بلدیاتی اداروں کی بحالی اورعوامی توقعات
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
عوامی مسائل کے فوری حل اورمقامی سطح کی تعمیر و
ترقی کیلئے بلدیاتی ادارے اہم ترین کردارادا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا
بھر میں تعمیر و ترقی اور عوام کی خدمت کے لئے مقامی حکومتوں کے نظام
کوخصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں بلدیاتی اداروں کے
قیام پر مسلسل نت نئے تجربات آزمائے جارتے رہے ہیں۔کبھی بی ڈی ممبرز اور
کبھی ناظم اور اب بالآخر موجودہ حکومت کی جانب سے تقریباً آٹھ سال بعد
مقامی حکومتوں کا نظام بحال کردیا گیا ہے ، جس کے بعد ضلعی چیئرمین ، وائس
چیئرمین ، مئیر و ڈپٹی مئیرز اور یونین کونسل کے چیئرمین و وائس چیئرمین
اور کونسلرز نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا کر کام کا باقائدہ آغاز کردیا ہے۔
اس طرح ضلع کونسل، میونسپل کمیٹی اور یونین کونسل کی رونقیں دوبارہ بحال
ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پنجاب میں سول ایڈمنسٹریشن
آرڈیننس 2016ء بھی جاری کردیاگیا ہے جس کے بعد ڈی سی اوز کا عہدہ ختم کرکے
تقریباً پندرہ سال بعد دوبارہ ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بحال کردیا گیا ہے۔
موجودہ سسٹم کے تحت ڈپٹی کمشنر بطور جسٹس آف دی پیس فوجداری مقدمات کی
سماعت بھی کرسکے گا، اس کے علاوہ ضلع کے اندر ترقیاتی فنڈز کی نگرانی ، اور
لوکل گورنمنٹ سسٹم کوبہتر بنانے اور اس کی مانیٹرنگ کی ذمہ داری بھی ڈپٹی
کمشنر پر عائد ہوگی۔ ذرائع کے مطابق نئے بلدیاتی نظام میں یونین کونسلوں کے
اختیارات کا دائرہ کار بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ یونین کونسلیں تجاوزات کے
خاتمے، ناجائز قابضین کے خلاف کارروائی کے علاوہ اپنا بجٹ منظور کر سکیں گی۔
اور وہ ٹیکس جو یونین کونسل کو سونپے گئے ہیں ان میں یونین کونسلیں خود
اضافہ کر سکیں گی راستے، سٹریٹس پارک، قبرستان، بچوں کے کھیل کود کے میدان،
سرکاری باغوں کی دیکھ بھال بھی اور ان کی بہتری اور مرمت کا کام بھی ان کے
ز مہ ہوگا۔ یونین کونسلیں شجرکاری کی مہم چلائیں گی خالی جگہوں کو پھول،
جھاڑیاں لگا کر خوبصورت بنائیں گی، گلیوں، محلوں، بازاروں میں تجاوزات
کیخلاف باقائدہ مہم چلائیں گی ۔ دیہات میں یونین کونسلیں پانی کی سپلائی کی
سکیموں ،پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، کنوؤں کی کھدائی گندے پانی کے نکاس
اور جانوروں کے بھانے کی بھی ذمہ داری نبھائیں گی، اور عرس کے اہتمام کے
علاوہ پیدائش، موت، شادی اور طلاق کی رجسٹریشن بھی کریں گی۔ آتشزدگی سیلاب
طوفان بادوباراں، زلزلے اور دیگر آفات کی صورت میں علاقے کے لوگوں کیلئے
ریلیف ، سپورٹس سرگرمیوں کے فروغ کی ذمہ داری لائبریری اور ریڈنگ رومز
بنائیں گی۔ یونین کونسل کو اضافی ذمہ داریاں ملنے کے بعد یونین کونسل میں
دو سیکرٹری ہوں گے جن میں ایک سیکرٹری گریجویٹ اور دوسرا سب انجینئر ہوگا
دونوں سیکرٹری گریڈ گیارہ میں بھرتی ہوں گے اور اپنی ذمہ داریاں اپنی
کوالیفکیشن کے مطابق نبھائیں گے۔جبکہ پنجاب حکومت صوبے کی 4015 یونین
کونسلوں کیلئے مذید 4 ہزار سیکرٹری یونین کونسل بھرتی کرے گی۔
بلدیاتی نظام کی بحالی میں تاخیر اور بلدیاتی انتخابات کے بار بار التواء
کے سبب سب سے زیادہ عام شہری کو بے انتہاء مسائل کا سامنا رہا ہے ، شہری
عام علاقائی امور نبٹانے اور گلی محلوں کے کام کے لیے ایم این اے ، ایم پی
اے کے محتاج تھے۔ بلاشبہ مقامی حکومتوں کا نظام تمام ترقی یافتہ جمہوری و
فلاحی مملکتوں کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔کئی ترقی پذیر ممالک
نے بھی اقتصادی خوشحالی اور سماجی بہتری کی راہ پر تیزی سے گامزن ہونے اور
تمام شہریوں تک ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات پہنچانے کے لئے مقامی حکومتی نظام
کو اپنایا ہے۔ بلدیاتی نظام کے فعال ہونے سے نچلی سطح پر عوام کے مسائل حل
کرنے میں مدد ملے گی اور ترقی کا عمل تیزی سے آگے بڑھے گا۔ پاکستان آخر کار
پرامن سرزمین اور ترقی یافتہ معیشت کی منزل کی جانب چل پڑا ہے اور بلدیاتی
نظام کی بحالی سے اب یہ منزل زیادہ دور نہیں ہے ۔ عوام نے بلدیاتی نمائندوں
سے جو توقعات وابستہ کر کے ان کو ووٹ دئیے اور اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے
اب منتخب نمائندوں کو ان توقعات پر پورااترنے کا وقت آگیا ہے۔ بلدیاتی
اداروں کے سربراہان اور منتخب نمائندوں کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ پنی تمام
تر توانائیاں، ایمانداری اور دیانتداری سے ملک و قوم کی تقدیر سنوارنے،
عوام کی خدمت کرنے اور ان منتخب عوامی نمائندوں سے وابستہ عوامی توقعات
پورا کرنے میں صرف کر دیں، اور ان کے پاس سردست جتنے بھی اختیارات ہیں وہ
ان کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ منتخب
بلدیاتی نمائندے خود پر یہ سوچ لازم کرلیں کہ عوام کے مسائل کا حل صرف ان
کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ افسوس ہمارے یہاں سیاست کو عبادت اور خدمت سمجھ
کرکرنے کے نعرے تو لگائے جاتے رہے ہیں، لیکن انتخاب کے بعد اکثرنمائندے
عوام کی خدمت تو دور کی بات کہیں دیکھنے کو بھی نہیں ملتے ۔امید کی جاتی ہے
کہ نئے بلدیاتی نمائندے اس روایت کو ختم کرتے ہوئے حقیقی معنوں میں عوام کے
خادم بنیں گے،بلاشبہ خدمت خلق کا حقیقی جذبہ جہاں ترقی و مقبولیت میں اضافے
کا باعث ہے وہاں آخرت میں نجات کا سبب بھی ہے ۔ |
|