ابھی 2016کا سال تکمیل کو پہنچے پورا دن
بھی نہیں گزرا تھاکہ خطے کے امن کا دشمن بھارت لائن آف کنٹرول پر پھر سے
آپے سے باہر ہوگیا، بزدل بھارتی فورسز نے لائن آف کنٹرول کے چڑی کوچ سینٹر
پر بلا اشتعال شیلنگ کی جسکا پاک فوج کی جانب سے بھر پور جواب دیا گیا،اور
ایک بار پھر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی ،ویسے اگر اس معاملے میں دنیا
کے تمام ممالک کا موازنہ کیا جائے تو بھارت کا شمار طے شدہ معاہدا ت کو
توڑنے والے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پرآئے گا،بھارتی فورسز کی شیلنگ
شام 4:40-5:50منٹ تک جاری رہی پاک فوج کی جوابی کاروائی کے بعد دشمن کو
سانپ سونگ گیا اور بھارتی چھاوئنیوں میں سناٹا چھا گیا گزشتہ روز کا یہ
واقعہ پاکستان کی فورسز کیلئے کوئی نئی بات نہیں یہ تو اُنکا ہمیشہ کا کام
ہیمگر افسوس اسبات کا ہے کہ سال کی شروعات میں ہی اُن کے اس عمل نے پاکستان
پر یہ بات بالکل واضح کر دی کہ وہ کسی بھی معاملے میں پاکستان سے مفاہمت
نہیں بلکہ جنگ چاہتے ہیں ،مگر بُزدل بھارت اسبات کو بھی بخوبی جانتا ہے کہ
اسمیں ابھی فلحال اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ پاکستان سے اس حوالے سے ٹکر لے بس
وہ پاکستان کو دبانے کیلئے اپنی بھونڈی سی کوششیں کر رہا ہے۔
ویسے بھارت کی آئے دن اسطرح کی بُزدلانہ حرکتیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ
وہ ابھی بوکھلائی ہوئی حالت میں ہے کیونکہ اس نے اب تک جو جو بھی پاکستان
کے خلاف کارڈز استعمال کئے ہیں وہ سب اُسکے کوٹ میں وآپس اُسی کے پاس آگئے
ہیں نا صرف یہ کہ اُسکی ساری چالیں اُسی پر پلٹ گئی ہیں بلکہ بین الاقوامی
فورمز پر بھی وہ اپنی ان ہی حرکتوں سے خود ہی ذلیل ہوتا جا رہا ہے،جیسے اگر
ہم گزشتہ سال کے ایسے بہت سے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا
ہے کہ بین الاقوامی طور پر بھی پوری دنیا میں بھارتی جارحیت اور ہڈدھرمی کی
وجہ سے بھارت کی پوزیشن مشکوک نظر آتی ہے ۔
یکم ستمبر 2016کے روز بھارت کو اس وقت شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب
امریکہ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ آزاد کشمیرکو پاکستان کا زیرِ حکمرانی
حصہ سمجھتا ہے اور جموں کشمیر میں جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کا حامی
ہے،امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ وہ آزاد جموں
وکشمیراور ساتھ ہی ساتھ گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیرِانتظام علاقے تسلیم
کرتے ہیں ۔1972 کی لائن آف کنٹرول کو جموں کشمیر کے نظم و نسق کو علیحدہ
کرنے کی حیثیت سے مانتے ہیں ،واضح رہے کہ امریکہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت
میں جاری کیا تھا جب بھارتی وزیرِاعظم نے آزاد کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار
دیتے ہوئے پاکستان سے یہ علاقہ خالی کرنے کو کہا تھا ،امریکی ترجمان نے زور
دے کر کہا کہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی صرف
اتنا ہی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے رکن اور عوامی اتحاد
پارٹی کے سربراہ انجینئر شیخ عبد الرشید نے بھی بھارت کے اس دعویٰ کو مسترد
کر دیا کہ جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ تھا اور رہے گا ،۵ ستمبر کو انہوں نے
کہا کہ جموں و کشمیر کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا ،اگر بھارتی وزیر داخلہ
راج ناتھ سنگ یا کوئی اور جاگیر داروں کی طرح1947
سے یہاں قبضہ جمائے ہوئے ہیں تو اسکی واحد وجہ فوجی طاقت کی بل پر کشمیریوں
کو دبانا ہے ۔
انجینئر رشید نے کہا کہ تاریخ کی کتابیں کھولے بغیر کوئی بھی یہ سمجھ سکتا
