قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکا وژن
(Syed Arif Saeed Bukhari, )
5جنوری کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکے یوم ولادت پر خصوصی تحریر
|
|
5جنوری قائدعوام ذوالفقارعلی بھٹوکا
یوم ولادت ہے،اُن کا شمار پاکستان کے زیرک اور عوام دوست رہنماؤں میں ہوتا
ہے۔پاکستان میں انہیں’’ قائدِعوام ‘‘اور’’ بابائے آئینِ پاکستان‘‘ بھی کہا
جاتا ہے۔وہ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم تھے۔ فیلڈ مارشل محمد
ایوب خان نے اپنے ابتدائی دور حکومت میں انہیں اپنی کابینہ میں شامل کرلیا
تھا،وہ 1958ء تا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت ، 1960ء تا
1962ء وزیر اقلیتی امور ، قومی تعمیر نو اور اطلاعات ، 1962ء تا 1965ء وزیر
صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیراور جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ
رہے۔امریکہ بہادر کی آشیر باد سے وہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے انہیں مسلم لیگ
کا جنرل سیکرٹری نامزد کر دیا گیا ۔پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں ہونے والے’’
اعلان تاشقند‘‘میں موجود بعض شقوں پر اختلافات کی بناء پر وہ حکومت سے الگ
ہوگئے ۔ ’’اعلان تاشقند‘‘کیا تھا اور بھٹوکو اس پر کیا اعتراض تھا یہ بات
تو ابھی تک سربستہ راز بنی ہوئی ہے ،بھٹونے بذات خود بھی ’’اعلان تاشقند‘‘
کی بلی کو اپنی سیاست کو جلا بخشنے کیلئے استعمال کیا اور سولی پر چڑھ جانے
تک یہ ’’بلی‘‘ تھیلے سے باہر نہ آسکی ۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز
پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دسمبر 1971ء میں جنرل
یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت مسٹر بھٹو کو سونپ دی۔وہ اس ملک میں
پہلے سویلین چیف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔
ذوالفقارعلی بھٹونے حکومت سے علیحدگی کے بعددسمبر1967ء میں پاکستان پیپلز
پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اور اسی پلیٹ فارم سے انہوں نے فیلڈ مارشل محمد
ایوب خان کی حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کردیا ۔انہوں نے غریبوں کی
خیر خواہی کا دعویٰ کرتے ہوئے ’’روٹی ،کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگایا۔اس
وقت اس تحریک کا آغاز اس بنیاد کر شروع کیا گیا کہ چینی 2آنے سیرمہنگی ہو
گئی ہے جو غریبوں پر ظلم ہے ۔پاکستان میں واقعی اس وقت غریب عوام کے بنیادی
مسائل روٹی ، کپڑا اور مکان ہی تھا ۔پہلی بار قوم کو کوئی ایسا لیڈر ملا کہ
جس نے عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا نعرہ بلند کیا ۔جس کا نتیجہ یہ
نکلا کہ پاکستان کے گلی کوچوں سے غریب لوگ بھٹو کی تحریک کا حصہ بن گئے ۔
روٹی کپڑا اور مکان دینے والی ذات صرف اﷲ واحدہ لاشریک کی ذات ہے جو جسے
چاہے جب چاہے نواز دے ۔لیکن لالچ چونکہ انسانی فطرت کا خاصاہے ۔روٹی کپڑا
اور مکان کی فراہمی کااعلان اور شوشلزم کو رائج کرنے کے دعوؤں نے پیپلز
پارٹی کو ایک عوامی جماعت بنا دیا ۔غریبوں کی اس پارٹی میں جہاں ’’سفید پوش‘‘
لوگوں کی اکثریت نے شمولیت اختیار کی وہاں سرمایہ دار اور وڈیرے بھی
دھڑادھڑا اس میں شامل ہونے لگے۔گو کہ بھٹو نے اپنی پارٹی میں غریب عوام کو
بھرپور نمائندگی دی لیکن پھر بھی پارٹی کو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے
’’ہائی جیک ‘‘ کرلیا ۔بھٹو کی عوامی تحریک کے نتیجے میں قوم کو فیلڈ مارشل
محمد ایوب خان کی حکومت سے تو چھٹکارا مل گیا ۔لیکن پاکستان کے بدنصیب عوام
کو 50سال کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود آج تک جمہوریت مل سکی اور نہ ہی
روٹی ،کپڑا اور مکان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا ۔ایوبی دور حکومت میں
22خاندان تھے جو ملک کے امراء میں شمار ہوتے تھے لیکن بعد ازاں آمرانہ
