۲۶ نومبر کو ممبئی میں ہونے والے حملے کو
ہندوستان کے ۱۱ستمبر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس حملے نے ملک کو ہیمنت کرکرے
جیسے مایہ ناز اور فرض شناس افسر سے محروم کردیا ۔ تاج حملے کے بعد مرکزی
وزیر برائے اقلیتی امور کو صرف یہ سوال کرنے پر کہ ہیمنت کرکرے کو اس موت
کی گلی میں جانے کی ترغیب کس نے دی تھی اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا
پڑاحالانکہ سابق آئی جی ایس مشرف نے اپنی کتاب ’’کرکرے کا قاتل کون؟‘ میں
مالیگاوں سمیت ۹بم دھماکوں کی تفتیش پر یہ الزام لگاہے کہ ” پولس اور اے ٹی
ایس نے تمام دھماکوں کی جانچ میں ہیرا پھیری کی ہے ‘‘۔آئی بی کے چشم ابرو
سے بغاوت کرنے والا کرکرے تو مالیگاؤں دھماکہ کی تفتیش مکمل نہیں کرسکا
مگرمہاراشٹر اے ٹی ایس کے سابق عہدیدارمحبوب مجاور نے شولاپور کی عدالت میں
ایک حلفیہ بیان دے کر مالیگاوں دھماکوں کے جن کو بوتل سے آزاد کردیا۔مجاور
کے مطابق مالیگاوں دھماکے کےدو اہم ملزمین رامچندر کلسنگرا، اور سندیپ
ڈانگے کو اے ٹی ایس نے ۲۶ دسمبر۲۰۰۸ ہلاک کردیا تھا۔ محبوب مجاور نے خود
ان کی لاشوں کو ممبئی حملے کے نامعلوم مہلوکین کےساتھ ٹھکانے لگایاتھا۔ اس
طرح ایک مجاور نےراز کی ایک گہری قبر کھود دی بقول شاعر؎
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
عام طور پر یرقانی دیش بھکت پولس کے ذریعہ ملزمین کی ہلاکت کو خوب سراہتے
ہیں اور اسے دہشت گردی کے خلاف دھرم یدھ قرار دیتے ہیں لیکن کلسنگارا اور
ڈانگے کے انکاونٹر کی تعریف و توصیف میں کوئی بیان ابھی تک ذرائع ابلاغ کی
زینت نہیں بنا۔ مجاور کا بیان اگر درست ہے تو کیا اس سے یہ ثابت ہوجائیگا
کہ کلسنگارا اور ڈانگے کی ہلاکت دہشت گردوں کے بیخ کنی کی ایک سعی تھی ؟
اسی کے ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوجائیگا کہ مالیگاوں دھماکے میں ملوث وہ
دونوں اگرملزم جو ۱۳ ویں ۱۴ویں نمبر پر دہشت گرد تھے تو پہلے اور دوسرے
نمبر موجود سادھوی پرگیہ اور کرنل پروہت کو سزا کیوں نہیں ہوتی ۔ کیا دہشت
گردی کے خلاف صفر برداشت اسی کو کہتے ہیں ؟ اس انکشاف کو سادھوی پرگیہ کے
وکیل جے پی مشرا نے کافی اہمیت کا حامل بتایاہے۔ مشرا نے اس دعوی کی جانچ
کا مطالبہ کیا ہے اس کے مطابق این آئی اے کی تحقیقات کے باوجود کلسنگارا
اور ڈانگے کا لاپتہ رہنا حیرت کی بات ہے۔ مشرا کہتے ہیں کہ محبوب مجاور کی
بات میں کچھ دم ضرور لگتاہے۔ اوراس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
محبوب مجاور کے اس بیان یرقانی خیمہ میں کھلبلی مچادی ہے مالیگاوں بم
دھماکوں کے دیگر ملزمین کے وکیل سنجیو پونالیکرنے محبوب مجاور کے دعویٰ کو
بوگس قرار دیا ہے ۔ محبوب مجاور پر اوٹ پٹانگ الزامات کی بوچھار کرنے کے
بعد سنجیو نے کہااسے ایک مذاق سمجھا جانا چاہیے اور انہیں گرفتار کیا جانا
چاہیے کیوں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے اپنے موکلین کو بچانے
کیلئے پونالیکر کذب گوئی کا سہارا لے رہے ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے
کیس کے اصل ملزم دھن سنگھ نے قومی تفتیشی ایجنسی کے سامنے مالیگاؤں دھماکہ
کیس میں بہت اہم سراغ دیئے تھےجس کی بنیاد پر راجندر چودھری کو گرفتار کیا
