نئے سال میں غروب آفتاب کے بعد کی مختصر
شفق کی مانند براک اوبامہ کا سورج ۲۰ دن بعدہمیشہ کیلئے ڈھل جائیگا۔ سلامتی
کونسل میں فلسطین کے اندر یہودی آباد کاری کے خلاف حالیہ قرارداد کی منظور
ی اور اس کے بعد جان کیری کی تقریر دراصل چراغ کے بجھنے سے قبل اس کا
بھڑکنا ہے جس نے نتن یاہو کی نیند تو اڑا دی مگر اب اس کا کچھ حاصل نہیں ہے۔
فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف سلامتی کونسل میں اس سے قبل
مختلف نوعیت کی ۱۰ قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز ۱۹۶۷
میں ہوا جب جنگ میں قبضہ کئے جانے والے بعض مقامات کو متنازع قرار دیتے
ہوئے فلسطینی علاقوں سے اسرائیل سے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔
۱۹۷۳ کی اسرائیل اور عرب جنگ کے بعد جنگ بندی پر قائم رہنے پر زور دیا
گیااور ۱۹۷۹ میں بیت المقدس اور فلسطین کےدوسرے شہروں میں یہودی بستیوں کی
تعمیر کی مذمت کی گئی۔ اس قرارداد میں بھی یہودی بستیوں کی تعمیر فوری
روکنے کا اصرار تھا۔اسی سال ایک اور قراداد منظور کی گئی جس میں واضح کیا
گیا کہ فلسطینی عرب شہروں میں اسرائیلی بستیاں عالمی قوانین کی خلاف ورزی
ہیں ۔ اس قرارداد میں ۱۹۶۷ تک کے عرب شہروں میں یہودی آباد کاری فوری
روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی یہی صورتحال تھی کہ چودہ ممالک نے
اس قرارداد کی مخالفت کی تھی اور تنہا امریکہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں
لیا تھا۔ براک اوبامہ کے دورِ اقتدار میں ۲۰۱۱ کے اندر سلامتی کونسل میں
فلسطین کے خلاف جو ویٹو کا استعمال کیا گیاتھا جاتے جاتے گویا اس کا کفارہ
ادا کردیا۔
صدر اوبامہ اپنے دورِ اقتدار میں فلسطین کا تو کوئی خاص فائدہ نہ کرسکے
لیکن اسرائیل کیلئے وقتاً فوقتاً مسائل پیدا کرتے رہےیہی وجہ ہے کہ جان
کیری کے حالیہ بیان کے بعد اسرائیل نے صاف کہا کہ امریکی انتظامیہ فلسطین
نواز ہے اور وہ نئے صدر کیلئے مسائل پیدا کررہا ہے۔ نتن یاہو کے ساتھ براک
اوبامہ کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے۔نائب صدر جو بیڈن نے یہودی آبادکاری کے
خلاف یاہو سے ملاقات میں ایک گھنٹہ تاخیر کرکے اسے تل ابیب میں رسوا کیا
اوراسی مسئلہ پر ہیلری کلنٹن نے ۴۳ منٹ تک نتن یاہو کو پھٹکار سنائی جس کے
بعد اسرائیل نے رجوع کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ نتن یاہو نے اوبامہ کے دوسرے
الیکشن میں مٹ رومنی کی کھل کر حمایت کی اس کے باوجود ۷۰ فیصد یہودیوں نے
اوبامہ کو ووٹ دیا۔
اسرائیل کیلئے اوبامہ کااسرائیل سے پہلے سعودی عرب اور مصر کا دورہ ناگوار
تھا۔ مصر سے مسلم دنیا کے خطاب کا مسودہ حاصل کرنے کی اسرائیل کی ساری کوشش
ناکام ہوگئی ۔عرب بہار کی حمایت سے بھی اسرائیل بہت ناراض ہوا لیکن اسرائیل
کی سب سے بڑی ناراضگی امریکہ کے ایران کے تئیں پالیسی کو لے کر تھی ۔
اسرائیل جو آئے دن ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے اسے تباہ کرنے کی
بات کرتا تھا اس کا خاتمہ ہوگیا۔ ایران سے جوہری معاہدہ اور معاشی پابندیوں
کا خاتمہ نے اسرائیل کو چراغ پا کردیا ۔ اس میں شک نہیں کہ انتخابی
مجبوریوں نے اوبامہ کو اسرائیل کی حمایت پر بھی مجبور کیا مثلاً دوسری
مرتبہ انتخاب سے قبل آئی پی سی آر کے اجلاس میں اعلان کہ وہ ۱۹۶۷ کی
