پاکستان کی سیاست میں پانامامقدمے کاتذکرہ اس قدرعروج
پرہے کہ پاکستان سے جڑے ہوئے دیگرتمام مسائل پیچھے رہ گئے ہیں اوریوں محسوس
ہوتا ہے کہ اس مقدمے کے تصفیہ سے پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں
بہناشروع ہوجائیں گی،امن وامان کا سلسلہ بھی حل ہو جائے گا، غربت کی نچلی
لکیرکے ساتھ رہنے والے عوام کے گھروں میں خوشحالی دستک دیناشروع کر دے گی
اورہمارے وطن کی سرحدوں پرمنڈلاتے خطرات بھی اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ ملک
میں کرپشن کوآہنی ہاتھوں سے ضرور نمٹاجائے جس میں پاناما بھی شامل ہے لیکن
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں اورجملہ تمام سیاستدانوں کودیگرمسائل پربھی
بھرپورتوجہ دینی چاہئے ۔ہمارے ملک کے ایک طرف ہماراازلی دشمن دن رات
پاکستان کو نقصان پہنچانے کے منصوبوں پرعمل جاری رکھے ہوئے ہے اوردوسری طرف
افغانستان کامسئلہ بھی پاکستان کی سلامتی اورامن وامان کے ساتھ جڑا ہواہے ۔
ادھرافغانستان کے پارلیمان کی مدت ختم ہونے کے باوجودافغان پارلیمانی
انتخابات افغان حکومت کیلئے دردِ سربن گئے اور اس کوحل کرنے کیلئے جو انہوں
نے حزبِ اسلامی افغانستان کے ساتھ امن معاہدہ کیا،اس کی ایک شرط یہ بھی ہے
کہ افغانستان میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے جائیں گے اور
جمہوریت کی طرف سفرجاری رکھاجائے تاکہ عوام آہستہ آہستہ اپنے مسائل کے حل
کیلئے پرامیدہوجائیں۔افغانستان میں ہمیشہ پارلیمانی اورصدارتی انتخابات
متنازعہ ہی ٹھہر ے۔دوبارہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی کے
الزامات لگے اورافغانستان میں کوئی بھی میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے یہ
انتخابات ہمیشہ متنازعہ بن جاتے ہیں تاہم ٢٠١٤ء میں ہونے والے صدارتی
انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی بے قاعدگیوں کے بعداقوام متحدہ
اورافغان حکومت نے سنجیدگی سے اس طرف توجہ دی ۔
اب امریکااوریورپی یونین نے مل کرافغانستان میں انتخابی بے ضابطگیوں کو
دورکرنے کیلئے صدارتی انتخابات کی تحقیق کی اورپھراس نتیجے پرپہنچے کہ شفاف
انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کونہ صرف خودمختاربنایاجائے بلکہ الیکشن
کمشنرزکی زیادہ تعداد میں تعیناتی کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی
تقرریاں کی جائیں ۔اس حوالے سے کمیشن کوبااختیاربنانے کیلئے سفارشات مرتب
کی گئیں ہیں ۔اقوام متحدہ اوریورپی یونین نے اس سلسلے میں مدد دینے کاوعدہ
کیاہے تاہم اس کیلئے یہ شرط رکھی ہے کہ غیرجانبدارانہ الیکشن کمشنرزکی
تعیناتی کی جائے ۔ہرصوبے کی سطح پرالیکشن کمشنرزکی تعیناتی ضروری ہے،اس
حوالے سے آٹھ ماہ کی طویل مشاورت کے بعدگزشتہ ہفتے سے افغان صدرنے مختلف
صوبوں کیلئے الیکشن کمشنرز کی تعیناتی شروع کر دی ہے جنہوں نے اپنے اپنے
علاقوں میں کام شروع کردیاہے اورآئندہ چندماہ میں یہ کمشنرز ووٹرز کارڈ
اورلسٹوں کی ازسرنوپرتال شروع کریں گے۔
افغان صدرڈاکٹراشرف غنی چاہتے ہیںکہ اپریل یامئی ۲۰۱۷ء میں پارلیمانی
انتخابات کرائیں جائیں کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے افغان پارلیمان غیر قانونی
طور کام کررہی ہے اوریہی وجہ ہے کہ جب آٹھ وزاراء کوپارلیمان نے مستردکر
دیاتو افغان حکومت نے اس فیصلے کوماننے سے انکار کردیااورافغان سپریم کورٹ
میں اس فیصلے کوچیلنج کرنے کافیصلہ کیاہے افغان صدرکی کوشش ہے کہ اگروہ
پارلیمانی انتخابات کرانے میں کامیاب ہوجائیں توافغانستان میں ان کی ساکھ
بہترہوجائے گی ۔دوسری جانب شمالی اتحادکے ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ اورافغان
صدرکے درمیان اتحادی حکومت کیلئے امن معاہدہ ختم ہو چکاہے تاہم انتخابات کے
لالچ میں افغان صدرعبداللہ عبداللہ کوافغان چیف ایگزیکٹورکھنے پرتیارہیں۔
افغان صدر اورافغان چیف ایگزیکٹونے کمشنرزکی تعیناتی میں صلاح ومشورے شروع
کردیئے ہیں اورابھی تک بارہ صوبوں میںتعینات ہونے والے اکثر کمشنرز کی
