ڈونلڈ ڈرمپ نے ابھی امریکی صدارت کا حلف
بھی نہیں لیا۔ چین کے ساتھ تعلقات کشید ہ ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ 45صدر کے طور پر
حلف جمعہ 20جنور کو چیف جسٹس سے لیں گے۔ حلف برداری کی تقریب میں دنیا بھر
کی اہم شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی۔پاکستان سے صرف ایک نام سابق صدر آصف
علی زرداری کا ہے جو 20جنوری کو اس تقریب میں شریک ہوں گے۔ زرداری
صاحب2فروری کوصدر اوباما کی الودعی تقریب میں بلاول بھٹو زرادری سمیت شرکت
کریں گے۔ ٹرمپ کے پاکستان کے حوالے سے مستقبل کے تعلقات کا یہ ایک ابتدائی
عندیہ ہے۔ تا ہم ٹرمپ کے چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات پاک امریکہ تعلقات پر
بری طرح سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں سفارتی حلقے بھی اس بارے
میں فکر مند نظر آ رہے ہیں۔
پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی نو منتخب امریکی صدر کا 37سال میں
پہلی بار تائیوان کے لیڈر سے رابطہ ہوا ہے۔ 1979کے بعد ایسا لمحہ آیا جب
تائیوان کے لیڈر نے ٹرمپ کو صدر منتخب ہونے پر ٹیلیفون کال کی۔ 10منٹ تک
بات چیت کے بعد ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کہا:
’’تائیوان کے صدر نے صدارتی الیکشن جیتنے پرمبارکباد پیش کرنے کے لئے مجھے
ٹیلیفون کال کی ۔ آپ کا شکریہ‘‘
یہ بیان امریکہ کی خارجہ پالیسی اور چین سے ٹکراؤ کا ایک اعلان بھی ہے اور
دھمکی بھی۔ تائیوان کا کوئی صدر نہیں بلکہ لیڈر ہوتا ہے۔ چین کا یہی موقف
رہا ہے۔ جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ یہی’’ ون چائینا پالیسی‘‘ ہے۔ جس کا
مطلب تائیوان، ہانگ کانگ اور مکاؤ کو چین کے حصے تسلیم کرنا ہے۔ بھارت ون
چائینا پالیسی کی مخالفت کرتا ہے ۔ وہ تبت کو چین کا علاقہ نہیں سمجھتا۔ تا
ہم چین اور بھارت کے درمیان’’ پنج شیل‘‘پر عمل در آمد ہو رہا ہے۔ جس کے تحت
دونوں ممالک بات چیت سے پانچ رہنما اصولوں کے مطابق معاملات طے کرتے ہیں۔
بھارت اس سے اب گریز کر رہا ہے۔ امریکہ نے چار دہائیوں بعد ون چائینا
پالیسی کو مسترد کر کے ایک نئی سرد جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ جو امریکہ
سوویت یونین سرد جنگ کی طرز پر لڑنے اور دنیا پر اثر انداز ہونے کا خدشہ ہے۔
امریکی خارجہ پالیسی کی تبدیلی کی یہ ابتدا ہے۔ تائیون کے لیڈر سے ٹیلیفون
پر بات چیت اور اسے صدر قرار دینا بہت بڑی پالیسی تبدیلی ہے۔ یہ اچانک
رونما نہیں ہوئی۔ اس کے لئے تیاری کی گئی ہو گی۔ سیکورٹی سے متعلق ٹرمپ کو
بریفنگ دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انہیں خارجہ اور سیکورٹی پالیسی اور اس
کی باریکیوں سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ چین کے ساتھ کھل
کر دو دو ہاتھ کرتے ہیں تو اس بشری غلطی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
انتخابی مہم کے دوران یہ ظاہر ہوا کہ ٹرمپ کو خارجہ معاملات کا علم نہیں۔
وہ ایرانی قد فورس اور کردعوام کو ایک ہی سمجھتے تھے۔ اسی طرح غزہ کے حماس
اور لبنان نے حزب اﷲ میں بھی کوئی فرق نہیں کر سکے تھے۔ تا ہم تائیوان کے
لیڈر سے گفتگو کے بعد چین کا سخت ردعمل سامنے آیا تو ٹرمپ نے کہا
’’ہم نہیں چاہتے کہ چین ہمیں بتائے کہ کیا کرنا ہے ، یا امریکہ ون چائینا
پالیسی کا پابند کیوں رہے جبکہ ہم چین کے ساتھ تجارت سمیت دیگر چیزوں پر
ڈیل نہیں کرتے‘‘۔
ایک بڑا مسئلہ بحیرہ جنوبی چین کا ہے جہاں امریکہ فلپائین کے ساتھ مل کر
چین کے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس بحیرہ پر چین کا دعویٰ ہے۔ مگر امریکہ
کی شے پر یا دیگر وجوہات سے ملیشیا، فلپائین، ویتنام، برونئی، تائیوان،
