ایام بیض کی فضیلت

1: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّی أَمُوتَ صَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَصَلَاةِ الضُّحَی وَنَوْمٍ عَلَی وِتْریٍ
مسلم بن ابراہیم، شعبہ، عباس، جریری ابن فروخ، ابوعثمان، نہدی، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے میرے خلیل دوست نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، میں انہیں مرتے دم تک نہ چھوڑوں گا، ہر مہینہ میں تین روزے رکھنا، چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔(بخاری شریف )

2: أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ صِيَامُ الدَّهْرِ وَأَيَّامُ الْبِيضِ صَبِيحَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ
جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر ماہ میں تین روز روزے رکھ لینا ہمیشہ روزہ کے رکھنے کے برابر ہے اور ایام بیض یعنی 13ویں رات کی فجر سے 14ویں 15 ویں تک ہیں (سنن نسائی: جلد دوم)

۳۔حضرت قتادہ بن ملحان قیسی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو ایام بیض یعنی تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے تھے کہ ان کا ثواب اتنا ہی ہے جتنا ہمیشہ روزہ رکھنے کا ۔(سنن ابوداؤد:جلد دوم)

4: ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم لوگوں کو مہینہ میں تین روزے رکھنے کا حکم فرمایا یعنی ایام بیض کے روزوں کا حکم فرمایا (سنن نسائی: جلد دوم: حدیث نمبر 333 )

5: عبدالملک بن منہال رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان ہی ایام بیض کے تین روزے رکھنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ پورے ماہ کے روزے ہیں۔(نسائٰی شریف )

روزہ کب فرض ہوا ؟
ماہ رمضان کے روزے ہجرت کے اٹھارہ ماہ بعد شعبان کے مہینے میں تحویل قبلہ کے دس روز بعد فرض کیے گئے بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس سے قبل کوئی روزہ فرض نہیں تھا جب کہ بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے قبل بھی کچھ ایام کے روزے فرض تھے جو اس ماہ رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد منسوخ ہو گئے۔ چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک تو عاشورا محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ فرض تھا اور بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ ایام بیض قمری مہینے کی تیرہویں، چودھویں اور پندرہویں راتوں کے دن کے روزے فرض تھے۔ رمضان کے روزے کی فرضیت کے ابتدائی دنوں میں بعض احکام بہت سخت تھے مثلاً غروب آفتاب کے بعد سونے سے پہلے کھانے پینے کی اجازت تھی مگر سونے کے بعد کچھ بھی کھانے پینے کی اجازت نہیں تھی۔ چاہے کوئی شخص بغیر کھائے پئے ہی کیوں نہ سو گیا ہو، اسی طرح جماع کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت میں جائز نہ تھا۔ مگر جب یہ احکام مسلمانوں پر بہت شاق گزرے اور ان احکام کی وجہ سے کئی واقعات بھی پیش آئے تو یہ احکام منسوخ کر دئیے گئے اور کوئی سختی باقی نہ رہی۔

ایام بیض کو ایام بیض کہنے کی وجہ
ایام بیض سے مراد چاندنی راتوں کے دن ہیں یعنی قمری مہینوں کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ لہٰذا ایام بیض میں بیض سفید روشن، لیالی یعنی ان راتوں کی صفت ہے جن کے دنوں کو ایام بیض کہا جاتا ہے ان راتوں کو بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان راتوں میں چاندی اول سے آخر تک رہتی ہے گویا پوری رات روشن و چمکدار رہتی ہے یا پھر کہا جائے گا کہ بیض ایام ہی یعنی دنوں کی صفت ہے اور ان دنوں کو بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان ایام کے روزے گناہوں کی تاریکی کو دور کرتے ہیں اور قلوب کو روشن و مجلیٰ کرتے ہیں یا یہ دن ایام بیض اس لیے کہلاتے ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو ان کا تمام بدن سیاہ ہو گیا تھا جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو انہیں حکم دیا گیا کہ ان دنوں میں تین روزے رکھو چنانچہ انہوں نے تیرہویں کو روزہ رکھا تو ان کا تہائی بدن سفید اور روشن ہو گیا، چودہویں کو روزہ رکھا تو دو تہائی بدن سفید و روشن ہو گیا اور جب پندرہویں کو روزہ رکھا تو تمام بدن سفید روشن ہو گیا۔
ghazi abdul rehman qasmi
About the Author: ghazi abdul rehman qasmi Read More Articles by ghazi abdul rehman qasmi: 31 Articles with 284499 views نام:غازی عبدالرحمن قاسمی
تعلیمی قابلیت:فاضل درس نظامی ،الشہادۃ العالمیہ،ایم اے اسلامیات گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان،
ایم فل اسلامیات بہاء الدی
.. View More