اجتماعی احتساب ناگزیر - برہان،ہڑتال ،ڈیل اور کشمیری عوام

 8 جولائی 2016ء کا دن کشمیر کی تاریخ کا اہم ترین دن بن چکا ہے اس لئے کہ تحریک کشمیرپر قربان ہوئے ہزاروں انسانوں میں کسی ایک بھی شخص پر ایسا تلاطم برپا نہیں ہوا جیسا برہان وانی کے ’’مشکوک اور مبہم قتل ‘‘پر برپا ہواہے!؟مشکوک اور مبہم کیوں؟اٹھائیس برس کے عسکری دور میں کبھی ایسا نہیں ہواہے کہ’’ ایک اور صرف ایک مجاہد ‘‘کے ساتھ جھڑپ کو فوج نے ایک دو گھنٹے میں اختتام پذیر پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہو ۔معمول یہ ہے کہ جہاں کسی مجاہد کے چھپے ہونے کی مصدقہ اطلاعات سیکورٹی ایجنسیوں کو ملتی ہیں وہاں وہ لوگ خاموشی کے ساتھ محاصرہ کے بعد اپنی پوری توجہ اس گھر پر مرکوز کرتے ہیں جہاں کسی کے ’’چھپے ہونے‘‘کی اطلاع انھیں ملی ہو تی ہے ۔پھر ’’نمبردار،سرپنچ ، کسی رشتہ دار یا چند بزرگوں‘‘کے ذریعہ سرنڈر کی پیشکش کی جاتی ہے انکار اور صریح انکار پر انکاؤنٹر شروع کیا جاتا ہے جو کم سے کم تین چار گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے ۔اس کے بعد لاشوں کو حاصل کرنے کی کاروائی میں بھی کم سے کم کئی گھنٹہ لگ ہی جاتے ہیں ۔اٹھائیس سالہ تجربات کے برعکس جب ’’برہان وانی‘‘جیسے معروف و مشہور شہرت یافتہ عسکری کمانڈر کو محاصرہ کر کے پکڑنے یا مارنے کا موقع سیکورٹی ایجنسیوں کو میسر ہواتو ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ کے بقول پورا آپریشن کیسے اور کس طرح صرف ’’ساڑھے تین منٹ‘‘میں اختتام پذیر ہوا ؟

اس کے بعد سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنوبی کشمیر حیرت انگیز حد تک اس قدر اُبل پڑا کہ گویا قتلِ عام شروع ہو چکا ہو،بے تحاشہ فائرنگ،پیلٹ شوٹنگ،توڑ پھوڑ اور گرفتاریاں جو اب تک جاری ہیں اس حد تک پہنچی کہ سیکورٹی ایجنسیوں نے تمام تر ریکارڈ توڑ دئیے ۔سینکڑوں شہادتیں،ہزاروں بصارت سے محروم بچے اور جیلوں میں جانوروں کی طرح انسانوں کو ٹھونسنے کا عمل اب تک برابر جاری ہے ۔حکومت کی نااہلی اور حالات پر کنٹرول کھونا کھل کر سامنے آگیا ۔ نااہل حکمرانوں نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام اس وقت انجام دینا شروع کردیا جب ان کے غیر سیاسی اور بدترین تنگ نظری پر مبنی بیانات سامنے آنے لگے ۔جس کے بعد نوجوان بپھر جاتے تھے مگر ان کم عقلوں کے خیال میں ان کے بیانات جلتے الاؤ پر پانی چھڑک رہے تھے۔وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم طعن و تشنیع میں مصروف ہو گئے اور عقلمندانِ تنظیم نے خاموش تماشائیوں کا رول نبھانا شروع کردیا اور اطلاعات کے مطابق سچ یہ ہے کہ خاتون صدر کسی کی کم ہی سننے کی عادی ہے شاید یہ اپنی عقل پر حد سے زیادہ اعتماد کا نتیجہ ہے ۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے بے مہابا طاقت کے استعمال پر بھروقت روک لگانے کے بجائے ’’ٹافی،دودھ کے چٹکلوں کے ساتھ ہی ساتھ تعلیم و تعلم کی اہمیت پر لیکچر دینے کا آغاز کردیا گیا اور تحریک کشمیر کا موازنہ تحریک فلسطین سے کرتے ہو ئے ’’پر امن احتجاج‘‘کرنے کے لالی پاپ سے آگ کو بجھانے کی ناکام کوشش شروع کی گئی جبکہ سچائی اور ہمالیائی سچائی یہ ہے کہ حکومت کشمیر میں پر تشدد تو درکنار پرامن احتجاج کی بھی حامی نہیں ہے ۔
