کہتے ہیں ایک پاگل نے اپنے ہمسایوں کے شیشے
توڑ دئیے مالک مکان شکائت لے کر اس کے والد کے پاس گیا اور کہا دیکھیں آپ
کے بیٹے نے میرا نقصان کر دیا اس نے معصومیت سے جواب دیا بھائی صاحب معاف
کر دیں پاگل ہے اسے کیا پتہ؟جو شخص شکائت لے کر گیا اس نے کہا جناب پاگل
ہوتا تو اپنے گھر کے شیشے توڑتا۔کچھ اس قسم کی سوچ میری اپنی بھی تھی میں
بھی ڈانواں ڈول رہا اور کہا کوئی بات نہیں ہاشمی کو شرفاء نے اتنا ٹارچر
کیا تھا کہ وہ پیمز پہنچ گئے اور اﷲ نے انہیں نئی زندگی دی ان کی باتوں کا
برا نہیں ماننا چاہیے ۔سوچا مریض آدمی ہے کوئی بات نہیں مگر جب معاملے کی
طے میں گیا تو پتہ چلا بات ایسے ہی نہیں ۔جناب پہلے فوج کو دباؤ میں لانے
کے لئے دھرنہ پلس کی بات کرتے رہے اور عین میدان جنگ میں اپنے گھوڑے الگ کر
کے نکل گئے انہیں ان کے محسن(گاڑیاں دینے والے)ملتان سے منا کر واپس لے آئے
مگر انہوں نے ایک منصوبے کے تحت موقع پا کرکمر میں چھرا گھونپا۔
جاوید اختر ہاشمی کے بارے میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں مگر مجھے وہ دن بھی یاد
ہیں جب موصوف اسلامی جمیعت طلبہ کی سیڑھی استعمال کر کے پنجاب کے طلبہ کے
لیڈر بنے تو وقت آنے پر اپنی مرضی کے فیصلے کئے جس کے نتیجے میں جمیعت نے
یہ فیصلہ کیا کہ آج کے بعد اسلامی جمیعت طلبہ یونیورسٹی میں کسی رفیق اور
امیدوار رکنیت کو الیکشن نہیں لڑائے گی بلکہ اس کے لئے رکن کو سامنے لایا
جائے گا(جمیعت مین پہلی سٹیج حامی کی بعد میں رفیق ،امیدوار رکنیت اور پھر
رکن کی ہوتی ہے)۔
یہی وجہ ہے کہ ہاشمی کی اپنی مرضی کی فلائٹیں اسی زمانے سے جاری و ساری
ہیں۔پھر حضور ضیاء کی آمریت میں ان کے پاؤں میں بیٹھے اور ایک ایسی وزارت
جس کا سر نہ پیر تھا اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ضیاء کو بھی مناسب وقت
آنے پر خیر باد کہا۔
عمران خان میں ہو سکتا ہے بہت سی خرابیاں ہوں لیکن جب ان کا ساتھ دیا تو
کیا کھلے دل سے دیا ۔میرا خیال ہے نہیں وہ پارٹی میں آئے جناب نے کراچی
جلسے میں ہی عندیہ دے دیا تھا کہ میں باغی ہو کے آیا ہوں باغی ہو بھی جاؤں
گا۔اب سوچنے کی بات ہے کہ وہ باغی کس مقام پے ہوتے ہیں۔ان کے معیار کیا
ہیں؟یہ بات سوچنے کی ہے انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی میں ہی
رہتے۔مولانا مودودی کو ان سے امیدیں وابستہ تھیں اور وہ ان کے سیدی مرشدی
تھے ۔لیکن انہیں یہ علم تھا کہ اقتتدار جماعت اسلامی کے ہاتھوں کی لکیر میں
نہیں ہے اسی لئے وہاں کا ایکپیرنس سرٹیفیکیٹ لے کر آگے بڑھ گئے۔موصوف کو
