پاکستان میں ایوان زیریں پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) ہے جبکہ
ایوان بالا کی حیثیت سینٹ کو حاصل ہے قرآن مجید میں مسلمانوں کو حکم دیا
گیا ہے کہ اہل الرائے لوگ جو تقویٰ ،عمل صالح(علم وعمل ) کا پیکر ہوں وہ ہی
شوریٰ کا حصہ ہونے کے حقدار ہیں مگر پاکستان میں پارلیمنٹ اور سینٹ کے
حوالے سے ایسی ایسی حقیقتیں سامنے آ رہی ہیں جس سے قوم کے سر شرم سے جھک
گئے ہیں ۔پارلیمنٹ لاجز میں شراب کی بوتلیں کئی بار دیکھی گئی ہیں گذشتہ
دنوں اخبارات اور ٹی وی پر ساری قوم کو شراب کی بوتلیں دکھائی گئیں جو
پارلیمنٹ لاجز سے برآمد ہوئی تھیں ۔انھی ایوانوں سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے
کہ ہمارے بچے پوچھتے ہیں کہ اس اہم ترین ملکی ایوان میں شراب کون پیتا
ہے؟تو ہم کیا جواب دیں؟ ایک سیاستدان کا بیان آیا کہ تمام پارلیمنٹ اراکین
کے ٹیسٹ کروائے جائیں جو شرابی ثابت ہوں انھیں سرعام سزائے موت دے دی جائے
یہ بیان پڑھ کر کچھ اطمینان ہوا کہ ابھی غیرت دینی باقی ہے ۔کسی نے تو اس
غیر اسلامی ،شیطانی فعل کے خلاف آواز بلند کی ۔۔۔۔حکومتی،قانونی سطح پر
شراب حرام ہے تو پھر حکومت اس اہم ترین ایوان میں شراب دینے والوں کے خلاف
کاروائی کیوں نہیں کرتی؟ یاران نقطہ داں کا کہنا ہے کہ اس لئے نہیں کہ اس
کاروائی کی زد میں ان کے اپنے لاڈلے ہی آتے ہیں تو کاروائی کیوں کریں ؟انھیں
کیا مصیبت ہے ایسا کرنے کی ؟سب کچھ سراسر غلط ہونے کے باوجود ٹھیک ہی تو چل
رہا ہے ۔
ملک کا سب سے بڑا عہدہ وزیراعظم کا ہے جن پر کرپشن کا الزام ہے روزانہ کی
بنیاد پر کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے نتیجہ کیا نکلے گا؟اس کا علم تو بعد
میں ہوگا لیکن وزیراعظم کے وکیل نے عدالت سے استثنیٰ مانگ لیا ہے جس کے بعد
ہر ایک کو محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ کیس
چل رہا تھا دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی سامنے آجاتا ۔مگر اچانک وزیراعظم کے
وکیل کا استثنیٰ مانگنا ظاہر کر رہا ہے کہ کرپشن کی گنگا میں وزیراعظم صاحب
بھی ہاتھ دھو چکے ہیں جس کا جواب عدالت مانگ رہی ہے جواب دینے کی بجا ئے
استثنیٰ طلب کیا جا رہا ہے ۔ہمارے ملک کا نظام کس قدر ظالمانہ ہے کہ کرپشن
کرنے والے اعلیٰ عہدے کے مالک وزیراعظم کو استثنیٰ حاصل ہے جبکہ اسلام ،قرآن
،شریعت محمدیہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے استثنیٰ شیطان نے مانگا تھا
جسے رب کائنات نے ذلیل قرار دے کر اپنے دربار عالیہ سے نکال دیا تھا ۔اب
کیسا نظام اور کیسے حکمران آگئے ہیں کہ شیطان کی طرز کو زندہ کرنے پر بضد
ہیں ۔ان حالات میں قوم کی خیر ،فلاح کے بارے میں کون سوچے گا ؟اب تو ہر
کوئی وزیراعظم بننے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دے گا کیوں کے جتنے بڑے جرائم
بھی کرو وزیراعظم ہونے کے بعد استثنیٰ مل جائے گا پاک باز ہو جائیں گے۔کچھ
لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان بھی شائد اسی استثنیٰ کی خاطر وزیراعظم بننے
کیلئے سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں ورنہ اس نظام کے تحت حکومت میں آنے کے
بعدسب وہی کچھ کریں گے ہمارے آنے والے حکمران بھی جو پچھلوں نے کیا نیااور
کچھ نہیں ۔
دیکھئے نیا پاکستان بنانے والے اپنے صوبے کے پی کے میں کیسا نیا پاکستان
بنا رہے ہیں ؟اس کی جھلک ان کے تشکیل کردہ نصاب تعلیم سے ظاہر ہورہی ہے جس
کی تفصیل اخبارات میں آچکی کہ نصاب سے علامہ اقبالؒ ،قائداعظمؒ ،نظریہ
پاکستان،اسلامی نظریاتی مواد کو حرف غلط سمجھ کر نکال دیا گیا ہے اس کی جگہ
