میلاد مصطفیﷺ کی حقیقت اور چند غلط فہمیوں کا ازالہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
میلادالنبیﷺ کی محافل واجتماعات دعوۃ الی اﷲ کابہت بڑاذریعہ
سنّی دعوت اسلامی کی جانب سے اہلیان شہر کوگلی کوچوں اور چوک چوراہوں کو سجانے کی اپیل |
|
میلاد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم جس کی ہم
دعوت وترغیب دیتے ہیں اس کی حقیقت بہت لوگ نہیں سمجھ پاتے اور اپنے ذہن میں
طرح طرح کے فاسد تصورات قائم کرکے ان کی بنیاد پر طویل مباحث ومسائل کی
عمارت تعمیر کرلیتے ہیں اور اس بے بنیاد بحث میں اپنا اور دوسروں کاوقت
ضائع کرتے ہیں اس لیے سب سے پہلے چند باتوں کی وضاحت کرناانتہائی ضروری ہے۔
(۱) اہل اسلام کے نزدیک محفل میلاد یا جشن میلاد سے مراد فقط حضور رحمت
عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکر پاک کے لیے اجتماع کرنا ،جس میں آپ کی حیات
طیبہ ،کمالات و درجات کا بیان ،آپ کی صورت میں اﷲ رب العزت کی عظیم نعمت کا
ذکر کرنا،ولادت کے موضوع پر عجائبات کا تذکرہ ،خوشی میں جلوس نکالنا،
مسلمانوں کو دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنا اور نعت خوانی و صدقہ و
خیرات کرنا وغیرہ ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ میلاد رسول صلی
اﷲ علیہ وسلم کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: محفل میلاد کی اصل یہ ہے
کہ لوگ اکٹھے ہو کر تلاوت قرآن کریں اور ان احادیث کو بیان کریں اور سنیں
جن میں آپ کی ولادت مبارکہ کا تذکرہ ہے اور پھر شیرینی تقسیم کی جائے۔ یہ
اچھے اعمال ہیں، ان پر اجر ہے کیوں کہ اس میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم
کی قدر و منزلت اور آپ کی آمد پر اظہارِ خوشی ہے۔ (حسن المقصد فی عمل
المولد للفتاویٰ، ۲؍۱۸۹)
(۲)کسی ایک ہی مخصوص رات میں جلسۂ میلادالنبیصلی اﷲ علیہ وسلم کوہم سنّت
نہیں کہتے ہیں بلکہ جواس کااعتقاد رکھے اس نے دین میں ایک نئی بات پیداکی
کیوں کہ مصطفی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکروفکر اور آپ کی محبت والفت سے
دلوں کاہمہ وقت اور ہرلمحہ لبریز رہناضروری ہے۔ہاں!آپ کی ولادت کے مہینے
میں لوگوں کی توجہ اور چھلکتے ہوئے جذبات واحساسات کے اسباب ودواعی زیادہ
مضبوط اورقوی ہوجاتے ہیں۔
(۳)میلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی محافل واجتماعات دعوۃ الی اﷲ کابہت
بڑاذریعہ ہیں اور یہ ایک سنہری موقع ہے جس کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا
چاہئے بلکہ علماومبلغین کافرض ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق
وآداب،احوال وکرداراور عبادات ومعاملات کے ذکروبیان کے ذریعہ امت مسلمہ
کوآپ کی یاد دلاتے رہیں،نصیحت کرتے رہیں،اسے خیروفلاح کی دعوت دیتے رہیں
اور بلا و آزمائش ، منکر و بدعت اور شرروفتن سے امت مسلمہ کومتنبہ کرتے
اورڈراتے رہیں۔اﷲ تبارک وتعالیٰ کافضل وکرم ہے کہ ہم مسلمانوں کواس کی دعوت
دیتے ہیں اس میں حصہ لیتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اے لوگو!ان
اجتماعات سے محض اجتماعات ومظاہر مقصود نہیں بلکہ یہ ایک نہایت اچھے مقصود
کے لیے ایک بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور وہ مقاصد فلاں اور فلاں ہیں اور
جو اس سے اپنے دین کے لیے کچھ نہ حاصل کرے وہ میلاد مبارک کی برکتوں سے
محروم ہے۔
اسی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے والد
گرامی مولانا نقی علی خان بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں: محفلِ
میلاد کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص یا چند آدمی شریک ہو کر خلوصِ عقیدت و
محبت حضرت رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ و التحیۃ کی ولادتِ اقدس کی خوشی اور اس
نعمت عظمی اعظم نعم الٰہیہ کے شکر میں ذکر شریف کے لئے مجلس منعقد کریں اور
حالاتِ ولادتِ با سعادت و رضاعت و کیفیت نزول وحی و حصولِ مرتبۂ رسالت و
احوالِ معراج و ہجرت و ارہاصات و معجزات و اخلاق و عادات آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم اور اور حضور کی بڑائی اور عظمت جو خدا تعالیٰ نے عنایت فرمائی
اور حضور کی تعظیم و توقیر کی تاکید اور وہ خاص معاملات و فضائل و کمالات
جن سے حضرت احدیت جل جلالہ نے اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخصوص اور
تمام مخلوق سے ممتاز فرمایا اور اسی قسم کے حالات و واقعات احادیث و آثار
صحابہ و کتب معتبرہ سے مجمع میں بیان کئے جائیں اور اثنائے بیان میں کتاب
خوان و واعظ درود پڑھتا جائے اور سامعین و حاضرین بھی درود پڑھیں۔ بعد ازاں
ماحضر (شیرینی و غیرہ) تقسیم کریں۔ یہ سب امور مستحسن و مہذب ہیں اور ان کی
خوبی دلائل قاطعہ و براہین ساطعہ سے ثابت۔ (اذاقۃ الاثام لمانعی عمل المولد
و القیام:۳۹)
سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ہمیں اپنے گھروں میں
چراغاں کرنا،اگر اﷲ عزوجل نے صاحب حیثیت بنایا ہے تو اپنے اور اپنے اہل و
عیال کے لیے نئے کپڑے سلانا ، ولادت کی رات شب بیداری اور نوافل و ذکر میں
گزارنا،ذکر و درود کی محفلیں منعقد کرنا،لوگوں کو جمع کر کے سرکارِ دوعالم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات اور وقت ولادت ظہور پذیر ہونے والے
عجائبات کا ذکر کرنا،صبح صادق کے وقت کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پڑھنا،ولادت
کے دن روزہ رکھنا،صبح کو غسل کرنا،سرمہ لگانا،عطر
لگانا،غریبوں،یتیموں،مسکینوں پرفراخ دلی سے خرچ کرنا،آپس میں ایک دوسرے کو
مبارکباد پیش کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سارے اعمال مستحب اور مستحسن ہیں کہ ان
کے کرنے میں ثواب ہی ثواب ہے۔(ماخوذ:گلدستۂ سیرت النبیﷺ،از:حضرت علامہ
شاکرعلی نوری صاحب،امیرسنّی دعوت اسلامی،جشن میلادالنبیﷺ،از:علامہ یاسین
اختر مصباحی صاحب) |
|