وقتی طور پر بھلے ہی فائدہ محسوس ہو لیکن
ہر غلط فیصلے کا انجام برا ہی ہوتا ہے ۔انسان طبیعتاً حریص ہوتا ہے،اس کی
نظر صرف اپنے فائدے پرہوتی ہے، دوسروں کے نقصانات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی
۔بس یہی سوچ سارے فساد کی جڑبنتی ہے ۔اگر صرف اتنا سوچ لیا جائے کہ ہماری
ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچے اور کسی کی تکلیف اور پریشانی کا سبب ہم نہ
بنیںتو محض اتنے ہی عمل سے زمین امن و سکون سے معمور ہوسکتی ہے ۔یہ فکر
انفرادی سطح پربھی ہونی چاہئے اور اجتماعی سطح پر بھی بلکہ اجتماعی معاملات
میں اس کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے جس سے سماج اور معاشرے کے ایک اک گوشے کو
روشن و منور کیا جاسکتا ہے ۔گذشتہ سال حکمراں جماعت بی جے پی نے گئوکشی کے
نام پر کئی ریاستوں بالخصوص مہاراشٹر میں گائے کی پوری نسل ہی کے ذبیحےپر
پابندی عائد کردی ہے۔گائے کے ذبیحے پر پابندی تو طویل عرصے سے جاری ہے اور
مسلمانوں نے بھی اسے تسلیم کرلیا تھا کہ اگر اس سے ہندؤں کی دل آزاری
ہوتی ہے تو ان کے جذبات کا احترام ضرورکرنا چاہئے ۔بات اگر یہیں ختم ہوتی
تو کوئی حرج نہیں تھا ، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن فرقہ پرستوں کی شہ پر
جب گائے کی پوری نسل ہی کے ذبیحے پر پابندی عائد کردی گئی تو پھر پوری
ریاست کیلئے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ۔اس کاروبار سے منسلک لاکھوں
افراد بے کار ہوگئے اور ان کے بھوکوں مرنے کی نوبت آگئی ۔جو طبقہ گوشت کا
کاروبار کرتا تھا اسے وقتی طور پر پریشانیاںتو ہوئیں لیکن جلد ہی اس نے
بیلوں اور بچھڑوں کی جگہ بھینسوںکا ذبیحہ شروع کردیا ، اس طرح ان کا
کاروبار پھر چل پڑا لیکن ان بیوپاریوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوگئی جو
ان بیلوں کی خریدوفروخت کرکے اپنی روزی روٹی کے سامان مہیا کرتی تھی ۔
بیوپاریوں نے اس تعلق سے کئی بار ایجی ٹیشن کیا مگر اہل اقتدارنے آنکھیں
اور کان بند کرلئے ، عوامی سطح پر جو نقصانات سامنے آرہے ہیں اس کا اندازہ
بہ آسانی کیا جاسکتا ہے ۔عام طور پر جو جانورکھیتی باڑی کے لائق نہیں رہ
جاتے یا دودھ نہیں دیتے انہیں مالکین بیوپاریوں کو فروخت کردیا کرتے تھے ۔بجرنگ
دل اور آرایس ایس والوں کو کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کسانوں
میںتحریک چلاتے کہ گئوتمہاری ماتا ہے اس کا احترام کرو بھلا ماں کو بھی
کوئی بیچتا ہے ،ان کا جواب یہی ہوتا کہ ہم ان بے مصرف جانوروں کیلئے چارہ
کہاں سے لائیں ان پر رقم کیوں خرچ کریں ۔اصلا ً یہ سار ا معاملہ شرپسندی کا
ہے اور کچھ نہیں ، فرقہ پرستوں کو اگر ان جانوروں سے عقیدت ہوتی تو وہ کبھی
ان کے تحفظ کی تحریک نہ چلاتے ۔آج صورتحال یہ ہےکہ کسانوںنے بیل پالنےہی
بند کردیئے ہیں جس کا نتیجہ اس بھیانک صورت میں سامنے آرہا ہے کہ رفتہ
