1876ءمیں برطانوی فوجی آفیسر سر چارلس میک
گریگر پیرس کے ساحل سے بلوچستان تک کے سمندری سفر کے دوران جب گوادر کے
ساحل پر پہنچے تو ششدر رہ گئے۔ وہ اپنی کتاب ’وانڈرنگ اِن بلوچستان(1882ء)
میں لکھتے ہیں :
“میں نے گوادر کے ساحل کو انتہائی خوبصورت پایا۔480فٹ اونچے کوہِ مہدی اور
سفید چٹان نما پہاڑی سلسلے نے پورے ساحل کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے۔
بظاہر یہ بلوچ ماہی گیروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا اور قدرے پسماندہ قصبہ ہے،
لیکن میں اس امید کا اظہار کرتا ہوں کہ مستقبل میں یہ ایک اہم تجارتی
بندرگاہ بنے گا“
ممتاز امریکی محقق اسٹیگ ہیریسن کے بقو ل :
“گوادر کا ساحل دنیا کے مشرق و مغرب اور شمالی و جنوبی خطوں کو آپس میں ملا
کر مرکزی گذرگاہ کا بھر پور کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور دنیا کی
تیسری گہری بندرگاہ ہے“
کراچی بھی ایک بہت پرانی بندرگاہ ہے ،اگر ہم تکنیکی صلاحیت کو مد نظر رکھتے
ہوئے تقابلی جائزہ لیں تو گوادر کو کراچی سے کہیں زیادہ موزوں اور منافع
بخش پائیں گے۔ کراچی پورٹ کی گہرائی10فٹ تھی، جسے بہت محنت کرکے 12سے15فٹ
کیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ پر ایک وقت میں چار سے زیادہ جہازچینل میں لنگر
انداز نہیں ہو سکتے۔ جبکہ گوادر پورٹ پہلے ہی 18فٹ گہرائی لئے ہوئے ہے اور
اس میں بیک وقت ایک درجن جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ گوادر کا
ساحل600کلومیٹر طویل ہے۔
کچھ تاریخی حقائق اس طرح ہیں کہ گوادر 1958ءتک عمان، جو کہ گوادر کے مدِ
مقابل سمندر پار ایک ریاست ہے، کا حصہ تھا۔ اسے8دسمبر1958ءکو55کروڑ روپے کی
ادائیگی کرکے عمان سے خریدا گیا۔1964ءمیں حکومتَ پاکستان نے گوادر کو
بندرگاہ بنانے کے لیئے موزوں قرار دیا اور2002ءمیں چین کے تعاون سے اسے
معیاری بندرگاہ میں تبدیل کرنے کا عملی طور پر آغاز کیا گیا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)منصوبہ(China Pakistan Economic
Corridor) :
گوادر کے بارے میں یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے
تجارتی راستے پر واقع ہے، تیل برآمد کرنے والی تنظیم اوپیک کے ممبر اور سب
سے زیا دہ تیل کی پیداوار کرنے والے تین بڑے ممالک سعودی عرب، ایران اور
عراق ، کے تیل کی ترسیل کا راستہ بھی گوادر سے ہی ہوکر گذرتا ہے۔ یہ خلیجی
علاقہ دنیا بھر کے تیل کا 33 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے شمال میں
واقع کئی ریاستیں گرم سمندر کی نعمت سے محروم ہیں اور اپنے اقتصادی پلان کو
آگے بڑھانے کے لئے گوادر جیسی بندرگاہ کی عرصے سے منتظر ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً نصف صدی گزر جانے تک پاکستانی
حکمرانوںنے جغرافیائی لحاظ سے اس انتہائی قیمتی اور اہم ترین بندرگاہ کو
نظر انداز کیوں کئے رکھا۔ جسکی وجوہات ، بظاہرمندرجہ ذیل ان تینوں میں سے
کوئی ایک یا ایک سے زائد بھی ہو سکتی ہیں (1) عالمی طاقتیں جس طرح بلوچستان
سے معدنی دولت کی بازیابی میں رکاوٹیںپیدا کرتی رہی ہیں اسی طرح گوادر پورٹ
کی تعمیر میں بھی مزاحم رہیں اور ہمارے حکمراں اپنے اپنے اقتدار میں طوالت
کے حصول کی خاطر خاموش رہے (2) پاکستانی حکمرانوں نے عالمی طاقتوں اور
عالمی اداروں سے مسلسل قرضے لے لے کر پاکستانی عوام کو بھاری بھرکم سود در
سود کی زنجیروں میں اس طرح جکڑ دیا کہ پاکستان کے پاس اتنے وسائل ہی جمع نہ
ہوسکے کہ بندرگاہ کی تعمیر کرسکتا (3)پاکستان کامخصوص حکمراں طبقہ جو