لیڈر مجیب الرحمن شامی کے رسالے زندگی نے بنایا تھا وہ کوئی بڑے زمیندار
بھی نہ تھے اور نہ ہی زندگی میں کبھی مخدوم کہلوائے تھے یہ تو ملتان کے ہی
ایک مخدوم کا مقابلہ کرتے کرتے مخدوم ہو گئے۔
تحریک انصاف میں آنے سے پہلے ہی موصوف مسلم لیگ نون کی نمک منڈی میں اپنا
سودا مہنگا داموں بیچنے کے لئے مشہور تھے۔مہران سکینڈل اس کی زندہ مثال ہے
اور ساری زندگی ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔یہ ایک الگ سوال ہے کہ وہ وہ اتنے
بڑے سکینڈل میں ملوث ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے صدر کیسے بنا دئے گئے؟
ہمارے لئے اس کا جواب دینا مشکل ہے کہ ہم نے انہیں خوش آمدید کہا اور برے
ہی دل کے ساتھ۔یہاں کی ان کی آمد سے پہلے ان کی وزارت صحت میں ہونے والی
کاروائیاں بھی لوگوں کو پتہ تھا۔میں اب اس طرف تو نہیں جانا چاہتا کہ
ویاگرا کی پاکستان میں داخلے کے لئے انہوں نے کیا کچھ لیا لیکن اتنا ضرور
علم ہے کہ ٹکٹوں کے معاملے میں تحریک انصاف میں جو بہت کالا دھندہ ہوا اس
میں ملتان کے اس ہاشمی کا بڑا نام زبان زد عام رہا ہم پارٹی کے اس اجلاس کی
بات بھی کرنا چاہیں گے جہاں میریٹ میں سب کے سامنے ۴ اپریل کو میں نے انہیں
کہا تھا کہ آپ پارٹی کے گوربا چوف ہو اسے تباہ کرنے کا مشن لے کر آئے ہیں
اس بات کی گواہی کوگ دیں گے۔جسٹس فصیح الدین کی ساری باتیں غلط نہ تھیں وہ
بھی اپنی اتھارٹی سے بڑھ کر کچھ کر گزرنا چاہتے تھے البتہ پارٹی میں کرپشن
کے حوالے سے ان کی تحقیقات درست تھیں لاہور کے ایک بڑے نام نے پارٹی کے ٹکٹ
لاکھوں میں بیچے انہیں انڈے اور ٹماٹروں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر مصلحت
کے تحت عمران خان چپ رہے ان کی آستینوں کے سانپ انہین ڈستے بھی رہے مگر
حوصلہ مند خان چپ رہے۔لوگ کہتے ہیں عمرا ن بات کو چھپا نہیں سکتے عمران خان
کے سینے میں بڑے راز دفن ہیں اسے علم ہے کہ کس کس نے کس مقام پر پارٹی کا
سوا ستیا ناس کیا۔
سوال یہ ہے کہ یہ گونگا پہلوان اس موقع پر کیوں منہ کھول رہا ہے؟ اس لئے کہ
جنرل راحیل چلے گئے خطرہ ٹل گیا اب عدالت کو دباؤ میں لانا ہے۔جسٹس
ناصرالمک کے بارے میں اتنی بڑی بات کہنے سے پہلے ان سے سوال ہے کہ کبھی آپ
ریٹائرڈ جرنیلوں کی بات کرتے رہے کبھی حاضر سروس کی اور اب عدلیہ کے لوگوں
کو بدنام کرنے میدان میں کس لئے آئے ہیں۔
اس لئے کہ آپ کے پیچھے جو پتلی تماشہ کرنے والے ہیں انہیں علم ہو گیا کی یہ
عدلیہ کچھ کر کے جائے گی۔آپ جناب ہاشمی اپنی آخرت کیوں گندی کر رہے ہیں۔
مجھے دکھ ہے کہ آپ پاکستان کی متنازعہ ترین سیاسی شخصیت کی لسٹ میں آ چکے