آئین ہند کے علمبراداروں کے صبر کا دامن ہر اس شق پر چھوٹ جاتا ہے جب اس پر کشمیری مسلمان عمل کرتے ہو ئے ان سے کئے گئے وعدوں کے ایفا کی بات کرتے ہیں ۔دلی کا مرض یہی ہے کہ جموں و کشمیر کی سرحدوں میں داخل ہو تے ہی ان کا مزاج بدل جاتاہے اور ان کی ’’جمہوریت و گاندھیائیت‘‘آپ اپنے اوپر ماتم کرنے لگتی ہے ۔یہاں کسی عسکری تنظیم کے آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہو ئے جدوجہد کی بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ اس عوام کی بات ہو رہی ہے جس کے ووٹ کوبھارت گذشتہ ستر برس سے بین الاقوامی برادری کے سامنے بطور سند اورجواز پیش کر رہا ہے ۔ اگر اس عوام کا ووٹ چھے برس میں ایک مرتبہ استعمال کرنے سے بھارت اپنے قبضے کو سند جواز کے طور پر استعمال کرسکتا ہے تواسی عوام کے ستر سالہ بھارت مخالف احتجاج اور جلسے جلوسوں کو اپنے خلاف عدم اعتماد کے طور پر کیوں نہیں قبول کرتا ہے ؟حالانکہ جموں و کشمیر کی مین اسٹریم اب اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ الیکشنوں کا مسئلہ کشمیر کی حقانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جہاں تک برہان کے قتل کے بعد احتجاجی لہر کا تعلق ہے اس حوالے سے دہلی کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ کشمیری عوام دہلی کے خلاف عدم اعتماد کا کوئی بھی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے ۔برہان کا قتل ایک بہانہ تھا حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں جب بھی عوام کو ’’دلی کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار ‘‘کا موقع میسر ہوتا ہے وہ اس کا بھر پور استعمال کرتی ہے البتہ دلی پرانی پالیسی کے عین مطابق سنی ان سنی کر دیتی ہے ۔

مسلسل ہلاکتوں اور گرفتاریوں کے بعد لامتناہی ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی حدت میں اب کمی ضروری آئی ہے مگر یہ بلا ابھی ٹلی نہیں ہے ۔آزادی پسند قیادت جو بے رحم حالات کے اندیشوں کے بعد ’’رسمی طور پر ‘‘ایک صف میں کھڑی نظر آتی ہے نے سیاسی غلطی کر کے 2010ء کے طرز پرکلینڈر دینے شروع کر دئیے ۔جواز یہ پیش کیا گیا کہ عوام ہڑتال ختم کرنے کے حق میں بالکل نہیں ہے ۔لیڈر شپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوامی جذبات کی لہر میں خود بہہ نہ جائے بلکہ سانس روک کر اس کے تمام تر منفی نتائج پر گہری نظر رکھتے ہو ئے قدم بڑھانے یا روکنے کا فیصلہ کریں ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ’’لیڈرشپ کو دباؤ میں رکھ کر پریشان ‘‘کرنے کی بات بھی جھوٹی نہیں ہے ۔