سیاسی مخالفت میں اخلاقیات کی حدود پار نہ کریں

پاناما لیکس نے سیاست میں بھوچال برپا کیا ہوا ہے۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ دونوں فریقین کا کہنا ہے کہ عدالت اعظمیٰ کا جو بھی فیصلہ آیاانہیں قبول ہوگا۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو ۔سیاست کے کھلاڑیوں کا عمل ، رویہ ، ایک دوسرے پر الزامات در الزامات سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ سیاسی کھلاڑی چین سے پھر بھی نہیں بیٹھیں گے۔ کوئی شوشہ، کوئی اور منطق، کوئی اور لیکس کو بنیاد بنا کر ملک میں اس قسم کی افرا تفری بر پا کیے رہیں گے۔ سیاست کو عبادت کہا گیا ہے ، اس لیے کہ سیاست نام ہے مخلوقِ انسانی کی بھلائی کا، عوام الناس کی خدمت کا، لوگوں کو ان کی جائز ضروریات فراہم کرنے کا، روٹی ،کپڑا ، مکان تعلیم ، صحت، صفائی ستھرائی اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کا ۔ اگر ہمارے ملک میں سیاست کی اصل روح پر عمل ہوتا تو آج ہمارے ملک کے عوام اس قدر تنگ دست اور پریشان حال نہ ہوتے۔ ہمارے ملک کی سیاست کی گاڑی ملک کے قیام کے چند سال بعد ہی پٹری سے اتر گئی تھی اور سیاست نام ٹہرا اقتدار کے حصول کا،دولت اکھٹی کرنے کا، کارخانے لگانے کا، شوگر ملیں لگانے کا، جائیدادیں بنانے کا، سرے محل بنانے کا، لندن میں فلیٹس خریدنے کا، آفشور کمپنیاں قائم کرنے کا، ا قربا پروری اور تعصب کا، غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر بنانے میں مدد کرنے کا، ملک کو قرضوں تلے دبانے کا ،یہاں تک کہ اس اقتدار کی حوص نے ملک کو دو لخت کردیا ۔ہمارا ایک بازو کٹ گیا، ہم سے جدا ہوگیا اس کے باوجود ہمارے سیاسی پنڈتوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ معاملا یہاں پر بھی رکا نہیں بلکہ دشمن بدستور پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرنے، اس کے حصے بکرے کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑ رہا، آج بھی بلوچستان کو الگ کرنے کی سازشیں دشمن ملک میں ہی بن رہی ہیں، بلوچستان کے علیحدگی پسندوں نے دشمن سرزمین میں پناہ لے رکھی ہے اور ہمارا دشمن کھلے عام ان کی پشت پناہی کررہا ہے۔ دہشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، دہشت گردوں نے کہاں کہاں نہیں وار کیا، ایسی ایسی جگہ کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہاں خود کش حملہ آوروں نے حملے کر کے یہ باور کرایا کہ وہ کس قدر طاقت حاصل کر چکے ہیں۔

اِدھر ہمارے سیاست دان ہیں کہ ایک دوسرے پرلفظوں کی ایسی کاری ضرب لگارہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک ملک کے باسی نہیں، ایک ہی ملک کے سیاست داں نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ،سمجھ سے باہرہے کہ آج کل کے سیاست داں آخر کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں انہیں اس بات کا زرا احساس نہیں کہ سیاست داں مستقبل کا حکمراں ہوتا ہے۔ عوام الناس اور نئی نسل انہیں اپنا آئیڈیل بناتی ہیں ۔ ان کی زندگی پر ان کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔حکمراں جیسے ہوں گے ، عوام بھی ویسے ہی ہوں گے۔ اب ہمارے بچے یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں جس حاکم کو اختیارات ملے، حکمرانی ملی، وزارت ملی، سفارت ملی، منتخب ایوانوں میں پہنچا، صوبائی ، قومی یا سینٹ کا رکن بنا، کسی بھی عہدے پر فائذ ہوا اس کی زندگی بدل گئی، لیاری سے ڈیفنس، ملیر سے کلفٹن، سرجانی ٹاؤن سے بحریہ ٹاؤن ، اورنگی ٹاؤن سے گلشن منتقل ہوگیا، موٹر سائیکل سے لینڈ کروزر آگئی، بچے بیرون ملک چلے گئے۔ بیرون ملک جائیداد بنا لینا عام سی بات ہوگئی ہے، پاکستانی شہریت تو تھی ہی کنیڈایا کسی اور ملک کی شہریت بھی حاصل ہوگئی۔وہ شخص جو کل تک ایک عام آدمی تھا پیر میں ٹوٹی چپل ہوا کرتی تھی حکومت کے دائرے میں داخل ہوتے ہی وہ 98فیصد سے 2فیصد میں شامل ہوگیا ۔ یعنی عوام سے خواص بن گیا۔ کہتے ہیں خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے۔ ہر شخص جس کو موقع ملے گا وہ اپنے حکمرانوں کی تقلید کرے گا۔ اسی صورت حال کے بارے میں مولانا جلال الدین رومی نے کہا تھا کہ ’ایک ہزار قابل انسانوں کے مرجانے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک ’’احمق‘‘ کے صاحب اختیار ہوجانے سے ہوتا ہے‘‘۔اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے دولت جائیداد بنا لینا حماقت ہی تو ہے۔ ہمارے ملک میں سابقہ تیس چالیس سالوں سے احمقوں کی ہی تو حکومت چلی آرہی ہے جس کا نقصان یہ ملک اٹھا رہا ہے ، یہ قوم اٹھا رہی ہے۔ بات میں یہ کرنا چاہتا تھا کہ لمحہ موجود کے حکمراں ، جن کے مابین رسا کشی جاری ہے ، یہ حکمراں بھی ہیں اور حزب اختلاف بھی ، کیا عمران خان حکمران نہیں، کیا زرداری صاحب حکمران نہیں، مسلم لیگ نون یعنی میاں خاندان تو ہے ہی حکمرانوں میں سے۔ تو یہ پاکستان کے حکمراں اس قت جس قسم کی سیاست کر رہے ہیں ، خاص طور سے پاناما لیکس کے حوالے سے جس قسم کے جملوں کا تبادلہ ہورہا ہے ، جلسوں میں، ریلیوں میں، پریس کانفرنسیز میں، یہاں تک کے ٹی وی ٹاک شوز میں جو زبان اورجس طرح کے جملے استعمال کیے جارہے ہیں وہ انتہائی نا شائستہ، نازیبہ، نامناسب،سوء ادب، فحش کلامی اور ناپسندیدیگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ٹی وی ٹاک شوز میں بعض بعض سیاست داں تو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید وہ درباری نہیں بلکہ از خود بادشاہ سلامت ہیں۔ ایسی زبان تو میاں نواز شریف بھی استعمال نہیں کر تے جس طرح کی زبان ان کے حواری استعمال کر رہے ہیں۔ 2013کے انتخابات میں میاں شہباز شریف سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں گلے میں پھندہ ڈال کر گھسیٹنے والی زبان استعمال کر چکے ہیں۔ اِسی طرح کپتان کی سیاسی زبان کا تو کیا کہنا، وہ تو شروع ہی سے ماشاء اللہ ہے۔ سینئر سیاست داں بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر وہ گھٹیا جملے استعمال نہ کرتے تو انہیں یہ نہ سننا پڑتا کہ جاوید ہاشمی کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ یہ کوئی اچھی بات ہے، ذیب دیتی ہے کہنے والے کو، یقیناًمناسب نہیں ، مسلم لیگ نواز کے وزرا ء اور دیگر حمایتی ، کپتان اور ان کے حواری ، زرداری صاحب اور ان کے بعض حواری جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ کسی بھی طور مناسب نہیں۔