پَلس مائنس(حصہ اول)۔

کہتے ہیں جلد بازی کا کام اور انجام اچھا نہیں ہوتا کالم چونکہ طویل ہے اس لئے عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا تاکہ اگر ایک طرف مطالعہ کرتے ہوئے تمام باتوں کو گہرائی سے سمجھا جائے تو دوسری طرف ان تمام پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی بھی ڈالی جائے جس سے ہر خاص و عام کو سمجھنے میں دقت نہ پیش آئے۔میرے ذہن میں کالم کیلئے بہت سے ٹائٹل تھے لیکن عام سے محسوس ہوئے تو سوچا کہ کالم کی جڑ یعنی بنیاد ہی انسان کے اندر گردش کررہی ہے جسے منفی اور مثبت جیسے الفاظ کا سہارا دیا گیا ہے تو اسی مناسبت سے ٹائٹل بھی ہونا بہت اہم ہے ، اتنا ضرور کہوں گا کہ جو کچھ تحریر کرونگا اسکا حوالہ دینے کی کوشش بھی کرونگا کہ سفر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور اسکا انجام کیسا ہوتا ہے۔ دراصل انسان کا سفر اسی لمحے شروع ہوجاتا ہے جب وہ دنیا میں آنے کے بعد پہلی بار اپنی آنکھیں کھولتا ہے انحصار اس بات پر بھی کرتا ہے کہ انسان کہاں ،کس خطے، ماحول اور گھر میں پیدا ہوا ہے اگر کسی امیر ، رئیس،نواب یا ملٹی میلینر کے گھر پیدا ہوا تو اسکی زندگی کا سفر سفر نہیں کہلائے گا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے تاحیات سرفنگ کرے گا جبکہ کسی غریب کے گھر پیدا ہونے والا رفتہ رفتہ اپنی سوچ اور ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے سفر کا آغاز کرتا ہے ،اس مختصر بات کو تفصیل سے بیان کیا تو کالم تین حصوں میں بٹ جائے گا ۔دنیا بھر میں ایک سیکنڈ کے اندر ہزاروں لاکھوں واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی کوریج میڈیا کرتا رہتا ہے لیکن کئی واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو میڈیا کیلئے غیر دلچسپ محض اس لئے ہوتے ہیں کہ مال پانی کی گنجائش نہیں ہوتی تو کوئی اسے نہ پبلش کرتا ہے اور نہ ہی ٹی وی یا انٹرنیٹ میں تھوڑی سی جگہ دیتا ہے، بات سوچ کی ہے کہ کیسے شارٹ کٹ میں امیر کبیر بنا جائے،دنیا میں کئی لوگوں کو کئی بار زندگی مواقع فراہم کرتی ہے کہ موقع ہے فائدہ اٹھاؤ اور ایسے مواقع بار بار نہیں آئیں گے اب منحصر انسان پر ہی ہوتا ہے کہ کیسے مستفید ہوتا ہے یا کیسے قسمت کا رونا روتا ہوا گھر آئی لکشمی کو ٹھکراتا ہے سوچ کی بات ہے،اگر سوچ کی بات کی جائے تو پاکستان کے معروف آرٹسٹ عمر شریف صاحب نے ایک سٹیج ڈرامے میں ڈائیلاگ بولا تھا میں نے سوچا ہے کہ ریکھا میری بیوی ہے جاؤ امیتابھ بچن کو بولو مجھ سے پنگا لے، سوچا ہے بھئی سوچا ہے ۔کیونکہ سوچ پر کوئی پابندی نہیں اسلئے دنیا کا کوئی قانون نہیں کہ سوچنے پر سزا دے لیکن اگر سوچ مائنس اور انسانوں کیلئے خطرہ ہے تو قانون بھی ہے اور سزا بھی ۔دنیا کسی زمانے میں امن کا گہوارہ تھی اب نہیں ہے جس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ کسی سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے ،جہاں اگر فاسٹ میڈیا ،کیپیٹالزم نے دنیا کی اصل صورت بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف ایک عام انسان نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی ،کیپیٹالسٹ نے تو اپنی مال ودولت کو بروئے کار لا کر اپنی تجوریوں کے وزن میں اضافہ کیا ہے تو ایک عام انسان نے بھی اپنی منفی سوچ سے اپنے ہی گھر کو تباہ وبرباد کیا ہے ،کیوں اور کیسے؟۔ انسان کی اندرونی بدامنی یعنی منفی خیالات ،نیگیٹو سوچ نے نہ صرف انسان کو بلکہ اپنے گھر ،اپنے ملک اور حتیٰ کے دنیا کو تہس نہس کرنے کی کوئی کثر نہیں چھوڑی،اپنی منفی سوچ اور خیالات کے سبب آج تقریباً دنیا کا ہر انسان نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو چکا ہے،کئی مطالعوں کے بعد نتائج سامنے آئے ہیں کہ ذہنی پریشانی،دباؤ،خوف اور صرف منفی سوچ سے انسانوں کو ایک بیماری نے جکڑ لیا ہے جس کا علاج تقریباً ناممکن ہے کیونکہ منفی سوچ ہمیشہ انسان کی نفسیات کو شدید متاثر کرتی ہے اور مثبت سوچ کی راہ میں روکاوٹ بنتی ہے ۔