ہماری ویب کا نیا کارنامہ ’’ہینگ آؤٹ میٹنگ‘‘۔
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘کی پہلی ہینگ آؤٹ میٹنگ ایک قابلِ تحسین قدم ہے جسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ اس اقدام سے پوری دنیا میں موجود اردو زبان سے واقف دوستوں کوبغیر کسی مذہبی، جغرافیائی اور دوسری کسی بھی قسم کی تفریق کے جوڑا جارہا ہے۔ یہ ہماری ویب کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ |
|
|
ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے ممبران جناب پروفیسرسحر انصاری (نشان امتیاز)کے ساتھ |
|
اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میرئے سونے
اورجاگنے کا وقت آجکل نہ معلوم ہے، دوستوں اور احباب کو کہہ رکھا ہے چوبیس
گھنٹے میں جب چاھیں فون کرلیں اگر جاگتا ہوا تولازمی فون اٹھاونگا ورنہ
سمجھ لیں کہ سو رہا ہوں۔اٹھنے کے بعد موبائل چیک کرتا ہوں اور ان نمبر پر
بھی فون کرلیتا ہوں جو میری لسٹ میں موجود نہیں ہوتے۔بدھ بارہ جنوری کی رات
ہم نے اپنی بہو صاحبہ کوہوبہو ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے کوآرڈینیٹر جناب
مصدق رفیق صاحب کا پیغام سنایا کہ کل شام چار بجے ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘
کی پہلی’ہینگ آؤٹ میٹنگ منعقد ہونی ہے، لہذا ہم پر کل ساڑھے تین بجے سے
نگاہ رکھی جائے اور اگرہم سوتے ہوئے پائے جائیں تو ہماری پوتی کو
لاکر’’جاگیں داجی جاگیں‘‘ کے نعرئے لگوائیں ، یہ نعرہ اور ’’گو ماما گو‘‘
کے نعرئےوہ کسی وقت بھی لگا لیتی ہے، خیر ایسا ہی ہوا، اور چونکہ ہم ساری
تیاری پہلے ہی کرلیں تھیں لہذا اس لیے ہم وقت مقرر پرمیٹنگ میں حاضر تھے۔
سب سے پہلے مصدق رفیق صاحب نظر آئے اس کے بعدڈاکٹر صمدانی صاحب اور ابرار
احمدصاحب اور دوسرئے احباب نظر آئے ، آداب محفل کے مطابق سب کو سلام کیا
اور جیسا کہ ہماری ویب ’رائیٹرز کلب کے صدرمحترم ڈاکٹر صمدانی صاحب نے اپنے
مضمون ’’ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘کی پہلی ہینگ آؤٹ میٹنگ‘‘ میں فرمایا کہ
’’کلب کے سینئر رکن، کالم نگار جناب سید انور محمود صاحب اسکرین پر جلوہ
افروز ہوئے اور اپنی آمد اور شرکت کی اطلاع کے ساتھ ساتھ مزاح سے بھرپور
اور خوبصورت گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری طبیعت بھی آج ٹھیک نہیں میرا بیٹا
بھی اس وقت آفس میں ہے، آج میرے لیے روایتی میٹنگ میں شرکت مشکل ہوجاتی ،
ہماری ویب کی ٹیم نے گھر بیٹھے یہ سہولت فراہم کر کے میری مشکل آسان کردی،
انہوں نے کہا کہ آج کی اس ہینگ آؤٹ میٹنگ کو میں ایک عنوان دے رہا ہوں یعنی
’اپنی چائے اور اپنا ناشتہ‘‘، اس کے جواب میں ڈاکٹر صمدانی نے مجھے اپنا
چائے سے بھرا ہوا کپ دکھایا اور پھر ہینگ آؤٹ میٹنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
لیکن بھلا ہو لیپ ٹاپ کا جو نامعلوم وجوہات کی بناہ پر بار بار بند ہورہا
تھا۔ میٹنگ کب ختم ہوئی معلوم نہیں، عجیب سی شرمندگی محسوس ہوئی، میں تمام
شرکا سے معذرت چاہتا ہوں۔ وہ دوست جنہوں نے کراچی سے دور دوسرئے شہروں سے
شرکت کی یقین جانیں یہ میرئے نزدیک ہماری ویب کا ایک سرمایہ ہیں، ہینگ آؤٹ
میٹنگ نے پہلی مرتبہ ہی اپنا چہرہ دکھاکر سب کو ہی خوش کیا ہے، انکو بھی جو
کسی مجبوری یا ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے شریک نہ ہو پائے، یار زندہ صحبت
باقی۔ آپکی عمر کیا ہے اورآپکی تحریر کیسی ہے یہ مت سوچیے بس لکھیں اور
دوستوں کو پڑھیں، یقین کریں جلدہی ایک ایسا دن آئے کہ لوگ آپ کو پڑھ رہے
ہونگے اور آپکے تجربے سے ایک مثبت فائدہ اٹھارہے ہونگے۔ ہماری ویب یہ ہی
کام کررہی ہے، فاصلے آپکی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونگے۔
محترم صدر ڈاکٹر رئیس صمدانی نے ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘کی پہلی ہینگ آؤٹ
میٹنگ کے پانچ ان نکات کا ذکر کیا ہے جس پر سب حاضر ارکان کا اتفاق ہوا جو
مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱۔ ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ جس قدر جلد ممکن ہو ایک تقریب کا اہتمام کرے گا
جس میں ہماری ویب پر نئے لکھنے والوں کو آن لکھنے ، آن لائن پوسٹ کرنے اور
دیگر امور پر علمی و فنی معلومات فراہم کی جائیں گی۔ اس تقریب میں ملک کی
کسی بھی معروف شخصیت کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جائے گا۔
۲۔ کوشش کی جائے گی کہ ابتدائی طور پر ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے سینئر
اراکین کو مضامین از خود آن لائن کرنے کے طریقہ کار سے آگاہ کردیا جائے۔ یا
انہیں یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ مضامین کو آن لائن کرسکیں، تاکہ جس قدر
جلد ہوسکے مضامین ہماری ویب پر آن لائن ہوجایا کریں۔
۳۔ ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے زیر اہتمام ای بک کی تیاری کاعمل اسی تیزی
سے جاری و ساری رکھا جائے گا۔
۴۔ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں آن لائن کرنے کی ترغیب
بدستور دی جاتی رہے گی۔
۵۔ اتفاق پایا کہ ہینگ آؤٹ میٹنگ ہر ماہ منعقد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
بہت اچھی تجاویز ہیں، لیکن بدقسمتی سے میں چونکہ اس میٹنگ میں کمپیوٹر کی
فنی خرابی کی وجہ سےمکمل طور پرمنسلک نہیں رہا لہذا کچھ تجاویز یہاں پیش
کررہا ہوں اور ہماری ویب رائیٹرز کلب کے عہدئے داران سے درخواست کرونگا کہ
ان تجاویز پر اگر ہوسکے تو لازمی غور فرمائیں، ہماری ویب نے پہلی مرتبہ
مضمون نگاروں کو ’’میرا پاکستان کیسا ہو؟‘‘ کے عنوان سے ایک مقابلے کا
انعقاد کیا، اس مقابلے میں میں قطعی حصہ نہیں لیا کیونکہ اس تحریری مقابلے
کا مجھے کوئی فارمیٹ نظر نہیں آیا، مضمون نگاروں کو کسی فارمیٹ کا پابند
نہیں کیا، جس کی وجہ سے بہت سے دوستوں نے اس کو بہت ہی کم الفاظ میں اور
کچھ نے بہت زیادہ الفاظ میں لکھا، اس کے علاوہ کافی دوستوں نے پورا مضمون
صرف ایک پیرگراف میں لکھ دیا جس سے ایک قاری کو مضمون کے مقصد کو سمجھنے
میں مشکل ہوتی ہے۔ میری تجویز ہے کہ آئندہ اس قسم کے مقابلوں میں مضمون
نگار کو دو فارمیٹ کا لازمی پابند کیا جائے:۔
۔1۔ مضمون نگار کو پورئے مضمون کو کم از کم 600 الفاظ اور زیادہ سے زیادہ
1200 الفاذ میں مضمون مکمل کرنا ہے۔
۔2۔ مضمون نگار اپنے مضمون کو کم از کم تین یا زیادہ سے زیادہ چار پیراگراف
میں لکھنے کے پابند ہونگے۔
مجھے اس مقابلے میں جج کا کردار ادا کرنے کو کہا گیااورمیں نے بہت ہی
ایمانداری سے پہلی پوزیشن کےلیے محترمہ فرح اعجاز اور دوسری پوزیشن کےلیے
محترم فرحت طاہرکا نام تجویز کیا تھا (یہ میں پہلی مرتبہ لکھ رہا ہوں) لیکن
اس مقابلے میں سب سے پہلی پوزیشن واہ شہر سے تعلق رکھنے والے کالم نگار
جناب محمد ذوالقرنین نے حاصل کی ہے جبکہ دوسرے انعام کی حقدار امریکہ میں
رہائش پذیر کالم نگار “ محترمہ فرح اعجاز “ قرار پائی ہیں۔ میں نے ان دونوں
کالم نگاروں کو دلی مبارکباد پیش کی تھی اور چونکہ محترمہ فرح اعجاز میری
بہت اچھی بہن اور فیس بکی دوستی ہیں اس لیے ان سے مٹھائی کا مطالبہ بھی کیا
تھا جو اب تک پورا نہیں ہوا، لہذا محترمہ فرح اعجاز کو ڈاکٹر صمدانی صاحب
اور ابرار احمدصاحب کی عدالت کے سپرد کرتا ہوں۔
آگے چلتے ہیں،’’میرا پاکستان کیسا ہو؟‘‘ کے مقابلے کے تھوڑئے عرصے بعد
ہماری ویب نے ایک اور تحریری مقابلے کا انعقاد کیا ، جس کا عنوان تھا “ سو
لفظوں کی کہانی “(یہ بات یاد رکھی جائے کہ پاکستان میں اردو زبان میں ’’سو
لفظوں کی کہانی‘‘ کے موجد جناب مبشر علی زیدی صاحب ہیں اور وہ روزانہ
روزنامہ جنگ میں سو لفظوں کی ایک کہانی لکھتے ہیں)۔ اس مقابلے میں بھی کافی
باتوں خیال نہیں رکھا گیا، بہتر ہوتا کہ کہانی کے دو یا تین عنوان دئے دیے
جاتے، اور ساتھ ہی لکھنے والوں کو کہہ دیا جاتا کہ ایک لفظ کم اور ایک لفظ
زیادہ ہونے والی کہانی کو مسترد کردیا جائے گا تو نتیجہ کے اوپر جو
اعتراضات کیے گئے وہ اعتراضات نہ ہوتے۔ کیونکہ محترم مبشر علی زیدی کی
اجازت سےمیں بھی “ سو لفظوں کی کہانی “ لکھتا ہوں جن کی اب تک تعداد 89 ہے
اور ہماری ویب پر موجود ہیں ، لہذا جب مجھے جناب مصدق رفیق صاحب نے جج
نامزد کرنے کی اطلاع کی تو میں نے ان سے یہ کہہ کرمعذرت کرلی کہ چونکہ میں
اس مقابلے میں خود حصہ لے رہا لہذا یہ مناسب نہ ہوگا کہ میں اس مقابلے میں
جج کا بھی کردار ادا کروں۔
آخری گزارش کہ ہماری ویب کے صفحے ’’ہوم، اردو آرٹیکل، مصنف کا نام‘‘ پہلے
ایک تعداد کے بعد ایک صفحہ ہوجاتا تھا، مثلا کسی مصنف کے مضامین کی
تعداد200 ہے اور ہر صفحہ کی تعداد 20 ماعمین ہے تو اس کا پہلا مضمون صفحہ
دس پر ہوگا، اب اگر اس کو صفحہ دس پر جانا ہے تو اس کو بار بار کلک کرنا
ہوگا جبکہ لہذا اس کو صفحہ کے نمبر کے حساب سے کردیا جائے تو ہر ایک کو یہ
آسانی ہوجائیگی کہ وہ جس مضمون کی تلاش میں ہے وہاں جلدی پہنچ جائے گا۔
امید ہے یہ گذارش جلدہی پوری کردی جائے گی۔ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے زیرِ
اہتمام ’ای بک‘ کی تدوین و اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک مصنف کی عزت
افزائی کا سبب ہے ۔ اس وقت اس کے دوسرئے ایڈیشن پر کام ہورہا ہے، یہ سلسہ
جاری رہنا چاہیے، اس میں تجویز یہ ہے کہ جس مضمون نگار کے پچاس مضامین مکمل
ہوجائیں اسکی ای بک بنادی جائے اور پھر ہر پچاس مضامین کے بعد اسکی نئی ای
بک بن جائے اس طرح ہماری ویب کے پاس ایک ایسا ڈاٹا بنک ہوگا کہ وہ بتاسکیں
گے کہ اسکے کتنے مصنفین اب تک کتنے مضامین لکھے ہیں۔
ہماری ویب ’رائیٹرز کلب‘کی پہلی ہینگ آؤٹ میٹنگ ایک قابل تحسین قدم ہے جسکی
جتنی تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ اس اقدام سے پوری دنیا میں موجود اردو
زبان سے واقف دوستوں کوبغیر کسی مذہبی، جغرافیای اور دوسری کسی بھی قسم کی
تفریق کے جوڑا جارہا ہے۔ یہ ہماری ویب کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ آخر میں
جناب ابرار احمدصاحب، ڈاکٹر صمدانی صاحب اور محترم مصدق رفیق صاحب اور
ہماری ویب کا بہت بہت شکریہ۔
ایک ضروری گذارش :مجھے جنوری 2014 میں ہارٹ اٹیک ہوا تھا، علاج کے بعد کافی
بہتر ہوگیا تھا لیکن کچھ عرصے بعد موشن شروع ہوئے اور میں کمزور ہوتا
چلاگیا، اور اب صورتحال یہ ہے کہ میں دس قدم بھی نہیں چل سکتا، چار بچے ہیں
انکی ماں چھ سال پہلے اس دنیا کو چھوڑ گئیں ہیں، بیٹے کی شادی ہوچکی ہے
ابھی بیٹیوں کے گھر بسانے باقی ہیں اور اللہ سے دعا ہے کہ مجھے صرف اتنی
زندگی دے کہ بیٹیوں کے گھر بس جائیں۔ آپ سب پڑھنے والوں سے صرف یہ درخواست
ہے کہ اپنی دعاؤں میں میرے لیے میری صحت کی دعا ضرور کردیں، میں آپ کا
شکرگزار ہوں گا۔
آپکا۔۔۔۔ سید انور محمود |
|