مشرف کے سہولت کار
(Imran Ahmed Rajput, Hyderabad)
گذشتہ دنوں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے
ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے خلاف چلنے والے مقدمات کے
حوالے سے چونکادینے والے انکشافات کیے جن میں بیرونِ ملک روانگی سے متعلق
ایک سوال کے جواب میں مشرف صاحب نے بتایاکہ انھیں ملک سے باہر بھیجنے میں
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا اہم کردار رہا ہے اِس حوالے سے جنرل
راحیل نے مشرف کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے وفاقی حکومت پر زور
دیا کہ وہ مشرف کے حوالے سے اپنی پالیسی کو تبدیل کریں جس کے بعد وفاقی
حکومت اور اعلی عدلیہ کے درمیان ایک خاموش مفاہت کے ذریعے جنرل راحیل نے
مشرف کو ملک سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کی. جنرل مشرف کی جانب سے کہی گئی
یہ بات نہ صرف وفاقی حکومت کےلیے شرمندگی کا باعث ہےبلکہ ریاستی اداروں پر
بھی سوالیہ نشان ہے. حکومت کی جانب سے اِس بات کی تردید تو کی جاچکی ہے
لیکن ریاست کے دیگر اداروں کی جانب سے خاموش پالیسی اختیار کیے رکھنا شک و
شبہات کو جنم دیتا ہے جبکہ جنرل مشرف کے بیان کی تصدیق ایک نجی ٹی وی چینل
کے معروف تجزیہ کار نے اپنے پروگرام میں بھی کی ہے. اس حوالے سے تجزیہ کار
کا مزید کہنا تھا کہ انکے سورسز نے کنفرم رپورٹ دی ہے کہ جنرل راحیل نے
بحثیت آرمی چیف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے مشرف کو
بیرون ملک بھیجنے کے حوالے سے زور دیا جس کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے مشرف
کے حوالے سے اختیار کی گئی سخت پالیسی پر نظرثانی کی. جس کے بعد اعلی عدلیہ
نے بھی اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر مشرف کو باہر بھیجنے کا معاملہ حکومتی
کھاتے میں ڈال دیا تاکہ اس حوالے سے اعلی عدلیہ غیر جانبدار نظر آئے.
ان تمام معاملات کو دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ریاست قانون شکنی
کی مرتکب ٹھہری ہے جس میں ریاستی ادارے بھی ملوث ہیں یا وہ شخصیات جو ان
اداروں سے جڑے ہیں اعلی عدلیہ پر اعتماد اور اسکی کارکردگی پر بات کی جائے
تو ملک کے عوام سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور سے عدلیہ کو نہ صرف
مکمل آزاد اور بااختیار سمجھتے ہیں بلکہ اب تک کئیے جانے والے اعلی عدلیہ
کے فیصلوں پر مکمل اعتماد اور یقین بھی رکھتے ہیں اسی طرح پاکستان کے عوام
آنکھیں بند کرکے کسی ادارے پر اپنا بھرپور اعتماد رکھتے ہیں تو وہ پاک فوج
سمیت قومی سلامتی کے ادارے ہیں جنھیں ہر دور میں عوام کی نہ صرف حمایت حاصل
رہی ہے بلکہ ہر مشکل وقت میں ملک کے غیور عوام کاندھے سے کاندھا ملا کر وطن
کے رکھوالوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور جس طرح عوام سمجھتے ہیں کہ بحیثیت
آرمی چیف جنرل راحیل نے اپنے منصب سے انصاف کیا ایسے میں جنرل مشرف کی جانب
سے یہ کہنا کہ وہ قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک سے نہیں گئے بلکہ
انھیں کسی نہ کسی صورت میں حکومت سمیت ریاستی اداروں کی جانب سے سہولت
فراہم کی گئی ہے اور اس میں جنرل راحیل کا اہم کردار ہے جسکی تصدیق نجی ٹی
وی کے ایک تجزیہ کار بھی اپنے پروگرام میں کرتے ہوئے بتائےگئے ہیں تو
بتائیے پھر عوام حکومت سمیت ریاستی اداروں یا اُن سے جڑی شخصیات پر کس طرح
اپنا اعتماد بحال رکھ سکتے ہیں. اگر واقعی مشرف کی باتوں میں صداقت ہے اور
ریاستی ادارے چاہتے ہیں کہ عوام کا اعتماد ان پر مکمل طور پر بحال رہے تو
ضروری ہے کہ اِس حوالے سے موثر اقدامات اٹھاتے ہوئے مشرف کو انٹر پول کے
زریعے واپس لایا جائے اور جن جن لوگوں نے انھیں سہولت فراہم کی ہیں انھیں
کٹھہرے میں لاکر پوچھا جائے. اس حوالے سے اعلی عدلیہ کو پھر پور کردار ادا
کرنے کی ضرورت ہے یاد رکھیں عوام میں اپنا بھرپور اعتماد بحال رکھنے کےلیے
ملک سے بےچینی بدامنی انتشار جیسی صورتحال پر قابو پانے کےلیے ضروری ہے کہ
ملک سے دوہرے معیار کا خاتمہ کیا جائے قانون کی بالادستی کو قائم کرتے ہوئے
قانونی تقاضوں کو سب کےلیے یکساں رکھا جائے یہ اصول کسی طور ملکی سلامتی کے
لیے کارگر نہیں کہ مشرف پر غداری کا مقدمہ قائم ہو عدالت میں کیس زیرسماعت
ہو لیکن پھر بھی اسےملک سے فرار کرادیا جائے جب کہ اس کے برعکس ملک کے غریب
و مظلوم عوام اور ان کے لیڈران کو بِنا کسی مقدمہ قائم کئے پابندسلاسل کیا
جاتا رہے ریاست کی یہ روش کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں حکومت سمیت ریاست
کے تمام اداروں کو اس جانب سوچنے کی ضرورت ہے. |
|