سرحد کے نہیں ہیں بلکہ ایک نئی سرحد کے حامی ہیں جو زمینوں کی باہمی تبادلہ
سے بنے ۔ دوسرےانتخاب کے بعد اسرائیل کا دورہ اور ترکی کے ساتھ اس کے
تعلقات بحال کرانا نیز اس انتخاب سے قبل اسرائیل کی سب سے بڑی فوجی امداد
کا اعلان وغیرہ ۔
سلامتی کونسل کی حالیہ قرارداد سے قبل اس سال دو مرتبہ اقوام متحدہ کے
ادارہ برائے سائنس وثقافت ’’یونیسکو‘‘نے بیت المقدس، القدس کی پرانی
دیواروں اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں اسرائیل اور یہودیوں کی مذہبی اصطلاحات
مسترد کردیا ۔ یونیسکو کے اجلاس میں مسجد اقصیٰ کی جگہ ’’ہیکل سلیمانی‘‘
اور ’’جبل ہیکل‘‘ کی اسرائیلی اصطلاح کے خلاف ایک قرارداد کی حمایت میں ۱۰
اور مخالفت میں دو ممالک نے رائے دی۔ صہیونی ریاست القدس اور قبلہ اول مسجد
اقصیٰ پراپنے مذہبی دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اپنی مخصوص مذہبی اصطلاحات سے
یاد کرتی ہے۔ بیت المقدس کو ’یروشلم‘، مسجد اقصیٰ کو ’’جبل ہیکل‘ اور دیوار
براق کو ’دیوار گریہ‘ کہا جاتا ہے۔ یونیسکو میں یکے بعد دیگرے دوقرادادوں
کی منظوری صہیونی ریاست کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ تھا۔
’’یونیسکو‘‘ نے اپنے تاریخی فیصلے میں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو
مسلمانوں کی ملکیت قرار دیتے ہوئے ان مقامات پر یہودیوں کا دعویٰ باطل قرار
دیا ۔ ۱۹۸۰ میں سلامتی کونسل نےبیت المقدس کا نقشہ تبدیل کرنے کی سازشوں
کی مذمت کی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ طاقت کے ذریعے فلسطینی علاقوں
پر قبضہ ناجائز ہے۔ قرارداد میں القدس میں موجود مقدس مقامات کا دینی اور
روحانی تقدس قائم رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل میں تو
خیر امریکہ نے ووٹ نہیں دیا تھا مگر یونیسکو میں دونوں مرتبہ اس نے اسرائیل
کی حمایت کی اس کے باوجود بھاری اکثریت سے قرارداد منظور ہوجانا اس بات کا
ثبوت ہے کہ دن بہ دن عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہوتی جارہی ہے ۔
اس بار اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی تجویز اسی مصر کی جانب سے آئی
جہاں سے اوبامہ نے سب سے پہلے مسلم دنیا سے تعلقات کے ایک نئے دور کے آغاز
کی صدا لگائی تھی اور اگر وہ اسی طرح منظور ہوجاتی تو گویا ایک دائرہ مکمل
ہوجاتا لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ یہ معاملہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی
کی عزت افزائی کے بجائے ان کی رسوائی کا سبب بن گیا۔ السیسی نے اسرائیل اور
ٹرمپ کے دباو میں قرارداد ملتوی کرنے کی درخواست کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی
مارلی اور ساری دنیا پر ظاہر کردیا کہ ان کی وفاداری کس کے ساتھ ہے۔ نیوزی
لینڈ ، ملیشیا اور سنیگال نے تجویز پیش کردی ۔اس پر اسرائیل اس قدر جزبز
ہوا کہ اس نے نیوزی لینڈ کے سفیر کو طلب کرلیا اس پر وزیرخارجہ مورے میک
کلے نے حیرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کے حوالے سے نیوزی
لینڈ کا موقف جگ ظاہر ہے ۔ اسرائیل کو اپنا غصہ اتارنے کیلئے مسکین سنیگال
ملا۔ اس نےسنیگال کے وزیرخارجہ کا دورہ منسوخ کردیا اور اس کو دی جانے والی
مدد روک دی جبکہ امریکہ کے علاوہ سارے ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی ۔
