پرانے زیورات فروخت کرکے نئے زیورات خریدنے میں کن امور کا خیال رکھنا چاہئے؟

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

اگر کوئی شخص پرانے زیورات فروخت کرکے نئے زیورات خریدنا چاہتا ہے تو شریعت اسلامیہ کی تعلیمات کے مطابق پرانے زیورات کی قیمت طے کرکے پہلے اس کی قیمت حاصل کرے، پھر نئے زیورات کی قیمت ادا کرکے نئے زیورات خریدے کیونکہ پوری انسانیت کے نبی اکرم ﷺ نے ایک ہی جنس کی چیز کو (مثلاً سونے کو سونے کے بدلے) کم وبیش کرکے خریدوفروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر پرانے زیورات کی قیمت دس ہزار روپئے طے ہوئی تو پہلے پرانے زیورات دے کر دس ہزار روپئے لے لئے جائیں، اور اگر نئے زیورات کی قیمت پندرہ ہزار روپئے طے ہوئی تو اپنے پاس سے پانچ ہزار شامل کرکے پندرہ ہزار روپئے کی رقم دے کر نئے زیوارت لئے جائیں۔ اس طرح یہ دو الگ الگ ڈیل ہوں گی۔ دونوں ڈیل میں پیسوں کا مقابلہ زیورات سے ہے، جب پیسوں کا مقابلہ کسی چیز یا سامان سے ہوتا ہے تو کمی بیشی جائز ہے، البتہ ہمارے نبی کی تعلیمات کے مطابق سونے کی سونے سے خرید وفروخت کرنے میں کمی بیشی جائز نہیں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ دونوں ڈیل ایک ساتھ کی جائیں، یعنی ایک طرف نئے زیورات پسند کرکے ان کی قیمت طے کرلی جائے، اور دوسری طرف پرانے زیورات دکھاکر اس کی قیمت بھی طے کرلی جائے، لیکن صرف دونوں میں فرق مثلاً اوپر والی شکل میں صرف پانچ ہزار رپئے دے کر خرید وفروخت مکمل کرنا شک وشبہ سے خالی نہیں ہے۔ بلکہ پہلے پرانے زیورات دے کر دس ہزار روپئے لئے جائیں، پھر پندرہ ہزار روپئے دے کر نئے زیورات خریدے جائیں۔ ہندوستان میں عموماً زیورات کا کاروبار کرنے والے غیر مسلم ہوتے ہیں، اس لئے انہیں بتایا جائے کہ ہماری شریعت اسلامیہ کے مطابق یہ دو الگ الگ ڈیل ہوں گی، لہٰذا بات مکمل کرکے پہلے پرانے زیوارت دے کر اس کی قیمت لی جائے، پھر نئے زیورات کی قیمت دے کر نئے زیوارت خریدے جائیں۔
قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی واضح تعلیمات کی بنا پر اس مسئلہ میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ سونے کو سونے کے عوض کم وبیشی کرکے خرید وفروخت کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا پرانے زیورات فروخت کرنے اور نئے زیورات خریدنے کے لئے وہ صورت اختیار کی جائے جو مثال دے کر بیان کی گئی۔ مسئلہ کی مزید وضاحت اور دلیل کے لئے تین احادیث نبویہ پیش ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ایک شخص کو (زکوٰۃ وصدقات وصول کرنے کے لئے) عامل بنایا۔ وہ صاحب (زکوٰۃ وغیرہ وصول کرکے) عمدہ قسم کی کھجور لائے۔ حضور اکرم ﷺ نے پوچھا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی طرح کی تھیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، بخدا یا رسول اﷲ! ہم تو اسی طرح کی ایک صاع (اُس زمانہ کا ایک پیمانہ) کھجور (اس سے گھٹیا درجہ کی) دو صاع دے کرلیتے ہیں، اور دو صاع تین صاع کے بدلہ میں لیتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو، البتہ کھجور کو دراہم (اُس زمانہ کا پیسہ) کے بدلہ میں بیچ کر، اُن دراہم سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہیں۔ (بخاری ۔ کتاب البیوع ۔ باب اذا اراد بیع تمر بتمر خیر منہ)

صحابی رسول فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے چاندی چاندی کے بدلے میں اور سونا سونے کے بدلے میں بیچنے سے منع فرمایاتھا الا یہ کہ برابر برابر ہو (تو اس کی اجازت تھی) اور ہمیں حکم تھا کہ سونا چاندی کے بدلے میں جس طرح چاہیں خریدیں، اسی طرح چاندی سونے کے بدلے میں جس طرح چاہیں خریدیں۔ (بخاری ۔ کتاب البیوع ۔ باب بیع الذہب بالورق یداً بید)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جو کو جو کے بدلے، کھجور کو کھجور کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے برابر برابر، دست بدست فروخت کرو، مگر جب یہ قسمیں مختلف ہوجائیں (یعنی سونے کو چاندی کے بدلے یا گیہوں کو کھجور کے بدلے) تو جس طرح (کم وبیش) تمہاری مرضی ہو، فروخت کرو، مگر نقداً نقداً ہونا چاہئے۔ (مسلم۔ کتاب المساقاۃ ۔ باب الصرف وبیع الذہب بالورق نقداً)

کیونکہ ہمارے نبیﷺنے شک وشبہ والی چیزوں سے بچنے کی تعلیم دی ہے، لہٰذا جب بھی پرانے زیورات کو فروخت کرکے نئے زیورات خریدنے کا ارادہ ہو تو دو الگ الگ ڈیل کریں تاکہ سود جیسے بڑے گناہ کے شبہ سے بھی بچا جا سکے کیونکہ سود کو قرآن کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لئے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کئے گئے جو سود کے لئے اﷲ تعالیٰ نے استعمال کئے ہیں چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔ (سورۃ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) سود کھانے والوں کے لئے اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔۔ اﷲ تعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لئے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ (سورۃ البقرہ ۲۷۵) اﷲ تعالیٰ ہمیں سود کی تمام شکلوں سے محفوظ فرمائے، اور اس کے انجام بد سے ہماری حفاظت فرمائے۔
 
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 133 Articles with 154177 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.