خود ناشناسی- اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

 راقم الحروف کے ایک دوست جو پیشہ سے ڈاکٹر ہیں چند سال قبل کسی اہم کام کے سلسلے میں بیرون ِملک ہو کر جب واپس لوٹے تو میں بھی ان کی خیر و خبر دریافت کرنے اور سفری حالات و کوائف سے آگاہی کے لئے بصد اشتیاق ان کے گھر گیا۔چنانچہ میں نے جب سفر کا حال و احوال پوچھا تو انہوں نے نہایت ہی اختصار کے ساتھ اپنے سفر کا مدعا و مقصد بیان کیا اور سفر کی تفصیلات میں جانے کے بجائے راقم سے کہا کہ میں نے وہاں سے ایک ایسی چیز لائی ہے کہ جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے اس شئے کا نام بتائے بغیر جب یہ کہا کہ ’’ بلاشبہ میرے ہاتھ ایک ایسا انمول موتی آیا ہے کہ جسے اگر میں حاصل ِ زندگی کہوں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘۔تو راقم کے ساتھ ساتھ کمرے میں بیٹھے ڈاکٹر صاحب کے دیگر احباب و اقارب یہ جاننے کے لئے بے تاب ہوگئے کہ آخر کیا شئے ہو سکتی ہے کہ جسے ڈاکٹر صاحب متاعِ حیات سمجھتے ہیں؟
تھوڑی ہی دیر کے بعدڈاکٹر صاحب بغل والے کمرے میں چلے گئے وہ جب دوبارہ اس کمرے میں داخل ہوئے جس میں ہم بیٹھے تھے تو ان کے ہاتھ میں کتاب نما کوئی چیز تھی۔میں نے اس شئے کا ظاہری ہیولیٰ دیکھتے ہی اٹکل لگائی کہ ہو نہ ہو جدید طب(MODERN MEDICAL SCIENCE)سے متعلق کوئی اہم اور مستند کتاب ہوگی۔لیکن میری یہ اٹکل اسوقت غلط ثابت ہوئی کہ جب وہ میرے دائیں جانب بیٹھ کر وہ حضرت ایک دیدہ زیب ڈائری کے سادہ اور کورے اوراق الٹنے لگا۔جتنی دیر وہ ڈائری کے صاف وشفاف اوراق الٹتا رہا میرے ذہن میں تجسس پیدا ہوا کہ آخر ان سادہ اوراق میں کون سا اﷲ دین کا چراغ پوشیدہ ہے کہ جسے میرا دوست دیوانہ وار ڈھونڈ رہا ہے ۔خیر چند اوراق کی بڑی پھرتی سے الٹ پھیر کے بعد ایک صفحے پر توقف کر کے کہا ہاں!یہی ہے میری زندگی کی عظیم کامیابی! یہ جملہ اس نے اس انداز سے کہا کہ جیسے اس نے موت سے بچاؤ کا کوئی فارمولا ایجاد کیا ہو۔میری حیرانگی کا اس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب میں نے اس صفحے کو بھی باقی صفحوں کی مانند قریب قریب خالی پایا۔البتہ صفحے کے وسط میں چند ایک بے معنی سی الٹی سیدھی لکیریں دکھائی پڑتی تھیں۔مزید استعجاب میں ڈالے بغیرڈاکٹر صاحب نے ہم سے مخاطب ہوکر کہا ’’کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بظاہر معمولی دکھائی دینے والا یہ نقش غیر معمولی کیوں ہے ؟‘‘ہم نے جب نفی میں سر ہلایا تو اس نے بڑے ہی فاخرانہ لہجے میں کہا ’’کہ ایک بین الاقوامی شخصیت کا آٹو گراف ہے۔‘‘توایک اور محضِ گمان بات میرے ذہن میں گردش کرنے لگی کہ شاید میڈیکل سائنس سے وابسطہ کسی بڑے سائنس دان یا ڈاکٹر کے آٹو گراف ہوں گے مگر ایک مرتبہ پھر میرا خیال دھرا کا دھرا رہ گیا جب اس نے کہا کہ یہ آٹو گراف کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کا نہیں بلکہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ایشیائی کرکٹ کھلاڑی کا ہے ۔انہوں نے کرکٹر کا تعارف پیش کیا تو یکایک میرے ذہن میں اسی کرکٹر سے متعلق ایک خبر گونجنے لگی ۔دراصل اُن دنوں اس کرکٹ کھلاڑی کے حوالے سے ایک خبر بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی ہوئی تھی کہ بیرونِ ملک سفر کے دوران مذکورہ کرکٹ کھلاڑی کو نشہ آور اشیاء کی سمگلنگ کے الزام میں دھر لیا گیا ہے ۔

