امریکی آقاؤں کے عالمِ خوف میں مبتلاپاکستانی قوم کی اپنے خُوب سے خُوب ترکی تلاش..؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
آج کافی عرصے بعد موضوع کے اعتبار سے کالم
لکھتے ہوئے ایک اجنبی سے خُوف کا احساس ہواہے ایسا احساس جو کبھی کبھی ہر
کالم نگاراور لکھاری کو ہوتا ہے مگر پھر بھی لکھاری کسی خُوف کو خاطر میں
نہ لاتے ہوئے وہ سب کچھ لکھ ہی دیتا ہے جو وہ لکھنا چاہتاہے سومیں بھی کسی
خُوف کی پرواہ کئے بغیراگلی سطورمیں وہ سب کچھ سچ لکھنے کی کوشش کروں گا جو
اکثر لکھاری ڈرتے ڈرتے ہی سہی مگر سچ ضرور لکھ دیتے ہیں۔
عرض یہ ہے کہ آج میری پاکستانی قوم کو یہ بات ہرحال میں تسلیم کرنی پڑے گی
کہ ہمیں اپنے قیام کے 70سال گزرجانے کے بعد بھی ایسی آزادی نصیب نہیں ہوئی
ہے جس آزادی کے لئے ہم نے اپنا وطن پاکستان بنایا تھا اور اِسی کے ساتھ ہی
ہمیں کھلے ذہن اور وسیع دل کے ساتھ یہ بھی ضرورماننا پڑے گا کہ ہم امریکی
آقاؤں کے خُوف میں مبتلااور اُن کے مفادات کی سازشوں کے شکنجوں میں جکڑے
ہوئے ہیں اور آج ہم نے خود کو امریکی مفادات کے ہاتھوں گروہی رکھاہوا ہے
امریکی جب اور جیسے چاہتے ہیں ہمیں مٹھی بھر چمکیلے ڈالر زدے کر اپنے
مفادات کے خاطراستعمال کرلیتے ہیں اور ہم ہر بار لالچی لڈن پپو بن کر
استعمال ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم اَب تک اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کا
اندازہ نہیں لگا سکے ہیں کہ ہم اگر امریکی آقاؤں کے چُنگل سے نکل جا ئیں یا
آزاد ہوجائیں تو ہم نہ صرف اپنے مُلک اور خطے بلکہ دنیا کے لئے بھی کتنے
کارآمد ہیں حالانکہ ہم بھی بڑے کا م کے اِنسان ہیں مگر ہمیں اپنا وقار اور
اپنی ویلیو کو سمجھنے کا کبھی چانس ہی نہیں ملا ہے۔
آج بھی اگر ہمیں اپنے مُلک اپنی قوم کے لئے کچھ اچھااور بہتر کرنا ہے تو
ہمیں ہر صورت میں امریکی آقاؤں کے خُوف اور اُن کے مفادات کی جنگ اور سازش
سے ضرور جھٹکارہ پانا ہوگا ہم جب تک امریکی آقاؤں کے عالمِ خُوف اور امریکی
ڈالرز کی لالچ میں مبتلارہیں گے تب تک ہماری حیثیت امریکی آقاؤں اور دنیا
کے نزدیک منگتے بھکاریوں جیسی ہی رہے گی۔ اِس سے کسی کو انکار نہ ہو کہ
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں کے اِنسا نوں میں خُوف اور ڈرپنپتا ہے
وہ کبھی بھی اپنی بقا ء و سلامتی سے متعلق آزادی سے فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں
یقینا آ ج 21ویں صدی میں بھی ایسے انگنت مما لک کے بہت سے معاشروں میں ایسے
بھی بے شمار اِنسان اور اِنسانوں کا ہجوم ضرور موجود ہے جو اپنے بارے میں
کوئی بھی اچھایا بُرا فیصلہ خودسے کرنے میں آزادنہیں ہے۔اَب ایسے میں یہاں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا وجہ یا وجوہات ہیں کہ آج کے دورِجدید میں
بھی دورِجاہلیت کی ایسی ظالم روایات کیوں قا ئم ہیں ؟؟جب طاقتور اِنسانوں
کا گروہ اپنے اردگرد کے کمزوراِنسانوں کو اپنے تسلط میں رکھاکرتاتھا آج بھی
اِس گھناؤنی روایت کا جاری رہنا یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ آج کے جدید دور کا
اِنسان بیشک لاکھ یہ دعوے کرلے کہ اِس نے بہت ساری ترقی کرلی ہے اور دورِ
جدید میں داخل ہوکرماضی کی تمام جاہلانہ روایات کو دفن کرچکاہے تو یہ اِس
