کیا ہم تحریک آزادی کشمیر سے مخلص ہیں۔۔۔۔۔؟

کیا ہم تحریک آزادی کشمیر سے مخلص ہیں۔۔۔۔۔؟
کیا ہم اور ہمارے حکمران تحریک آزادی کشمیر سے مخلص ہیں یہ وہ سوال ہے جو اگر ہمارے حکمران اور ہم اپنے آپ سے پوچھیں تو سارے حکمرانوں اور عوام کی اکثریت کا جواب نہ میں ہی ہو گا در اصل ہم نے مسئلہ کشمیر کو اپنے اپنے مقاصد کے حصول کا زریعہ بنا رکھا ہے اگر بھا ر ت کشمیریوں کا مجرم ہے تو ہم بھی اسی قطار میں کھڑے ہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے زرخرید کٹھ پُتلی حکومت میں شامل میر صادق میر جعفرکشمیریوں کے بڑے مجرم ہے مسلمانوں نے ہمیشہ ایسے ہے میرصادقوں میر جعفروں سے نقصان اُٹھایا ہے اگر سارے کشمیری متحد ہوتے بھارت کو کشمیر میں مسلمان ڈمی حکمران نہ ملتے نہ بھارت کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچا سکتا نہ عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا اور اگر ہم بھی مسئلہ کشمیر سے مخلص ہوتے تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا اقتدار پرست پاکستانی کشمیری حکمرانوں کشمیر کانام استعمال کر کے اپنی سیاست چمکانے والے بے ضمیر سیاستدانوں اورآئے روز بھارت مردہ باد کے نعرے لگانے والے سیاستدانوں تاجررہنماوں کی دوکانداری ہی مسئلہ کشمیر پر چل رہی ہے70 سال گزرنے کے باوجود اگر ہم بھارت سے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم نہیں کروا سکے تو پھر مسئلہ کشمیر کب حل ہوگا اگر ہم یونہی اختلافات کا شکار رہے ہمارے حکمرانوں نے اپنا انداز حکمرانی نہ بدلہ سفارت کاری کا یہی انداز رہا تو پھر مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ مسئلہ کشمیر اگلے 70 سالوں میں بھی حل نہیں ہوگا اس بات کا احساس اب کشمیریوں کو بھی ہوچکا ہے جس کا اظہار کچھ عرصہ قبل ایک کشمیری رہنما نے اسلام آباد میں کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمان اور حکومت پاکستان کے چند دوسرے ذمہ داروں کے سامنے اپنا گریبان پھاڑ کر کہا کے کشمیر ی کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے ۔ اس کشمیری کے سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی اس سوال کا جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس ہے اور نہ ہی الحاقیوں خود مختاریوں اور مولانا فضل الرحمان کے پاس ہے ۔ جو کشمیر ی کمیٹی کے چیئر مین بن کر محض مراعات اور تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔محض یوم سیاہ منانے نعرے لگانے سے کشمیر آزاد نہیں ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کشمیریوں کے نام پر سیاست چمکا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے والے سیاستدانوں کو سوچنا ہو گا اور بحثیت قوم یہ سوال ہمارے لیے بھی اہم ہے کہ اگر ہمارے کشمیری بھائیوں کی جگہ ہم ہوتے ہمارے بچے بھارتی فوجیوں کی گولیون کا نشانہ بن رہے ہوتے تو ہم اس تحریک کو کب تک جاری رکھتے تحریک آزادی کے زریعے بھارت کو مزاکرات کی میز پر لانے کا خیال بھی اب ہمیں دل سے نکال دینا چاہیے اب ہمارے حالات ویسے نہیں رہے جیسے آج سے پندرہ بیس سال پہلے تھے دہشت گردی افغانستان میں امریکہ کی موجودگی ایران سے ہمارے سرد مہری کا شکار تعلقات ہمارے لیے مسائل کا باعث ہے الحاق یا خود مختاری کا نظریہ رکھنا کوئی جرم نہیں لیکن خود مختاری کے حامیوں کو سب سے پہلے آزادی کوترجیح دینا چاہیے الحاق یا خود مختاری بعد کے مسئلے ہیں ابھی ان باتوں میں اُلجھنے کا وقت نہیں اسوقت ضرورت صرف کشمیر کی آزادی پر توجہ مرکوز کرنے کی ہے خداراہ اب وقت آگیا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے ایسے حل کے بارے میں سوچنے کا جو تینوں فریقوں پاکستان کشمیریوں اور بھارت کے لیے قابل قبول ہو اور یہ حل صرف کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت ہی ممکن ہے ورنہ کسی ایک فریق کی مرضی سے مسئلہ حل ہونے والانہیں مسئلہ کشمیر کے متبادل حل کے لیے بھی ہمیں اور پاکستانی حکمرانوں کو بہت محنت کرنی ہو گی ۔ بھارت کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کے درمیانی راستے پر قائل کرنا ہو گا ۔ موثر سفارت کاری سے عالمی دنیا پر بھارتی اثرو رسوخ کو کم کرنا ہو گا ۔ کشمیر کمیٹی کی چیئر مینی مولانا فضل الرحمان سے لیکر کسی ایسے شخص کو دینی ہو گی ۔ جو اس کا اہل ہو ہمیں اپنے اختلافات اور ذاتی مقاصد بالائے طاق رکھ کر صرف کشمیر کے مسئلے کے آبرو مندانہ مل پر متفق ہونا ہو گا مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے بزور طاقت 70 سال سے قبضہ کر رکھا ہے ۔ بھارت جیسی بڑی فوجی طاقت کے سامنے نہتے کشمیر70 سال سے سینہ سپر ہیں۔ اس تحریک میں اب تک لاکھوں کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔لاکھوں مائیں اپنے لخت جگر بہنیں اپنے بھائی سہاگنیں اپنے سہاگ قربان کر چکی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہزاروں کشمیری مائیں بہنیں اپنی عصمتوں کی قربانی دے چکی ہیں۔ کشمیریوں کی اکثریت آج بھی آزادی کے لیے پُر عزم ہے ۔ انہوں نے بھارتی تسلط کو نہ قبول کیا ہے نہ کریں گے ۔ کشمیری آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستان سے الحاق کو بھی ایمان کا درجہ دیتے ہیں۔ بھارتی فوجیوں کی سنگینوں کے سائے میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر پاکستان پر چم لہرانا کشمیریوں کا معمول ہے ۔ ہمارے کشمیر ی بھائی تحریک آزادی اور پاکستان سے سو فیصد مخلص ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو کشمیری اللہ کے بعد پاکستان اور پاکستانیوں کے بھروسے پر بھارتی افواج سے نبرد آزماہیں۔لیکن کیا ہم اور ہمارے حکمران تحریک آزادی کشمیر سے مخلص ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان اور کشمیری حکمران سیاستدانوں نے تحریک آزادی کشمیر کو ہمیشہ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ کبھی اقتدار کے حصول اور اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کے جھوٹے نعرے لگائے گئے ۔ حکمرانوں نام نہاد مجاہدین سیاستدانوں بڑے بیوروکریٹس نے کشمیرکی تحریک آزادی کے نام پر کیا کیا گل کھلائے ۔ کتنا مال ہڑپ کیا کاش یہ سب کچھ بیان کیا جا سکتا ۔ کشمیریوں کے خون کا سودا کرنے والے کشمیریوں کے خون کی قیمت پر اپنے بچوں کے لیے آسائشیں خریدنے والوں کشمیر کمیٹی کی چیئر مین شپ سیاسی رشوت کے طور پر دینے والے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بجائے آزادی کے الحاق خو دمختاری کے نام پر کشمیریوں کو تقسیم کرنے والے حکمران اور سیاستدان نہ اپنے ملک سے مخلص ہیں۔ نہ تحریک آزادی سے 70 سال ہو گئے ہیں۔ ہمارے حکمران اپنی نا اہلیوں ناکام سفارت کاری کی وجہ سے آج تک بھارت کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکے کہ بھارت کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرلے اگر کبھی بھول کر اور عوامی دباؤ میں آکر ہمارے حکمران کشمیر کی بات کرتے بھی ہیں تو بھارت آزادکشمیر کی بات کرتا ہے لاکھوں کشمیری شہداء کی قربانیاں دینے کے بعد بھی اگر ہمارا یہ حال ہے ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کب آزاد ہو گا ؟ ۔مزید کتنے کشمیریوں کو اپنی جانیں قربان کرنی پڑیں گی ۔ کتنی ماؤں بہنوں کو اپنی عزتیں قربان کرنی پڑیں گی ۔ ہمارے اعمال اس قابل نہیں کہ ہماری مدد کو فرشتے آئیں کشمیریوں کے نام پر اقتدار پرستی مادہ پرستی کا کھیل بہت ہو چکا اب اگر مزید دیر کی گئی تو اسلام آباد میں اپنے دل کی بات کہنے والے کشمیری کی طرح ہمارے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ساتھ نبردآزما دیگر بھائیوں کی زبان پر بھی یہی بات ہو گی کہ کشمیری کب تک لاشیں اٹھانے رہیں گے ۔ بھارت ظالم اور عاصب ہے لیکن ہم بھی کشمیریوں کے اتنے ہی بڑے مجرم ہیں جتنا بھارت اپنے بچوں کی بہتر زندگیوں کے لیے کشمیری شہدا کے نام پر حکومتیں اور سیاست کرنے والے ہمارے سیاست دانوں کو ڈراس بات کا بھی ہے کہ اگر کشمیر آزادہو گیا ۔ تو بھارتی فوج سے لڑنے والے کشمیری آزادکشمیر اور پاکستان کے بے حس حکمرانوں اور سیاستدانوں سے ان کے اعمال اور کشمیریوں کے نام پر کی گئی سوادا بازیوں کا حساب ضرور لیں گے ۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہر کشمیری اور پاکستانی کو اپنے حصے کا رول ضرور ادا کرنا چاہیے ۔ خواہ وہ زبان کے ذریعے ہو قلم یا کسی اور ذریعے سے ہر آدمی یہ سوچتا ہے کہ میرے بولنے سے کیا ہو گا۔ یہی بات ان سطور کو لکھتے وقت میرے دل میں بھی تھی لیکن برائی اور ظلم کے خلاف احتجاج کے کئی درجے ہیں اور یہ ہمارے مذہب نے بھی ہمیں سکھایا ہے ۔ ہر انسان کو اپنے حصے کا رول ضرور ادا کرنا چاہیے ۔ دنیا میں نہیں تو بروز قیامت ہی سہی وہ اس معاملے میں سرخرو ضرور ہو گا۔ اگر ہر کشمیری اور پاکستانی اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی سیاہ کاریوں اور مسئلہ کشمیر پر مجرمانہ غفلت سودا بازیوں پر سچے دل سے صدائے احتجاج بلند کرے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے ان کی سیاہ کاریوں کا حساب مانگے تو منزل دور سہی لیکن انشاء اللہ کشمیری اس منزل کو پا لیں گے ۔ شرط صرف ذاتی مفادات ، اختلافات پسند و نا پسند الحاق خود مختاری کے نعروں کے بجائے صرف آزادی کشمیر کو منزل قرار دیگر اس ایک نکتے پر متفق ہونے کی ہے ورنہ دنیا میں نہ سہی بروز قیامت ہم بھی کشمیریوں کے مجرم کے طور پر اسی قطار میں کھڑے ہونگے ۔ جس میں ظالم بھارتی وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اور آزادکشمیر کے حکمران سیاستدان کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کے ایسے آبرو مندانہ حل پر راضی کریں جو تینوں فریقوں کے لیے قابل قبول ہو ہمیں کشمیریوں کے قتل عام کا اب مزید تماشا نہیں دیکھنا چاہیے ورنہ کشمیری قوم ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ نہ ہمارا خدا ہمیں معاف کرے گا
Javid
About the Author: Javid Read More Articles by Javid: 2 Articles with 1347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.