یہ بات اہل وطن کے لیے باعث طمانیت ہے کہ افواج
پاکستان کو دنیا میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص جو مقام حاصل ہے وہ
کسی کو نہیں۔ پاک فوج کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مشکل کی کسی بھی گھڑی میں
اہل وطن اپنے سپاہ پر جان نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ گوکہ اس بات
میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پرویز مشرف نے بعض عالمی طاقتوں کے دباؤ میں
آکر کچھ ایسے فیصلے کیے کہ جس کے اثرات بد سے وطن عزیز مکمل طور اب تک نکل
نہیں سکا ہے۔ لیکن دوسری طرف سچ یہ بھی ہے کہ وہی پرویز مشرف نہ صرف عوام
کی محبتوں سے دور رہے بلکہ اب وہ ملک سے بھی دور رہنے پر مجبور ہے ۔ اگر چہ
پرویز مشرف کے پاس اختیارات کی کوئی کمی نہ تھی لیکن وہ پھر بھی اہل وطن کے
دلوں میں اپنے لیے نرم گوشہ پیدا نہ کرسکے۔ اس کے برعکس ایک شخصیت ایسی بھی
کہ جب وہ عہدے پر رہے تب بھی وہ کامیاب و کامران ٹہرے اور جب سبکدوش ہوئے
تو بھی مسرور اور مطمئن دکھائی دیے۔ وہ جب آئے تب پاکستان میں امن و امان
کی صورتحال تسلی بخش نہ تھی۔ ملک کا معاشی شہ رگ کراچی خوف و دہشت ، ظلم
سربریت اور سفاکیت کا علامت بن چکا تھا۔ شہر ہر طرف سے دہشت گردوں کے نرغے
میں تھا اور امید کی کوئی کرن دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔کیونکہ جو مجرم اور
قاتل تھے وہ کسی کے کارندے تھے۔ ان کے سرپرست اسمبلیوں میں بیٹھ کر انہیں
تحفظ فراہم کررہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امیدیں د توڑ رہی تھی۔ مایوسی
جب ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ ایسے میں وہ مسیحا بن کر آئے۔ اس نے للکارا ان
تمام عناصر کو جو انسانیت کے دشمن تھے۔ جن کو نہ اسلام کا پاس تھا اور نا
پاکستان کا۔ جن کا مقصد حیات خون پینا اور لاشیں گراناتھا۔ وہ شیر کے مانند
جھپٹ پڑے ایسے ظالموں پر۔ اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ کہ سب ظالم ’’سیدھے،،
ہوگئے اور شہر ھر روشنیوں کا شہر کہلانے لگا۔ صرف کراچی پر ہی کیا موقوف
پورے ملک میں آج اگر کہیں امن ہے تو وہ انہی کے دم قدم سے ہے۔ یہ ذکر جس کا
ہورہا ہے وہ کویہ ان دیکھی قوت نہیں بلکہ وہ ہے ایک جیتا جاگتا انسان جنرل
ریٹائرڈؑاحیل شریف۔ جس کے تجربے اورمشن سے لگاؤ کو دیکھتے ہوئے مسلم دنیا
نے اسے نئی بننے والی اسلای ممالک کے مشترکہ فوج کی سربراہی بھی اسے سونپ
دی ہے۔اسلامی فوج کے سربراہی کے لیے ایک پاکستانی جرنیل کا منتخب ہونا ظاہر
کرتا ہے کہ اسلامی ممالک آج بھی پاکستان کو اپنا مسیحا سجھتے ہے اور وہ یہ
بھی سمجھتے ہیں کہ ایک پاکستانی جرنیل ہی موجودہ دور کے چیلنجز سے بخوبی
نمٹنا جانتے ہیں۔گوکہ اسلامی اتحادی فوج کی سربراہی ملنے کے بعد راحیل شریف
مختلف تبصروں اور تنقید کے زد میں ہے اور بعض حلقے یہ اعتراض اٹھارہے ہیں
کہ راحیل شریف نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی یہ عہدہ قبول کرکے اچھا قدم
نہیں اٹھایا کیونکہ قانوناً انہیں دو سال تک انتظار کرنا چاہیے تھا۔ میرے
خیال میں یہ اعتراض بد نیتی پر مبنی ہے کیونکہ جس حالت سے امت مسلمہ اس وقت
گزررہی ہے خصوصاً شام کے معاملے میں دنیا نے جس منافقت کا مظاہرہ کردکھایا
ہے اور حرمین الشریفین کو جن خطرات کا سامنا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے
جنرل راحیل کی تقرری کو اگر دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ اسلامی
اتحاد فوج کی سربراہی قبول کرکے جنرل (ر) راحیل کے بروقت درست فیصلہ کیا ہے،
کیونکہ راحیل شریف میں انتنی قابلیت اور فیصلہ کرنے کی اہلیت ضرور ہے کہ وہ
بطور اتحادی فوج کے سربراہ اسلامی ممالک کو مزید انتشار سے بچا سکتے ہے۔
اگر چہ اسلای ممالک کے مشترکہ فوج کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جاری تھی
کیونکہ بعض عالمی طاقتوں کی سازشوں کی وجہ سے بیشتر اسلامی ممالک
شدیدانتشار کا شکار ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض مسلمان کہلانے والے ملک بھی اپنے
فرقہ وارانہ جذبات کی تسکین اور اپنے نظریات کے پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کا
بے دریغ خون بہانے میں مصروف ہے۔ ایسے میں ضروری ہوگیا تھا کہ مسلم ممالک
اپنی بقا کے لیے اقدامات اٹھاتے ۔ ابتدائی طور پر اگرچہ اس نئی فورس کا
مقصد یہ بیان کیا جارہا ہے کہ یہ داعش اور اس قبیل کے دیگر جیسے تنظیموں کی
تخریب کاریوں اور دہشت گردی سے امت مسلمہ کو بچانا ہے۔ یہ یقیناً اچھی بات
ہے کیونکہ داعش کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کے پشت پر بعض طاقت ور
غیر ملکی ایجنسیاں ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ داعش کو القاعدہ اور افغان
طالبان بھی مسترد کرچکے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب جبکہ اسلامی ممالک
کا مشترکہ فوج بن چکا ہے، تو اسے اب بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔اگر اس
فوج نے نیٹو جیسا فعال کردار ادا کیا اور فلسطین ،برما،کشمیر اور شام سمیت
دیگر علاقوں کے کچلے ہوئے مسلمانوں کی داد رسی کے علاوہ مقامات مقدسہ یعنی
حرمین شریفین کی میلی آنکھ اٹھانے والوں کی آنکھوں میں ڈال کر بات کی تو
پھر مسلم ممالک یقیناً دنیا میں باوقار مقام حاصل کرسکیں گے۔ کیونکہ جب
مسیحا ہونگے تو محرومیاں ختم ہوگی اور جب محرومیاں ختم ہوگی تو پھر اغیار
کے لیے داعش جیسے تنظیموں کا کھڑی کرنا بھی ممکن نہ ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ
جلد یا بدیر اسلای ممالک اور ان کے سپاہ اس جانب قدم اٹھائیں گے ضرور۔
انشاء اﷲ |