انسان کے بنیادی حقوق بہت سے ہیں۔
اگر معاشرتی حقوق کی بات کی جائے تو ان میں حقِ زندگی، حقِ جائیداد، حقِ
تحریرو تقریر، حقِ خاندان، حقِ تعلیم، حقِ معاہدہ، حقِ مساوات، حقِ مذہب
وعقیدہ، حقِ آزادی نقل و حرکت، حقِ انجمن سازی، حقِ آزادی زبان وثقافت اور
حقِ اخفائے مراسلہ شامل ہیں۔ انسان کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کو جب ریاستی
سطح پر تسلیم کر لیا جائے اور قانون کے ذریعے انھیں تحفظ فراہم کردیا جائے
تو اسے حق کہتے ہیں۔ حق جتایا جا سکتا ہے، منوایا جاسکتا ہے۔ ریاست جب حق
تسلیم کرچکی ہو لیکن پھر بھی عملی طور پر ان تسلیم شدہ حقوق کو رد کردے تو
حقوق کی پامالی اور ریاستی جبر کے منفی لفظ وجود میں آتے ہیں۔ انسانی
نفسیات ہے کہ وہ اپنے حقوق کے معاملے میں نہایت حریص ہوتا ہے جب کہ اپنے
فرائض کے معاملے میں ہمیشہ کنجوسی کر جاتا ہے۔
یہی کچھ ہمارے یہاں ہورہا ہے۔ ہمارا معاشرہ جس شدید گھٹن کا شکار رہا ہے اس
میں سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) نے بولنے اور اذہان کھولنے کا موقع
فراہم کیا، لیکن یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے پریشر ککر میں ہوا بھرتی چلی
جائے اور جب ہوا کا دباؤ بڑھنے لگے تو وہ پھٹ پڑے۔ سو کچھ ایسا ہی فوجی
آمروں کی حکومت اور سوِل لبادہ پہنے ہمارے سیاست داں ڈکٹیٹرز کے ادوار میں
ہوا، جب ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ ایسے میں سوشل میڈیا کی صورت میں
سامنے آنے والے ذرایع نے پاکستانی عوام کو بے قابو کر دیا۔ اور یہ پاکستان
میں کب شروع ہوا؟ اس حوالے سے ماضی میں میرے کئی کالم اخبارات میں چھپ چکے
ہیں، لہٰذا یہاں اس تفصیل میں جانا ہمیں اصل معاملے سے ہٹا سکتا ہے۔ بہرحال
سوشل میڈیا نے گویا پاکستان کی تاریخ میں آزادی اظہاررائے پر لگی تمام
قدغنوں کو بالائے طاق رکھ کر کھل کے موقف بیان کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس حق کاجو انسان کے بنیادی معاشرتی حقوق میں شامل ہے۔
یعنی حقِ تحریر و تقریر، اس کی تعریف ایک جگہ یوں بیان کی گئی ہے کہ شہریوں
کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کا حق ہے۔ یعنی وہ اپنے خیالات کو تقریر یا
تحریر کے ذریعے دوسرے لوگوں تک پہچا اور ان کے ساتھ خیالات کا تبادلہ کرسکے،
لیکن ایسے خیالات کے اظہار کی اجازت نہیں ہوتی جن سے ملک کی سالمیت کو خطرہ
ہو یا جو معاشرے کی مسلمہ اقدار سے بغاوت پر مبنی ہوں۔ ایک ریاست میں
جمہوری اور سیاسی ترقی کے لیے تحریر وتقریر کی آزادی بڑا اہم کردار ادا
کرتی ہے۔
آسان زبان میں مدعا یہ ہے کہ جناب آپ اپنی بات پوری بے باکی سے کیجیے لیکن
معاشرے کی مسلمہ اقدار کا خیال رکھیے۔ اپنی بات کو اس طرح مہذب لفظوں اور
محتاط انداز میں پیش کیجیے کہ جس سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ لیکن
بدقسمتی سے میرے دیس میں ایسا نہیں ہوا۔ اپنی رائے اپنا نظریہ تو دوسروں کے
سامنے لایا گیا، لیکن ساتھ ہی دوسروں کے نظریات اور عقیدے کا جی بھر کے
مذاق اڑایا گیا۔ یوں طوفان ِبدتمیزی کی ہواؤں نے عام اذہان میں سوشل میڈیا
کو ناپسندیدہ ذریعہ قرار دینا شروع کردیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا ہم نے پہلے
بھی اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اگر مناسب قوانین نہ اپنائے گئے تو کسی حد
تک ممکن ہے کہ سماجی ذرایع ابلاغ اپنے بدترین دور کو بہت جلد دیکھ لیں گے
اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ اپنی بات بیان کر تے کرتے جب دوسروں کے عقائد کا
مذاق بنایا جانے لگا توانتقامی فضا نے جنم لیا۔
یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ لوگ اپنے آپ کو لبرل، سیکولر یاatheist (دہریہ)
کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن ان کے طرزعمل سے لگتا ہے کہ شاید ان میں
سے کوئی بھی ان نظریات کی مکمل تعریف سے واقف نہیں۔ لبرل، سیکولر یا
atheist ہونے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ آپ فقط ایک دین، دینِ محمدی کو
نشانے پر رکھیں اور اس پر فخر محسوس کریں۔