انڈونیشیا بھی اس کے بعض حصوں پر اپنے دعویٰ پیش کر رہا ہے۔ امریکہ نے چین
مخالفین کا اتحاد کرنے کی شروعات کر دی ہیں۔ فلپائین کے ساتھ امریکی بحریہ
اس سمندر میں مشترکہ مشقیں کر رہی ہے۔ ان کا مشترکہ گشت بھی ہوتا ہے۔ بحیرہ
جنوبی چین کا نقشہ دیکھیں تو یہ بپھرا ہوا سانڈھ لگتا ہے۔ یہ مستقبل میں
کسے روند کر رکھ دے گا، اس بارے میں آئیندہ کی امریکی اور چینی سیاست سے
اندازہ ہو سکتا ہے۔ امریکہ اور چین کا اصل مسلہ دنیا پر سیاسی اور سفارتی
ہی نہیں بلکہ معاشی تسلط کی جنگ جیتنے کا ہے۔ امریکہ نے اسی جنگ میں سوویت
یونین کو توڑ دیا۔ اس میں کئی ممالک کو استعمال کیا گیا۔ پاکستان بھی گو کہ
اپنے علاقائی مفادات کی پاسداری میں امریکی اتحادی بن گیا تا ہم امریکہ نے
ان خدمات کو فراموش کر دیا۔ طاہر ہے ممالک کے تعلقات ان کے مفادات کے لئے
ہوتے ہیں۔ مطلب نکل گیا تو امریکہ بھی نکل گیا۔ پھر سے پاکستان کی ضرورت
پڑی تو پھر آ گئے۔ حکمران تو ان کے خادم بن جاتے ہیں۔ مبصرین کو خدشہ ہے کہ
تیسری عالمی جنگ یہاں بحریہ جنوبی چین سے ہی شروع ہو سکتی ہے۔ یہ سمندر تیل
اور گیس کے ذخائر سے بھرا ہوا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس میں 18ارب ٹن خام تیل
نکل سکتا ہے۔ ان وسائل کی جنگ امریکہ اور چین کے درمیان کب چھڑے گی۔ یہ پتہ
نہیں لیکن جنگ کو ٹالنے مشکل ہے۔ جب تیل اور گیس کے دیگر ذخائر ختم ہوں گے
تو یہاں پر سب کی نظریں لگیں گی۔ امریکہ جنوبی بحیرہ چین میں مصنوعی جزیروں
تک چین کی رسائی روکنے کی کوششیں شروع سے جاری رکھیں ہیں۔ مگر ٹرمپ کے
عزائم خطرناک ہیں۔ چین کے سرکاری اخبارات خبردار کر رہے ہیں کہ اگر چین کو
روکا گیا تو خوفناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔ ٹرمپ نے ریکس ٹلرسن کو اپنا وزیر
خارجہ نامزد کیا ہے۔ انھوں نے نامزدگی کے فوری بعد کہا کہ جنوبی بحیرہ چین
تک چین کی رسائی کو روکنا ہو گا۔ یہ بات انھوں نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتائی۔
امریکہ جنوبی بحیرہ چین میں مصنوعی جزیرے تیار کر کے وہاں اپنے فوجی اڈے
قائم کر رہا ہے۔یہ چین کے جزائر ہیں۔ جن پر امریکہ قبضہ کر رہا ہے۔ یہی
نہیں بلکہ امریکہ ان جزائر کا یوکرائین کے جزیرے کرائمیا سے موازنا کرتا ہے
جسے روس نے یوکرائن میں بدامنی پیدا کرنے کے بعد اس پر قبضہ کرلیا۔ ابھی تک
تو چین ٹرمپ اور ریکس ٹلرسن کے بیانات کو ان کی خارجہ پالیسی کی باریکیوں
اور سفارتکاری میں نا تجربہ کاری ، سادگی، کوتاہ نظری، غیر حقیقی سیاسی
خواب اور تعصبات سے تعبیر کرتا ہے۔ مگر شاید ایسا نہ ہو۔ امریکی خواہشات کو
عملی جامہ پہنانے کوشش کی صورت میں بھیانک نتائج کی بھی دھمکیاں دی گئی ہیں۔
ون چائیان پالیسی پر ٹرمپ مذاکرات چاہتے ہیں۔ چین کہتا ہیکہ ون چائینا
پالیسی ہی امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ہے۔تائیوان پر کوئی بات چیت نہیں
ہو سکتی کیوں کہ وہ چین کا حصہ ہے۔ سائی انگ ون تائیوان کے صدر نہیں لیڈر
ہیں۔ ٹرمپ کرنسی پالیسی، جنوبی چین کے سمندر میں فوجی اڈوں کی تعمیر، شمالی
کوریا پر جوہری تجربات کی وجہ سے پابندیوں میں رکاوٹ دالنے پر تنقید جیسے
ایشوز پر برہم ہیں۔ 20جنوری کو حلف کے بعد وہ اپنی پالیسیوں پر عمل شروع کر
دیں گے۔ چین کے ساتھ امریکی تعلقات کے اثرات پاکستان کی معیشت اور سیاست پر
پڑیں گے۔ پاکستان اس کے لئے تیار رہنے کی حکمت عملی اپنائے تو مسائل میں
کمی واقع ہو سکتی ہے۔ امید ہے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری
واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقاتوں میں پاکستا ن کا موقف پیش کرنے میں
غیر معمولی دلچسپی لیں گے۔
|