اس پورے واقعے میں قابل استنباط امر یہ ہے کہ جو شخص نشہ آور اشیاء کے ساتھ پکڑا گیا ہو اس کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ سمنگلر ہے یا نشہ کا عادی۔دونوں صورتوں میں وہ ایک ذہنی مریض ہے ۔اور وہ بہر صورت ایک ڈاکٹر کا محتاج ہے ۔اورجب تک وہ اس بیماری سے چھٹکارا نہ پائے کم از کم تب تک وہ ڈاکٹر کے رحم و کرم سے مبرہ نہیں ہو سکتا ہے۔دوسری جانب قابل ِ افسوس بلکہ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ اپنی شخصیت اور پیشہ ورانہ ذمہ داری سے نا آشنا ڈاکٹر ایک ذہنی مریض کا اس قدر وارفتگی کی حد تک عاشق ہو جائے۔کہ وہ اپنے آپ کو اس کے سامنے بہت ہی پست وحقیر سمجھے۔اور اس کے ذہن کے کسی کونے میں یہ خیال گردش کرے کہ کاش وہ ڈاکڑ نہ ہوتا بلکہ اسی کرکٹر کی جگہ ہوتا۔

کردار و اخلاق سے قطع نظر بھی اگر دیکھا جائے تو پیشہ کے اعتبار سے ایک گمنام ڈاکٹر ہر لحاظ سے عالمی شہرت یافتہ کرکٹر سے افضل و ارفع ہے۔کیونکہ اس کا پیشہ ہر دور میں بنی نوع انسان کے لئے ایک ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج سے ستر اسی برس قبل اس کھیل کے بغیر بھی زندگی کا قافلہ رواں دواں تھا ۔جبکہ اُسوقت بھی انسانی قافلے کے درد کا درمان کرنے والا طبیب اپنی خاص اہمیت رکھتا تھا اور آج بھی اس کی قدرو قیمت سے کوئی زندہ یا مردہ انکار نہیں کر سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ کرکٹ ایک کھیل کود ہے جس کی قدرو قیمت حقیقی نہیں بلکہ اعزازی ،اعتباری،وقتی اور طفیلی ہے۔ جبکہ شعبہ طب کا تقدس حقیقی اور پائیدار ہے۔

مذکورہ ڈاکٹر کے احساسِ کمتری کا بنیادی سبب خود ناشناسی ہے۔دوسرے لفظوں میں اسے یہ ا حساس ہی نہیں ہے کہ اس کی پیشہ ورانہ اور منصبی ذمہ داری کس قدر حساس ہے۔اگر اسے واقعاً اس بات کا احساس و ادراک ہوتا تو وہ ہرگزہرگزاس قدر کرکٹ کھلاڑی سے مرعوب نہ ہوتا۔اور اپنے فرضِ منصبی کی جانب سو فی صد مائل ہوتا۔اس کا مقام و مرتبہ جاننے کے لئے اسی شعبے سے تعلق رکھنے والے نوبل انعام یافتہ ایک عظیم سائنس دان الیکس کارل کی معارکتہ الآرا کتاب Man .... the un-known ـ(’’ انسان نامعلوم ‘‘)کی جانب رجوع کرنا پڑے گا۔

اس کتاب کا مرکزِ فکر اور لبِ لباب یہ ہے کہ انسان تین طرح کے علوم میں اپنی ذہانت و ذکاوت صرف کرتا آ رہا ہے اول : علم ِ مادہ دوم:علم نباتات سوم:علم ِحیوانات ۔ان علوم کی نشاندہی کے بعد یہ عظیم سائنسدان لکھتے ہیں کہ’’ بے حس و حرکت جمادات سے تعلق رکھنے والے علوم اور حیاتیاتی علوم کے مابین حیرت انگیز تفاوت ہے۔ چنانچہ فلکیات ،مکینکس(Mechanics) اور طبعیات ان ٹھوس تصورات پر مبنی ہیں کہ جنہیں نہایت ہی جامعیت اور ششتگی کے ساتھ حسابی زبان میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔جبکہ علوم ِحیات کے سلسلے میں ایسی صورت حال ممکن نہیں ہے ۔مظاہرِ حیات کے متعلق تحقیق و تفتیش کرنے والوں کی مثال ان افراد کی سی ہے کہ جو ایسے الجھے ہوئے اور جاد وئی جنگل میں گم کردہ راہ ہیں کہ جس کے بے شمار درخت مسلسل اپنی جگہ اور ظاہری ہیت تبدیل کرتے رہتے ہیں یہ لوگ (حیاتیات کے محقق) حقائق کے انبار تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ وہ ان حقائق کو بیان تو کر سکتے ہیں لیکن وہ الجبرا کے فارمولا کی طرح ان کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔

فی الحقیقت مادے کی ترکیب و بناوٹ کا راز اور اس کی خصوصیات دریافت کر کے ہم نے روئے زمین کی قریب قریب ہر شئے پر قبضۂ تصرف حاصل کیا ہے ما سوائے اپنے آپ کے ۔

لیکن زندہ موجودات کے متعلق علوم کے بارے میں بالعموم اور فردِ بشر کے بارے میں بالخصوص یہ عظیم ترقی حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ انسانی حیات کی تفہیم کے متعلق مختلف قسم کی پیچیدگیوں کا ذکر کرنے کے بعد الیکس کارل اسی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بلا شبہ اس حوالے سے ہماری جہالت نہایت ہی گہری ہے۔

ممکن ہے کہ انسان پہلے دو علوم میں عروج تک پہنچ جائے مگر تیسرے شعبۂ علم یعنی علم الانسان کا مرحلہ نہایت ہی پیچیدہ اور سخت ہے ۔انسان کائنات کو مسخر کرے تو کرے لیکن اس کے لئے اگر کوئی شئے غیر مسخر رہے گی تو وہ خود انسان ہی ہے۔‘‘ ) Man --- The Unknown By Dr. Alexis Carel p. no 15-18)

اس عظیم سائنس داں کی کتاب کے فکر انگیز اقتباسات سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ مادی کائنات کے علوم کی بہ نسبت بنی نوع انسان کا مطالعہ نہایت ہی اہم مگر دشوار گزار وظیفہ ہے ظاہر ہے ایک طبی ماہر اسی اہم اور مشکل وظیفہ کا حامل ہے اور کرکٹر کے وظیفہ سے ہزار گناہ بہترہے ۔مگر کیا کیا جائے کہ یہ حضرت اس احساس سے یکسر نا بلد ہیں۔

اس کا اپنے پیشے کی اہمیت سے نابلد ہونے کے پیچھے کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاید یہ احساسِ خودی سے محروم ہے۔ اور لذتِ خودی سے آشنا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی اس نے ایک مریض کو اپنا آئیڈئل قرار دیا ہے۔ یہاں پر یہ بات واضع کرنا نہایت ہی ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں تنہاء یہ ڈاکٹر ہی اس صورت حال سے دو چار نہیں ہے بلکہ قریب قریب ہر شخص اپنی شناخت سے محروم ہے نتیجتاً اس نے ایک ایسی شخصیت کو بطور آئیڈیل منتخب کیا ہے کہ جو اس کے لئے ہرگز ہرگز مثالی شخصیت نہیں ہو سکتی ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے چشمِ دل کو بند کردیا ہے اور جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ کیمرے کی آنکھ سے دیکھتے ہے اور اسی کے مطابق اپنا معیارِ خوب و زشت کا تعین کرتے ہیں۔بد قسمتی سے موجودہ دور میں انسانی عظمت کا معیار شہرت قرار پائی ہے اور جس انسان کی جانب میڈیا کے جتنے کیمرے ہوں وہ اتنی ہی شہرت پا کر عظمت کے مختلف زینے سر کرتا ہے۔اس سلسلے میں یہ قطعاً دیکھا نہیں جاتا کہ آخر اس شہرت یافتہ شخص کا کام اور مشغلہ کس قدر انسانیت کے لئے سودمند ہے۔ضمناً یہ کہنا بعید از موضوع نہیں ہے کہ ایک عظیم کھلاڑی عظیم انسان بھی ہو ایسا ضروری تو نہیں ہے جبکہ مقصود زیست عظیم انسان ہے نہ کہ عظیم کھلاڑی ۔یہ بھی عین ِ ممکن ہے کہ کھیل کے مردِ میدان کی حیثیت عملی زندگی میں ایک ایسے طفلِ شیر خوار جیسی ہو جس نے ابھی گھٹنوں کے بل بھی چلنا نہ سیکھا ہو۔کس قدر ناانصافی ہے کہ اس طفلِ شیر خوردہ کو ایک شہسوار نوجوان اپنا آئیڈئل تصور کرے۔

