معروف صحافی ، کالم نگار ارشاد احمد حقانی
6 ستمبر 1928ء کو بابا بلھے شاہ کے شہرقصور میں پیدا ہوئے ۔تعلیم حاصل کرنے
کے بعد پاکستان میں اسلامی انقلاب لانے کے لیے وہ جماعت اسلامی سے وابستہ
ہوگئے ۔جماعت اسلامی کے جریدے تسنیم میں کام کرنے لگے ۔پھر ۔ 1956ء میں جب
ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کا اجتماع ہوا تو اس میں ارشاد احمد حقانی،
امین احسن اصلاحی کے ہمراہ جماعت اسلامی سے الگ ہوگئے تھے ۔جناب ارشاد احمد
حقانی نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز گورنمنٹ کالج قصور میں بحیثیت
لیکچرار کیا۔ اسلامیہ کالج قصورکے پرنسپل کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔
1981ء میں جب لاہور سے جنگ اخبار کی اشاعت شروع ہوئی تو وہ اس کے ساتھ
منسلک ہوگئے ۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آپ روزنامہ جنگ لاہور کے بانیوں میں
ہیں ۔روزنامہ جنگ کے سینئر مدیر رہے اور ان کا کالم ’حرف تمنا‘ کے عنوان سے
شائع ہوتا رہا۔انہوں نے ہمیشہ حق کی آواز بلند کی ،جو لکھا خوب سوچ سمجھ کر
دلائل سے لکھا ۔وہ شعبہ تعلیم سے وابسطہ تھے پھر جماعت اسلامی کے تربیت
یافتہ تھے ۔صاحب علم تھے اس لیے انہیں لکھنے اور بولنے کا طریقہ آتا تھا۔
بعض اوقات دلائل کا انبار لگاتے تو کالم کئی اقساط پر مشتمل ہوتا ۔کالم
طویل ہونے کے باوجود دلچسپی برقرار رکھتا ۔ ان کا لکھا سنجیدگی سے پڑھا
جاتا تھا ۔ ان کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوتا تھا اور وہ اس کو واضح کرنے کے
لیے اپنے کالم کوچار پانچ قسطوں تک بھی پھیلا دیتے تھے ۔ اپنی ایک سوچ تھی
اور وہ اس پر ساری عمر کاربند رہے ۔آپ مذہب کے معاملہ میں میانہ روی اور
سیاست کے معاملہ میں وہ دوٹوک انداز میں اظہار خیال کرتے تھے ۔ان کے کالم
شوق سے پڑھے جاتے تھے ۔آپ اپنا ایک وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے ۔آپ کے کالم
کومذہبی ،سیاسی اوردانشورحلقوں اورقارئین میں انتہائی پذیرائی حاصل تھی ۔
اخبار جنگ کی سائٹ پر ان کے آخری دو سو کے قریب کالم پڑھے جا سکتے ہیں۔ان
کاآخری کالم بھی صدر زرداری کو نصیحت کے بارے میں تھا۔ان کے کالم فکر
انگیزی لیے ہوئے ہوتے تھے ۔عوامی مسائل پر وہ بھرپورانداز میں نہ صرف رائے
زنی کرتے تھے بلکہ ان کے حل کے لیے مناسب تجاویز بھی دیا کرتے تھے ۔
1993 ء میں وہ نگران حکومت میں تین ماہ کے لئے وفاقی وزیراطلاعات ونشریات
بھی رہے ۔مستند اور ماہر اخبار نویس معروف کالم نگار اور روزنامہ جنگ لاہور
کے بانی اور سینیئر ایڈیٹر ارشاد احمد حقانی طویل عرصے سے عارضہ قلب میں
مبتلاء تھے ۔اسی عارضہ کی وجہ سے 24 جنوری 2010ء کو انتقال ہوا۔ نماز جنازہ
لاہور میں ادا کی گئی بعدازاں ان کی میت تدفین کے لئے قصور روانہ کردی
گئی۔اورقصور میں موجود ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
پسماندگان میں دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔
24 جنوری 2017 ء کو ان کی ساتویں برسی ہے ۔اس میں دورائے نہیں کہ ارشاد
احمد حقانی ایک عہد ساز شخصیت تھے ۔اور اب ہم میں نہیں رہے ۔ اب عوام کو
ایک متوازن سوچ کے کالم بعنوان حرف تمنا پڑھنے کو نہیں ملیں گے۔
بقول پیر زادہ قاسم
اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
سوچا ہی نہ تھا یوں بھی اسے یاد رکھیں گے
جب اس کو بھلانے کی بھی فرصت نہ ملے گی |