مستند اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق ’’دھمکی آمیز خطوط سے لیکر وفودتک ‘‘بہت ساری تنظیموں اور انجمنوں نے اس طرح کی کوششیں کر کے ہڑتال کو ختم نہ کرانے میں کامیابی حاصل کی ۔لیڈر شپ کو کھلے عام دباؤ میں رکھنے کی کامیاب کوشش اس وقت بھی ہو ئی جب سید شاہ گیلانی کے گھر پر تمام اسٹیک ہولڈرس کی میٹنگ کے وقت نوجوانوں کی بھیڑ نے باہر جمع ہو کر قیادت کے خلاف نعرہ بازی کی حتیٰ کہ محمد یسٰین ملک نے باہر آکر انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔ یہاں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد لیڈر شپ پر ’’بکنے اور جھکنے کا شرمناک الزام ‘‘تک عائد کرتی ہے ۔سوشل میڈیا آج کل اس طرح کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر قیادت نے 2010ء کے ایجی ٹیشن سے کچھ سیکھنے کے بجائے کچھ مختلف کرنے کا حوصلہ کیوں نہیں کیا؟

قیادت نے عوامی موڑ کے مطابق اپنی کشتی کیوں بے رحم سمندر کے لہروں کے سپرد کردی ؟اس کے لئے صرف قیادت کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے بلکہ ہمیں (کشمیری لکھے پڑھے عوام)کو اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے کہ ہم نے 2010ء میں ہڑتال سے متعلق جو تاثر تخلیق کیا تھا اس نے لیڈرشپ کو اس حد تک پہنچا دیاہے کہ وہ ’’خالص دانشوارانہ طریقے‘‘پر بہتر سیاسی فیصلوں کے برعکس عوامی مزاج کے اتاروچڑھاؤ کو ہی مد نظر رکھے ۔ہم نے 2010ء میں لیڈرشپ سے متعلق کھلے عام یہ کہا کہ اگر ان حضرات نے ہڑتال ختم نہ کی ہوتی تو ’’آزادی‘‘اپنے تمام تر جمال و کمال کے ساتھ کشمیریوں کا مقدر بن چکی ہوتی اور حیرت یہ کہ جن ’’خود ساختہ دانشوروں‘‘کواس وقت تین مہینے کے ہڑتال کی کوکھ سے آزادی جنم لیتی ہوئی نظر آرہی تھی انہی دانشوروں کو آج اس کے برعکس اسے ہزار گنا سخت اور شدید بلکہ پر تشدد احتجاج سے سو فیصد مایوسی ہوئی ہے ۔یہ سوال ان کی دانشورانہ بصیرت پر ہے تحریکی قیادت اور اسے جڑی عوام پر نہیں ۔مجھے یا د آرہا ہے کہ میں نے جب ایک محفل میں ’’صف دوم‘‘کے مشہور قائدین اور دانشوروں کے ساتھ نومبر 2010ء میں ملاقات کی تو وہ لیڈرشپ کو موردِ الزام نہ ٹھہرانے کی میری گذارش سے طیش میں آگئے ،میں چپ چاپ کئی گھنٹوں تک ان کی خوش گمانیوں پر اندر ہی اندر کڑھتا رہا ۔جب ہڑتالوں سے متعلق دانشوروں کے تصورات کا حال اس قدر سطحی ہو اور ان کی باتیں عوام الناس میں پھیل چکی ہوں توآپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چھ برس بعد جب 8جولائی2016ء کو دوبارہ ’’کلینڈروں‘‘کا آغاز کیا گیا تولیڈرشپ کے ذہن میں کن کن خدشات نے جنم لیا ہوگا اس لئے کہ وہ بھی ہماری طرح ہی کے انسان ہیں کوئی فرشتے یا مافوق الفطرت مخلوق نہیں۔