اقتدار پر تا عمر بلکہ نسل در نسل قابض رہنا چاہتا تھا اورہے، اپنے انہی
مذموم مقاصد کے لئے عوام کو ہمیشہ حالتِ غربت میں ہی رکھنا چاہتا ہے تاکہ
وہ حالتِ جہالت سے باہر نہ آسکیں۔ حالانکہ پاکستان کسی طرح بھی اپنے ذرائع
وسائل کے لحاظ سے غریب ملک نہیں ہے۔لیکن کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا
ہے۔ اور جب نظامِ ہستی چلانے والی ہستی نے فیصلہ کرلیا توالحمدُ لِلہ ان
تمامتر رکاوٹوں کے باوجود چین کی طرف سے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی خطیر
رقم سے پاکستان کی تقدیر بدلنے کے کام کا آغاز ہو گیا ، اور خاص بات یہ ہے
کہ یہ کوئی قرضہ نہیں ہے، بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی
سرمایہ کاری ہے۔
اس موقع پر سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا ذکر نہ کرنا بددیانتی ہوگی کہ
جس نے تمام تر دیگر ناخوشگوار اقدامات کے باوجود“سب سے پہلے پاکستان“
کانعرہ بلند کرکے “سی پیک“ منصوبے کو حتمی شکل دی اور اس پر عمل در آمد
کابھی آغاز کروایا۔ گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر اور بندرگاہ سے چین کی سرحد
تک تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل شاہراہ کی تعمیر کا کام انتہائی سرُعت
کے ساتھ جاری ہے ،اس کے علاوہ اس منصوبے میں کراچی تا لاہورجدید موٹر وے کی
تعمیر، ریلوے لائنوں کی اپ گریڈیشن ، انرجی کرائسیس کا خاتمہ ، متعدد
انڈسٹریل زون اور ملکی طول و عرض میں قیمتی انفرا اسٹرکچر تیار کرنابھی
شامل ہے۔ چین اور پاکستان کے اس مشترکہ منصوبے کی تکمیل 2030ءمیں متوقع
ہے۔اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ چین اور پاکستان کو اس مشترکہ منصوبے سے علیحدہ
علیحدہ کیا فوائد حاصل ہونگے او ریہ بھی کہ اس منصوبے کا سب سے بڑا دشمن
کون ہے!
پاکستان کے لئے فوائد:
چھیالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم کی سرمایہ کاری سے شروع ہونے والی چین
پاکستان اقتصادی راہداری کسی ایک سڑک یا بندرگاہ کی تعمیر کا نام نہیں بلکہ
یہ پاکستان کے سارے عوام کی ترقی اور خوشحالی کی راہداری ہے۔ پندرہ سال کی
مدتِ تکمیل کے دوران اس سے سات لاکھ پاکستانیوں کو روزگار میسر ہوگا۔جیسا
کہ اوپر ذکر کیاگیا کہ گوادر کو چین سے ملانے کے لئے نہ صرف ڈھائی ہزار
کلومیٹر کی جدید شاہراہ بلکہ کراچی تا لاہور گیارہ سو کلومیٹر طویل موٹروے
بھی تعمیر ہوگی، ساتھ ساتھ بلوچستان، سندھ ، پنجاب،فاٹا اور صوبہ خیبر
پختونخواہ اور ملک کے انتہائی شمالی علاقوں کے مابین جدید اور مضبوط
شاہراہوں کا جال پھیلاکر ان شاہراہوں کو باہم مربوط کر دیا جائے گا۔ ان
تمام شاہراہوں پر چین تقریباً 6 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ کراچی تا
پشاور طویل ترین ریلوے لائن کو2019ءتک اپ گریڈ کرکے ٹرینوں کی اوسط
رفتار160 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچادی جائے گی، جس پر 3.6بلین ڈالر لاگت
آئے گی۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں ضروری ہے پہاڑوں میں سرنگیں، ریلوے اسٹیشن
اور ائیر پورٹ بھی تعمیر کئے جائیں گے۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو
بجلی اور گیس کی جس بڑے پیمانے پر قلت کا سامنا ہے، اس منصوبے میں ان دونوں
مسائل پر بھی قابو پانے کے لیئے33بلین ڈالر سے زائدخطیر رقم مختص کی گئی
ہے۔ ایران پر سابقہ اقتصادی پابندیوں سے قبل ایران اور پاکستان کے مابین
قرار پانے والے ایک معاہدے کے مطابق قدرتی گیس کی براستہ گوادر سپلائی آنی
