ویک اپ کال

پاکستان کے دارلحکوت اسلام آباد میں جنوری 2017 ؁ء کے آغاز میں ہی ایک دل دہلا دینے والی حقیقت سامنے آ گئی ہے اور یہ حکومتِ پاکستان کے لئے ویک اَپ کال ہے قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ملک کی ایک نامورشخصیت ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد راجہ خرم علی خان کے گھر میں ایک کمسن بچی جسکی عمر تقریباََ دس سال ہے پر غیر انسانی برتاؤاوربیہمانہ تشدد کا واقع سوشل میڈیا کے ذریعے نیوز چنیل پرمنظرِ عام پہ آیا پھر کیا تھا کہ ہر طرف شور مچ گیاپولیس،چائلڈ پروٹیکشن اور عدلیہ متحرک ہو گئی پولیس نے فوراََ راجہ خرم کی بیگم کے خلاف مقدمہ درج کیا ، لیکن جب عدالت میں پیشی ہوئی تو بچی کے والدین کی طرف سے عدالت میں تحریری معافی نامہ جمع کروایا گیااور راجہ خرم کی بیگم صاحبہ چند ہزار کے مچلکے جمع کروا کے گھر چلی گئی اس کے بعد بچی اور اسکے والدین عدالت ہی کے احاطہ ے سے غائب ہو گئے۔عدلیہ اور پولیس نے پھرتیاں دکھاتے ہوئے نہ تو والدین کی تحقیق کی کہ وہ اصلی ہیں یا جعلی اور نہ ہی کوئی سپردگی کے لئے کاغذی کارروائی کی ایسی صورتحال میں تین سے چار والدین طیبہ کے دعوے دار بن کے سامنے آ گئے سپریم کورٹ برہم ہوا اور چیف جسٹس صاحب نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے طیبہ کیس کے لئے ایک بینچ تشکیل دیا اور سا تھ میں حقیقی والدین کا پتہ کر نے کے لئے ڈی.این. اے رپورٹ کروانے کا حکم دیا پولیس نے دوڑیں لگائیں اور چار دن کے بعد بچی اور اسکے والدین کو ڈھونڈ لیا اور حیرانگی والی بات یہ ہے کہ بچی اور اس کے والدین اُس وکیل کے گھر سے برآمد ہوئے جو راجہ خرم کی بیگم کے مقدمہ کی پیروی کر رہا تھا۔کسی بھی ملک میں وکلاء حضرات سب سے زیادہ پڑھا لکھا طبقہ سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان کے چند مفاد پرست وکلاء کی وجہ سے ساری وکلاء برادری شرمسار ہوئی ہے یہ کیس ابھی عدالت میں چل رہا ہے اور دیکھتے ہیں کہ کیا فیصلہ آتا ہے اُدھر میڈیکل رپورٹ بھی آ گئی ہے یہاں پر یہ بھی ایک افسوس کی بات ہے کہ جعلی والدین آے کہاں سے؟ اور کس کے کہنے پر آئے؟ ان جعلی والدین کو شرم آنی چاہیے ایسے گھنونے دعوئے کرتے ہوے ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے اور حکومت سے بھی درخواست ہے کہ چائلڈ لیبر کے قانون پر سختی سے عملدرآمدکروائے ۔دوسری طرف یہ بھی ہے کہ انسان کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ایسے عالم میں والدین سے چندایک گزارشات ہیں جب کبھی والدین کو اپنے بچوں کو ملازمت کروانا مقصود ہو تو بچوں کی عمرکا لحاظ رکھیں ،اس بات کا بھی تعین کریں کہ کیسے لوگوں کے ہاں ملازمت کروانے لگے ہیں ؟، بھاری ایڈونس لینے سے اجتناب کریں ، فون پر رابطے میں رہیں،اور ہرمہینے کے بعد ملاقات کریں ۔ یہ کوئی ایک کیس نہیں اور بہت سے کیس ہیں جو سننے کے بعد روح کانپ اٹھتی ہے حال ہی میں گڈانی کے مقام پر سینکڑوں لوگ آگ میں جل کر ہلاک ہو گئے کئی ایک تو فوراََ ابتدائی طبعی امداد نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے اور کچھ ہسپتال میں ناکافی انتظامات ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوئے جبکہ دنیا کے باقی ممالک میں سمندری جہاز توڑنے کیلئے باقاعدہ طور پرانڈسٹریاں بن چکی ہیں اور وہاں پر کام کرنے والوں کیلئے تمام انتظامات موجود ہیں مگر پاکستان میں حکومت کو مناسب کمیشن مل جاتی ہے بس کمیشن ہی ضروری ہے ملازموں کی جان کی کوئی پروا ہ نہیں۔