ایران اور روس مدِمقابل ․․․یا دوست․․؟

 نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی دہشت گردی سے متعلق کچھ نئے سوالات زہنوں میں اُبھرتے ہیں کہ کیا دہشت گردی ختم ہو جائیگی ؟کیا اس دنیا میں جو خون خرابہ ہو رہا ہے ختم ہو جائیگا ،اور امن و امان کا پھر سے دور دورا ہوگا؟لیکن اگر پچھلی دہائیوں کے ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائیں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آرہادہشت گردی ختم نہیں ہوگی لیکن گزشتہ سالوں میں تخریب کاری اور دہشت گرد عناصر اور اُن سے منسلک ایسی تمام تنظیموں جو ان کاروائیوں میں ملوث ہیں اُنہیں کُھل کر کھیلنے کا موقع ملا ۔ اِنکی سفاکانہ کاروائیاں صرف ایک قومی ریاست کی سرحد تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا network اور انکی کاروائیوں میں آئے دن تیزی کا عمل جاری ہے ۔دہشت گردی ایک جدید ترین رجحان کے مطابق اسکا براہِ راست تعلق بین الاقوامی نظام کے اندر اندر متشدد غیر ریاستی عناصر کی ترتیب سے منسلک ہے۔

اس صدی کی پہلی دہائی میں 9/11کا حادثہ انکے سفاکانہ عظائم کا منہ بولتا ثبوت ہے ،جیسا کے ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ برسوں پہلے سویت یونین کے سُپر پاور کے طور پر سیاسی اسرورسوخ ختم ہونے کے کئی سالوں بعد روس ایک بار پھر عالمی سیاسی تنازعات میں نمایاں کردار ادا کرنے کیلئے دوبارہ منظم صورتحال اختیار کر رہا ہے ۔ریاست ہائے متحدہ 1980کے بعد سے مرکزی سُپر پاور کا کردارادا کرتا چلا آرہا ہے ،لیکن اب عالمی منظر نامے پہ ہم ایک بارپھر دیکھ رہے ہیں کہ روسی ریچھ سیاسی انتقام کے لئے ایک بار پھر سے بیدار ہو رہا ہے اور جن ممالک سے اسکو کسی بھی قسم کے خطرے کی بو محسوس ہو رہی ہے اُن ممالک سے اپنے مفادات کی غرض کیلئے ساتھ ملانے کی کوششوں میں سرگرداں نظر آرہا ہے اور یہ بات موجودہ سُپر پاور کے ساتھ ساتھ اور بھی ممالک کے لئے خطرے کا الارم ہے۔روس کا سابق صدر vladirmir putinجو کہ رشین فیڈریشن کا صدر اور روسی سیاسی پارٹی کا ممبر بھی ہے جو روس کا بہت باہمت اعلیٰ ترین دماغ ہے وہ ایک بار پھر جدید اور مضبوط ملک تعمیر کرنے کیلئے پُر جوش انداز میں پھر سے کمر بستہ ہے وہ جو ٹھان لیتا ہے اُسکو پورا کئے بنا اطمینان سے نہیں بیٹھتا ہے اوروہ اپنے اس مشن کیلئے بہت پُر عظم دکھائی دے رہا ہے۔

دنیا اب سیاسی اور معاشی بہران سے تھک چکی ہے،خاص طور پر شام کے بہران کے بعد سے ایران مشرقِ وسطیٰ میں روس کیلئے سب سے بہتر اتحادی ہے کیونکہ وہ دونوں شامی حکومت کے حامی ہیں اور شامی انقلاب کو دبانے کیلئے کوشاں ہیں۔اب آپ خود غور کریں اگر دونوں ممالک کو باہمی مفادات کی غرض نہیں ہوتی توایران کیا روس پر اعتماد کرتا ؟کوئی بھی سیاسی رپورٹ یا تجزیہ نگار اس مسئلے کو اب تک حل نہیں کرسکا بمطابق ایرانی ذہنیت میرے ناقص علم کی بنیاد پر میں یہ سمجھتی ہوں کہ ایران اور اس کے سیاسی رہنما اور سوج بوج رکھنے والے لوگ روس پر اعتماد نہیں کرینگے ۔ایران صرف باہمی مفادات کی غرض سے روس کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے ۔اگر ہم ایران کی تاریخ پر گہری نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ماضی میں روس نے ایران کے ساتھ منفی کردار ادا کیا تھا ۔