ہیں۔آپ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔آپ چودھری ظہور الہی سے لے کر میاں شریف
تک کے جیبی ممنون رہے ہیں۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ان لوگوں کے نام بتاؤں جنہوں نے ۲۰۱۳ کے ٹکٹوں کے
لئے آپ کی ایک رہائش گا جو بنی گالہ میں تھی اس میں کس کس سے بیعانہ پکڑا
تھا اس میں پنڈی کا ایک پختون بھائی بھی تھا جو آیا تھا صرف ٹکٹ کے واسطے
لیکن نہ ملنے کی صورت میں بیعانہ واپس لے کر نون میں چلا گیا۔یہ الگ بات ہے
کہ جس کو ملا وہ کسی اور موقع پر سجدے میں سجدے میں چلا گیا۔ہماری بد قسمتی
تو یہی ہے کہ قیام کے وقت رکوع میں اور رکوع کے وقت سجدے میں ہوتے ہیں۔
ہاشمی صاحب جنرل طارق نے جو کچھ آپ کے بارے میں کہا اس کا جواب تو دیں۔سچی
بات تو یہ ہے کہ آپ کو کمال مہارت سے استعمال کیا گیا آپ سمجھتے رہے کہ
اسلامی جمیعت طلبہ کو استعمال کر کے آپ کوئی فنان ہیں ہر وقت کسی کو ہمیشہ
کے لئے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا البتہ تھوڑے وقت کے لئے لوگوں کو احمق
بنایا جا سکتا ہے۔
آپ نے جنرل ضیاء کو بھی استعمال کیا نون لیگ نے البتہ پیسے کے زور پر آپ کی
تیزیوں کی گردن پر گوڈا رکھ کر آپ کو استعمال کیا اور اب بھی آپ اسی کے
اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔پورا میڈیا آپ کی باتوں کو لے کر میدان میں نکلا ہوا
ہے اس میں کئی بہروپئے اپنے قلم کو بیچ کر دکانداری چلا رہے ہیں ہمیں خوشی
ہے کہ عمران خان کو گالی دینے کی بھی پیسے ملتے ہیں۔اس پر کالم لکھنے کا
بھی سودا کیا جاتا ہے۔موضوع دے دیا جاتا ہے قد کاٹھ کے مطابق پیسے بھی بھیج
دئے جاتے ہیں ۔پی ٹی آئی کو اﷲ کی طرف سے مدد ہے لوگ اپنے ضمیر کی آواز کو
قلم کے حوالے کرتے ہیں۔مجھے دکھ اس بات کا ہے میں نے ایک مدت آپ کے ساتھ
گزاری ہے جب آپ مشرف کی جیل میں تھا میں بھی جدہ میں ایک جنرل سفیر کی
مہربانیوں کا شکار آپ سے باتیں کیا کرتا تھا کہ ہماری منزل کیا جیلوں تک ہی
ہے۔میں ۲۰۰۷ میں پی ٹی آئی میں آ گیا آپ کو بلاتا رہا آپ آئے تو اپنی مرضی
سے مگر گئے بھی اپنی مرضی سے۔میں آپ کے لئے دکھ محسوس کرتا ہوں اور وہ دکھ
سانجھا دکھ ہے کہ کیا اس ملک کی اشرافیہ ہر کو تول کر خرید لیتی ہے کیا
بنگلہ دیش نامنظور کے ہیر و کی بھی کوئی قیمت ہے؟اس ہاشمی کی بھی جسے بھٹو
نہیں دبا سکا؟ س یہ سوچتا ہوں کہ آپ جھلے کیوں بن رہے ہیں لوگ آپ کے بارے
میں ذہنی الجھاؤ کا شکار فرد کا ستعارہ کیوں استعمال کر رہے ہیں؟آپ کو
سوچنا ہو گا۔آپ سچے گونگے پہلوان بنیں پی ٹی آئی کے گھر کے شیشے تو نہ
توڑیں۔ |