام میڈیا بھی ہے۔ پہلے پرنٹ میڈیا اور اب الیکٹرونک میڈیا ہے ، میڈیا کیا اور کیوں ہے اس کا ہر کسی کو معلوم ہے۔لیکن میڈیا کے کیا فوائد اور کیا نقصانات ہیں۔ ان کا علم ہر ایک کو نہیں۔خاص کر آج کی نوجوان نسل کو تو اس کا بالکل بھی احساس نہیں کہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنی اصلاح کررہے ہیں یا خود کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔ دو صدیوں تک دنیا پر پرنٹ میڈیا نے راج کیا لیکن اکیسویں صدی کے ٹکنالوجی انقلاب نے دنیا پر کئی اثرات مرتب کئے۔ ان مثبت اور منفی اثرات سے دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ متأثر ہوا ہے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی سطح پر یہ اثرات اس قدر ہمہ گیر ہیں کہ اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کے اس عظیم انقلاب کا ایک بڑا پہلو الیکٹرونک میڈیااور سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا، اس کے بڑھتے چلن اور نوجوان نسل پر اس کے وسیع تر اثرات آج کل ریسرچ کا ایک اہم موضوع بن گئے ہیں۔ اس مضمون میں انہیں اثرات کو سامنے لانے نیز سوشل میڈیا کے مختلف پہلو ؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا میں ہمارے رول اور اس میں کام کرنے کی حکمت عملی پر کسی اور مضمون میں بات کی جائے گی۔سوشل میڈیا کیا ہے؟سوشل میڈیا انٹرنیٹ سے جڑا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جو افراد اور ساتھ ہی اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اپنے پیغام کی ترسیل کرنے اور ساتھ ہی انٹرنیٹ پر موجود دیگر کئی چیزوں (جیسے گرافکس، ویڈیوز، آڈیوز، پوسٹرس وغیرہ) کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں اس میں تیز رفتار ترقی ہوئی ہے اور اب انٹرنیٹ نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ گوگل اس میدان میں موجد کی حیثیت رکھتا ہے جس نے اپنے دو مقبول سائٹس یو ٹیوب اور آرکٹ(Orkut)کا آغاز کیا تھا۔ فیس بک کے آغاز کے بعد اس کی بڑھتی مقبولیت کی بناء پر Orkutمیں نوجوانوں نے دلچسپی کھودی اور فیس بک دھیرے دھیرے اس میدان کا لیڈر بن گیا۔ لیکن اب گوگل کی نئی سروس گوگل پلس اس میدان میں نئی جست لگانے کی تیاری کررہی ہے۔ فیس بک کے علاوہ اسی دوران کئی اور سائٹس اس میدان میں داخل ہوئیں جیسے ٹوئٹر، My Space، وغیرہ۔ آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سائٹس میں facebook، یوٹیوب اورTwitterکا شمار ہوتا ہے۔یہ ایک لازمی سوال ہے کہ سوشل میڈیا کی اس مقبولیت کی وجوہات کیا ہیں؟ جس رفتار سے اس نے ترقی کی اور نوجوان نسل سے آگے بڑھتے ہوئے ہر عمر کے لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا، اس قسم کے اثرات کسی اور ٹکنالوجی یا ایجاد کے ذریعہ کبھی مرتب نہیں ہوئے۔تقریباً تمام سوشل میڈیا سائٹس مفت ہیں۔ ان سائٹس کے استعمال کنندگان کو کسی قسم کی کوئی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی ہے۔ کچھ سائٹس معمولی قیمت پر خدمات بھی فراہم کرتی ہیں لیکن اس قسم کی سائٹس کو استعمال کرنے والے لوگ محدود ہیں اور ان کے استعمال کرنے والے بھی مخصوص قسم کے لوگ ہوتے ہیں، جیسے LinkedIn پروفیشنل نیٹ ورکنگ سائٹ مانی جاتی ہے۔بقیہ تمام بڑی سائٹس جیسے فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ مفت خدمات پر یقین رکھتی ہیں۔ہر قسم کی ٹکنالوجی پر نیٹ ورکنگ سہولیات:ٹکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں جبکہ انٹرنیٹ تک رسائی کافی آسان ہوگئی ہے اور 3Gنیٹ ورکس کی بدولت موبائل آلات پر بھی تیزرفتار انٹرنیٹ میسر ہے، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس نے بھی اپنے آپ کو اس رفتار سے ہم آہنگ کیا۔ پرسنل کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ سے لے کر ٹیبلیٹ اور چھوٹے موبائل فونس تک ہر جگہ یہ سائٹس موجود ہیں اور ہر جگہ ایک ہی طرح ظاہر ہوتے ہیں (Look and feel)۔موبائلس پر ان سائٹس کی موجودگی نے ان سائٹس کو مقبول بنانے او ران کے تیزرفتار پھیلاؤ میں بڑی مدد کی ہے۔