بھارتی سازش....ہوشیارباش

بھارت میں ان دنوں تین درجن سے زائدعلیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اوربعض ریاستوں میں توعملی طورپرعلیحدگی پسندوں کااس قدرغلبہ ہے کہ وہاں کے باسیوں کے انتظام انصرام کیلئے باقاعدہ ٹیکس کانظام بھی انہوں نے جاری کر رکھاہے اوربھارتی پولیس اورفوج وہاں جانے سے نہ صرف گریزاں ہے بلکہ بعض اوقات وہاں سے گزرنے کیلئے انہیں بھاری رقوم کی ادائیگی بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام کمزوریوں کے باوجودمسئلہ کشمیرنے برہمن سامراج اوراس کی ظالمانہ فورسزکی رات کی نیندیں بھی حرام کررکھی ہیں ۔کشمیرمیں ہونے والی جدوجہدآزادیٔ کی گونج اب مغربی دنیااور خوداس کے نئے رفیق کار امریکاکوبھی پریشان کررہی ہے اوروہاں کے سیاسی بزرجمہراس مسئلے کوآئندہ کی عالمی ایٹمی جنگ کاپیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی دباؤ کودیکھتے ہوئے اب بھارت کشمیرکی مسلمان آبادی کواقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے نت نئی سازشوں کاجال بچھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان سے فرار ہونے والے ہندوؤں کوکشمیرمیں بسانے کیلئے کشمیرکی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے آبادکرنے کے عملی اقدامات شروع کرچکاہے۔

اس حوالے سے شہریت کاطریقہ کارکوآسان بنایاجارہاہے۔گزشتہ دنوں بھارتی وزارتِ داخلہ کے ایک افسرنے نئی دہلی میں بتایاکہ پاکستان میں موجوداقلیتیں بھارت میں طویل عرصہ قیام کرنے ،جائیدادیں خریدنے،بینک اکاؤنٹ کھلوانے اورمستقل اکاؤنٹ نمبررکھنے کی اہل ہوں گی جبکہ انہیں ادھارکارڈ بھی جاری کئے جائیں گے،وہ بھارت میں نوکریاں اور کاروباربھی کرسکیں گی۔ بھارتی افسرکے بقول دوسال تک آٹھ اضلاع کے کلکٹراورضلعی مجسٹریٹوں کے پاس کم فیس جمع پرشہریت دینے کااختیارہوگا۔ان میں راجپور، احمد آباد،گاندھی،بھوپال، نگر،راجکوٹ ،کچھ ،پتن (گجرات) (مدھیہ پردیش)ناگپور،ممبئی،پونے، اندور
تھانے (مہاراشٹر)مغربی اورجنوبی دہلی،جودھ پور،جیسکرجے پوراورلکھنو شامل ہیں۔بھارتی افسرکے بقول ابھی یہ ایک منصوبہ ہے ،جس پرمشاورت ہونا باقی ہے جبکہ عوام سے اس حوالے سے تجاویزپیش کرنے کی اپیل بھی کی گئی ہے ۔اس وقت بھارت میں دولاکھ سے زائد ایسے ہندواورسکھ باشندے قیام پذیرہیں جوبوجوہ پاکستان ، افغانستان اوربنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے آئے ہیں جبکہ بھارتی پروپیگنڈے سے ہر سال پانچ ہزار ہندواپنے علاقے چھوڑکر بیوی بچوں اوراہل خانہ سمیت بھارت منتقل ہورہے ہیں جہاں انہیں نفرت انگیزاورتیسرے درجے کے فردکے سلوک کاسامناہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں ایسے ہی افرادکوسکونتی سرٹیفکیٹ جاری کرنے شروع کردیئے گئے ہیں جس پرتمام کشمیری رہنماء شدیدسراپااحتجاج ہیں۔