ہے کہ جب ہندوستان انگریزوں کی غلامی میں تھا جموں و کشمیر تب بھی دنیا کے
نقشے میں خود مختار ملک کی حیثیت سے قائم تھا لیکن ہندوستان کو آزادی کیا
ملی کہ اس نے مکاری اور غیر اخلاقی حربوں سے جموں و کشمیر پر قبضہ جمایا
اور تب سے آج تک کسی نہ کسی طریقے سے کشمیریوں کی ہندوستان کے قبضے کے خلاف
جدوجہد جاری ہے۔
بالکل اسی طرح آگے بڑ
ھتے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ دنوں چین میں بھارت کی اقوامِ متحدہ
میں مسعود اظہر پر پابندی کی درخواست ایک بار پھر مسترد کر دی چین کے اس
اقدام پر بھارت کو آگ لگ گئی بھارتی میڈیا چین کے خلاف بھی زہر اُگلنے
لگا،اسکی وجہ یہ تھی کہ چین نے اقوامِ عالم پاکستان کے خلاف بھارت کی ایک
اور کوشش ناکام بنا دی چین نے تیسری بار بھارت کی جانب سے دی گئی درخواست
کو ویٹو کیا بھارت ایک عرصے سے مولانا مسعود اظہر پر پابندیوں کے لئے سر
توڑ کوششوں میں مسروف تھا سکا مقصد یہ تھا کہ مولانا مسعود اظہر کے نام کو
پابندیوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کی کمیٹی میں شامل کرا کر پاکستان کی راہیں
روکی جائیں ، متعلقہ کمیٹی میں چین نے بھارت کی اس درخواست کو ابتدا میں
تکنیکی بنیادوں پر بلاک کر دیا تھا ، چین کی طرف سے بھارتی درخواست میں
رکاوٹ بننے پر بھارت سیخ پا ہو کر بھارتی میڈیا میں چین کے خلاف ذہر اُگلنے
لگا ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چین نے حالیہ پاکستان کے ساتھ ٹرانسمیشن لائن کا
معاہدہ بھی کیا ہے اس منصوبے پر ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت آئیگی ۔پاک چین کے
مابین لاہور سے مٹیاری کے درمیان پہلی ہائی کپیسٹی لائن کا معاہدہ چین کے
دارالحکومت بیجنگ میں ہوا منصوبے کے تحت 40ہزار میگا واٹ بجلی کی فراہمی
ممکن ہوگی جبکہ ٹرانسمیشن لائن سے جنوبی اور شمالی قومی گرڈ کو بھی منسلک
کیا جائے گا ۔
بھارت کے متواترپاکستان کے خلاف ان اقدامات نے بین الاقوامی طور پہ بھارت
پرایک سوالیہ نشان سبط کر دیا ہے جسکی بنا پر بھارت بوکھلاہٹ کا شکار نظر آ
رہا ہے نتیجے میں وہ پاکستان کے خلاف جارحیت پر مسلسل کمر بستہ ہے حالیہ
ایک رپورٹ میں بھارت کی اقوامِ متحدہ میں پابندیوں سے متعلق قرار داد مسترد
کر دی گئی ہے،دفترِ خارجہ نے یہ کہا ہے کہ بھارت نے یہ پابندی کمیٹی میں
قرار دادجمع کرائی تھی جسمیں بھارت نے پاکستان پر داعش اور القاعدہ کی مدد
کا الزام لگایا تھااور ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اس بھارتی
قرارداد کا مسترد ہونا بھارت کی جانب سے ایک اہم فورم کو سیاسی استعمال کے
ایجنڈے کا بھی مسترد ہونا ہے ،بھارت ناصرف دہشت گردی کرنے بلکہ اسکی معاونت
اور اسکے وسائل استعمال کرنے میں بھی ملوث ہے انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ
کلو بھوشن یادو کی گرفتاری اور اعترافی بیان اسبات کا واضح ثبوت ہیں انسداد
دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کا کردار مشکوک ہے آنے والے دنوں میں اقوام
متحدہ میں پاکستان میں جو بھارتی مداخلت ہے اسکے حوالے سے مزید ثبوت پیش
کرنے کا اعادہ بھی کیا ہے ،اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان پر
دہشت گردی کا الزام لگا کر پاکستان میں جو دہشت گردی کرا رہا ہے اس پر پردہ
ڈالنے کی کوشش ہے پاکستان نے تو دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دیں
ہیں۔
بھارت کی جانب سے ہمیشہ پاکستان کو تنہا کرنے کی اس قسم کی بھونڈی کوششیں
ہمیشہ کی طرح ناکام ہوئی ہیں جس بنا پر وہ پاکستان کے خلاف بہت بپھرا ہوا
ہے ۔اب حالیہ سندھ طاس معاہدے ہی کو لے کر ایک خامخواہ کا issueبنا یا ہوا
ہے یہ بھی اسکی زہریلی سازش کا بد ترین ثبوت ہے کہ جب اُسکا کہیں بس نہیں