ملک میں جعلی نجومیوں،پیروں اور فقیروں کی وارداتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں یہ سرعام لوگوں کے جان و مال اور عزتوں سے کھیل رہے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں چند احمق لوگ ہیں جو ایسے جعل سازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں کئی والدین تو اپنے لختِ جگر تک ان عاملوں کے چکر میں گنوا بیٹھتے ہیں اور بعد میں دُہائیاں دیتے ہیں مگر حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہے نہ ہی حکومت اس بات کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔ پاکستان میں خود خوشی کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ان میں زیادہ تر تعداد غریب طبقے کی ہے کیونکہ پاکستانی معاشرے میں امیر،امیر تر ہو رہا ہے اور غریب ،مزید غریب ہو رہا ہے بے روزگاری،مہنگائی،متوازن غذا کامیسر نہ آنااور بیماریوں کی وجہ سے لوگ تنگ آکر خود کُشیاں کر رہے ہیں حکومتِ پاکستان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے مگر حکومت کو پانامہ کیس کو لے کر اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں غریبوں کی جان کی کیا پرواہ۔ملک میں دہشت گردی،چوری،ڈکیتی،رہزنی کی وارداتیں معمول بنتی جا رہی ہیں صورتحال یہ ہے کہ ڈھرا دھڑعوام لُٹ رہی ہے اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہے اگر کوئی ان کے ہتھے چڑھ بھی جائے تو رشوت لے کے فارغ کر دیتے ہیں نیب کو ہی دیکھ لیں جو شحض اربوں کی کرپشن کرتا ہے وہ کروڑوں دے کر آزاد ہو جاتے ہیں لیکن حکومت مطئمن بیٹھی ہے ۔ آجکل پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں غیر معیاری سٹنٹ کا سکینڈل منظرِعام پر آیاہے غریب عوام سے لاکھوں روپے لوٹ کر اپنی جیبوں کو بھر لیا گیا ہے اسی طرح ہسپتالوں میں مریض فرشوں پر مر رہے ہیں ہسپتالوں میں آلات کا فقدان ہے جسکی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کھانے،پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں دودھ کیمیکل سے تیار ہو رہا ہے یوں کہنا بہتر ہو گا کہ کھانے،پینے کی اشیاء کے نام پہ ہم زہر استعمال کر رہے ہیں اسی طرح کسانوں کو کھاد کی بوری پر سبسڈی ختم کر کے ان کے لئے مشکلات میں اضافہ کر دیا گیاہے مگر پھر بھی حکومت کو کسان دوست کہنے پر فخر ہے ایسی پالیسوں سے گڈ گورننس واضح نظر آ رہی ہے پورے ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اور بھی بہت سے ایشوز ہیں جو ابھی روپوش ہیںآخر میں پاکستان کے تمام اعلیٰ حکام سے التماس ہے کہ ملکی صورتحال پر بھی تھوڑی توجہ دیں۔ جو عہد آپ نے حلف اٹھاتے ہوئے کیا تھا اس کی پاسداری کریں کیو نکہ یہ عہدے اوراختیارات ان کے پاس خداتعالیٰ کی امانت ہے، ان اختیارات کے استعمال کا حساب ہو گا اس لئے ضروری ہے کہ ملک کی اور عوام کی بہتری کیلئے کام کریں عوام کی خوشحالی اور میعار زندگی کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی کریں۔ تاکہ ملک میں مسائل کی بجائے ترقی ہو چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو بہتر کریں تاکہ پاکستان ایک مثالی ریاست بن جائے،عوام میں شعور اجاگر کیا جائے عوامی نمائندوں کو عوامی مسائل حل کرنے میں فوری اقدامات کرنے چاہیے تاکہ آپ اپنے ضمیر میں مطئمن رہیں اور خداتعالیٰ کو روزے قیامت اپنے اختیارات کے استعمال کا جواب دیں سکیں ورنہ دوسری صورت میں خداکی لاٹھی بے آواز ہے جب پڑتی ہے تو پھر بڑے بڑے فرعون منہ کے بل گر جاتے ہیں۔ اتنا ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ روزِ قیامت کا ایک دن مقرر ہے
بقول شاعر!
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت ہے نہ نُوری ہے نہ ناری ہے
Karamat Masih
About the Author: Karamat Masih Read More Articles by Karamat Masih: 36 Articles with 27170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.