اس وقت بھارت میں بالخصوص بی جے پی کی موجودہ مودی سرکارکے دورمیں مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اوردوسری اقلیتوں کی جودرگت بن رہی ہے اور حکومتی سرپرستی میں انہیں جس طرح جبری ہندوبنایاجارہاہے ،اس کے پیش نظر بھارت کے سیکولرچہرے اورآہنساکے پرچارکی مکمل قلعی کھل چکی ہے جبکہ اقوام عالم کواسی حوالے سے انتہاء پسندجنونی ہندوؤں کی نمائندہ مودی سرکارکے ہاتھوں علاقائی اورعالمی امن کوسخت خطرات لاحق نظر آتے ہیں،اس لئے عملاً ہندوریاست میں تبدیل ہوتے بھارت میں کوئی اقلیت وہاں مستقل رہائش اورشہریت حاصل کرنے کارسک لینے کی روادارنہیں ہوسکتی۔ یہ صرف اقلیتوں کے حوالے سے پاکستان کوبدنام کرنے کی نئی چال توہوسکتی ہے مگر اس منصوبے میں اقلیتوں ہندوؤں کی فلاح کی سوچ کاتصوربھی بعیدازقیاس ہے۔ بھارت میں مسلم سکھ عیسائی اقلیتیں توکجا نچلی ذات کے دلت ہندوؤں کابھی جنونی برہمنوں اورکھتریوں کے ہاتھوں جینادوبھرہوچکاہے۔ مغربی دنیاکوشاید بھارت میں مسلمان اقلیتوں کوجبری ہندوبنانے پرزیادہ تشویش لاحق نہیں ہوئی ہوگی مگرعیسائیوں کوجبری ہندوبنانے کے بھارتی اقدامات نے مغرب کودہلاکررکھ دیاہے اوراسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قراردیکربھارت پرہندو انتہاء پسندی کے رحجان کوروکنے کیلئے دباؤ ڈالاجا رہاہے جبکہ بھارت پاکستان کی سالمیت کے خلاف اپنی سازشی منصوبے کے تسلسل میں پاکستان میں ہندواقلیتوں پرمبینہ مظالم کاڈرامہ رچاکرانہیں بھارتی شہریت کاچکمہ دیکرجنونی ہندومعاشرے کے خلاف بڑھنے والے عالمی دباؤکارخ تبدیل کرنے کے منصوبے کوعملی جامہ پہناناچاہتاہے۔

پیپلزپارٹی کے دورِحکومت میں اندرونِ سندھ سے ہندوخاندانوں کی بھارت نقل مکانی کاسلسلہ بھی پاکستان کواقوامِ عالم میں بدنام کرنے کی سازشوں کی بنیاد پرہی شروع ہواتھاجو ایک ہندولڑکی کے اپنی خوشی سے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان سے شادی کرنے کے بعدبھارتی زہریلے پروپیگنڈے کے باعث شروع ہواجبکہ اس کے برعکس پاکستان بالخصوص اندرونِ سندھ آبادہندواقلیتوں کو پاکستانی شہری کی حیثیت سے مساوی حقوق حاصل ہیں حتیٰ کہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی حاصل ہے اوراب ہندومیاں بیوی میں علیحدگی کاقانون بھی بھارت کے فیملی لازکے قالب میں ڈھال کراسے ہندوبرادری کے مذہبی تقاضوں کے مطابق بنادیاگیاہے جس کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل نے باقاعدہ سفارشات مرتب کی تھیں ،اس کے برعکس بھارت میں آج بھی مسلمان اقلیتوں پرمسلم پرسنل لاء کااطلاق نہیں۔اس حوالے سے دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام مولاناسید احمد بخاری نے بھارتی عدالتوں کی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت پر سخت تشویش کابھی اظہارکیاہے جبکہ بھارت میں آباداقلیتوں کی مذہبی آزادی کاسلب کرنا اوربالخصوص مسلمان اقلیتوں کواپنے مذہب کی روشنی میں گائے ذبح کرنے اوراس کاگوشت کھانے کی پاداش میں جنونی ہندوؤں کی جانب سے قتل وغارت گری سے دوچارکرناہندومعاشرے کاوتیرہ بن چکاہے۔