کیمرے کی آنکھ کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو ہر انسان عظمت بہ کنار اس دنیا میں قدم رکھتا ہے اور یوں ایک عظیم ذمہ داری کا بھی حامل ہے۔خواہ کیمرے کی آنکھ اسے اپنی گرفت میں لینے سے قاصر ہی کیوں نہ ہو ۔مگر سیکرین کی دنیا کو تکنے میں مست و مگن دورِ حاضر کے انسان کے پاس وہ بصیرت ہی کہاں کہ وہ سکرین یا پردے پر دکھائی دینے والے ستاروں کی مصنوعی زندگی کے ساتھ ساتھ پسِ پردہ و سکرین ان کی حقیقی زندگی کا بھی بغور مطالعہ کرے ۔تاکہ اسے اس بات سے آشنائی ہوجائے کہ مصنوعی دنیا(یعنی سکرین اور پردے کی دنیا)میں ان چمکتے ستاروں کی حالت آسمان پر چمکنے والے ستاروں سے کسی طور بھی مختلف نہیں ہے۔جن کی بازیگری کو غالبؔ نے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ؂
ہیں کواکب کچھ نطر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

مصنوعی دنیا کو حقیقی دنیا پر ترجیح دینے کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج جب ہمارا نوجوان اپنے لئے مثالی شخصیت کی تلا ش میں نکلتا ہے تو اس کی تلاش کا مرکز و محور یا ’’ فلمستان‘‘ہوتا ہے یا ’’ کھیل کا میدان‘‘۔کبھی کباران فرضی کرداروں کو اپنی حقیقی زندگی کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے ۔اور نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔کیونکہ اس طرح کے کردار ایک نوجوان کی فکر ی تربیت کرنے سے عاجز ہوتے ہیں۔یہ خیالی دنیا میں کس قدر بھی ایک شخص کو لبھایا کریں حقیقی دنیا میں ان سے کسی بھی قسم کی توقع رکھنا سراسر کارِ عبث ہے۔کیا وجہ ہے کہ برِ صغیر کا بچہ بچہ ٹینڈولکر(Tendolkar) اور آفریدی کی ہر ادا پر جان وار ے جا رہا ہے مگرایسے نوجوانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابربھی نہ ہو گی جو ٹیگور اور اقبال جیسے ناموں سے آشنا ہیں۔مشہور کرکٹ کھلاڑی جان بریڈمین (Jhon Breadman)کے نام اور کارناموں سے تو ہرکس و ناکس واقف ہے ۔ لیکن جوناس سالک (jonas salik)کے متعلق خال خال ہی کوئی جانتا ہو گا کہ اس نے انسانیت کے لئے کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیا۔واضع رہے جوناس سالک اسی میڈیکل سائنس سے وابسطہ وہ سائنس دان ہے کہ جس نے پولیو جیسی خطرناک بیماری کو ختم کرنے میں کلیدی رول نبھایا ۔اور اپنی سات سالہ طویل مدت پرمبنی اپنی تحقیق کے نتیجے میں پولیو ویکسین ایجاد کیا ۔