گیا تھا۔ چودھری نے یہ اعتراف کرچکا ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکے اور دیگر بم
دھماکوں میں وہ دھن سنگھ اور دیگر مفرور ملزمںن رام چندر کلسنگرا اور سدییپ
ڈانگے کے ساتھ ملوث تھا۔
راجندر چودھری نے عدالت کو بتایا تھاکہ مالیگاؤں دھماکہ میں استعمال کرنے
کے لئے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی موٹرسائیکل جائے واردات پر لانے کا کام
دھن سنگھ نے ہی کیا تھا۔ دھن سنگھ کلسنگرا اور ڈانگے کا بہت قریبی معاون و
مددگار تھا۔ سوامی اسیما نندنے بھی اپنے اقبالیہ بیان میں دہشت گردانہ
حملوں کے اندر اپنے اور اپنے ساتھیوں کا شامل ہونے کا اعتراف کیا تھا۔یہ
بیان اس نے ۱۸ دسمبر۲۰۱۰کو میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے دیا تھا۔ سوامی
کے مطابق اس کے دماغ میں بدلا لینے کا خیال سب سے پہلے ۲۰۰۲میں اکشرم دھام
مندر پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے بعد آیااور ۲۰۰۶ میں وارانسی کے سنکٹ
موچن مندر پر حملہ کے بعد اسے مزید تقویت ملی۔
سوامی اسیمانند کے مطابق ولساڈ کے اندر بھرت رتیشور کی رہائش گاہ پرجون
۲۰۰۶ میں ہونے والی نشست کے اندر جب مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر دھماکے
کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت سندیپ ڈانگے،بھرت بھائی، سادھوی پرگیہ،
سنیل جوشی، لوکیش شرما، رام جیکلسنگرا اور امیت موجود تھے۔ ان لوگوں نے
انتقام لینے کی خاطر
مالیگاوں،اجمیرشریفدرگاہ،مکہمسجداورسمجھوتہایکسپریسمیںدھماکےکرنے کا ارادہ
کیا۔جوشیکوانتمامٹھکانوںکامعائنہکرنےکیذمہداری سونپی گئی۔ اے بی وی پی کی
سابق رکن سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر،لیفٹیننٹ کرنل پرساد سری کانت پروہت ،بی
جے پی کی ملٹری سیل کے سابق میجر اپادھیائے ، آر ایس ایس سے وابستہ سوامی
دیانند پانڈے کے علاوہ ورکنگ کمیٹی کا رکن اور سنگھ کی مسلم شاخ کا سربراہ
اندریش کمار بھی اس سازش میں ملوث تھا ۔ سوامی اسیمانند کا یہ اقبالیہ بیان
جب بھی زیربحث آتا ہے سنگھ پریوار زبان حال سے یہ شعر( مع تصرف) کہتا نظر
آتا ہے ؎
داور نشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
اس گروہ میں مدھیہ پردیش کے رہنے والاپرچارک سنیل جوشی سب سے زیادہ متشدد
تھا اور اس کے دست راست اسی علاقہ کےپرچارک رام چندر کلسانگرا ، سندیپ
ڈانگے تھے۔ جوشی کو مشتبہ قاتلوں نے ہلاک کردیا جس میں شک کی سوئی سنگھ
پریوار کی جانب ہی مڑتی ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی
حکومت کے باوجود اس جانب کوئی پیش رفت نہ ہو ۔ اب کلسانگرا اور ڈانگے کی
ہلاکت کے الزام نے پھر ایک بار سنگھ کے کردار کو مشکوک بنادیا ہے۔ محبوب
مجاور نے یہ بات واضح کی ہے کہ وہ لوگ کالا چوکی پولس تھانے کے اندر حراست
میں تھے ۔ ان کواناکونٹر کرکے وی ٹی اسٹیشن کے پاس ہلاک ہونے والے نامعلوم
مہلوکین کے ساتھ ٹھکانے لگادیا گیا۔ مجاور کےا نکشاف کے بعد ذرائع ابلاغ
میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے سندیپ کے والد ۸۰ سالہ سبکدوش پروفیسر وی کے
ڈانگے نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا سندیپ میرا اکلوتا بیٹا تھا اور اس خبر