انیسویں صدی کے نصف میں روس نے ایران کو دو بڑی جنگوں میں شکست دی تھی اور ایرانی علاقے کے ایک بڑے حصے پرقبضہ کر لیا تھا ،صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بیسویں صدی کے اوائل میں 1905-1911کے انقلاب کے دوران ایرانی معیشیت پر بھی قابض ہو گیا تھا ،فی الحال تو ایران اور روس باہمی ،سیاسی اقتصادی مفادات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ،لیکن اسکا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے کہ ایران اپنے ماضی کے زخم بھُلا بیٹھا ہے۔روس کے دیئے گئے گھاؤ اسکو اب بھی تکلیف دیتے ہیں انکی بدلے کی آگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ روس بھی یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ ایران کو مغربی معاشی کشادگی کی طرف سے خطرات درپیش ہیں ہاں مگر یہ الگ بات ہے کہ اگر ایران nuclear agreementکا معاہدہ کرے تو امریکی ،جرمنی اور فرانسیسی کمپنیاں ایرانی مارکیٹ میں منافع بخش کاروبار کرنے کیلئے تیار ہیں اس ضمن میں حالیہ دنوں میں یورپی یونین نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر کاربند رہنے کا اعلان کیا ہے ۔یورپی یونین کے وزیرِخارجہ امور کے سربراہ فریڈ ریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے معاہدے کی سخت الفاظ میں مذمت کے باوجود یورپی یونین ایران کے ساتھ کئے جانے والے جوہری معاہدے پر کاربند رہیگا کیونکہ معاہدہ یورپ کی سیکیورٹی ضروریات کے مطابق ہے۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے موگرینی کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے معاملات طے ہو سکتے ہیں اور اس کے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ یورپی یونین اس اہم معاہدے کا احترام کریگی کیونکہ یہ ہم سب کے لئے اہم معاہدہ ہے۔

جیسا کے سب جانتے ہی ہیں کہ ایران محلِ وقوع کے اعتبار سے ایسا ہے کہ یہاں انتہائی اعلیٰ معیار کی گیس کے معدنی ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں چنانچہ اگرا یران اور مغربی ممالک کے درمیان گیس کی برامداد کے سلسلے میں تعلقات معمول کی سطح پر آجائیں توایران روس کے لئے مستقبل قریب میں ایک مضبوط مدِمقابل ثابت ہو سکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ روس نہیں چاہتا کہ ایران کے مغربی ممالک سے بہتر تعلقات استوار ہوں اور وہ اس اعتبار سے مضبوط ہو جائے کیونکہ یورپی ممالک روس کے مقابلے میں ایران سے گیس کم لاگت میں حاصل کر سکتے ہیں اور یہ یورپی ممالک کے لئے بہترین اقتصادی حل ثابت ہوگا اور کسی بھی اقتصادی خطرے کو ختم کرنے کیلئے یورپی ممالک کا روس کی گیس کے بجائے ایران سے گیس درآمد کرنے کی وجہ سے یورپی ممالک کو روس پر اپنے انحصار کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روس اپنے مفادات کے خلاف کام کریگا جس سے اسکے اسٹرٹیجک مقاصد کو بھی نقصان ہوگا ،جبکہ ایران نے یورپی یونین سے معاہدات کی شروعات جوہری معاہدے سے کر دی ہے سچ تو یہ ہے کہ روس کسی بھی ایسے معاہدے کو قبول نہیں کریگا جو اسکے اپنے مفادات کے خلاف ہو چاہے وہ مشرقی یورپ یا مشرقِ وسطیٰ ہی کیوں نہ ہو ۔

سیاست مفادات پر بہت ذیادہ انحصار کرتی ہے اور ان مفادات کو نقصان پہنچانے والے عناصر چاہے وہ معاشی ہوں ، سیاسی ہوں یا فوجی کو کم کرتی ہے،اسلئے دونوں ممالک کو چاہئے کہ کسی بھی قسم کے اقدامات کرنے سے پہلے اسکے فوائد اور نقصانات کے حجم کا بغور مطالعہ کریں ایران کو مستقل حامیوں اور عارضی اتحادیوں کے درمیان انتخاب کرنا پڑیگا ورنہ وہ سخت آزمائش میں مبتلاء ہو سکتا ہے یورپی کمپنیاں ایران کے ساتھ معیشیت کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ایران کے ایک اشارے کی منتظر ہیں اور حالیہ معاہدہ اسکی شروعات ظاہر کررہا ہے اگر ایران مغربی ممالک سے اقتصادی معاہدے کے حوالے سے کوئی مثبت اشارہ کرتا ہے تو اسے روس کے تعلقات سے محروم ہونا پڑیگا ،جو لوگ علم نہیں رکھتے ،ایران کی حالیہ پوزیشن کا مگر روس ایران کے تقریباََ تمام ہی اثاثوں ایرانی جوہری اسٹیشنوں اور ملک کی فوجی ،دفاعی طاقت کے متعلق بخوبی علم رکھتا ہے جبکہ ایران یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ روس ایک خطرناک دوست ہے جو ایران کے کسی بھی متبادل فیصلوں جو اسکے مفادات کی حفاظت کے خلاف ہوں مستقبل قریب میں کئی خطرات کا سامنا کر سکتا ہے۔
Nida Yousuf Shaikh
About the Author: Nida Yousuf Shaikh Read More Articles by Nida Yousuf Shaikh: 19 Articles with 14340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.