وطن عزیزکے باسیو ں کیلئے کرپشن کالفظ انوکھا نہیں یہاں
شروع سے ہی کرپشن نامی آدم خوربلاملک کے شہ رگ سے اسکے خانماں بربادعوام
کاخون چوس رہی ہے ملک کاعام باشندہ غریب سے غریب ترجبکہ ’’خاص باشندے‘‘
امیرسے امیرترہورہے ہیں احتساب کے کسی مؤثرنظام کی غیرموجودگی سے کرپشن
کازہرپاکستان کے رگ رگ میں پھیل چکاہے محلے یادیہہ کے کونسلرسے لیکرصدرتک
اورچپڑاسی سے لیکرمحکمے کے سربراہ تک 99.99%لوگوں کے ہاتھ کرپشن میں لتھڑتے
ہوئے ہیں قانون مکڑی کاوہ باریک ساجالہ ہے جس سے طاقتورتوباآسانی نکل جاتے
ہیں جبکہ کمزور کاپھنسنااچھنبے کی بات نہیں جس ملک میں ایک ارب روپے
کاکرپشن کرنے والاپانچ لاکھ روپے دیکرچھوٹ جاتے ہوں وہاں احتساب یاانٹی
کرپشن جیسے ادارے اپنی وقعت کھوجاتے ہیں یہاں احتساب توسب چاہتے ہیں
مگردوسرے کا،کوئی بندہ اپنااحتساب نہیں چاہتاادنیٰ سے اعلیٰ تک سب کانعرہ
اورمطالبہ بے رحم احتساب کاہے مگروہ یہ احتساب اپنے لئے نہیں چاہتے بلکہ
اپنے کسی مخالف کواحتساب کے شکنجے میں جکڑنامقصودہے سیاستدان فوج کااحتساب
چاہتاہے ،بیوروکریسی کوقانون کے کٹہرے میں کھڑاکرناچاہتاہے،ججوں کے احتساب
کیلئے بے قرارہورہاہے ،صحافیوں کیلئے احتساب کانظام وضع کرناچاہتاہے حتیٰ
کہ دوسرے سیاستدانوں کااحتساب ضروری سمجھتاہے مگرخودکواحتساب کیلئے پیش
کرتے ہوئے اسے موت پڑتی ہے ایفی ڈرین ،رینٹل پاوراورسرے محل جیسے میگاکرپشن
والے بھی روزبیان دیتے ہیں کہ پانامہ کیس کوبندنہیں ہونے دیں گے ،اربوں
روپے کے ’’تحائف‘‘ میں رہنے والے ،موٹرسائیکل سے مختصرعرصے میں جہازکے مالک
بننے والے اورچندے کی رقم خردبردکرنے والے بزعم خود احتساب کے سرخیل ہیں،
چھوٹی سی فیکٹری سے نامور صنعتکارکے درجے پرفائزہونے والے ،قومی اورریاستی
بینکوں کے قرضے معافی کے نام پہ ہڑپ کرنیوالے اوربیرونِ ملک اربوں کی
جائیدادیں رکھنے والے بھی خودکوپاک صاف قراردے رہے ہیں اگریہ ملک ان تمام
لوگوں نے نہیں لوٹاتو اسکاذمے دار بھی ہم بھارت یااسرائیل کوٹھہرائیں گے؟اس
ملک کے بچے بچے کوعلم ہے کہ اسے کس نے ؟کتنا؟اورکس قدرلوٹاٹیلیوژن
سکرینزپرجوچہرے آجکل ’’اِن ‘‘ ہیں جنکی بھڑکوں سے کانوں کے پردے پھٹے پڑرہے
ہیں،جن کی الزام تراشیاں لوگوں کوازبرہوچکی ہیں،جوایک دوسرے کے ’’کارناموں
‘‘کی نقاب کشائی فرمارہے ہیں اورجن کے نام لے
لیکرنیوزکاسٹرز،اینکرزاورتجزیہ کاروں کی زبانیں دنرات نہیں تھکتیں ان سب نے
اپنے اپنے اندازمیں اوراپنی اپنی’’ حیثیت‘‘ کے مطابق اس ملک وقوم کولوٹاہے
یہ جمہوریت کے نام لیوااکیس اکیس سال سے اپنی پارٹی کے چئیرمین بنے ہوئے
ہیں مگرجمہوریت کی افادیت پر تقریریں ہورہی ہیں ،بڑی پارٹیوں میں مرکزسے
یونین کونسل تک نامزدگیوں اورتقرریوں سے کام چل رہاہے، مگردعوے ہیں جمہوریت
کومضبوط کرنے کے،الیکشن کمیشن جعلی انٹراپارٹی الیکشنزسے آنکھیں بندکی ہوئی
ہے،آنیوالے الیکشن کی تیاری کیلئے عدالتوں کواکھاڑے میں تبدیل
کیاگیاہے،عدالتی کارروائی کی من پسندتشریحات سامنے آرہی ہیں ،عدالت
پرمیڈیائی ٹرائل کے ذریعے اثراندازہونے کی کوشش ہورہی ہے،معززججوں کے
ریمارکس کامیڈیاٹرائل ہورہاہے،عدالتوں کے کام میں رکاوٹ پیداکی جارہی
ہے،خودکوپارساثابت کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کازورلگایاجارہاہے اورسیاسی
لڑائیوں کیلئے عدالتوں کومیدانِ جنگ میں تبدیل کیاگیاہے مذکورہ روئیے
قطعاًجمہوری روئیے نہیں ہمارے محبوب سیاسی راہنمااگرقوم کوجمہوریت دینے میں
مخلص ہیں توسب سے پہلے اپنی پارٹیوں میں نامزدگیوں کے بجائے الیکشنزکرائیں
