قومی مفاد میں نیب قوانین میں تبدیلی اشد ضرورت
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
نیب قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ میگاکرپشن کیسز تو سپریم کورٹ کے ذریعے میڈیا اور قوم کے سامنے آگئے۔ ایسے اور بھی کیسز ہونگے۔ حتمی فیصلے کیلئے ایک مدت مقرر ہے۔ اگر اس مدت میں فیصلہ نہیں ہوتا تو ادارے کو مستوجب احتساب بنانے کا قانون بھی بنایا جانا چاہیے۔ حکومت‘ اپوزیشن اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادتوں پر نیب میں کیسز ہیں‘ ان سے قطع نظر قومی مفاد میں مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ماضی میں ہونیوالی کرپشن کی ریکوری کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اسکے دروازے بند ہوسکیں |
|
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف
میں ارکان نے کہا ہے کہ نیب کالا قانون ہے، نیب آرڈیننس نے پارلیمنٹ کی
شکل تک نہیں دیکھی، جس قانون میں عدالت کو ضمانت کا اختیار نہ ہو اس سے بڑا
کالا قانون کیا ہوگا، نیب آرڈیننس میں صرف پلی بارگین کی شق کو نہیں بلکہ
پورے قانون کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کونسل
آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ
نیب بغیر کسی دبائو کے مقدمات کو دیکھ رہا ہے اور میرٹ پر فیصلے کررہا ہے۔
واویلا صرف وہ لوگ کررہے ہیں جن کو حقائق کا علم نہیں یا انکا کوئی ذاتی
مفاد وابستہ ہے۔عوام میں بلوچستان میگا کرپشن کے بارے میں یہ تاثر پایا
جاتا ہے کہ نیب کی وجہ سے اس کیس سے 40 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ اصل
میں یہ رقم 2.2 ارب روپے ہے جس کو 40 ارب روپے ظاہر کیا گیا ہے۔ اس قانون
کے تحت 285 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے اور اربوں روپے عوام کو بھی
واپس دلوائے گئے ہیں، یہ کام آج تک پاکستان میں کسی ادارے نے نہیں
کیا۔چیئرمین نیب چودھری قمر زمان کی تقرری وزیراعظم نوازشریف نے اپوزیشن
لیڈر کے ساتھ آئینی تقاضے کے مطابق بامقصد مشاورت کے بعد کی تھی۔ انکے
پیشرو فصیح بخاری کو سپریم کورٹ نے عہدے سے الگ ہونے کا حکم دیا تھا کہ
وزیراعظم گیلانی نے اپوزیشن لیڈر چودھری نثارعلی خان سے بامقصد مشاورت نہیں
کی تھی۔ گزشتہ سال چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر 150 میگاکرپشن
کیسز کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس میں حکمران اور اپوزیشن پارٹیوں کی
اعلیٰ قیادت کے نام بھی تھے۔ ان میں سے کئی کیخلاف پندرہ سولہ سال پرانے
کیسز تھے۔ قانون کی رو سے ان کو چند ماہ میں منطقی انجام تک پہنچا تھا مگر
کئی ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ محض یہ رپورٹ پیش کرنے پر نیب کیخلاف
حکمران پارٹی کی طرف سے خصوصی طور پر سخت زبان استعمال کی گئی۔ نیب کو بند
اور اسکے چیئرمین کیخلاف وزراء نے ریفرنس لانے کی دھمکیاں دیں۔ اسکے بعد سے
گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی اور ان کرپشن کیسز کی جو بھی پوزیشن تھی‘ ان
کو وہیں سٹاپ لگا ہوا ہے۔ قائمہ کمیٹی اور سپریم کورٹ کی طرف سے اسی لئے
کہا گیا ہے کہ نیب بڑے لوگوں کو نہیں پکڑتا جن کو پکڑتا ہے ان کو پلی
بارگین کے تحت رہا کر دیتا ہے۔ فاضل پارلیمنٹیرین نے نیب کو کالا قانون اس
لئے بھی قرار دیا ہے کہ عدالت کو ضمانت کا اختیار نہیں۔ اگر کرپٹ مافیا
کیخلاف فول پروف تحقیقات کے بعد ہاتھ ڈالا جائے تو کرپشن کی ریکوری اور سزا
کے بعد ہی اسے جیل سے باہر آنا چاہیے۔ نیب کے قانون کی یہ شق کڑے احتساب کی
ضامن ہوسکتی ہے۔چیئرمین نیب کو ایک طرف جانبداری کے الزامات کا سامنا ہے‘
میگا کرپشن کیسز کی حد تک ایسے الزامات غلط بھی نہیں ہیں۔ دوسری طرف پلی