میاں صاحب کو اور کپتان کو اپنے اپنے حامیوں کو بیہودہ زبان استعمال نہ کر نے کی ہدایت کرنی چاہیے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے، زندگی دائمی نہیں تو اقتدار تو ہوتا ہی عارضی ہے۔ کہاں گیا ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار، کہاں گیا جنرل ضیاء الحق کا اقتدار، کہاں گیا بے نظیر بھٹو کا اقتدار، کیا ہوا زرداری صاحب کا اقتدار، کہاں گیا جنرل پرویز مشرف کا اقتدار، اسی طرح نچلی سطح کے اختیارات بھی وقتی ہوتے ہیںیاد کریں افتخار محمد چودھری کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہونے کا زمانہ ، بڑے بڑوں کی ٹانگین اس کی عدالت میں کانپا کرتی تھیں۔ آج یہ صورت ہے کہ جب افتخار محمد چودھری نے قومی اسمبلی کی کاروائی سننے کے لیے تین پاس جاری کرنے کی درخواست کی تو انہیں صرف ایک پاس جاری کیا جاتا ہے۔ منتخب قومی اسمبلی کا سیکریٹری کیا اُس دور میں جب چیف صاحب کا طوطی بولا کرتا تھا ایسا کر سکتاتھا۔

مَیں نے سیاستدانوں کے وہ جملے جو وہ ایک دوسرے کے بارے میں ادا کررہے ہیں دوہرانے سے قصداً گریز کیا ہے، وہ جملے سب ہی جانتے ہیں۔ہم آپ روز ہی ٹی وی پروگراموں میں سنتے ہیں۔بعض سیاسی لیڈر ٹی وی ٹاک شو زمیں اس بات کا پاس بھی نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ خواتین بھی بیٹھی ہیں خواہ وہ صحافی تجزیہ نگار ہوں، یا ان کی مخالف جماعت کی خواتین لیڈر ہی کیوں نہ ہوں، وہ اپنے اُسی طُمطُراق،کرو فر، شان و تجمل ،غروراور غضبناک انداز سے غیر شائستہ گفتگو کیا کرتے ہیں بلکہ چلاتے اور دھاڑتے رہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کے ایک لیڈر حمداللہ صاحب کی مثال دی جاسکتی ہے۔ نام اس قدر اچھا اور گفتگو کا اندازماشا ء اللہ ؟ اور بھی کئی مثالیں ہیں ہر ایک کا نام لینے سے بات غیر ضروری طول پکڑجائے گی۔ پریس کانفرنسیز کرنے والے اور ٹی وی ٹاک شوز میں آکر گفتگو کرنے والے سیاسی لیڈروں سے التماس ہے کہ خدا را سنجیدگی سے سوچیں آپ کی بیہودہ گفتگو سے وقتی طور پر آپ کی واہ واہ ضرور ہوجاتی ہوگی لیکن آپ کا بہت ہی خراب امیج لوگوں پر پڑتا ہے۔ جوں ہی آپ اسکرین پر آتے ہیں سننے والے پہلے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ اب کس قسم کی جملے بازی سننے کو ملے گی۔ اپنے پارٹی سربراہ کو خوش کرنے میں اس قدر آگے نہ نکلیں۔آپ کی گفتگو عام لوگ ہی نہیں ، بیرونی دنیا میں دیکھی اور سنی جارہی ہوتی ہے، ہماری آپ کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی سن رہی ہوتی ہیں، ہمارے آپ کے بچے یہ زبان اور یہ گفتگوسن رہے ہوتے ہیں۔ ان سب پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کی خاطر، اپنی نئی نسل کی خاطر اپنی گفتگو میں شائستگی پیدا کریں۔ بیہودہ زبان استعمال کرنے سے گریز کریں اور سیاسی مخالفت میں اخلاقیات کی حدود پار نہ کریں۔(9جنوری2017)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279891 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More