اسکے بعدعام انتخابات میں جوبھی پارٹی جیتے اسکے مینڈیٹ کوتسلیم کرکے پانچ
سال تک حکومت گرانے کے چکروں ،پیشنگوئیوں،سیاسی شعبدہ بازیوں،الزام تراشیوں
اوردھرنوں تحریکوں سے بازآجائیں حکومت چاہے کتنی بری ہواسے چلتے رہناچاہئے
آج اگرایک حکومت کوہم گردن زدنی قراردیکررخصت کراتے ہیں تواس بات کی گارنٹی
کون دیگا کہ اگلی حکومت نیک ،پارسا،ایماندار،صادق و امین اورہرلحاظ سے
بہترین حکومت ہوگی ؟ جمہوری روئیوں کاتقاضاہے کہ انتخابات کے ذریعے
برسراقتدارآنے والی کسی بھی حکومت کواسکی مدت پوری کرنے دی جائے اپوزیشن
اسکی خامیوں اوربرائیوں سے عوام کوبرابرآگاہ کرنے کی کوشش کرتی رہے اورجب
الیکشن کامیدان سجے توسب اپنااپناپروگرام قوم کے سامنے رکھیں قوم جسے چاہے
شرف قبولیت بخشے اوروہ حکومت بنائے ہمارے ہاں جمہوریت کانام حکومت گرانے
اوراقتداربچانے کیلئے استعمال کیاجاتاہے جوکہ سراسرغلط ہے جمہوریت
کامقصدحکومت گرانااوربچاناہرگزنہیں بلکہ عوامی ووٹ کے ذریعے برسراقتدارآنے
والی حکومت سمیت آئین وقانون کی بالادستی کویقینی بنانے اورعوام کوانکے
حقوق دینے کانام جمہوریت ہے کبھی دھاندلی کے حوالے سے پورے ملک کوہیجان میں
مبتلاکرکے حکومت گرانے کی کوشش کرنااورکبھی پانامہ لیکس کوملک کاہاٹ
ایشوبناکراس بہانے سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کامطالبہ کرناقطعاًجمہوریت
نہیں بلکہ جمہوریت یہی ہے جواس وقت ہمارے ہاں چل رہی ہے پانامہ لیکس میں
وزیراعظم کے بچوں کے نام آئے (یادرہے کہ پانامہ لیکس بھی کوئی مقدس
دستاویزنہیں اوراس میں غلطی کی گنجائش کونظراندازنہیں کیاجاسکتا)وزیراعظم
نے قوم سے خطاب کرکے خودکوسپریم کورٹ کے ذریعے احتساب کیلئے پیش کردیااسکے
بعدعمران خان نے اسلام آبادکوبندکرنے اورلاک ڈاؤن جیسے نعرے لگائے مگرانہیں
آخرکار’’ایمپائر‘‘کی بجائے سپریم کورٹ کوہی ثالث ماننے کاکڑواگھونٹ
بھرناپڑااب یہ کیس سپریم کورٹ میں ہے جہاں دونوں جانب کے وکیل
اپناپورازورصرف کرکے کیس کومنطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہیں کیس
کانتیجہ کیانکلتاہے ،سپریم کورٹ کافیصلہ کس کے حق اورکس کے خلاف آتاہے یہ
ملک کے سب سے بڑی عدالت کے ججوں پرمنحصرہے اورمعززججوں کاکہناہے کہ وہ کیس
کے حوالے سے محض وکلاء پرتکیہ کرکے بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ وہ اپنی جانب سے
بھی تفتیش کاعمل جاری رکھے ہوئے ہیں جب یہ تمام کارروائی جاری ہے توکیس
پراثراندازہونے کی کوشش میں سیاسی راہنماؤں کوکیس کے حوالے سے اظہارخیال سے
اخلاقاً گریزکرناچاہئے اوراگرسیاسی راہنماؤں کے پاس اخلاق نام کی کوئی
چیزموجودنہیں توکورٹ کواس حوالے سے پابندی عائدکرنی چاہئے تاکہ ملکی مستقبل
کے حوالے سے اس اہم کیس کویوں گلی گلی محلہ محلہ پریس کانفرنسوں اورٹی وی
سکرینوں پرزیرِبحث نہ لایاجائے جلسوں میں تقریروں کاموضوع نہ بنایاجائے
اورسیاسی راہنمااپنے کارکنوں کوکیس کل تک ختم ہونے کی خوشخبریاں نہ دیں
کیونکہ کیس ختم ہونے کے جتنے بھی دعوے آج تک کئے گئے ہیں جتنی بھی تاریخیں
دی جاچکی ہیں وہ سب غلط ثابت ہوچکی ہیں اب کیس کوعدالت پرہی چھوڑدیناچاہئے
عدالت بارباراپنے فرائض کی بااحسن بجاآوری کی یقین دہانیاں کراچکی ہے جن
پرپوری قوم کواعتمادہے آئندہ کیلئے سیاستدان عدلیہ کوزیربارکرنے کی بجائے
اپنے مسائل پارلیمنٹ میں حل کرنیکی کوشش کریں عدالتوں کوسیاست زدہ کرنے
اوراقتدارکی جنگ میں گھسیٹنے کاسلسلہ بندہوناچاہئے تاکہ وہ عوام کوانصاف کی
فراہمی کیلئے یکسوہوکرکام کرسکیں عدالت کوعدالت ہی رہنے دیجئے اسے سیاسی
اکھاڑے میں تبدیل مت کیجئے۔ |