غیرمنقسم برصغیرمیں بھی ہندوانتہاء پسندوں اورساہوکاروں نے مسلمانوں کااسی طرح ناطقہ تنگ کیاہواتھاجس کے ردّ ِ عمل میں مسلمانوں میں اپنے لئے الگ ملک حاصل کرنے کی سوچ پیداہوئی۔اس تناظرمیں دوقومی نظریہ اورنظریہ پاکستان کی بات کی جاتی ہے تویہ نظریہ درحقیقت جنونی ہندوؤں کااپنا تخلیق کردہ ہے جنہوں نے اپنے جابرانہ رویے اور استحصال کے باعث مسلمانوں کو الگ ملک کی تحریک چلانے پرمجبورکیاتھاجبکہ ہندو ذہنیت اس کے بعدبھی تبدیل نہیں ہوئی اورآج بھارت میں مسلمان ہی نہیںدوسری اقلیتوں کا جینابھی دوبھر ہوچکاہے جوبڑھتی ہوئی ہندوانتہاء پسندی سے عاجزآکریاتو مجبوراً ہندومذہب قبول کررہے ہیںیاملک چھوڑکردوسرے ممالک میں پناہ لے رہے ہیں جبکہ بھارت میں آبادمسلمان اقلیتیں جن کی تعداداس وقت عملاً٢٤کروڑکے لگ بھگ ہے ۔ہندوانتہاء پسندی خودپرڈھائے جانے والے مظالم اوراپنی مذہبی آزادیاں سلب ہونے کے نتیجے میں بھارت کے اندرپھردوقومی نظریہ کی بنیادرکھ رہی ہے۔ بھارتی اقلیتوں میں پیداہونے والے اضطراب کے باعث جنونی ہندوؤں کی نمائندہ مودی سرکارکوپریشانی لاحق ہوئی ہے اوروہ بھارتی اقلیتوں کے اس اضطراب سے دنیاکی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کی اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کوبھارت کی شہریت دینے اورمقبوضہ کشمیرمیں آبادکرنے کے سازشی منصوبے پرعمل کر رہی ہے تاکہ وہاں کی مسلم آبادی کی اکثریت کے مقابلے میں ہندوؤں کی تعداد بڑھائی جاسکے،جس پر حریت رہنماء شدید سراپااحتجاج ہیں اورعین ممکن ہے کہ یہ معاملہ مزیدشدت اختیار کرکے ایک اوربڑی تحریک کاسبب بن جائے جو بھارت کے تمام سازشی اورظالمانہ منصوبوں کوہمالیہ کے کوہستانوں میں دفن کر دیں۔

اگربھارت میں اقلیتوں کوہندوؤں جیسے حقوق اورمکمل مذہبی آزادی حاصل ہوتی تویہ اقلیتیں مختلف ایشوزپرمودی سرکارکے خلاف سراپااحتجاج بنی کیوں نظر آتیں اس وقت اگر بھارت کے اندرسے ہی کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے آوازاٹھ رہی ہے اورارون دھتی جیسی ہندوبھارتی دانشور بھی کشمیرپر بھارتی تسلط کے خلاف بھارت سرکارکوآئینہ دکھا رہی ہیں جبکہ بھارتی اقلیتوں کوجبری ہندوبنانے اورہندوانتہاء پسندتنظیموں آرایس ایس اورشیوسیناکے مسلمان اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے ردّ ِ عمل میں بھارتی سابق فوجی افسر احتجاجاًاپنے قومی اعزازات واپس کررہے ہیں اوراسی طرح بھارتی دانشورفنکاراورکھلاڑی بھی بھارت سرکارکواپنااحتجاج ریکارڈ کرارہے ہیںتویہ ان کے ہندوانتہاء پسندی سے عاجز آنے ہی کی دلیل ہے، اس کے برعکس پاکستان میں آبادسکھوں، عیسائیوں اورہندوؤں کوبطورشہری تمام حقوق اورانہیں مذہبی آزادی بھی حاصل ہے چنانچہ وہ بیساکھی ، دیوالی اورہولی کے تہوار مذہبی جوش وخروش سے پوری آزادی کے ساتھ مناتے ہیں اورہمارے حکمرانوں سمیت مختلف طبقات زندگی کے نمائندگان پاکستانی اقلیتو ں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ان کے مذہبی تہواروں میں خودشریک ہوتے ہیںجبکہ باباگورونانک کے سالانہ مذہبی اجتماع میں شرکت کیلئے لاہور،ننکانہ صاحب،حسن ابدال اورملک کے دوسرے شہروں میں آنے والے بھارتی سکھ حکومت پاکستان اورانتظامیہ کے خصوصی انتظامات اورپاکستانی شہریوں کے حسن سلوک کی تعریف کرتے ہوئے واپس جاتے ہیں۔