تھی، ایران پہلے ہی اپنے علاقے میں پائپ لائن کی تنصیب مکمل کر چکا تھا۔ اب
ایران پرسے اقتصادی پابندی اٹھا لی گئی ہیں، اس لئے سی پیک منصوبے میں
گوادر سے نواب شاہ تک ڈھائی بلین ڈالر کی پائپ لائن ڈالنے کا منصوبہ بھی
شامل کیا گیا ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان کے بجلی کے مسائل کو حل
کرنے کے لیئے بڑے پیمانے پر انفرا اسٹرکچر بنایا جائے گا۔ جس میں ابتدائی
طور پر کوئلے ،ہوا( وِنڈ مِل) اور سورج(سولر سسٹم) کے ذریعے بجلی فراہم کی
جائے گی، جس سے نیٹ ورک میں 2018ءتک4500 میگاواٹ بجلی ڈال دی جائے گی۔
جبکہ2018ءکے بعد بھی بجلی مزید10,400 میگاواٹ تک بڑہانے کے لئے 2020ءتک کام
جاری رکھا جائے گا۔
سی پیک کے منصوبے کی تکمیل سے گوادر کی بندرگاہ پر دو لاکھ پاکستانی
خاندانوں کو مستقل روزگار اور روشن مستقبل ملے گا۔ پورٹ سے چین کو صرف تیل
کی راہداری دینے سے پاکستان کو 5 ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوگی، جبکہ چین
دنیا بھر میں سب سے زیادہ برآمدات کرنے والے ملک ہونے کا اعزاز رکھتاہے،جس
کے باعث اس کی دیگر تجارتی سرگرمیوںکی تو کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔سمندری
ساحلوں سے محروم، وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے بھی گوادر سے تجارت ایک نعمت
سے کم نہیں، پاکستان ان سے قومی آمدنی میں 40 ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی کا
اضافہ کرسکتا ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت موٹر وے، فلائی اوورز، معیاری
شاہراہیں ،ریلوے اسٹیشنز، ائیر پورٹس اور پہاڑی سرنگیں تعمیرکرنے کے باعث
ملک کے دوردراز اور پسماندہ خطوں کو ترقی دینے کا خواب بھی شرمندہ
تعبیرہونے کی قوی امید ہے۔ پاکستان کے لئے یہ منصوبہ ایک مواصلاتی و صنعتی
انقلاب کی نوید بھی لے کر آئے گا کیونکہ موٹر ویز اور شاہراہوں کی تعمیر کے
ساتھ متعدد انڈسٹریل زون کا قیام بھی منصوبے میں شامل ہے۔ اس جدید مواصلاتی
نیٹ ورک کی بدولت منڈیوں کا سامان وسط ایشیائی ممالک تک پہنچانے کے لئے بھی
وسیع اور شاندار سہولتیں میسر آئینگی ، جس سے بجا طور پر پاکستانی بر آمدات
میں اضافے کی بھی امید ہے۔
چین کے لئے فوائد:
چین ایک کثیر آبادی والا اور ایشیا کے بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ملک ہے۔
جس کی مغربی، جنوبی اور شما لی سرحدوں کو سمندر سے راہداری میسر نہیں ہے۔
صرف مشرقی سرحد پر بندر گاہیں پائی جاتی ہیں۔ اس کے تیل بردار جہاز جب
خلیجِ فارس سے نکلتے ہیں تو پاکستان، بھارت، سری لنکا، برما، سنگاپور،
تھائی لینڈ، کمبوڈیا، ویتنام، ملائشیا اور انڈونیشیاکے سمندروں سے ہوتے
ہوئے 12000کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرکے مشرق میں واقع بیجنگ یا
شنگھائی کی بندر گاہ پہنچتے ہیں۔جبکہ سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعدخلیج
ِفارس سے چین کے مغربی شہر ’کاشغر‘ کا فاصلہ صرف2000 کلو میٹر رہ جائے گا۔
صرف مشرقی جانب بندرگاہوں کی دستیابی کے باعث چین کی90 فیصد سے زائد آبادی
مشرقی علاقوں میں جمع ہوگئی ہے جبکہ بقیہ دس فیصد(یعنی 13کروڑ) آبادی ، جو
چین کے شمالی اور مغربی سمت میں رہتی ہے، انتہائی غربت اور پسماندگی کی
زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔ جس میں پاکستان کے شمال مشرق میں واقع ’سنکیانگ‘
کا انتہائی غریب صوبہ بھی شامل ہے۔ گوادرکی بندرگاہ استعمال کرنے سے چین کو
تیل کی فراہمی کافاصلہ ایک چوتھائی سے بھی بہت کم رہ جائے گا، جس کے باعث