رفتہ یہ نسل ہی ختم ہوتی جارہی ہے ۔ذرا اس نکتے پر غورکریں پہلے اعتراض یہ
تھا کہ اس سے ہمارے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ذبیحے کے سبب یہ نسل
باقی نہیں رہ پائے گی ، جبکہ اعداد و شمار یہ بتارہے تھے کہ اس نسل میں
لگاتار اضافہ ہورہا ہےکیونکہ کاروباری افراد پوری دلچسپی سے اس نسل کے
اضافے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے ، اس جانب ان کی دلچسپی ختم ہوگئی اور اب
رفتہ رفتہ یہ نسل معدوم ہوتی جارہی ہے ۔اب انہیں کون سمجھائے ، اس نسل کے
خاتمے کا ذمہ دارکون ہے ؟ وہ کسان جو اس نسل کے اضافے کی کوششیں کرتے تھے
یا پھر یہ فرقہ پرست عناصر جو اپنی جھوٹی محبت اور مذہب کے نام پر اس نسل
کے خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔
اس تعلق سے ایک واقعہ ذہن میں ابھررہا ہے جی چاہتا ہے آپ کو بھی شیئرکرلیا
جائے ۔زراعتی علاقوں میں نیل گائےکے شکار کیلئے لوگ جاتے توفرقہ پرست سخت
مزاحمت کرتے کئی بار ایسا ہوا کہ فساد تک نوبت آجاتی تھی ، حالات جب زیادہ
مخدوش ہونے لگے تو شکاریوں نے مصلحتا ًشکار کرنا ہی ترک کردیا اس کا نتیجہ
یہ ہو ا کہ بڑی تیزی سے ان کی نسل بڑھنےلگی اور پھر اتنی بڑھ گئی کہ
کاشتکاروں کا جینا دوبھر ہوگیا ، تیار فصلوں پر نیل گایوں کے ریوڑ جب
آندھی اور طوفان کی طرح ٹو ٹ پڑتے تو آن کی آن فصلیں چٹ کرجاتے ۔لاکھو ں
کی تعداد میں یہ گائیں جس طرف بھی رخ کرلیتیں دوردور تک کی فصلیں ویران
ہوجاتیں ، عاجز آکر کسانوں کے وفود شکاریوں سے منت سماجت کرنے لگے اور نہ
صرف شکار کی دعوت دی بلکہ ان کے مکمل تحفظ کا وعدہ بھی کیا اور پھر یہی ہوا
کہ شکاری جب جاتے تو ان کے نہ صرف رہنے سہنے کا انتظام کیا جاتا بلکہ ہر
طرح سے ان کا تحفظ بھی کیا جاتا ۔یہ دنیا قدرت کے زیرانتظام چلتی ہےجس میں
ہماری حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے، اس کے باوجود ہم قدرتی امور
میں مداخلت کرتے ہیں اور انجام کار نقصان اٹھاتے ہیں ۔ہماری موجودہ سرکار
بھی کچھ اسی طرح کے بے فائدہ بلکہ شدید نقصانا ت والے کاموں میں دلچسپی
لیتی ہے اور جانتے بوجھتے فرقہ پرستوں کا ساتھ دیتی ہے اور نقصان اٹھاتی ہے
۔کرنے کے کام بہت ہیں جنہیں ابھی شروع ہی نہیں کیا گیا ہے اس طرح سب کا
ساتھ سب کا وکاس کیسے ہوسکتا ہے۔اس ملک کا خمیر ہندومسلم ایکتا سے اٹھا ہے
اور اسی سے آگے بھی بڑھنےوالاہے ۔ اس کو سوچنا چاہئے، روزانہ لاکھوں
کروڑوں کی تعداد میں بیل بکرے اور بھینسیں ذبح کردی جاتی ہیں اور قربانی کے
ایام میں یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے اس کے باوجود نہ صرف یہ کہ یہ نسلیں
باقی رہ جاتی ہیں بلکہ ان میں ہمہ وقت زبردست اضافہ ہوتا رہتا ہے ،آخر
کیوں ؟حکومت کے سامنے بے انتہا مسائل ہیں آخر کب تک وہ ایسے بے فائدہ
کاموں میں دلچسپی لیتی رہے گی ۔ |