اب جہاں تک لیڈرشپ کا عوامی موڑ پر تحریک کو منحصر رکھنے کی بات کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں اور میں اپنے نقطہ نگاہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں کہ کوئی بھی تحریک عوامی تعاون اور حوصلوں کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ قیادت کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک کے لئے ’’حکمت عملی ،منازل اور پروگراموں کا تعین خالص قیادت کا کام ہوتا ہے کسی عوام کا نہیں ۔آخر قیادت کس مرض کی دوا ہے جو صرف حالات کی بے رحمی یا عوامی موڑ کا ہی رونا روتی رہے گی ۔لیڈر ہر رنگ میں رنگ جانے والوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس کا مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کے جوہر سے متصف ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ صحیح وقت پر درست قدم اٹھا سکے جیسا کہ علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں ’’حکمت یہ بھی ہے کہ آدمی(لیڈر)اس وقت کے حالات پر نظر رکھتا ہو،مواقع کو سمجھتا ہواور یہ سمجھتا ہو کہ کس موقع پر کیا تدبیر کی جانی چاہیے حالات کو سمجھے بغیر اندھا دھند قدم اٹھادینا،بے موقع کام کرنا اور موقع پر چوک جانامغفل لوگوں کا کام ہے ۔اورایسے لوگ خواہ کتنے ہی پاکیزہ مقصد کے لئے کتنی ہی نیکی اور نیک نیتی کے ساتھ کام کر رہے ہوں ،کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں (تحریک اور کارکن)لیڈر بھیڑ اور عوام کو دیکھ کر اپنی منزل متعین نہیں کرتا ہے بلکہ اس میں ہواؤں کا رخ بدلنے کا حوصلہ ہوناچا ہیے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نہ خود مایوس ہو اور نہ ہی قوم میں مایوسی کو گھر کرنے کی گنجائش پیدا کرے ۔ہاں ساتھ چلنے والوں کو بھی معلوم ہو نا چاہیے کہ جھوٹی تسلیاں دیکر قوم کو چند ایام تک غلط فہمی میں رکھا جا سکتا ہے مگر ہمیشہ ہمیش کے لئے نہیں ۔

لیڈر شپ اس وہم میں مبتلا ہو گئی کہ اگر انھوں نے ہڑتال ختم کر دی تو انھیں عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑے گا حالانکہ ہڑتال کی ابتدائی حدت صرف جنوبی کشمیر تک ہی محدود تھی اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہڑتال بہر کیف ختم کرنی ہے اس لئے کہ ایک قوم اتنی طویل ہڑتال کا جو کھم نہیں اٹھا سکتی ہے جتنا کشمیریوں نے اب تک اٹھارکھاہے ۔ہڑتال سے متعلق غلط فہمیاں پھیلانے میں ہم سب کا انتہائی کلیدی رول رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہڑتال کے آپشن کو استعمال کرتے کرتے ہم نے ہڑتال کی ’’معنوی اور حسی اہمیت ‘‘خود ہی ختم کر دی ہے ۔کشمیر کے مظلوم قوم کی ’’تحریک آزادی‘‘کی یہ چند علامات تھیں جنہیں ہم نے خود ہی غیر متعلق کر دیا ہے ۔ہر عقل مند اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ چند لاکھ کی ایک محدود قوم سواارب انسانوں کے ایٹمی اور معاشی قوت کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتی ہے سوائے ’’ طویل المدتی حکمت سے بھر پور علاماتی تحریک ‘‘ کے ذریعے جس میں جارح کا زیادہ اور مجروحین کا کم سے کم نقصان ہو ۔ کشمیر میں موجود بندوق کا مقابلہ بھارت کے بندوق سے کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے اس لئے کہ کہاں پچیس لاکھ فوج جن میں سے ساتھ آٹھ لاکھ کو جموں و کشمیر میں ہی بٹھا دیا گیا ہو اور کہاں چند سو نہتے ’’مجاہدین‘‘جن کی ٹریننگ سے لیکر اسلحہ تک ’’عسکری لغت‘‘میں نا ہی ٹریننگ اور نا ہی اسلحہ قراردیا جا سکتا ہے ۔ میرے خیال میں بندوق،پتھر اور ہڑتال علاماتِ ناراضگی ہیں بھارت کے تکبر کو مٹانے والی قوت نہیں اور ہم ’’لقمانِ دوراں‘‘کے زعم میں مبتلا کشمیریوں نے ان علامات کو بھی اپنی حماقتوں سے ناکارہ کردیا ہے ۔

بد نصیبی یہ ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہے جوہر مسئلے کو جذبات کی عینک سے ہی دیکھتی ہے ۔جذباتی ہونا برا نہیں ہے مگر ہر مسئلہ اگر جذبات کے ہی آئینے سے جانچا جائے گا تو علم و حکمت اوردانش ہم سے روٹھ جائیں گے ۔ہم بھارت سے حق مانگتے ہیں اور اس کے لئے بلا جذبات کام نہیں چلے گا یہ صفت مظلومین میں قدرتی ہو تو سونے پر سہاگہ ورنہ لیڈروں کی بدنصیبی کہ ہر دن لوگوں کو اس دشوار ترین مہم کے لئے آمادہ کرنا ہوگا۔ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ہڑتال تحریک کا ایک حصہ ہو سکتا ہے پر ’’تحریک ‘‘نہیں کہ اگر ہڑتال ختم کردی توتحریک بھی ختم ۔ہڑتال سے متعلق ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم طویل ہڑتالوں کے باربار متحمل نہیں ہو سکتے ہیں اور اگر ہم نے یہ سلسلہ جاری رکھا تو قوم تنگ آکر آمادہ بغاوت ہو سکتی ہے ۔میں نے اس بار بعض غیبی قوتوں کو بھی دیکھا کہ وہ ہڑتال کوحکومت کے خاتمے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہو ئے آخری درجے کے تشدد تک لے جانا چاہتے تھے۔میں نے کئی بڑے بڑے اجتماعات میں (جن میں کم و بیش لوگ پچاس ہزار سے لیکر تین لاکھ تک ہوتے تھے)مقررین کو آگ اورشعلے برساتے ہو ئے سنا حتیٰ کہ میں نے کئی اجتماعات میں لوگوں سے تلقین کی کہ ’’لیڈرشپ جب ہڑتال ختم کرنے کی اپیل کرے گی ہمیں کرنی چاہیے‘‘ اس لئے کہ بعض مقررین نے ان عوامی اجتماعات میں کھلے عام یہ تک کہا کہ ’’خبردار!2010کی طرح پیسہ لیکر ہڑتال ختم کرنے والوں کی بات پر کان نہ دھرا جائے ،کئی مقامات پر براہ راست حریت کانفرنس کا نام لیکر یہ تک بتایا گیا کہ انہی حضرات نے پیسہ لیکر گذشتہ ہڑتالیں ختم کرادیں ہیں ۔جو لوگ میرے سمیت حریت والوں سے ہڑتال کو لمبا کرنے پر ناراضگی جتاتے ہیں انھیں اس صورتحال کا بھی ادراک کر لینا چاہیے کہ لیڈرشپ کو کس طرح اپنے پیچھے چلانی کی کوششیں کی گئیں باوجوداُس سب کے حریت کو فوائد و نقصانات کا بھر پور ادراک کرتے ہو ئے اندیشوں سے اوپر اٹھ کر فیصلہ لینا چاہیے تھا ۔حیرت یہ کہ جب بھی ’’دانشوران کشمیر‘‘سے ہڑتال کا متبادل پیش کرنے کی اپیل کی گئی تو ان کے لب نہیں کھلے آخر کیوں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اجتماعی طور پر دانشورانہ بصیرت ہی سے محروم ہو چکے ہیں !اگر نہیں اور اﷲ کرے کہ نہیں ہی اس کا جواب ہو تو پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر ہم لیڈرشپ کے پاس جا کر انھیں متبادل کے بجائے مختصر کرنے کی تلقین کے برعکس اس کے لمبا کرنے پر لچھے دار تقریریں کیوں کرتے ہیں ؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اگر سال بھر کے ہڑتال کے بعد بھی ’’دلی سرکار‘‘چپ سادھ لئے بیٹھ جائے گی تو ہمارے لئے ہڑتال کا آپشن محدود نہیں ختم ہو جائے گا ۔