جمہوری حکومتوں کے مختلف ادوار میں ان خاندانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ
ہوتا چلا گیا اس لئے اگریوں کہا جائے کہ اُن کی تعداد 22ہزار سے زائد ہو
چکی ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ بھٹو کے سولی پر چڑھنے کے بعد بی بی بے نظیر
بھٹو کی حکومت میں بھی بھٹو کے وژن کو آگے بڑھانے کی کوئی تدبیر نہ کی جا
سکی ۔بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والے ہزاروں وڈیرے ،سرمایہ دار اور جاگیر
دارارب پتی بن گئے جبکہ روٹی ، کپڑا اور مکان کے طلب گارجنہیں رہنے کو ایک
چھت تک نہ مل سکی آج بھی ’’جئے بھٹو‘‘کا نعرہ لگا کر اپنے قائد کو یاد رکھے
ہوئے ہیں اور بنیادی انسانی ضرورتوں کو ترس رہے ہیں۔پیپلزپارٹی کے بے شمار
لیڈر جن کے پاس آج سے 50سال قبل ٹوٹی ہوئی سائیکل بھی نہ ہوتی تھی اور جن
کے پاس رہنے کو اپنا گھر تک نہ تھا آج ’’بھٹو ۔۔۔بھٹو کرتے کئی کئی فارم
ہاؤ سز،محلات ، پلازوں ،لینڈ کروزرلگژری گاڑیوں کے مالک بن چکے ہیں جبکہ
بیرون ملک منتقل کی گئی دولت کا شمار ہی ممکن نہیں رہا ۔
حقیقت یہ ہے کہ غریب تو آج بھی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے کیونکہ اُسے
آج تک اپنے رازق سے رزق مانگنے کا ڈھنگ نہیں آیا ۔یہ ہمارے وہ سادہ لوح
عوام ہیں جو ربّ سے زیادہ انسانوں کواپنا ’’ پالن ہار‘‘ سمجھ لیتے ہیں ۔اس
لئے انہیں مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ بیشک !بھٹو نے بہت سے
کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ۔ ملک کو ایٹمی قوت بنایا،مسلم ممالک کو ایک
پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قائد عوام اقتدارمیں آنے کے
بعدخود بھی اپنا حقیقی’’ وژن ‘‘ہی بھول گئے۔ المیہ یہ ہے اُن کی جانشینی کا
دعویٰ کرنے والے بھی اپنے قائد کے فرامین پر عمل کی کوئی تدبیر نہ کر
سکے۔آج بھی بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والے کروڑ پتی وڈیرے،جاگیردار اور
’’نادیدہ قوتوں‘‘‘ کے پروردہ عناصرامارت میں آسماں کی بلندیوں کو چھو رہے
ہیں ۔جبکہ بھٹو اور بی بی بے نظیر بھٹو شہیدکے جانثار جیالوں کو یہ مفاد
پرست ٹولا اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتا ۔عظیم ہیں وہ لوگ جو آج بھی
وسائل نہ ہونے کے باوجود ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرے لگا کرقائد عوام ذوالفقار
علی بھٹو اور بھٹو خاندان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔
بی بی کی شہادت کے بعد اُن سے شوہر نامدار آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی
کو اپنی جاگیرسمجھ کر اُسے مکمل طور پر ’’ہائی جیک ‘‘ کرلیااُن کی من
مانیوں اور’’جیالوں ‘‘کو پس دیوار لگانے کی روش نے اس عوامی جماعت کو تباہی
کے دہانے پر لاکھڑا کیا ۔ مایوسی کے باوجود آج بھی حقیقی جیالے بھٹو خاندان
اوربھٹو پارٹی سے وفاداری نبھا رہے ہیں جبکہ مفاد پرستوں نے اپنے آشیانے
تبدیل کرلئے۔اب جبکہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول زرداری نے پیپلز پارٹی
کی قیادت سنبھال رکھی ہے تو ضرورت اس امر کی ہے وہ اپنے نانا قائد عوام
ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ بی بی بے نظیر بھٹو شہید کے’’ وژن ‘‘کو
سمجھیں اور اُسے آگے بڑھانے کی سعی کریں تو یہ اُن کا پیپلز پارٹی اور ملک
کے غریب عوام پربڑا احسان ہوگا ۔پارٹی کا شیرازہ بُری طرح بکھر چکا ہے ،غریب
عوام بھٹو پارٹی سے مایوس ہو چکے ہیں۔روٹی ، کپڑااور مکان کے طلب گاروں کے
لئے بھٹو کا ’’وژن‘‘ ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔اس لئے بلاول زرداری کو اس
عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کہ وہ ’’بھٹو وژن ‘‘کو پروان چڑھانے کیلئے اپنے
بہترین صلاحتیوں کو بروئے کا رلائیں گے اس سے جہاں بھٹو پارٹی مضبوط ہو گی
وہاں بھٹو کی روح کو بھی تسکین ملے گی اور غریبوں پر پڑنے والی مایوسی کے
سائے بھی چھٹ جائیں گے ۔ |
|