نے مجھے بے چین کردیا ہے مجھے اس معاملے کی حقیقت کا علم ہونا چاہئے۔
کلسنگرا کی اہلیہ لکشمی نے اخبارنویسوں سے گفتگو میں مطالبہ کیا کہ اگر وہ
زندہ ہے تو اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر ہلاک کردیا گیا
ہے تو اس کے قاتل افسران کے خلاف اقدام کیا جائے۔کلسنگرا کے ۲۲ سالہ بیٹے
دیورتھ نے کہا میں نے ۸ سال قبل ۱۴ سال کی عمر میں اپنے والد کو آخری
مرتبہ دیکھا تھا ۔ اگر اس کے والد کی موت ہوگئی ہے تو ان کی لاش اس کے
حوالے کی جائے۔ قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے دیورتھ نے بتایا کہ انہیں
امید تھی کہ ایک دن اس کے والد لوٹیں گے لیکن اب ہم لوگ صدمہ کی حالت میں
ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ مجرمین کو سزا دی جائے۔ بیچارہ دیورتھ نہیں جانتا کہ
ہمارے ملک میں وردی پوش قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی بلکہ انعام و اکرام سے
نوازہ جاتا ہے۔
اس موقع پر کلسنگرا کے بھائی شیونرائن اور اس کے پارٹنر شیام ساہو نے بھی
اپنی داستان الم پیش کی اور بتایا کہ کس طرح اکتوبر۲۰۰۸ سے لے کر اگست
۲۰۱۱ تک انہیں حراست میں رکھ کر رامچندر کلسنگرا کا محل و وقوع معلوم کرنے
کی خاطرتعذیب وتشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ رامچندر کی غائب ہوجانے کے بعد
گھر میں اس کی بیوی اور ۳ بچے تھے اور روٹی کمانے کی ذمہ داری اس پر تھی
لیکن اسے بھی گرفتار کرلیا گیا۔ اخباری کانفرنس میں موجود کلسنگرا کے پڑوسی
دلیپ ناہر نے بتایا کہ اسے ۱۶ اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا اور زدوکوب
کرنے کے بعد کلسنگرا کے خلاف مجسٹریٹ کے سامنے بیان دینے پر مجبور کیا گیا
تھا ۔ اس کے بعد وہ رہا کردیا گیا ۔ واپس آنے کے بعد اس نے اندور میں
مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان بدل دیا او رپولس افسران کے خلاف شکایت درج
کرائی جو ابھی تک کسی اقدام کی منتظر ہے۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں نائب
کمشنر راجن گھولے اور پولس انسپکٹر رمیش مورے کو گرفتار بھی کیا ہے لیکن
انہیں بھی پیشگی ضمانت مل گئی ہے۔
اس معاملے کو سنجیدگی لیتے ہوئے حزب اختلاف کانگریس اور این سی پی نے تفتیش
کا مطالبہ کیا ہے ۔وزیراعلیٰ دیویندر فردنویس نے یقین دہانی کی کہ حکومت
محبوب مجاور کے دعووں کی تصدیق کرے گی اور معاملہ کی مکمل تحقیق کے ذریعہ
یہ پتہ لگائے گی کہ اگر اس افسر نے ۲۰۰۹ میں ڈائرکٹر جنرل کو تحریر روانہ
کی تھی اس کی تفتیش کیوں نہیں کی گئی۔؟ وہ تو خیر کلسنگرا اور ڈانگے نہ صرف
ان کے ہم مذہب بلکہ پریوار کے لوگ نکل آئے ورنہ اگر کہیں مسلمان ہوتے تو
فردنویس بھی مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج چوہان کی طرح سینہ پھلا کر
اعلان کرتے کہ اچھا ہی ہوا جو ہمارے جوانوں نے ان دہشت گردوں کا کام تمام
کردیا ورنہ وہ لوگ نہ جانے کتنے بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارتے۔
دلیپ ناہر تو خیر خوش قسمت ہے جو پریس کانفرنس میں موجود ہے اور اس کی
شکایت پر پولس والوں کے خلاف کارروائی بھی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ اس معاملے
