اندھا کشمیری' سنو مین' اور دہشت زدہ گشتابہ

بھارتی فورسز کی پیلٹ فائرنگ سے اتنی بڑی تعداد میں کشمیری آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے کہ ایک '' کشمیری سنو مین'' بھی اندھا ہونے کی وجہ سے عینک پہنے ہوئے ہے۔وفد میں شامل ایک ساتھی نے میزبانوں سے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات تو بہت زیادہ خراب ہیں،اخبارات میں تو اتنا نہیں آتا ۔میزبان اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہے۔وازوان میں شامل گشتابے کا سائیز معمول سے بہت چھوٹا تھا،ہمارے ایک ساتھی نے دورے کے میزبان کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہاںجبر وپابندی کا ایسا ماحول دیکھا کہ ہمارا گشتابہ بھی، جو سائیز میں بہت بڑا ہوتا تھا ،خوف و دہشت سے سکڑ کراتنا چھوٹا سا رہ گیاہے۔
کئی ماہ کی طویل خشک سالی کے بعدمقبوضہ کشمیر میں شدید برفباری ہوئی ہے۔سخت سردی اور بجلی نہ ہونے کے باوجود کشمیری سالہا سال بعد ہونے والی شدید برف باری سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھاری برفباری سے لطف انداز ہوتے ہوئے کشمیریوں نے برف سے مختلف چیزیں تیار کیں جن میں سماوار،کانگڑی،برفانی ریچھ، برف کی جلتی ہوئی شمع اور مختلف انداز کے 'سنو مین' تیار کئے گئے۔ان میں آزادی کے نعرے کے ساتھ پاکستان اور آزاد کشمیر کے چھنڈوں والے 'سنو مین' بھی شامل ہیں۔برف سے بنی ان اشکال میں سب سے نمایاں کشمیری چوغہ، فیرن پہنے ،حقے اور کانگڑی کے ساتھ بنایا گیا 'سنو مین' ہے۔اس کشمیری سنو مین نے رنگین عینک بھی پہنی ہوئی ہے ،جو اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بھارتی مظالم سے کشمیری انسان ہی نہیں بلکہ کشمیری سنو مین بھی اندھا ہو چکا ہے۔بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں پانچ مہینے کی شاندار عوامی جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کشمیری برفباری کے موسم سے لطف انداوز ہو رہے ہیں۔بھارتی فورسز کی پیلٹ فائرنگ سے اتنی بڑی تعداد میں کشمیری آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے کہ ایک '' کشمیری سنو مین'' بھی اندھا ہونے کی وجہ سے عینک پہنے ہوئے ہے۔
یہ2004ء کی بات ہے کہ جب یہاں سے ایک کشمیری وفد نے دہلی ،جموں اور سرینگر کا دورہ کیا۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں مفتی سعید وزیر اعلی تھے۔وفد جموں سے ہوائی جہاز کے ذریعے سرینگر ایئر پورٹ پہنچا تو اچانک تیز بارش شروع ہوگئی۔ایئر پورٹ پر ہی معلوم ہوا کہ مقبوضہ کشمیر میں پانچ ماہ کے بعد بارش ہوئی ہے۔ایئر پورٹ لائونچ میں وفد کے سب ارکان کو ' غیر ملکی'باشندوں' والے کارڈ 'فل اپ' کرنے کو دیئے گئے۔میں نے وفد کے کئی ارکان کے فارم بھرے لیکن جان بوجھ کر اپنا فارم نہیں بھرا۔ایک متعلقہ اہلکار نے آوازلگائی کہ ایک فارم کم ہے لیکن میں پھر بھی خاموش رہا۔اس پر اہلکاران نے وفد کے ارکان کے فہرست اور کارڈ چیک کرنے کے بعد آواز لگائی کہ '' اطہر مسعود وانی کا کارڈ نہیں ہے''۔نام پکارنے پر میں نے متعلقہ اہلکاران کو کہا کہ یہ کارڈ تو غیر ملکی باشندوں کے لئے ہے،میں تو کشمیری ہوں اور اپنے آبائی علاقے میں آیا ہوں،میں کس طرح غیر ملکی باشندہ ہو سکتا ہوں۔اس پر متعلقہ افسر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ''آپ یہاں کس پاسپورٹ پر آئے ہیں؟''،میں نے جواب دیا کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر۔اس پر اس افسر نے پھر مسکراتے ہوئے کہا کہ '' پھر تو آپ غیر ملکی ہو گئے ناں''۔