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ چونکہ ویٹو کے حامی ہیں اور کہہ چکے ہیں
کہ ’’اسرائیل کو بےعزت اور بےقدر کرنے کے طریقہ کار کو جاری رکھنے کی اجازت
نہیں دے سکتے ہیں‘‘اس لئے نتن یاہو کا خیال ہے ان کے اقتدار سنبھالتے ہی
سارے دلدرّ دور ہوجائیں گے اور اچھے دن آجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ نتن
یاہو کے خلاف خود حکومتِ اسرائیل کی ایک رپورٹ ذرائع ابلاغ میں منکشف ہوگئی
جس نے یاہو کی نیند حرام کررکھی ہے۔ اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ کے افشاء
ہونےکو نتن یاہو اور اس کے حواری ایک غیرذمہ دارانہ حرکت قرار دے کر سخت
لعن طعن کررہے ہیں ۔سیاسی جماعت میریٹز کی خاتون سربراہ ہگا گولون کے مطابق
وزیراعظم غزہ جنگ میں ناکامی چھپانے کے لیے اب مخالفین کو تنقید کا بلا
جواز نشانہ بنا رہے ہیں۔عبرانی ٹی وی ۱۰نے رپورٹ کے انکشاف کو سابق
وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین سے جوڑا ہے اس لئے کہ وہ نیتن یاہو اور موشے
یعلون کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہتے ہیں۔
غزہ کی پٹی پر جولائی اور اگست ۲۰۱۴کی جنگ پر ’اسٹیٹ کنٹرولر‘ کی رپورٹ نے
سیاسی، حکومتی اورفوجی سطح بھونچال مچادیا ہے۔ اس دستاویز میں غزہ جنگ سے
متعلق حکومت، فوج اور خفیہ اداروں کے گمراہ کن پروپیگنڈے اور من گھڑت دعوؤں
کی قلعی کھول دی گئی ہے ۔ اسٹیٹ کنٹرول کی رپورٹ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کو
شرمناک ہزیمت کا اعتراف کرتی ہے۔ اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ جنگ کے جانی
اور مالی نقصان کی بابت قوم کو گمراہ کیا گیا حتیٰ کہ حقیقی معلومات سے
پارلیمنٹ اور کابینہ کو بھی مطلع نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی اخبار’’یدیعوت
احرونوت‘‘ نے اسے ’’سیاسی ایٹم بم‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اس رپورٹ کے
مطابق جنگ میں فتح وکامرانی سے متعلق سارے دعوے من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ
تھے ۔ حقیقی معنوں میں فلسطینیوں کا جانی نقصان زیاد ہ ہوا مگر یہ جنگ
ہراعتبار سے اسرائیل نے نہیں بلکہ فلسطینیوں نے جیتی تھی ۔
اس سرکاری رپورٹ میں غزہ کی پٹی کے اندرسرنگوں کے بارے میں قوم کو گمراہ
کرنے کا سنگین الزام بھی ہے۔ اول تو اسرائیلی حکومت نے سرنگوں کی موجودگی
کے بارے میں غلط معلومات فراہم کیں۔ دوسرے یہ بے بنیاد دعویٰ کردیاگیا کہ
فلسطینیوں کی زمین دو زسرنگوں کا نیٹ ورک تباہ کردیا گیا۔ جن علاقوں پر
بمباری کی گئی وہ الشجاعیہ کالونی جیسا عام شہری علاقہ تھا جس کو کارپٹ
بمباری کے ذریعہ ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ۔اس کے علاوہ یہ انکشاف بھی ہے
کہ اسرائیلی فوج نے جنگ کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ
اسرائیل اب بھی فلسطینی سرنگوں کے ان دیکھے خوف کا شکار ہےکیونکہ محاذ جنگ
میں اسرائیل کو ان سرنگوں کی مسماری میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں
ہوسکی تھی۔
فلسطینی مبصرین کے مطابق صہیو نی اسٹیٹ کنٹرولرکی رپورٹ کے افشاء ہوجانےکے
بعد اسرائیلی لیڈر شپ کے سامنے تین متبادل موجود ہیں۔ اول تو اسرائیل غزہ