چلا تو پاکستان کو زچ کرنے کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اُتر
آیا ہے اسی طرح اس نے سی پیک پلان پر بھی پاکستان کے خلاف اپنی سازشی نظریں
گاڑ راکھی ہیں وہ بس کسی بھی طرح پاکستان میں استحکام نہیں برداشت کر سکتا
،یکم جنوری پر لائن آف کنٹرول پر اسکا یہ اشتعالی عمل بھی اُسکی بزدلانہ
فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔
ابھی ہم اگر سندھ طاس معاہدے کو دیکھتے ہیں world bank جسکا ضامن ہے گزشتہ
دنوں بھارت نے اس معاہدے کو ختم کرنے کیلئے اعلان کیا جس پر وہ ابھی تک مسر
ہے بلکہ پاکستان کا پانی روکنے اور اس پر ڈیم بنانے کا عمل بھی ڈھٹائی سے
جاری رکھا ہوا ہے -
اس ضمن میں دونوں ممالک کی درخواستیں بھی world bank میں جمع کی گئیں جسپر
انہوں نے ایک ثالثی ایلچی مقرر کیا مگر اب جیسا کہ سب جانتے ہیں میڈیا کی
حالیہ رپورٹ کے مطابق world bank اپنے اُس موقف سے پیچھا ہٹتا دکھائی دے
رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جنوری کے آخر تک دونوں ممالک مذاکرات کی میز پراس
مسئلے کو خود ہی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کریں اسکے بخلاف بھارت
اپنے موقف پر ہڈدرمی سے ڈٹا ہوا ہے وہ مفاہمت تو دور کی بات وہ کسی بھی
معاملے میں مزکرات کیلئے ہر گز تیار نہیں جس سے ذی شعور طبقے کے لئے یہ
اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس معاملے میںworld bank بھی بھارت سے ملا ہوا
نظر آرہا ہے ۔پاکستان کے حکمرانوں کو چاہئے کہ اب وقت اس بات کا آگیا ہے کہ
یہ معاملہ خالی بیٹھنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ ہمیں بین الاقوامی طور پر اس
معاملے کو حل کرنے کے لئے اقوامِ متحدہ میں آواز اُٹھانی پڑیگی نا صرف یہ
کہ آواز اُٹھایں بلکہ ہتمی طور پر فوری اس پر ہنگامی بنیادوں پر عمل کریں ۔
ان سب باتوں کا اب بھی ہماری حکومت سنجیدگی سے کوئی نوٹس لیتی نظر نہیں
آرہی بس ذبانی کلامی بات کرتی دکھائی دیتی ہے حکومت کی غیر سنجیدگی نا صرف
اس معاملے میں ہے بلکہ اور بھی بہت سے اہم امور سے حکومت آنکھیں بند کی
ہوئی ہے، اگر دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت مکمل طور سے اندرونی اور بیرونی
سازشوں کے جال میں پھنستا چلا جا رہا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ سب سے
پہلے پاکستان اپنے تمام مسلم پڑوسی ممالک سے تعلقات کسی حد تک بہتر بنائے
نا کہ اسبات کو نظرانداز کرے کیونکہ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کا
دشمن ہندوستان ابھی ان تمام ممالک سے بہت تیزی کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط
کرنے میں مصروف ہے جن سے پاکستانی حکومت صرف نظر کی ہوئی ہے۔
ہندوستان اور امریکہ کو اس بات کا ہمیشہ سے خطرہ رہتا ہے کہ کہیں پاکستان
اپنے تعلقات مسلم ممالک سے بہتر کر کے ہمارے خلاف نا استعمال کرے انکا یہ
ڈر نیا نہیں بلکہ تمام لادینی قوتیں ہمیشہ سے ہی مسلم اتحاد سے گھبراتی ہیں
انکو یہ ڈر کبھی چین نہیں لینے دیتا کہ کہیں یہ ایک ہو کر ہم پر حملہ آور
نا ہوجائیں،اگر پاکستان اپنے مگرمغرب میں بسے ممالک افغانستان اور ایران سے
تعلقات بہتر نہیں کرتا تو بھارت ہم پر حاوی رہے گا کیونکہ جب تک کہ آپ
پیچھے سے آنے والی دہشت گردی کو نہیں روکینگے اُس وقت تک یہ جنگ کبھی ختم
ہی نہیں ہوگی اور باہر سے آنے والی جنگ آپ اسی صورت میں ختم کر سکتے ہیں کہ
جب آپ ایک aggresive foreign policyبنائیں یہ اندر کی جنگ کو روکنے میں
ضرور مدد کریگی ،وگرنہ یہ جنگ طویل عر صے تک چلنے کا اندیشہ ہے اگر ہم نے
خطے میں strong deplometic relation نہیں بنائے کم از کم چار مسلم ممالک سے
جسمیں سعودیہ ارب ، ایران افغانستان اور ترکی شامل ہیں ،تو خطے کے میں امن
کو خطرات یونہی بقرار رہینگے۔ |