کا کھراجھوٹ ہے۔کیو نکہ درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہے جس کا آج کا سائنسی
دورکا جدید سوچ سے ہم آہنگ اِنسان دعویٰ کرتاہے بلکہ اصل سچ یہ ہے کہ ابھی
آج کا آسمان پہ کمند ڈالنے والا اِنسان کسی نہ کسی بہانے ظاہر و باطنی لحاظ
سے طاقتور انسانوں کے تسلط سے آزاد نہیں ہواہے یہ آج 21ویں صدی میں بھی کسی
نہ کسی طرح کسی نہ کسی طاقتور ملک یا کسی بھی شکل میں کسی بھی طاقتوراِنسان
کے شکنجے میں جکڑاہوا ہے۔
یہاں راقم الحرف اِس تمہید کے بعد اِس کا اقرار کرنے میں کوئی عار محسوس
نہیں کررہاہے کہ بدقسمتی سے میرے مُلک میرے معاشرے میری تہذیب میری ثقافت
اور میرے اردگرد موجود اِنسانوں میں بھی خُوف اور ڈرکا عنصرکچھ اِس طرح
موجود ہے کہ اِس ڈراور خوف نے ہماری تمام ترصلاحیتوں کو توڑموڑکر اور مسل
کررکھ دیا ہے۔یقینی طور پر ہم پچھلے 70سالوں سے اپنے امریکی آقاؤں کے راعب
اور دبدبے میں پھنسے ہوئے ہیں اوراِسی عالمِ خُوف میں ایسے زندہ ہیں کہ
ہمیں اپنی صلاحیتوں کو پرکھنے اور جانچ نے کا موقعہ ہی کبھی نہیں مل پا یا
ہے کہ ہمیں اندازہ ہوکہ ہم بحیثیت قوم اپنے مُلک اور خطے اور دنیا میں
قیامِ امن کے لئے کتنے پاورفل اور طاقتورہیں اِس لئے کہ ہمیں کبھی کسی نے
یہ سوچنے اورغوروتفکر کرنے کا توموقعہ ہی نہیں دیا ہے کہ ہم کیا ہیں ؟
ہماری حیثیت کیا ہے ؟اور ہماری اپنے خطے اور دنیا میں کیا اہمیت ہے؟؟ بلکہ
ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور بعض اداروں کے سربراہان نے تواپنے سیاسی
اور ذاتی مفادات کے خاطر دیدہ دانستہ ساری پاکستانی قوم کو اپنے امریکی
آقاؤں کے شکنجے میں جکڑے رہناپسندکیا یہی وجہ ہے کہ اِن ہی میں سے بہت سوں
نے اپنے آقا کے خوف کی وجہ سے نہ صرف خود کو اُس کے زیرطا بع کئے رکھاتوکسی
نے کبھی کسی کی پتھر کے دور میں دھکیلی جانے والی ایک دھمکی آمیز فون کال
کے خُوف کی وجہ سے ساری قوم کو دیدہ دانستہکسی کی جنگ میں جھونک کر مُلک
اور قوم کا ستیاناس کرنے کا سامان پیداکردیا۔ آج بھی میرامُلک اور میری قوم
اور میرے حکمران ، سیاستدان اور اداروں کے سربراہان امریکی آقاؤں کے خُوف
میں مبتلاہیں اور ہم اِن سے ایسے خُوف زدہ ہیں کہ اِن امریکی آقاؤں کے
نزدیک ہماری حیثیت سوائے سانس لیتی اور چلتی پھرتی زندہ لاش کے کچھ بھی
نہیں ہے ۔
آج میری پاکستانی قوم کا عالمِ خُوف میں زندہ رہنا خود کسی کرشمہ سے کم
نہیں ہے،اور اِس پہ سونے پہ سُہاگہ یہ کہ ہم پھر بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
ہم آزاد ہیں نہ صرف یہ کہ ہم خود کو آزاد اور خود مختار قوم ہونے کے
دعویدار ہیں بلکہ ہم یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اپنے بہتر اور تاب ناک
مستقبل کے لئے بھی گوشاں ہیں اور خُوب سے خُوف تر کی تلاش میں ہیں ۔اَب
ایسے میں سوچیں بھلا کہ ہم کیسے آزاد ہیں ؟؟ جب ہماری سوچ اور قول و فعل پر
امریکی آقاؤں کے خُوف کا پہراہے،ہم اِن کی سوچ سے ہٹ کر اپنے اچھے بُرے
فیصلے نہیں کرسکتے ہیں اور تو اورہم اِ ن کی مرضی کے بغیراپنے زندہ رہنے کے
لئے ہل بھی نہیں سکتے ہیں تو پھر ہماری قوم امریکی آقاؤں کے عالمِ خُوف میں
مبتلارہ کر کیسے؟؟ اپنے خُوب سے خُوب ترمستقبل کی تلاش میں اپنی منزلِ
مقصود کا تعین کرسکتی ہے؟؟(ختم شُد)
|
|