صرف تیل کی ترسیل کے اخراجات میںچین کی بچت 20 ارب ڈالر سالانہ ہوگی۔ چین
جو کہ گذشتہ تین دہائیوں سے دنیا بھر میں اپنا تجارتی ما ل برآمد کرکے تیزی
سے ایک بہت بڑی معاشی طاقت بن گیا ہے، گوادر سے میسر ہونے والے اس نئے
راستے کے ذریعے نہ صرف اپنا مال یورپ اور ایشیا کی منڈیوں تک پہنچاکر بے
انتہا منافع کمائے گا بلکہ اس نئے انفرا اسٹرکچر سے وسطی ایشیا کی ریاستوں
تک بھی آسانی سے رسائی حاصل کرسکے گا۔ سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے گوادر تک
رسائی آسان ہونے کے بعد چین کو اپنے مغربی اور شمالی پسماندہ علاقوں کو
ترقی یافتہ بنانے کا سنہری موقع میسر آئے گا۔
بھارت کی بوکھلاہٹ:
جب سے چین اور پاکستان کے مابین سی پیک پلان کا معاہدہ طے پایاہے، بھارت کی
بوکھلاہٹ کا منظر نامہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے
کہ بھارت نے 1947ءمیں تقسیمِ ہندوستان کے بعد سے پاکستان کے وجود کو کبھی
دل سے تسلیم نہیں کر سکا ہے۔اُس نے نہ صرف پاکستان بلکہ اپنے دوسرے پڑوسی
چین کے ساتھ بھی مسلسل مخاصمت، محاذ آرائی، اور مسلح جارحیت کا رویہ اختیار
کئے رکھا ۔ نسل پرست بھارتی کئی صدیوں تک مسلمان بادشاہوں کے زیرِ نگیں
رہے، جس کے باعث ان کا ایک عجیب و غریب مزاج بن گیا ہے، جسے ہم احساسِ
کمتری بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اچھل اچھل کر مسلم اکثریت کی بنیاد
پر وجود میں آنے والے پاکستان سے شدید نفرت اور دشمنی کے مظاہرے کرتے رہتے
ہیں۔ بھارت ہمیشہ سے دنیا کی دو سُپر پاورز میں سے ایک یعنی روس کا حاشیہ
نشین تھا۔ لیکن امریکہ ، پاکستان کی افغانستان میں مشترکہ کاروائی کے نتیجے
میں سوویت یونین کی طاقت کے خاتمے کے بعد چھلانگ لگاکر امریکہ کی گود میں
جا کر بیٹھ گیا اور پاکستان کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ ریشہ دوانیوں میں
مصروف ہوگیا۔ قبل ازیں وہ بزدلانہ سازشیں تیار کرکے پاکستان کے مشرقی بازو
کو کاٹ کر پاکستان سے الگ کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا اور اب بقیہ پاکستان
کے وجود کے خلاف بڑی عیاری سے تانے بانے بُن رہا تھا کہ ایشیا سے ابھرتی
ہوئی اقتصادی سُپر پاور، چین اور پاکستان کے مشترکہ منصوبے، سی پیک سے اس
کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ وہ اپنے روائتی متعصبانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے
ہوئے پاکستان کو تعمیر و ترقی کی جانب سفر کرتے نہیں دیکھ سکتا۔ جس کے لیئے
بھارت افغانستان میں 300ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ وہ
افغانستان میں موجود گیس، آئل اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر پرلومڑی
جیسی نظر رکھے ہوئے رال ٹپکا رہا ہے۔
بھارت نے پورے افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریبی شہروں میں جگہ جگہ
اپنے نئے قونصل خانے کھولے ہیں، اور جاسوسی ایجنٹوں کا جال افغانستان سے
بلوچستان تک پھیلادیا ہے۔وہ اپنے نئے ماسٹر امریکہ کی مدد سے افغانستان میں
اپنا اثرو رسوخ بڑھاکراور ان کی سر زمین استعمال کرکے بلوچستان میں بدامنی
اور بغاوت جیسا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے ، تاکہ پاکستان کی تعمیر و ترقی
کے منصوبے ناکام ہو جائیں۔ دوسری طرف وہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول سے
پاکستان میں بار بار فائرنگ اور گولہ باری کرکے حالات کو اُس رُخ پرڈالنا