مولوی ہونا ہمارے یہاں اب کسی طعنے سے کم نہیں۔ اگر کسی کا تمسخر مقصود ہو
تو اسے مولوی کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن دوسرے مذاہب کے پیشواؤں سے ہمدردی
رکھنا اور ظاہر کرنا فرض سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہونا
اپنی ریاست کی کمزوری سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر دوسرے ممالک اپنے مذاہب کی
رسومات اور روایات کو اپنی ریاست کی مشنیری کا حصہ بنالیں تو ہم انھیں ایک
متوازن معاشرہ کہتے ہیں۔ داڑھی بہت سے مذاہب کا حصہ ہے، لیکن اس معاملے میں
فقط اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کا کسی کپڑے سے سر کو ڈھانپنا
بہت سے مذاہب کی روایت ہے، لیکن ہم اپنا اولین فرض یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام
پر یہ الزام لگا دین کے اس مذہب نے عورت کو قید کر دیا ہے۔
یہ سب کچھ کرنے والے خود کو لبرل ظاہر کرتے ہیں نہ سیکولر اور نہ ہی کچھ
اور، وہ تو بس اسلام سے دشمنی کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں، جو کسی صورت درست
نہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا گیا ہے جو الحمدﷲ مسلمان ہیں لیکن
اپنی زندگی کی محرومیوں کا بدلہ اسلام سے لیتے ہیں اور دینِ حق کو قصوروار
ٹھہراتے ہوئے نہایت بدزبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی مذہب سے تعلق
رکھتے ہوں کوئی بھی نظریہ رکھتے ہوں آپ کو حق نہیں پہنچتا کے آپ دوسرے مذہب
کو نشانہ بنائیں۔
یہاں ان نظریات کے بارے میں چند معروف تعارفیں بیان کی جارہی ہیں۔ لبرل ازم
آزادی کے تصور کی ترجمانی کرتا ہے (یہ لاطینی لفظ لیبر جس کا مطلب آزاد ہے
سے نکلا ہے)، جو کہ ایک بہت ہی پُرکشش نعرہ ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن
کا استحصال کیا جارہا ہو لیکن اس کا اصل مطلب عام زبان میں استعمال ہونے
والے معنی سے مختلف ہے۔ لبرل کے عام معنی آزادی کے ہی ہیں، یعنی کسی مخصوص
رکاوٹ سے نجات حاصل کرنا، جیسا کہ غلامی سے آزادی یا فوجی قبضے سے آزادی
وغیرہ۔ لیکن سیاسی لحاظ سے آزادی کے معنی جیسا کہ لبرل ازم نے واضع کیا ہے،
وہ یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی آزادی حاصل ہو کہ وہ جو چاہے عمل اختیار
کرسکے۔ لہٰذا سیاسی معنوں میں آزادی کا مطلب یہ تصور بن گیا کہ انسان
خودمختار (اقتدار اعلیٰ) ہے۔
سیکولرزم کو اگر عام معانی میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا
ہے،’’انسانی زندگی میں دنیا سے متعلق اُمور کا تعلق خدا یا مذہب سے نہیں
ہوتا‘‘ اور سیکولرزم میں حکومتی معاملات کا خدا اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں
ہوتا۔
سیکولرزم میں انسانی اور حکومتی معاملات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں
ہوتا بلکہ اس کا مطلب ہے دُنیاوی اُمور سے مذہب اور مذہبی تصوّرات کا
اخراج۔ آکسفرڈ ڈکشنری کے مطابق اگر دیکھا جائے تو سیکولرزم سے مُراد ایسا
عقیدہ ہے جس میں مذہب اور مذہبی خیالات و تصوّرات کو ارادتاً دُنیاوی اُمور
سے حذف کر دیا جائے۔
سیکولرزم انفرادی طور پر بھی یہ آزادی مہیا کرتا ہے کہ آپ جو جی چاہے مذہب
اختیار کریں اور اگر آپ کسی بھی مذہب پر عمل پیرا نہیں ہونا چاہتے تو بھی
آپ کو آزادی اور حقوق مہیا کیے جائیں گے۔ پاکستانی معاشرے میں سیکولرزم کو
روشن خیالی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
atheist دہریہ ہر وہ شخص کہلاتا ہے جو کسی مذہب کا پیروکار نہیں یا کائنات
کے خلق ہونے اور اس کے خالق پر یقین نہیں رکھتا۔
ان میں سے کوئی کسی بھی نظریے پر عمل پیرا ہو لیکن اسے ریاست کے نظریے، اس
کی سالمیت اور ریاست کے شہریوں کی اکثریت کے نظریات اور عقیدوں کا احترام
کرنا چاہیے۔ یہ ریاست اور دوسروں کے حق کا احترام ہے۔ جب ان نظریات کی آڑ
میں لوگ دوسروں کے حق کو رد کرتے ہوئے ان کے نظریات اور سوچ کا مذاق اُڑاتے
ہیں تو اس طرح وہ اپنے اظہار رائے کے حق کی خود نفی کرتے ہیں۔ بات بس اتنی
ہے کہ ہمیں اپنا حق منوانا ہے تو دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔ |