منٹو۔ معروف افسانہ نگار
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
سعادت حسن منٹو |
|
ادب پڑھنے والوں کے لیے افسانہ ہمیشہ سے ہی
پسندیدہ صنف رہا ہے ، مختصر افسانے شوق و ذوق سے پڑھے جاتے ہیں ۔ افسانہ کی
مقبولیت اور انفرادیت کی وجہ سرور جاوید نے اپنی کتاب ’متاعِ نظر ‘ میں یہ
بیان کی ہے کہ ’افسانہ انسانی کی فطری جبلت یعنی داستان سے لطف اندوز ہونے
کی صلاحیت کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے، اور زندگی کی سچائیوں کی دریافت اور
بازیافت کا طریقہ بھی ہے‘ ۔ مَیں افسانہ نگار نہیں البتہ خاکہ نگاری میں
منٹو کا ساتھی ضرور ہوں۔ سعادت حسن منٹو افسانہ کے حوالے سے اردو ادب میں
ایک منفرد اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔باوجود اختلاف رکھنے کے، تنقید کا
نشانہ بننے کے ، بلکہ برا بھلاکہنے کے باوجود منٹو کے افسانے اس قدر مقبول
ہوئے کہ ان کا کوئی ثانی نہیں۔وہ ایک صاحبِ اسلوب افسانہ نگار کے طور پر
جانا جاتا ہے۔ منٹو بہت کم عمر لے کر دنیا میں آیا یعنی وہ 11مئی 1912کو
ہندوستان کے شہر امرتسر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا، اس کے والد غلام حسین
منٹو بنیادی طور پر کشمیری تھے ، ابھی منٹو 18برس کا تھا کہ اس کے والد نے
داعی اجل کو لبیک کہا۔مختصر سی زندگی میں افسانہ نگاری میں دھوم مچانے کے
بعد منٹو 18جنوری1955کو صرف 43سال کی عمر میں اللہ کو پیارا ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ منٹو اشتراکی سوچ رکھتا تھا اور مارکس، فرائڈ، ہیگل اور
ہیولک ایلس سے متاثر تھا ، وہ محض دکھاوے کی حد تک ہی نہیں بلکہ اس نے اپنے
عمل سے ثابت کیا کہ وہ اشتراکی نظریات کا حامل ہے ، وہ ایک آزاد خیال ،
مغربی طرز زندگی پر عمل پیرا رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ تنقید نگار بڑے لمبے
چوڑے مضامین لکھتے ہیں۔ اپنی ہمہ دانی کا ثبوت دیتے ہیں، شوپن ہار، فرائڈ،
ہیگل ، نٹ شے ، مارکس کے حوالے دیتے ہیں مگر حقیقت سے کوسوں دور رہتے
ہیں۔وہ جن نظریات کو درست سمجھتا تھا ان کا اظہار اس نے بر ملا کیا، اس کے
افسانوں میں اس کے نظریات کی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔اس کے برعکس منٹو نے
اپنے خود نوشت خاکے ’منٹو‘ میں اس بات کی نفی کی کہ وہ اشتراکی ہے اس کا
کہنا تھا کہ ’وہ اَن پڑھ ہے، اس لحاظ سے کہ اس نے کبھی مارکس کا مطالعہ
نہیں کیا، فرائڈ کی کوئی کتاب آج تک اس کی نظر سے نہیں گزری، ہیگل کا وہ
صرف نام ہی جانتا ہے ۔ ہیولک ایلس کو وہ صرف نام سے جانتا ہے لیکن مزے کی
بات یہ ہے کہ لوگ میرا مطلب ہے تنقید نگار یہ کہتے ہیں کہ وہ ان تمام
مفکروں سے متاثر ہے، جہاں تک میں جانتا ہوں ، منٹو کسی دوسرے شخص کے خیال
سے متاثر ہوتا ہی نہیں‘۔گویا منٹو کے نظریات خود اس کے اپنے تھے، اس کا
مزاج ہی کچھ ایسا تھا کہ اس کے قلم سے جو ادب تخلیق ہوا اس میں بعض جملے
ایسے تخلیق پائے جو قابل اعتراض ہیں۔ منٹو افسانہ نگار، خاکہ نگار ہی نہ
تھا اس نے ریڈیو کے لیے متعدد ڈرامے بھی تخلیق کیے جو کتابی صورت میں
منظرعام پر آئے۔ محبت کے بارے میں منٹو کا کہنا تھا کہ ’’جس طرح بعض بچے
وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں اسی طرح وہ محبت بھی کمزور
رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے‘‘۔
افسانہ لکھنے کے حوالے سے منٹو کاکہنا تھا کہ وہ افسانہ نہیں سوچتا، خود
افسانہ اسے سوچتا ہے، افسانہ لکھنے کی مثال اس نے یہ دی کہ ’جب اُسے افسانہ
لکھنا ہوتا ہے تواس کی وہی حالت ہوتی ہے جب کسی مرغی کو انڈا دینا ہوتا ہے
لیکن وہ انڈا کہیں چھپ کر نہیں دیتا ۔ سب کے سامنے دیتا ہے۔ اس کے دوست یار
بیٹھے ہوتے ہیں ۔ اس کی تین بچیاں شور مچاتی ہوتی ہیں اور وہ اپنی مخصوص
کرسی پر اکڑوں بیٹھا انڈے دیے جاتا ہے جو بعد میں چوں چوں کرتے افسانے بن
جاتے ہیں‘۔ یعنی منٹو کو افسانہ لکھنے کے لیے تنہائی کی، گوشہ نشینی کی
ضرورت نہیں ہوتی تھی وہ دنیا کے ہنگاموں کے دوران اپنا افسانہ لکھ لیا کرتا
تھا۔ منٹو کے افسانہ لکھنے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی جو اسے دیگر لکھاریوں
سے ممتاز کرتی ہے کہ منٹو جب افسانہ لکھنا شروع کرتا تو صفحہ کی پیشانی پر
سب سے پہلے 786لکھا کرتا تھا۔ اس کا پہلا افسانہ ’تماشا‘ تھا پھر بابو گوپی
ناتھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ہتک ، ممی ، موذیل ، وغیرہ لکھے۔ ان کے علاوہ جو
افسانے اور تصانیف منظر عام پر آئیں ان میں چوری، مس مالا، دھواں ، جانور
حنیف جانو، شادی، ٹھڈا گوشت، جھوٹی کہانی، اللہ دتا، بلا نوز، ممد بھائی،
کالی شلوار، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، نیا قانون، بلاؤز، خونی تھوک ، سٹرک کنارے ،
لزت سنگ، گنجے فرشتے ، انار کلی ، لاؤڈسپیکر، نورجہاں، یزید، پھندنے، شکاری
عورتیں، چغد، بغیر اجازت ، سیاہ حاشیے دھواں، کھول دو، جنازے اور
دیگرافسانے مشہور ہوئے۔ بعض افسانوں کے محض عنوانات پر ہی اعترضات ہوئے ،
تنقید کی گئی۔ اس کے بعض افسانوں کو تنقید نگاروں نے شروع ہی سے خوب خوب
تنقید کا نشانہ بنا یا لیکن وہ بھی ایسادھن کا پکا تھا کہ اس نے اپنی روش
کسی طور نہیں بدلی، ایک کے بعد ایک افسانہ اسی طرز و جِہَت، اُسی طرح کے
جملوں اور کھلی کھلی باتیں لکھنے سے بعض نہ آیا۔ اس کے اس طرز عمل پر یا
فحش نگاری کے الزامات لگے اوراس پر مقدمات بھی قائم ہوئے جن کا مقابلہ وہ
اپنی زندگی میں کرتا رہا۔
منٹو نے اپنی افسانہ نگاری کو دو متضاد عناصرکے تصادم کا نتیجہ قرار دیا ہے
۔ یعنی اس کے والد سخت گیر قسم کے انسان تھے اس کے برعکس اس والدہ اس نے یہ
نہیں لکھا کہ اس کی سگی ماں یا سوتیلی ، اس لیے کہ منٹو اپنے والد کی دوسری
بیوی کی اولاد تھا ، وہ بے حد نرم مزاج خاتون تھیں۔ منٹو کے بقول وہ سختی
اور نرمی کے درمیان رہ کر جس قسم کا انسان اور افسانہ نگار بنا وہ سب کے
سامنے ہے۔ منٹو کے دور کے ادیبوں اور دانشوروں میں فیض احمد فیضؔ ، ناصرؔ
کاظمی، احمد راہی، احمد ندیم قاسمی شامل تھے۔ منٹو کی زندگی نے وفا نہ کی
اور وہ صرف 43سال کی عمر میں 18جنوری 1955کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مختصر
وقت میں منٹو نے اردو ادب کو جس افسانوی ادب سے مالا مال کیا وہ اردو ادب
کا ایک قیمتی سرمایا ہے۔ لوگ منٹو کے انفرادی یا ذاتی عمل کو بھول چکے ہیں،
انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ منٹو اپنی نجی زندگی میں کیسا تھا ، کیا کیا کرتا
تھا، پینے پلانے سے اسے کس قدر رغبت تھی اب اگر لوگ پڑھتے ہیں اور مزے لے
لے کر پڑھتے ہیں تو اس کے افسانے پڑھتے ہیں۔ افسانوں نے ہی منٹو کو زندہ
رکھا ہوا ہے وگرنہ سعادت حسن منٹو تو منو مٹی تلے کب کا دب چکا۔ معروف شاعر
مجید امجدنے یہ شعر منٹو کے لیے کہے
مَیں نے اُس کو دیکھاہے
اُجلی اُجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں
پھیلتی بھیڑ کے اندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں
جب وُہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے
’’دنیا تیرا حُسن یہی بدصورتی ہے ! ‘‘ |
|