سرجیکل اسٹرائک،ہر حملے کا جواب دیں گے

 بی جے پی کی سیاست پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک کے نام سے چل رہی ہے ۔ہندوستان کشمیر کی تحریکِ آزادی کی وجہ سے اپنے ظالمانہ کردار کو چھپانے کی نا کام کوششیں کرتا رہا ہے۔مگر کشمیریوں کی تحریکِ انتفادہ ہندوستان کی حکومت کی گلے کی ہڈی بن چکی ہے جس کو نہ تو وہ نگل سکتا ہے اور نہ اُگل سکتا ہے۔ گذشتہ ستر سالوں کے دوران ہندوستان نے کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو بر قرار رکھنے کے لئے کیا کچھ جتن نہیں کئے ؟مگر سات لاکھ سے زیادہ فوجی بھی اس چھوٹے سے علاقے کو ہندوستان کا حصہ بنانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ اس دورن ہندوستان بار بار کشمیر پراپنی جارحیت کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ہی پاکستان کی تخریب کے سامان بھی کرتا رہا ہے۔اس حولے سے اس نے پاکستان پر چار جنگیں بھی مسلط کیں اور اور ایک موقعے پر اس نے اپنی جارحیت کے ذریعے 1971 میں پاکستان کو دو لخت بھی کر دیا ۔جس کے صلے میں بنگال کی حسینہ واجد نرندر مودی کے پیر دھو دھو کر پی رہی ہے۔اس کے بعد ہندوستان کا نشانہ سندھ کو بنایا گیا مگر اس میں اُسے بری طرح سے نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ اب افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچستان پر اس کی اور ہمارے دشمنوں کی بری نظریں مرکوز ہیں مگر اب یہ خدا کے فضل و کرم سے اپنی کسی بھی سازش میں کامیاب نہ ہوگا۔کیونکہ پاکستان کے عوام ہندوستان اور اس کے سازشی عناصر کے چہروں سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں-

آج ہندوستان کے جنرلز بھی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک کے خوا بوں میں سے باہر نہیں نکل سکرہے ہیں۔ہندوستان کا چیف آف آرمی اسٹاف بپن راوت، جسے پاکستان کی طاقت کا شائد اندازہ ہی نہیں ! اور اگر ہے بھی تو خوبوں کی جنت میں رہتے ہوئے جھوٹ پر نیا جھوٹ باندھتے ہوئے کہتا ہے کہ سرجیکل اسٹرئک ضروری پیغام تھے؟؟؟کییہاں سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اتنی جراء ت ہے کہ وہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرئک کا سوچ بھی سکے؟دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان میں خود ساختہ سرجیکل اسٹرائک جو انڈین جنرلز کے خوبوں کا حصہ ہے مزید سرجیکل اسٹرائک خوابوں میں ہی کرنے کا مزید ارادہ رکھتے ہیں؟کیونکہ عملی میدان میں اپنے جنگی جنون کے باوجودنہ تو یہ سب کچھ کرنے کی ہندوستان میں ہمت ہے اور نہ ہی صلاحت ہے۔ خواب دیکھنے اور دھمکیاں دینے سے تو انہیں کوئی روک نہیں سکتا ہے۔بپن نے بھرک لگائی کہ اگر سرحد پار دہشت گردوں کے اڈے ہوں اور اگر وہ کنٹرول لائن سے ہماری جانب مسلسل حالات خراب کر رہے ہو ں تو ان کے خلاف کاروائی کرنا ہمارا حق ہے۔جبکہ کنٹرول لائن پر خود ہندوستان مسلسل حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے۔جب کشمیری نہتے عوام ہندوستانی غاصبیت پر دنیا کو متوجہ کرتے ہیں تو ہندوستانیوں کے پیروں تلے سے زمین نکلتی دکھائی دیتی ہے اور وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اکنٹرول لائن پر اُلٹے سیدھے جارحانہ اقدام کرنا شروع کر دیتی ہے اور پھر سارا الزم پاکستان پر تھوپنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔

اس بھڑک بازی کے جواب میں پاکستان کے چیف آف آارمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہندوستانی جنرل بپن کو منہ ٹوڑ جواب دیتے ہوئے واضح کیا ہے۔جس میں ہندوستانی سرجیکل اسٹرئک کا دعویٰ مسترد کرتے ہوے کہا ہے کہ ہندوستانی آرمی چیف خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔پاک فوج ہر حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت ہندوستانی سوچ سے بھی زیادہ رکھتی ہے۔ ہندوستان کا فوجی اور حکومت بھی خوابوں میں کئے گئے سرجیکل اسٹرائک سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

اپنی تمام جاحانہ اور تصوراتی سوچ کے ساتھ ہی ہندوستانی وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور مسٹر ایم جے اکبر کہتے ہیں کہ مذاکرات میں تعطل کے باوجود ہندوستانی حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات بر قرار رکھنا چاہتی ہے۔ہمیں پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے ا پنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ ان کی منشاء کے مطابق چین نے جیشِ ِمحمد کے سربراہ کوے معاملے پر ان کی حمایت نہ کرنے اور اپنی پالیسی میں تبدیلی نہیں لاتا ہے۔ تو موصوف کہتے ہیں کہ چین دہشت گردی پر دوہرا معیار رکھتا ہے۔چین پاکستا ن کا قابلِ اعتماد دوست ہے وہ ان کے کہنے پر اپنے بہترین دوست کے خلاف کیسے جا سکتا ہے۔ہندوستان خود ہی سرحدوں اور کنٹرول لائن پر در اندازی کرتا ہے اور پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا ہے۔ہنددستان چاہے کنٹرو ل لائن پر در اندازی کرے یا سرجیکل اسٹرائک کی دھمکیاں دے،پاکستان ہر حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔اور جواب بھی دے گا۔ہندوستانیوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اب پاکستان 1971 جیسا تر نوالہ نہیں ہے جسے وہ آسانی سے ہضم کر جائے گا۔ ہندوستان کو پاکستان پر سرجیکل اسٹرائک کا زعوم نکال دینا ہی اس کے حق میں بہتر ہوگا۔․․․․․․․
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 189189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.