پر جنگ مسلط کرنے کا دعویٰ ترک کرکےسرنگوں کے نفسیاتی خوف سے نکل آئے اور
اعتراف کر لے کہ موجودہ حالات وہ کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ دوسرے
اسرائیل طویل جنگ بندی کا راستہ اختیار کرےاور غزہ کی پٹی پرعائد اقتصادی
پابندیاں ختم کرے۔ غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی کے
لیے حماس کی شرائط تسلیم کرے اور غزہ میں بندرگاہ کے قیام کا مطالبہ
منظورکرلے۔ ویسے اسرائیل کے پاس جنگ کا تیسرا متبادل بھی ہے جوموجودہ حالات
میں خطرناک اور اسرائیل کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
غزہ کے علاوہ مغربی کنارے کے شہروں میں بھی فوجیوں اور غاصب یہودیوں کے
خلاف کی جانے والی انتفاضہ القدس نے صہیونی ذرائع ابلاغ اور اسرائیلی حکومت
کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ اسرائیلی اخبارات یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں
کہ حماس نے غرب اردن میں جنگ کا توازن بدل دیا ہے۔ عبرانی زبان کی مقبول
نیوز ویب سائیٹ’وللا‘ کے مطابق رواں سال میں اب تک غرب اردن کے شہروں میں
یہودی آباد کاروں اور فوجیوں پر بندوق سے فائرنگ کے ۲۶واقعات پیش آچکے
ہیں جن میں ۵ء۳۴فیصد یہودی آباد کار اور ۵ء۵۶ فیصد فوجی نشانہ بنے گزشتہ
سال ۳۹ واقعات رونما ہوئے تھے۔ فلسطین میں جاری اس نئی تحریک انتفاضہ القدس
میں جہاں ۲۵۰فلسطینی شہید اور۱۵۰۰ زخمی ہوئے ہیں وہیں اس تحریک کے مثبت اور
موثر عملی اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔
ایک اسرائیلی جائزے میں انکشاف کیا گیاہے کہ انتفاضہ القدس کے سبب ہرچار
میں سے ایک یہودی فلسطین چھوڑنے پر غور کر رہا ہے۔ سروے کے مطابق ۲۵ فیصد
صہیونیوں کا خیال ہے کہ تحریک انتفاضہ القدس مزید کئی سال جاری رہ سکتی
ہےاور اس دوران سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی اس لیے وہ ملک چھوڑنے پر
غور کررہےہیں۔ اسرائیلی تجزیہ نگار گیدعون لیوی کا کہنا ہے کہ خوف زدہ
یہودی فلسطینی چاقو برداروں کوایسا ٹائم بم سمجھتاہے جو کسی بھی وقت پھٹ
سکتا ہے۔فلسطینی مبصر ڈاکٹر بلال الشوبکی کی رائے میں پچھلے ایک سال کے
دوران تحریک انتفاضہ القدس کسی لیڈرشپ کے بغیر ہی چلتی رہی ہے۔ اگر اس
تحریک کو منظم قیادت میسر آجائے تو اس کے نتائج اور اثرات کہیں زیادہ
ہوسکتے ہیں۔ یہودیوں کی ہجرت سے اسرائیلی رہنماوں کی پریشانی بجا ہے اس لئے
وہ یوروپ وامریکہ سے لے کر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تک میں رہنے بسنے والے
مسلمانوں کی طرح اپنا تشخص برقرار نہیں رکھتے بلکہ مقامی آبادی میں گھل مل
جاتے ہیں ۔
اسرائیلی وزیردفاع لیبرمین نے شہر ایلات میں روسی نژاد لوگوں کو خطاب کرتے
ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا جو چیز مجھے بہت پریشان کرتی ہے وہ
غیر ممالک میں یہودیوں کی یہودیت ہے۔ انہوں نے پی ای ڈبلیو نامی تنظیم کے
۲۰۱۳ میں کئے گئے جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ۲۰ فیصد یہودی امریکہ
میں اپنے آپ کو یہودی نہیں کہتے۔یہودیوں کے اندر غیر یہودیوں سے شادی کرنے
کا اوسط ۵۸ فیصد ہے جبکہ غیر قدامت پسندوں میں یہ تناسب ۷۱ فیصد تک بڑھا
ہوا ہے۔ اب اگر ان کا یہودیت سے ہی تعلق کمزور ہوجائے تو اسرائیلی ریاست سے
کیونکر باقی رہ سکتا ہے۔ لیبر مین کے مطابق اگر توجہ نہیں کی گئی آئندہ