تعیناتی غیرجانبدارانہ طورپرکی گئی ہے تاہم افغان حکومت کوسب سے بڑا چیلنج
ان صوبوں میں ہے جہاں طالبان کااثرورسوخ ہے اور طالبان کے زیر کنٹرول صوبوں
میں کس طرح کمشنرزکی تعیناتی اوروہ کس طرح کام کریں گے کیونکہ افغانستان کے
پارلیمانی انتخابات میں اصل مسئلہ طالبان کی جانب سے ان انتخابات کوتسلیم
نہ کرنااوران کوروکنے کااعلان ہے۔ اس سلسلے میں حزبِ اسلامی نے افغان
طالبان کوراضی کرنے اورانہیں سیاسی دھارے میں لانے کی کوششیں شروع کردی
ہیں۔حزبِ اسلامی کے ایک اہم ذریعے نے بتایاکہ حزبِ اسلامی کی کوشش ہے کہ
طالبان بھی پارلیمان کیلئے اپنے ایسے لوگوں کاانتخاب کریں جوحزبِ اسلامی کے
ساتھ مل کرانتخاب میں حصہ لیں اورپارلیمان کا انتخاب جیتنے کے بعد حزبِ
اسلامی اورطالبان مل کر پارلیمان کے ذریعے امریکی انخلاء پردباؤڈال سکتے
ہیں جوبین الاقوامی دنیاکیلئے بھی قابل قبول ہوگا کیونکہ عراقی پارلیمان نے
بھی اسی طرح کیاتھا،اس لئے حزبِ اسلامی نے حقانی نیٹ ورک اورطالبان کے بعض
ان رہنماؤں اور حامیوں کوان انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کام کرنا شروع
کردیاہے جوزیادہ جنگجو نہیں ہیں اورسیاسی طورپر مسائل حل کرنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں۔
حزبِ اسلامی کے مطابق اگرطالبان سیاسی عمل کاحصہ نہیں بنتے اورمحدود پیمانے
پرانتخابات ہوجاتے ہیں تویہی کٹھ پتلیاں حکمران رہیں گی اور امریکا و
دیگرممالک افغانستان میں جنگ کاسبب بنتے رہیں گے،اس لئے ضروری ہے کہ افغان
طالبان نہ صرف پارلیمانی انتخابات میں حزبِ اسلامی کے ساتھ مل کرحصہ لیں
بلکہ شفاف انتخابات کویقینی بنانے میں اپنا بھرپور کردار بھی اداکریں۔افغان
پارلیمان میں گزشتہ دو انتخابات میں طاقت اوردولت کے بل بوتے پرممبربننے
اور بعدازاں اپنے علاقے میں مسلح جتھے ترتیب دینے کی وجہ سے افغان عوام
پارلیمان سے نالاں ہیں تاہم افغان پارلیمان کیلئے اگرشفاف طورپرکامیابی مل
سکتی ہے اورامریکااورنیٹوکے انخلاء میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں لیکن افغان
طالبان نہ صرف انتخابات کے مخالف ہیں بلکہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان
انتخابات سے افغان عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکے اورگزشتہ سولہ سال سے ابھی
تک افغان پارلیمان نے امریکی انخلاء کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے اس لئے
ضروری ہے کہ عوام امریکا کے خلاف مزاحمت میں طالبان کاساتھ دیں ۔ افغان
پارلیمانی انتخاب نہ صرف عبداللہ عبداللہ اوراشرف غنی کیلئے بلکہ امریکا کے
نومنتخب صدرٹرمپ ،ان کی انتظامیہ اورافغانستان میں موجوداتحادیوں کیلئے بھی
ٹیسٹ کیس ہیں ۔اگراس سال انتخابات نہ ہوئے توپھرصدارتی انتخابات کا
انعقادبھی خطرے میں پڑجائے گااورافغانستان کاپارلیمانی نظام بیٹھ جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیاہمارے حکمران جوابھی تک اپنی وزارتِ خارجہ کودو مشیروں کے
ساتھ چلارہی ہے ،کیااسے افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا ادراک
ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت جس نے پاکستان کونقصان پہنچانے کیلئے
افغانستان میں ایک کثیرسرمایہ کاری کررکھی ہے وہ افغانستان کے معاملات
پرخاموش کیسے بیٹھ سکتاہے۔ جس طرح پاکستان میں دہشتگردی کیلئے افغانستان کی
سرزمین کواستعمال کرنے کے علاوہ اب دریائے کابل کے پانی پر ڈیم
بناکرپاکستان کے پانی پرڈاکہ مارنے کی جس خوفناک منصوبے پر عملدرآمد
کررہاہے ،وہ بھلاافغانستان میں اپنے مفادات کیلئے کہاں تک جاسکتاہے ؟ابھی
حال ہی میں افغان نیشنل سیکورٹی کے سابق ڈائریکٹرکی سربراہی میں مظاہرین کے
ایک چھوٹے سے گروہ نےکابل میں پاکستانی سفارت خانے میں گھسنے کی ناکام کوشش
کی ٹھی۔اب پاکستان کے مفادات کاتقاضہ یہ ہے کہ افغانستان کے آنے والے حالات
اور بھارتی اثرو نفوذکوزائل کرنے کیلئے فوری طورپرٹھوس پالیسی کااعلان
کیاجائے۔ |