سوشل میڈیا کے فوائد بھی ہے اور نقصانات بھی کچھ عرصہ قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے کوپن ہیگن یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی تحقیق کے حوالے سے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال حسد کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔اس تحقیق میں خاص طور پر تنبیہہ کی گئی ہے کہ کسی سے بات کیے بغیرسوشل میڈیا کی صرف براؤئزنگ کرنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔لوگوں سے کہا گیا ہے کہ موقع آ گیا ہے کہ سوشل میڈیا سے بریک لیا جائے، تحقیق کے دوران ایک ہزارسے زائد افراد سے بات کی گئی جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا خاص طور سے فیس بک کا استعمال صارف کی زندگی کے حوالے سے خیالات اور جذبات پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی سوشل میڈیا کی کہانیوں پر حد سے زیادہ وقت گزارنے سے موڈ خراب ہونے کے ساتھ ساتھ حسد پیدا ہو سکتا ہے۔سوشل میڈیا پر دوسرے افراد سے باتیں کرنے سے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک ہفتے کے لیے سوشل میڈیا کو ترک کردیا جائے ۔اس وقت پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہیں ۔سوشل میڈیا کا صارف یانمائندہ بن نے کیلئے تعلیم کی کوئی شرط نہیں اور نا ہی عمر کی کوئی قد غن ہے ۔سوشل میڈیا کو بعض لوگ حق سچ اور آچھے کاموں کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔تو بعض لوگ صرف تصاویر upload کرنے کیلئے استعمال کرتے ہے ۔تصاویر کے شوقین اس حد تک اپنے شوق میں آگے بڑ ھ گئے ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے ،موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ۔گھر سے باہر آتے ہو ئے ، سیڑیاں چھڑتے ہوئے، نماز پڑھ تے ہوئے ،بیت اﷲ کا طواف کرتے ہوئے، آتے ہو ئے جاتے ہوئے ، اپنے آئی فون سے سیلفیز بنا کر فیس بوک پر upload کر دے تے ہیں ۔ تو بعض لوگ اپنے بیمار رشتہ دار جو موت اور زندگی کی کشمکش میں ہوتا ہے ان کے ساتھ بھی سیلفی بنا کر فیس بوک پرuploadکردیں تے ہیں ۔ تصویریں کھینچنے اور سیلفی لینے کا رجحان اس قدر عام ہوچکا ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے زندگی اس کے بغیر ادھوری ہے۔ سیلفیز کا رجحان عام ہونے سے قبل بھی کئی دیوانے ایسے تھے جو خطرناک تصاویر کھینچوانے کے لیے اپنی جان تک گنوا بیٹھتے تھے ۔ آج کل سیاسی ورکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ہر لمحے کو تصویر یا ویڈیوکے زرعیہ سوشل میڈیا پر upload کر کے لوگوں کو یہ باؤر کرانا چاہتے ہے کہ میں اپنی پارٹی یا عوام سے کتنا مخلص ہوں۔ان کو اس بات کا علم بخوبی ہوتا ہے کہ جس طرح ہم اپنے مخالف کی پیچرز پر کمینٹس میں الٹ پولٹ لکھتے ہے یہ بھی لکھ سکتے ہے اور لکھ بھی دیتے ہے ۔جس سے سیوائی فصاد کے اور کچھ نہیں بنتا ہے ۔سوشل میڈیا پر بہت سے جعلی اکاؤنٹس بھی موجوود ہے ، سوشل میڈیا کی ہر بات پر یقین کرنا بھی بے وقوفی ہے ۔موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا استعمال معاشرتی زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے ،تاہم سوشل میڈیا میں جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ مقصدیت اور صداقت کے فقدان کا ہے، سوشل میڈیا پر تو بے تحاشہ اطلاعات ہر آدمی دے رہا ہے، ان میں کتنی حقائق پر مبنی ہیں اور وہ واقعی بامقصد ہیں؟ وہ واقعی صداقت کے اصولوں پر پورا اترتی ہیں اور ان کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ سب باتیں حقیقت کے برعکس ہی ہوتی ہیں اس لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کیساتھ اس کے منفی پہلوؤں کو کسی طور پر بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور احتیاط ہی کو مقدم رکھنے سے بگاڑ اور سنوار دونوں پہلوؤں پر ہی عبور حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اﷲ ہم سب پر رحم کریں(آمین)
Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 94167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.