لغو مواد شامل کیا گیا ہے جس کا ایک انسان کی اخلاقی معاشرتی زندگی سے کوئی
تعلق نہیں۔جبکہ اس کے ساتھ ہی انگریزوں کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے گئے
ہیں ۔انھیں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔نصابی کتب میں جو نقشہ دکھایا گیا
ہے اس میں پاکستانی علاقوں کو پاکستانی محل وقوع سے خارج کردیا گیا ہے ۔اتنی
لاعلمی ۔۔۔۔۔
یہ سب کیا ہے ؟ اور کیوں ہو رہا ہے ؟کیا یہ ہے نیا پاکستان؟اس کا جواب یہ
ہے کہ یہ سب ملک دشمنی ہے جو نئے پاکستا ن اور ترقی کے نام پر ہو رہی ہے ۔ذاتی
مفادات کی خاطر امیر سے امیر بننے کے نشے کے باعث لوٹ مار کا بازار گرم کر
رکھا ہے چند خاندانوں نے۔ جو ان سے پیچھے ہیں وہ سخت غصے میں ہیں کہ ہماری
باری کیوں نہیں آرہی ؟تاکہ ہم بھی لوٹ مار کریں ۔جمہوریت،سیاست کے نام پر
لوٹ مار کے گینگ ہیں جو قوم پر مسلط ہیں ۔عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ان
سیاسی بازی گروں نے ان کی حرکات کے باعث ساری دنیا میں پاکستان کا وقار
مجروح ہو رہا ہے مگر ان کو ملک وملت کی رسوائی کا بھی خیال نہیں ہے ۔
قارئین کرام!یہ ہے ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والوں کا حال ؟تو قوم پر عذاب
نازل نہ ہوں تو اور کیا ہو؟ ان حالات میں ایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا
ہوں جو ان حکمرانوں ،سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ یہ کہ
جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ(عمر ثانی) نے مسند خلافت سنبھالی تو آپ ؒ نے بنو
امیہ کے سرکردہ لوگوں کو دعوت پر بلوایا۔جب سب مہما ن آ گئے توآپ ؒ نے ان
کو کافی دیرانتظار کروایا جب مہمان بھوک سے نڈھال ہو گئے توآپ ؒ نے خادموں
سے کہا کہ بھنے ہوئے چنے مہمانوں کو پیش کئے جائیں مہمان بھوک سے نڈھال تھے
اس لئے انھوں نے جی بھر کر بھنے ہوئے چنے کھائے۔ان کا پیٹ بھر گیا اس کے
بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے خادموں سے کہا کہ کھانا مہمانوں کو پیش کیا
جائے ۔جب مہمانوں کے سامنے کھاناپیش کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ اے
امیرالمومنین !ہم بھنے چنے کھاکر سیر ہوگئے ہیں اب ہمیں مزید کھانے کی
ضرورت نہیں ہے اس پر خلیفہ نے فرمایا اے بنو امیہ کے سردارو! جب تمہارے پیٹ
بھنے ہوئے چنوں سے بھر گئے ہیں تو تم اپنے پیٹوں کو جہنم کی آگ سے کیوں بھر
رہے ہو ؟مہمانوں نے کہا کہ اے امیرالمومنین ! آپ کی اس سے کیا مراد ہے؟ تو
امیرالمومنین ؒ نے فرمایا کہ تم لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے اپنے
پیٹوں جہنم کی آگ سے نہ بھرو ۔میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ زمینیں ان کے
مالکوں کو واپس کرو ۔اس پر اثر گفتگو کے بعد نبو امیہ کے لوگوں نے عام
لوگوں کی زمینیں واپس کردیں ۔
اس واقعہ کی روشنی میں میں پاکستانی حکمرانوں،سیاستدانوں سے کہنا چاہتا ہوں
کہ اس دنیا کی حوس کا شکار ہو کر عوامی دولت لوٹ کر اپنے پیٹوں کو جہنم کی
آگ سے نہ بھرو ۔ڈالروں کے عوض اسلام،پاکستان،نظریہ پاکستان ،اسلامی اقدارکا
قتل عام ،عوام حقوق غصب نہ کرو ۔ورنہ تاریخ تمہیں ایسے حکمرانوں کی صف میں
شامل کرے گی جنھیں پڑھ کر آنے والی نسلیں اچھے الفاظ میں ہرگزیاد نہیں کریں
گی۔اگر حکمران اپنے آپ کو اچھے حکمرانوں کے طور پر ہمیشہ کیلئے زندہ رکھنا
چاہتے ہیں توفقیر محمد فقیر کے اس فرمان پر عمل کریں
"دنیا دے وچ رکھ فقیرا ایسا بین کھلون کول ہویں تے ہسن لوکیں ،ٹرجاویں تے
رون " |