دنیا بھر میں کئی انسان اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے مفاد کی خاطر کئی بار اپنے ذہن کی بات پر یقین کرتے ہیں اور ضمیر کو کسی زمرے میں نہیں لاتے حالانکہ انسان کا ضمیر ہی انسان کو زندہ رکھتا ہے اور ضمیر کا دارومدار اسکی سوچ کا مرہون منت ہوتا ہے ،زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ منفی سوچ انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیتی ہے کیونکہ انسان کی زندگی صرف اسکے گھر، سکول کالج،دوست ،عزیز اقارب، کاروبار،انٹرٹینمنٹ اور دیگر مراحل کا حصہ نہیں اور نہ محدود ہے بلکہ سچائی اور جھوٹ کی ایک ایسی جنگ ہے جہاں عام طور پر انسان بظاہر جیت جاتا ہے لیکن وہ جیت کبھی نہ کبھی ہار بن جاتی ہے ۔گھریلو زندگی ہو یا روزگار،زندگی کے کسی بھی شعبے سے انسان تعلق رکھتا ہو کبھی نہ کبھی اپنی منفی سوچ کے نتیجے میں مشکلات کا شکار ہو کر ہار جاتا ہے اور کشیدگی کا شکار ہونے کے بعد نفسیاتی مریض بن جاتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس بیماری کی جڑ ،بنیاد یا وجوہات کیا ہیں لیکن مانتا نہیں کیونکہ اسکے اندر بدستور منفی سوچ اسے ورغلاتی ہے ہمت مت ہار دنیا جھوٹ بولتی ہے اور تو سچا ہے لیکن دوسری طرف اسکا ضمیر اسے شدید ملامت بھی کرتا ہے کہ اپنی غلطی مان جا اور اس جھنجھٹ سے جان چھڑا لیکن ایسا ہوتا نہیں،روزمرہ زندگی میں زندگی کی رفتار کو پہے لگ چکے ہیں ،کام کی زیادتی،بچوں کی تربیت و دیکھ بھال ،مالی مشکلات اور دیگر کئی مسائل میں گھر کر انسان آٹو میٹک منفی سوچ کی جانب راغب ہوتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں سب سے پہلے ایک پرسکون نیند سے محروم ہوتا ہے اور یکے بعد دیگر مزید کئی انجانی مشکلات کا شکار ہونے سے اپنا ذہنی توازن برقرار نہیں رکھ پا رہا کیونکہ منفی سوچ صرف انسانی ذہن ہی نہیں بلکہ پورے جسمانی نظام کو توڑ پھوڑ اور جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے ۔کئی مطالعوں میں بتایا گیا ہے کہ دو تہائی بیماریاں نفسیاتی مسائل کے سبب جنم لیتی ہیں اور انسان کی زندگی میں ہلچل بپا کرنے کے بعد آدھی زندگی قبل از وقت ہی اختتام کو پہنچ جاتی ہے ممکنہ علامات بے خوابی، غنودگی، وزن کی کمی شمار کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں انسان دماغی طور پر شدید متاثر ہوتا ہے لیکن سر ، پیٹ ، پیٹھ کی تکلیف کے علاوہ ہارٹ اٹیک جیسی مہلک بیماری کا بھی شکار ہوجاتا ہے زیابیطس اور کینسر بھی اس بیماری کا خاص حصہ بتائے گئے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیوں انسان کے اندر منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں اور کیوں منفی خیالات ہی انسان کی جان لیتے ہیں؟ماہرین کا کہنا ہے انسانی جسم اور دماغ ایک دوسرے سے وابستہ ہونے کے سبب ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں ،انسانی موڈ جسم کے اندرونی سگنل کو تبدیل کرتا رہتا ہے اور خاص طور پر جذباتی کشیدگی والے ہارمون میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں کئی جسمانی اعضاء کا مدافعتی نظام کمزور پڑجاتا ہے اور یہ سب ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں دل کچھ کہتا ہے دماغ اپنا راگ الاپتا ہے ضمیر اپنی بولی بولتا ہے ہاتھ پاؤں کچھ حرکات کرتے ہیں آنکھیں کچھ دیکھتی ہیں زبان کچھ بولتی ہے اور ایسی صورت حال ایک طاقتور انسان کو بھی چوہا بنا دیتی ہے انسان کوشش کرتا ہے کہ جوشیلا بنے ہمت نہ ہارے لیکن اسی دوران دیگر اعضاء میں مزید جنگ شروع ہو جاتی ہے ،ہاں نہیں ،سچ جھوٹ، سیاہ سفید، پلس ،مائینس وغیرہ اور انسان بیمار پڑ جاتا ہے،لیکن اگر انسان چاہے تو اس عفریت سے جان چھڑا سکتا ہے یعنی مائنس فارمولا کو پلس میں ڈھال سکتا ہے کیسے؟۔
جاری ہے
 
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 245964 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.