بارگین کو نیب کے بدترین اعمال میں شمار کرایا جارہا ہے۔ چیئرمین نیب اس
قانون کی وکالت کرتے نظر آرہے ہیں۔ وہ اس قانون کی افادیت بتا رہے ہیں اور
دوسرے اداروں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قانون کے تحت 285
ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے اور اربوں روپے عوام کو بھی واپس
دلوائے‘ یہ کام آج تک کسی ادارے نہیں نہیں کیا۔ اگر یہی نیب پلی بارگین کے
ذریعے 285 ارب روپے کی وصولی کے بجائے کرپٹ عناصر سے لوٹ مار کی پائی پائی
وصول کرتا تو قومی خزانے میں جمع ہونیوالی رقم کئی گنا زیادہ ہوتی اور ڈبل
شاہ کے متاثرین سمیت دیگر ایسے اداروں کے متاثرین کو اپنی پوری رقم مل چکی
ہوتی۔ کرپٹ مافیا یا جرائم پیشہ عناصر کو جرم ثابت ہونے پر جرمانہ بھی ہوتا
ہے گویا لوٹ مار کی رقم سے زیادہ مجرم سے نکلوائی جاسکتی ہے۔ نیب اگر ایک
حصہ وصول کرکے مجرم کو رہا کردیتا ہے تو اسے سپریم کورٹ کی طرف سے بجا طور
پر کرپشن کرنیوالوں کا سہولت کار کہا گیا ہے مگر یہ سب کچھ نیب اپنی مرضی
سے نہیں کرتا۔پلی بارگین باقاعدہ ایک قانون کے تحت ہوتی ہے جب تک یہ قانون
موجود ہے‘ جو نیب نے خود نہیں بنایا‘ اس قانون پر عمل تو ہوگا۔ چیئرمین نیب
قانون پر عمل کے پابند ہیں اور یہ پابندی ہورہی ہے مگر ان کو اس قانون کی
وکالت کرنی چاہیے نہ ہی اسکی افادیت کا پرچار کرنا چاہیے۔ بارگین آج کے
قانون کے تحت جائز ہے مگر اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔عمران خان نیب پر
سب سے زیادہ برستے ہیں‘ پلی بارگین کیلئے جرائم پیشہ عناصر اور کرپٹ مافیا
کے سوا کوئی بھی اس کا حامی نہیں ہے۔ ارکان پارلیمان اسکی شدید مخالفت
کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار علی اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف
نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔ پلی بارگین کرپشن کے خاتمے نہیں بلکہ کرپشن کے
فروغ کا قانون بن چکا ہے۔ اس قانون کے تحت سرکاری افسروں سے بھی بارگین
کرکے ان کو عہدوں پر بحال کیا جاتا رہا ہے۔ وہ بحال ہو کر کیا خیر کرینگے؟
انکی دیکھا دیکھی دیگر کرپٹ عناصر بھی کھل کھیلیں گے کیونکہ ان کو پکڑے
جانے کی صورت میں ایک حصہ ہی ادا کرنا پڑیگا اور شاطر لوگوں کی طرف سے پکڑے
جانے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔قانون کے مطابق پلی بارگین ملزم کی رضامندی
سے ہوتی ہے۔ کرپٹ لوگ کیسے اپنی لوٹ مار کا ایک حصہ رضاکارانہ طور پر قومی
خزانے میں جمع کرانے پر رضامند ہو سکتے ہیں؟ ایسا عملاً ممکن ہی نہیں ہے۔
عملی طور پر تو ملزم کو ڈرامائی طور پر ہراساں کرتے ہوئے اٹھایا جاتا ہے۔
کئی بے قصور بھی ہوتے ہیں‘ انکی رہائی بھی آسان نہیں ہوتی۔ ملزم کیلئے اس
خوف کی فضا میں جان پر بنی ہوتی ہے۔ اس ماحول میں کہاں کی رضامندی‘ گویا یہ
رضامندی سے بارگین کا قانون ہی بے معنی ہے۔ اگر نیب کو قانون کے تحت بارگین
کی اجازت نہ ہو تو مجرم پائی پائی ادا کرنے پر مجبور ہوگا۔نیب کی پلی
بارگین پر حکومت اپوزیشن اور عدلیہ اعتراضات اٹھا رہی ہے تو اس قانون کو
بہتر کیوں نہیں بنایا جاتا؟ یہ کارخیر متفقہ طور پر سرانجام پا سکتا ہے۔
نیب قوانین میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہے۔ میگاکرپشن کیسز تو سپریم کورٹ کے
ذریعے میڈیا اور قوم کے سامنے آگئے۔ ایسے اور بھی کیسز ہونگے۔ حتمی فیصلے
کیلئے ایک مدت مقرر ہے۔ اگر اس مدت میں فیصلہ نہیں ہوتا تو ادارے کو مستوجب
احتساب بنانے کا قانون بھی بنایا جانا چاہیے۔ حکومت‘ اپوزیشن اور دیگر
سیاسی جماعتوں کی قیادتوں پر نیب میں کیسز ہیں‘ ان سے قطع نظر قومی مفاد
میں مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ماضی میں
ہونیوالی کرپشن کی ریکوری کے ساتھ ساتھ مستقبل میں اسکے دروازے بند ہوسکیں |
|