میں نے جواب دیا کہ یہاں کشمیر میں سابق ڈوگرہ حکومت کے جس قانون کے مطابق باشندہ ریاست جموں و کشمیر کا سرٹیفیکیٹ جاری ہوتا ہے،اسی قانون کے مطابق آزاد کشمیر میں جاری کردہ باشندہ ریاست کا سرٹیفیکیٹ میرے پاس بھی موجود ہے،تو پھر میں کس طرح کشمیر میں غیر ملکی ہو سکتا ہوں۔اس پر افسر نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ آپ کشمیری ہیں اور اپنے وطن میں آئے ہیں لیکن آپ یہ فارم بھرے بغیر ایئر پورٹ سے باہر نہیں جا سکتے۔میں نے کہا کہ یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن میں اپنا احتجاج سامنے لانا چاہتا تھا کہ مجھے اپنے وطن میں غیر ملکی تو نہ کہا جائے۔

شدید بارش میںدو کوسٹر گاڑیوں میں سوا ر چرار شریف سے ہو کر بلیوارڈ روڈ پر واقع ویکلم ہوٹل پہنچے،سامان رکھ کر ہوٹل سے باہر آئے اور تیز بارش میں چھوٹی کشتیوں(شکارے) میں سوار ہو کر ایک ہائوس بورڈ میں داخل ہوئے جہاں ہمارے لئے رات کے کھانے کا انتظام تھا۔طوفانی بارش میں کشمیری پکوانوں والے اس کھانے کا لطف آج بھی یاد آتا ہے۔اگلے دن سرینگر میں واقع مختلف درگاہوں کے دورے کے بعد شام کے وقت وزیر اعلی مفتی سعید کی سرکاری رہائش گاہ پہنچے ۔ان دنوں ابھی سرینگر مظفر آباد بس سروس شروع نہیں ہوئی تھی۔مفتی سعید نے بس سروس شروع کرنے کے علاوہ دیگر موضوعات پر زیادہ بات نہیں کی۔ہمارا وادی کشمیر کا دورہ محض دو دن کا تھا جبکہ ہم زیادہ سے زیادہ وقت وہاں رہنا چاہتے تھے۔مفتی سعید نے ہمارے میزبانوں سے پوچھا کہ انہیں کہاں کہاں لے کر گئے ہیں اور گلمرگ سمیت مختلف سیاحتی مقامات کے نام لیکر کہا کہ انہیں وہاں بھی لے کر جائیں۔ہم نے کہا کہ ہمارا یہ دورہ تو صرف دو دن کا ہے اور ہم اپنے رشتہ داروں سے بھی ملنا چاہتے ہیں۔وزیر اعلی مفتی سعید نے کہا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں اور ساتھ ہی اپنے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وفد کے ارکان کو مزید ایک ہفتے تک رہنے کی اجازت دلانے کے لئے(بھارتی حکام سے) رابطہ کیا جائے۔ہم سب خوش ہوئے کہ اب ایک ہفتہ رہنے کا موقع ملے گا۔اگلے دن صبح سویرے اطلاع ملی کہ بھارتی حکام نے مزید رہنے کی درخواست مسترد کر دی ہے اور پروگرام کے مطابق پرسوں صبح وفد نے واپس دہلی روانہ ہونا ہے۔اس خبر سے سب کے دل اداس ہو گئے۔ہم نے اپنے میزبانوں سے دریافت کیا کہ کیا مقبوضہ کشمیرکے وزیر اعلی کی اتنی بھی حیثیت نہیں کہ وہ ہمارے قیام میں چند دنوں کا اضافہ کرا سکے؟اس دن رشتہ داروں سے ملنے کے لئے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے لئے ہمیں چند گھنٹے عنایت کئے گئے۔شام کو واپسی ہوئی تو یہ سوچ کر افسردہ ہوئے کہ اگلی صبح ہمیں وادی کشمیر کو چھوڑ کر چلے جانا ہے۔رات کو ایک جگہ وازوان(کشمیری کھانوں) کی دعوت تھی۔دعوت میں بھی ہماری طرف سے اس بات پر احتجاج کیا گیا کہ وزیر اعلی کی یقین دہانی کے باوجود ہمارے قیام میں توسیع نہیں کی گئی ہے۔وفد میں شامل ایک ساتھی نے میزبانوں سے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات تو بہت زیادہ خراب ہیں،اخبارات میں تو اتنا نہیں آتا ۔میزبان اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہے۔وازوان میں شامل گشتابے کا سائیز معمول سے بہت چھوٹا تھا،ہمارے ایک ساتھی نے دورے کے میزبان کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہاںجبر وپابندی کا ایسا ماحول دیکھا کہ ہمارا گشتابہ بھی، جو سائیز میں بہت بڑا ہوتا تھا ،خوف و دہشت سے سکڑ کراتنا چھوٹا سا رہ گیاہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 700457 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More