در اصل آج کے انسان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ چار پہر دنیا بھر پر نظر رکھتا ہے۔ اور ہر پہر اس کی خبر رکھتا ہے۔ مگر دنیا کے نظاروں میں اس قدر محوہے کہ اسے اپنے آپ کو دیکھنے بھالنے کی فرصت نہیں ملتی۔ اور وہ اس دنیا سے علی الخصوص بے خبر ہے جسے حضرت علی ؑنے عالمِ اکبر کہا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ’’ اے انسان کیا تو اپنے آپ کو چھوٹا سیا جرثومہ تصور کر رہا ہے ۔تیرا ظاہر تو عالمِ اصغر ہے اور تیرے اندر عالمِ اکبر چھپا ہے ‘‘۔ اور اس عالمِ اکبر کو دیکھنے کے لئے انسان کو چشمِ دل سے خود کو دیکھنے کی ضرورت ہے ؂
چشمِ دل باز کن کہ جان بینی
آنچہ نا دیدنی است آں بینی ( ہاتف اصفہانیؔ)
تر جمہ:اپنے دل کی آنکھ کھول کر اپنی روح کو دیکھ ۔جو کچھ دکھائی دینے والا نہیں ہے اسے دیکھ۔
اس سے ایک قدم آگے جا کراغیار کی وارفتگی اور دلبستگی کے بجائے اپنی شخصیت کی تعمیر کچھ اس خوبصورتی کے ساتھ کرے کہ اسے اپنی شخصیت میں ایک قسم کی جاذبیت محسوس ہو۔اور علامہ اقبال ؒ کے بقول اپنے حال و احوال کا عاشق ہو جائے۔
دیوانہ و دلبستہ اقبال خودت باش
سرگرم خودت عاشق احوال خودت باش
اپنی خوشبختی و اقبالمندی کا عاشق ہو جا خودی کی تعمیر میں مصروف اوراپنے حال و احوال کا شیدائی ہو جا
یک لحظہ نخور حسرت آنرا کہ نداری
راضی بہ ھمین چند قلم مال خودت باش
اس چیز کا غم نہ کھا جسے تو تہی دامن ہے اسی تھوڑے پر ہی قانع رہ جو تیری ملکیت میں ہے۔
دنبال کسی باش کہ دنبال تو باشد
اینگونہ اگر نیست بہ دنبال خودت باش
اسی کا خیال رکھ جو تیرا خیال رکھتا ہو بصورتِ دیگر اپنے عزتِ نفس کے تحفظ کی خاطر اپنی ہی شخصیت کے تعاقب میں لگا رہ۔
پرواز قشنگ است ولی بی غم و محنت
منت نکش از غیر و پروبال خودت باش
بغیر غم و تکلیف کے پرواز اچھی چیزہے دوسروں کی احسان مندی سے خود کو بچا کر اپنے ہی بال و پر کے سہارے محوِ پرواز ہو جا۔

دوسروں سے خوامخواہ کی مرعوبیت کے نتیجے میں ابھرنے والے احساس کمتری کا علاج یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اپنے آپ کی طرف مراجیعت کرے۔اوروں کو تکتے رہنے والا اپنے آپ کو ایک مرتبہ
اپنی شخصیت کو دوسروں کی دیکھا دیکھی میں کھو دینے والا انسان ایک مرتبہ اپنے اندر پوشیدہ حسن وجمال کو پالے تو وہ خود شناسی کی کٹھن منزل کو بآسانی سر کر سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اس خواب کو بیداری سے افضل جانتے ہیں کہ جس میں انسان اپنا جمال و کمال دیکھے ؂
جمال اپنا اگر تو خواب میں بھی دیکھے
ہزار ہوش سے خوشرت تری شکر خوابی

اختتامیہ پر یہی بات کہی جا سکتی ہے کہ جو شخص اپنا نہ بن سکے وہ دوسروں کا بن جائے تو اکیا فائدہ !گر گوہر ِ حیات کو پالینے کی آرزو ہے تو اس کے لئے خود شناسی کے دریا میں غوطہ زن ہونا پڑے گا ؂
اپنے من میں ڈھوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہ بنتا نہ بن اپنا تو بن
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61215 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.