چاہتا ہے کہ کسی طرح پاک۔چائنا منصوبے پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔ اس کے ساتھ
ساتھ و ہ ایران سے پینگیں بڑہا کر ایران کے جنوبی ساحل پر واقع چاہ بہار
میں بندرگاہ کی تعمیر کے لیئے 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ
اپنی گجرات اور بمبئی کی بندرگاہ اور چاہ بہار کو استعمال کرکے گوادر کے
گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ واضح رہے کہ چاہ بہار گوادر سے مغرب کی سمت میں
صرف72 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ بھارت گوادر کے معاملا ت میں اُسی طرح
کی مداخلت کاری ، در اندازی اور تھانیداری کے مکروہ عزائم رکھتا ہے ، جیسے
قبل ازیں وہ کشمیر، سکم، بھوٹان، مشرقی پاکستان، سری لنکا ، چینی علاقوں
اور دیگر پڑوسیوں کے معاملے میں کرتا رہا ہے۔
لیکن بھارت یاد رکھے کہ اب پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ یہ
اکیسویں صدی کا دور ہے۔ وہ پاکستان کے باہر پڑوسی ممالک کو یا پاکستان کے
اندر پاکستانیوں کو کتنا ہی ورغلانے کی کوشش کرلے، افغانستان کے حکمرانوں
کو ڈیمز، اور پاور پلانٹ کی تعمیرات کے نام پر کتنا بھی بیوقوف بنانے کی
کوشش کرلے، ایران کو اپنی عیارانہ سازشوں کے جال میں پھنسانے کی کتنی ہی
کوشش کیوں نہ کرلے، اب انشاءاللہ اس کی چالیں اُلٹی اسی کے خلاف پلٹنے والی
ہیں۔ بھارتیوں کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ ان کی ایک ممتاز یونیورسٹی کی
فیکلٹی آف جنرل نالج کے قوم پرست سربراہ ڈاکٹر گوراو گرج کی ایک ویڈیو آجکل
سوشل میڈیا میں پھیلائی جا رہی ہے۔ جس میں وہ کھلم کھلا بھارت کوپاکستانی
علاقوں میں ناجائز مداخلت پر اُکسا رہا ہے۔ وہ پاکستانی کشمیر پر قبضہ کرکے
سی پیک منصوبے کو ختم کرنے کا خواب بھارت کو دکھلا رہا ہے۔ افغانستان اور
بلوچستان میں جو لوگ پاکستان دشمنی کے عزائم رکھتے ہیںڈاکٹر گرج اپنی ویڈیو
میں انکو منظم کرنے اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا مشورہ دےتا ہوا
دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی حکمراں ، سپہ سالارِ فوج اور پوری قوم بھارتی عیارانہ
چالوں کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔اور ان پاکستان دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی
دیوار بنے ہوئے ہیں۔ بھارت پوری کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر اور بلوچستان کے
ایشوز پر مشرقی اور مغربی بارڈر سے پاکستان پر چڑھائی کردے، لیکن پاکستانی
عوام اپنی عسکری اور سیاسی قیادت کے ساتھ ڈٹ کر اور متحد ہو کر کھڑے ہیں
اور ایک آواز ہو کر کہہ رہے ہیں کہ
تندی بادِ مُخالف سے نہ گھبرا اے عقاب ۔ ۔ ۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا
اُڑانے کے لیئے
حکمرانوں کو اس پربھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے دو انتہائی اہم
ادارے یعنی پاکستان اسٹیل اور پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز ، جو کہ پاکستان
کی معیشت کو گراںبار سہارا دے سکتے تھے، ان کو جس طرح جان بوجھ کر برباد
کیا گیا، ویساکھیل گوادر میں نہ ہو۔ پاکستان دشمنوں کی تمام تر سازشوں کے
باوجود راقم کو یقین ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ پاکستان کا مستقبل روشن ہے ۔
بس ہمارے حکمراں خود کو اس غیبی مدد کا اہل ثابت کریں اور اس کے ثمرات کو
صرف ایلیٹ کلاس تک محدود نہ کریں بلکہ عوام الناس کے لئے سستا انصاف،
ایماندارانہ پولیس اور پٹواری کے نظام، تعلیم،اور صحت کی انقلابی سہولیات
مہیا کرنے کا عہد کریں۔ |