میں دواورگواہوں دھرمیندر بیراگی اوردلیپ پاٹیدار کو بھی اے ٹی ایس نے
اٹھایا تھا۔این آئی اے نے کمان سنبھالنے کے بعد بیراگی اور ناہر کا بیان
تو پھر سے لے لیا ہے لیکن پاٹیدار لاپتہ ہے۔ دلیپ پاٹیدار کی اہلیہ پدما
ناہر کی بہن ہے ۔ ۱۰ نومبر ۲۰۰۸ کو پدما نے بتایا کہ پولس دلیپ کو اپنے
ساتھ لے گئی ہے۔ دلیپ کے بھائی رام سوروپ نے پولس اسی دن پولس میں شکایت
درج کرائی اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا لیکن پاٹیدار کا سراغ نہیں ملا۔
مجاور کے انکشاف کے بعد پاٹیدار کے اہل خانہ بھی تشویش کا شکار ہوگئے ہیں
اس لئے کہ اس نے آخری بار فون کرکے اپنی اہلیہ کو بتایا تھا کہ اس کی جان
کو خطرہ ہے۔
دہشت گردی کے الزام میں مالیگاوں کے ۳ مسلم نوجوان بھی ۲۰۰۶ سے غائب ہیں
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا بھی پتہ لگایا جائے۔ مالیگاوں کےبڑا قبرستان
اور حمیدیہ مسجد کے اندرشب برأت کو ہونے والے دھماکوں کے بعد حسب عادت
انتظامیہ نے الزام ایس آئی ایم پر لگا کر ۱۳ نوجوانوں کے خلاف فردجرم داخل
کی تھی جن میں ۹بے قصوروں کو گرفتار کرلیا گیا اور ۴ کو مفرور قرار دیا گیا
۔ ان مفرور لوگوں میں منور احمد کو ماسٹر مائنڈ قراردیا گیا تھا ۔ اس کے
علاوہ ریاض احمد پر دھماکہ خیز اشیاء کے نصب کرنے کا الزام تھا جبکہ اشتیاق
احمد سازش میں شامل بتایا گیا تھا۔ جو ۸ لوگ گرفتار ہوئے تھے انہیں تو
گزشتہ سال عدالت نے رہا کردیا جس سے پولس کی ساری کہانی مسترد ہوگئی اور
لاپتہ لوگوں کی بے گناہی ثابت ہوگئی اس کے باوجود وہ لوگ لوٹ کر نہیں آئے۔
محبوب مجاور کے انکشاف کے بعد ان کا بھی پتہ لگایا جانا چاہئے۔
مالیگاوں کے سماجی کارکنان نے عدالت میں ایک حلف نامہ داخل کیا ہے جس میں
کہا گیا ہے کہ منور کو آخری مرتبہ پولس کی گاڑی میں دیکھا گیا تھا ۔ اس کے
بزرگ والد جو مسجد میں موذن تھے فرماتے ہیں سارا معاملہ من گھڑت تھا میں
نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے ۔ کون جانے اسے پولس نے چھپا رکھا ہے یا وہ خوف
کے مارے کہیں روپوش ہے ؟ میں اپنی موت سے قبل اس حقیقت کو جاننا چاہتا ہوں
۔ریاض کے بھائی نظام خان کو شکایت ہے کہ اسے اورنگ آباد اسلحہ کے معاملے
میں حراست میں لیا گیا تھا مگر بعد میں رہا کردیا گیا ۔ وہ پولس کی سخت
نگرانی میں تھا ایسے میں وہ کسی سازش میں کیسے حصہ لے سکتا اور کیسے غائب
ہوسکتا ہے؟
مالیگاوں کے مشہور وکیل عرفان ہمدانی کے مطابق ان تینوں نوجوانوں پر پولس
کی نگرانی تھی ایسے میں ان کا لاپتہ ہوجانا حیرت انگیز ہے اس لئے اس کی
تفتیش لازمی ہے۔ مالیگاوں کے بے قصور نوجوانوں پر تو دہشت گردی کا الزام
لگا لیکن افسوس کہ جے این یو جیسے مایہ نازتعلیمی ادارے سے محمد نجیب کو
لاپتہ ہوئے دو ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن دہلی کی پولس اس کا پتہ لگانے میں
ناکام ہے۔ تمام تر احتجاج اور مظاہروں کے باوجود ان سنگھی نوجوانوں کو
گرفتار کرکے سختی سے تفتیش تک کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جنہوں محمد نجیب کو
طلباء اور انتظامیہ کے سامنے زدوکوب کیا تھا۔ حیرت کی بات ہے اس معاملے میں
کنہیا اور اس کے ہمنواوں نے بھی مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔
سرکاری ایجنسیوں کے بیجا استعمال کا معاملہ خوب زوروشور سے جاری ہے۔ایک طرف
تو این آئی پھر سے تحقیقات کے نام پر یرقانی دہشت گردوں کے خلاف شواہد کو
مٹانے میں جٹی ہوئی اور دوسری طرف ممنوعہ دہشت گردتنظیم انڈین مجاہدین سے
متعلق پانچ لوگوں کو خصوصی این آئی اے عدالت نے فروری ۲۰۱۳ کے اندر
حیدرآباد بم دھماکوں کے معاملے میں موت کی سزا سنادی۔ یعنی ۲۰۰۸ کا معاملہ
ابھی زیرسماعت ہے اور ۲۰۱۳ کا معاملہ نمٹ گیا اس لئے دونوں میں ملوث
ملزمین کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے۔ عدالت نے ۱۳دسمبر کومحمد احمد عرف یاسین
بھٹکل، پاکستانی شہری ضیاء الرحمن ، اسداللہ اختر ، تحسین اختر اور اعجاز
شیخ کو مجرم ٹھہرایاتھا۔ اس سے قبل دہشت گردی کے معاملوں میں کئی دفعہ نچلی
عدالتیں سزا سنا چکی ہے لیکن وہی معاملہ جب عدالت عالیہ میں پہونچتا ہے تو
سارےلوگ باعزت بری ہوجاتے ہیں۔اس لئے کہ بقول محسن نقوی ؎
قاتل براجمان ہے منصف کے سائے میں
مقتول پھر رہا ہے عزادار کی طرح
یاسین بھٹکل کے معاملے میں جمعیۃ علماء کے وکیل ایڈوکیٹ آر ماددھون نے
نچلی عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کیا اور ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا کے فیصلہ
پر فوری روک لگادی ۔ سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر انتظامیہ کا استعمال کوئی
نئی بات نہیں ہے۔ گجرات کے بدنام زمانہ اے ٹی ایس سربراہ ونجارہ نے ایک خط
میں لکھا تھا امیت شاہ کو حکومت نے ۳ ماہ کے اندر ضمانت پر رہا کروالیا جب
کہ پانڈین اور دنیش کو گرفتاری پر قانونی مدد تو درکنارحکومت نے اہل خانہ
سےزبانی ہمدردی جتانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اس حکومت (مودی کی
صوبائی حکومت) سے قبل گجرات پولس ملک میں بہترین تھی لیکن اب وہ دغابازی کے
سبب پوری طرح پست ہمت ہوگئی ہے۔ پنجاب کے اندر خالصتان تحریک کے خاتمہ کے
بعد پولس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگنے لگے جس سے بددل ہوکر سینیر
سپر انٹینڈنٹ اے ایس سندھو نے احتجاجاً ٹرین کے آگے کود کرخودکشی کرلی ۔
وقت کااہم تقاضہ ہے انکاونٹر میں ملوث تمام خاطی افسران کے خلاف بلا تفریق
مذہب وملت کارروائی ہو تاکہ ظلم و جبر کا یہکاروبار پر ہمیشہ کیلئے بند ہو
۔ محبوب مجاور کا حالیہ انکشاف اگر اس جانب پیش رفت کا سبب بنتا ہے تو یہ
ملک و قوم کیلئے فالِ نیک ثابت ہوگا۔ مجاور کے مطابق کلسنگرا اور ڈانگے کے
خلاف یہ اقدام اے ٹی ایس ایک مخصوص گروہ نے کیا ہے جس کا رگھوونشی یا ہیمنت
کرکرے کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ مجاور کا دعویٰ اگر درست ہے تو اس بات کی
تفتیش ہونی چاہئے کہ وہ مخصوص گروہ آخر کس کے اشارے پر کام کررہا تھا؟ اس
کے اغراض و مقاصد کیا تھے ؟ کہیں کلسنگرا اور ڈانگے کو ہلاک کرنے والوں کا
ہیمنت کرکرے اور ان کے ساتھیوں کے قاتلوں سے تو کوئی تعلق تو نہیں ہے؟ اس
بات کا پتہ لگانا بے حد ضروری ہے کہ اس تمام قتل و غارتگری کے پسِ پشت
مالیگاوں بم دھماکے کی پردہ پوشی کرنے والے تو ملوث نہیں تھے ؟ اس ستم گاری
کے پسِ پردہ معشوق کی نشاندہی نہایت ضروری ہے بقول منولال وفا؎
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
|