قیادت کو ہمارے موسموں کی طرح بدلتے مزاج پر بھی نظر رکھنی چاہیے ۔ہمیں رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگتی ہے ۔ہمارے جذبات بقول وید بسیم دریائے جہلم کی طرح ہیں جب اس میں طغیانی آتی ہے تو کراچی تک ہر شئی کو بہا کے لے جاتا ہے اور جب یہ اپنی اصلیت پر آکر پر سکون ہو جاتا ہے تو کہیں بھی کوئی تلاطم دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ہم لوگ ووٹ بھی دیتے ہیں اور آپ کے ساتھ بھی قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں لہذالیڈر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قومی مزاج سے واقف ہو اور اس کا ہاتھ ان کے نبض پر ہو، نہ ان پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈال دے اور نہ ہی ان سے ان کی منزل اوجھل کر دے ۔ہڑتال کا بے انتہا طول قوم کے لئے بلا شبہ کمر توڑ ثابت ہوا مگر یہ کمزور اور مظلوم قوم اب تک ’’جیسی تیسی ‘‘آپ کے ساتھ کھڑی ہے اور اس نے آ پ کو کسی بھی طرح ذلیل نہیں کیا ۔روئے زمین پر موجود قوموں میں میری معلومات کی حد تک ’’اپنی مظلومیت میں بے مثال ‘‘ہونے کے باوجود اس نے ثابت قدمی کا بھر پور مظاہرا کیا اور اس لحاظ سے یہ قوم قابل احترام بھی ہے اور قابل تعریف بھی ۔البتہ جس مسئلے پر آ پ کو نظر رکھتے ہو ئے معاملے کو طویل ترین طوالت سے بچانا ضروری تھا وہ تھا دلی میں برسرِ اقتدار گجراتی سنگھی ٹیم کے عزائم اور کشمیریوں سے متعلق ان کے تصورات ۔جن کی جان بوجھ کر خاموشی اور چپ سادھ لینے سے یہاں اب قوم میں ’’احساسِ کمتری‘‘جنم لیتا جا رہا ہے ۔یہ معلوم تھا کہ نریندر مودی کی انتہا پسند ٹیم سے پہلے بھی یہاں کشمیریوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والی بیروکریسی براجمان نہیں تھی اور اب تو الحفیظ والامان ۔لہذا ضرورت اس امر کی تھی کہ طوالت کو کم کرتے ہو ئے کچھ ایسے سیاسی اقدامات اٹھائے جاتے جن سے قوم ایک طرح کے احساس کمتر ی میں مبتلا ہونے سے بچ جاتی۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سال2010ء کی طرح ہمیں خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے کہ جب دوبارہ ایسی کوئی ناگہانی صورتحال پیدا ہو جائے تو ہمیں پتہ ہی نہیں ہوگا کہ ہمیں کیا کرنا ہے ؟لہذا ہمیں ابھی اور آج ہی سے اجتماعی احتساب کرنا ہوگا ۔لیڈر سے لیکر کارکن تک ہمیں ماضی سے سیکھنا ہوگا اور تحریک کو آگے بڑھانے کے اہداف اور مشکلات واضح ہوں تاکہ باربار گرنے یا ٹھوکر کھانے سے کسی حد تک بچا جا سکے ۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 83916 views writer
journalist
political analyst
.. View More