اسی طرح ہندوؤں کے مذہبی تہواروں میں بھی نہ صرف پاکستان کی ہندوبرادری روایتی جوش وجذبے سے شریک ہوتی ہے بلکہ بھارت اوردوسرے ممالک سے بھی مکمل رعایت اورسہولتوں کے ساتھ ہندومرد اور عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان آکریہاں ہندوبرادری کی خوشیوں میں شریک ہوتی ہیں جبکہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور تزئین و آرائش کی ذمہ داریاں بھی متروک وقف املاک کے زیر انتظام بحسن وخوبی ادا کی جارہی ہیں۔اس کے برعکس بھارت میں مسلمان،سکھ اورعیسائی اقلیتیں توکجا ان کی مساجد،گرجا گھر گوردوارے بھی محفوظ نہیں جہاں جنونی ہندو آئے روزبھارتی اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلتے نظرآتے ہیں۔

اقلیتوں پرمظالم کے حوالے سے بھارت کایہ بھیانک چہرہ آج پوری دنیامیں بے نقاب ہورہاہے تووہاں نقل مکانی کرکے آنے والی دوسرے ممالک بالخصوص پاکستانی اقلیتوں کو بھارتی شہریت دینے کے نئے ڈرامے پربھلاکس کویقین آئے گاتاہم ہمارے دفترخارجہ کواس معاملہ پرخاموش نہیں بیٹھناچاہئے اور اقلیتوں پرمظالم کے حوالے سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیلئے تیارکی گئی اس نئی بھارتی سازش کابھی مؤثر توڑکرنا چاہئے ۔ ہندو بنیا توبہرصورت اپنے شروع دن کے ایجنڈے کے مطابق پاکستان کوچین سے نہ بیٹھنے دینے کی پالیسی پر گامزن ہے،ہمیں اس کی سازشوں سے غافل نہیں رہناچاہئے۔

۱۹۴۷ء کی میں ہندوستان کی تقسیم کے بعدبھارت کے ہندولیڈروں نے وقتی طورپر اقلیتوں کی ہمدردیاں لینے کی خاطرنعرہ لگایاتھاکہ بھارت کاکوئی سرکاری مذہب نہیں ہوگا،یہ ایک سیکولرریاست ہوگی جہاں ہندومسلمان عیسائی سکھ اوردیگر مذاہب کے ماننے والوں کویکساں حقوق حاصل ہوں گے۔اپنے اس دعوے اور نعرے کوسچ ثابت کرنے کی خاطرآئین میں بھی بھارت کوسیکولرریاست قراردے دیا گیا لیکن عملی طورپرسب اس کے الٹ ہوااورمسلمانوں اوردیگر اقلیتوں کومتعصب ہندوؤں کی طرف سے روزِ اوّل سے ہی امتیازی سلوک کاسامناکرنا پڑ رہاہے۔

معروف صحافی اورادیب خشونت سنگھ نے اپنی کتاب''دی اینڈآف انڈیا''میں کہا تھا :بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے،پاکستان یادنیاکوکوئی بھی ملک بھارت کو تباہ نہیں کرے گابلکہ یہ اپنے آپ ہی تعصبانہ روّیوں کی بدولت خودکشی کا ارتکاب کرے گا۔ڈاکٹرامبیدکرجوبھارت کے آئین کے معمارہیں ،ہندو ہونے کے باوجودکہتے تھے کہ میں ہندو کی حیثیت سے پیداتوہوگیا،اس لئے کہ پیدائش پر میرابس نہیں چلتاتھامگرمیں ہندوکی حیثیت سے ہرگزمرنانہیں چاہوں گا چنانچہ وہ زندگی کے آخری دورمیں بدھ مت کے پیروکار ہو گئے تھے۔معروف بھارتی مصنفہ دانشورارون دھتی رائے نے ۲۳دسمبر۲۰۱۵ء کو ممبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:''بھارت میں تمام اقلیتیں انتہائی خوف کے عالم میں رہ رہی ہیں ا ورتشدد پسندی کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویوں کوعدم رواداری کے چھوٹے سے نام میں نہیں سمویاجا سکتا۔ہندومذہب میں عدم برداشت بہت ہے ،اسی وجہ سے تو بھارتی آئین کے معمارامبیدکرہندو مت چھوڑکربدھ مت اختیارکر لیاتھا''۔

بھارت کی ممتازصحافی تلوین سنگھ کہتی ہیں:''بھارت میں جس حساب سے اقلیتوں پرظلم ہورہاہے،اس تعصبانہ رویے کے بعدملک کوٹکڑوں میں بٹ جانے سے کوئی نہیں روک سکے گا''۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390337 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.