ڈیڑھ نسلوں کے بعد غیر قدامت پسندوں میں کوئی یہودی باقی نہیں بچے گا۔
لیبر مین کے مطابق غیر ممالک میں یہودی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اسرائیل سے باہر رہنے والے یہودیوں نے ملک کو بہت کچھ دیا ہے اب وقت آگیا
ہے کہ وہ ان کو لوٹایا جائے۔ ان کے تشخص کے تحفظ کی خاطر فنڈ مہیا کیاجائے
۔ اس طرح کے خیالات کا اظہار لیبرمین نے ۲۰۱۴ کے اندر وزیرخارجہ کے طور پر
امریکہ میں بھی کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا عالمی یہودیت کے تشخص کو لاحق
خطرہ فلسطین اور ایران سے زیادہ ہے۔ لیبرمین نے اسرائیلی حکومت سے یہودیوں
کیلئے معیاری مدارس کے قیام کی ۵ء۳۶کروڈ ڈالر مختص کرنے کی بھی تجویز پیش
کی تھی اس لئے کہ ان کے خیال میں امریکہ کے اندر یہودی ناپید ہونے کے کگار
پر پہنچ گئے ہیں۔ وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے ۳۵ لاکھ یہودیوں کو
اسرائیل واپس لانے کی بھی ناکام کوشش کی تھی اور اب یہ حال ہے کہ جو آگئے
تھے وہ بھی واپس جانے کیلئے پرتول رہے ہیں ۔ ان رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ
فلسطینی جہاں خارجی مسائل سے نبردآزما ہیں وہیں اسرائیل اپنے داخلی مسائل
سے جوجھ رہا ہے۔
براک اوبامہ کے دادا نے پہلے عیسائیت اور پھر اسلام قبول کرنے کے بعداپنا
نام حسین رکھ لیا تھا ۔ ان کا بیٹا براک سینیر دین حنیف پر تھا مگراس نے
تین شادیاں کیں جن میں سے ایک بیوی مسلمان، ایک عیسائی اور ایک یہودی تھی ۔
امریکی صدربراک ( جونیر) کی تربیت والدہ نے اپنے دین عیسائیت کے مطابق کی
اوروہ عیسائی بن گیا مگر جب اس نے اپنی پہلی سوانح حیات لکھی تو اس کا
عنوان تھا ’’میرے والد کے خواب ‘‘ رکھا۔ دراصل اوبامہ شخصیت اور تعلیم
ومہارت میں والدہ کی بہ نسبت باپ سے زیادہ مشابہ ہے ۔ اس لئے ان کے اندر
مسلمانوں سے بھی تھوڑی بہت انسیت فطری ہے۔ اوبامہ نے اس نعرے کے ساتھ
انتخاب لڑا تھا کہ امریکہ نے عراق میں فاش غلطی کی ہے۔ عراق و افغانستان سے
اپنی فوج کو نکالنے کا وعدہ انہوں نے پورا کیا ۔ یہ اور بات ہے کہ ایسا
کرنا امریکہ حق میں بہتر تھا ورنہ جتنے تابوت امریکہ گئے تھے اس سے کہیں
زیادہ جاتے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اوبامہ نے پاکستان کے اندر ڈرون
حملوں میں اضافہ کیا لیکن اس کی آڑ میں اپنی فوج کا انخلاء کرلیا ۔ اسامہ
بن لادن کے نام پر کسی فرضی آدمی کو ہلاک کرکے دوسری مرتبہ کے انتخاب میں
اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اور معاشی
پابندیوں کا خاتمہ دو ایسے اقدامات تھے جس کی جرأت کم امریکی صدور کرسکتے
تھے۔ ڈیموکریٹ ویسے بھی اسرائیل کے لئے نسبتاً سخت گیر ہوتے ہیں لیکن
اوبامہ ان سے زیادہ ہیں لیکن افسوس کے اپنے سیاسی مفادات کے تحت وہ اس بابت
بہت کچھ نہیں کر سکے۔ یہ جمہوری نظام کی ستم ظریفی ہے کہ اس میں امریکہ
جیسی سپر پاور کا صدر بھی حق و انصاف کا کھل کر ساتھ نہیں دے پاتا۔ صدر
براک اوبامہ نے اپنے آخری ایام میں جس دلیری کا مظاہرہ کیا اگروہ ۸ سال یا
کم ازکم ۴ سال پہلے سے کرتے تو وہ تاریخ اپنا نام روشن کرسکتےتھے ۔ اب ان
کو الوادع کہتے ہوئے معمولی تصرف کے ساتھ پروین شاکر کا یہ شعر یاد آتا ہے
؎
چراغِ راہ بُجھا کروہ رہنما بھی گیا
ہَوا کے ساتھ مسافر کا نقشِ پا بھی گیا
|