وہاب اشرفی : ایک شخصی حوالہ
(Safdar Imam Qadri, India)
یہ تو یاد نہیں کہ وہاب اشرفی کا نام پہلی
بار کب کانوں میں گونجا لیکن اندازہ یہی ہے کہ پرائمری اسکول کی تعلیم کے
زمانے میں جب کبھی ہمارے گھر پر ہمارے بہنوئی پروفیسرناز قادری تشریف لاتے
اور ان کے بعض احباب شریکِ گفتگو ہوتے، تب کبھی کبھی وہاب اشرفی کا کسی
پہلو سے ذکر ہواکرتاتھا۔ایک زمانے میں بہار یونی ورسٹی، مظفّر پور میں وہاب
اشرفی فیلوشپ کے دوران درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اس طور پر
پروفیسر ناز قادری یا ان کے متعدد احباب ان کے شاگرد ہوتے تھے۔ یہ بات
۷۱۔۱۹۷۰ کی ہونی چاہیے۔ اس وقت تک وہاب اشرفی ابھی ادبی منظرنامے پر اعتبار
حاصل نہیں کر سکے تھے۔
میٹرک پاس کرنے کے بعد آئی۔ایس سی۔ کی تعلیم کے دوران میں بھاگلپور میں
مقیم تھا اور پروفیسر ناز قادری کے ساتھ ہی رہنے کا سلسلہ تھا۔ وہاں اردو
کے پروفیسرں کی بھیڑ جمع رہتی تھی اور وہاب اشرفی کے تذکرے کا سلسلہ دراز
رہتا ۔ اسی بیچ یہ ہنگامہ شروع ہوا کہ بہار میں اردو کے پروفیسروں کی اوپن
پوسٹ پر پہلی بار تقرّری ہوگی۔ اسی میں یہ خبربھی عام ہوئی کہ وہاب اشرفی
رانچی یونی ورسٹی میں پروفیسر شپ کے لیے منتخب ہوئے۔ ایم۔اے کرتے ہوئے شعبۂ
اردو ،بہار یونی ورسٹی میں کسی وائی وا کے لیے وہاب اشرفی اور پروفیسر نجم
الہدیٰ صاحبان تشریف فرما ہوئے۔ اس زمانے کے صدرِ شعبہ کے سامنے پہلے ہی
میری گزارش قبول ہو چکی تھی کہ باہر سے کوئی بھی ممتاز صاحبِ قلم کسی وفتری
کام سے یونی ورسٹی تشریف لائے تو شعبۂ اردو کے طلبہ وطالبات کے لیے ان کے
خصوصی خطاب کا اہتمام کیا جائے۔اس طرح ۱۹۸۴ء کے آخری مہینوں کی کوئی دوپہر
ہوگی جب وہاب اشرفی کو میں نے بولتے ہوئے سنا۔ منحنی سے آدمی لیکن آواز میں
عجیب دم خم۔ طبیعت رواں اور اختصار کے ساتھ سلسلے وار گفتگو کا انداز۔ لباس
کا رنگ ڈھنگ بھی خاصا معقول۔
دو برس کے آس پاس وقت گزرا ہوگا کہ جب اچانک خدا بخش لائبریری میں قاضی
عبدالودود کے سلسلے سے یو نی ورسٹی طلبہ کے لیے مضمون نویسی کے مقابلے میں
مجھے انعام ملنا تھا۔ اخلاق الرحمان قدوائی اور ثریا حسین کے ساتھ کچھ اور
مہمانان بھی شریکِ بزم تھے۔ انعام لینے کے بعد جب میں کرزن ہال سے باہر
نکلا تو دروازے پر پروفیسر وہاب اشرفی نظر آئے۔ اشارے سے انھوں نے بلایا
اور مبارک باد دی۔ ادھر اُدھر میری کچھ چیزیں بھی چھپنے لگی تھیں۔ ان سے
اپنی آشنائی کا بھی انھوں نے اظہار کیا۔ ادب کے چکّر میں پھنس کر ایم۔اے۔
امتحانات سے غافل نہیں رہنے کی بھی انھوں نے بات کہی۔
۱۹۸۷ء کے آخری مہینوں کی بات ہے۔ خدا بخش لائبریری کے کسی پروگرام سے باہر
نکلتے ہوئے وہاب اشرفی پر اچانک نظر پڑی۔ ایم۔اے۔ کا فوراً رزلٹ آیا تھا۔
اس روز لائبریری کے پروگرام میں ذرا سی گرمیِ محفل ہماری تقریر سے بھی پیدا
ہوئی تھی۔ وہاب اشرفی اس کے عینی شاہد تھے۔ انھوں نے Keep it up کے انداز
میں دعا دی۔ پوچھا کہ سبزی باغ بھی چلنا ہے؟ پھر ہم دونوں رکشے سے بک
اِمپوریم تک پہنچے۔ رکشے پر بیٹھتے ہی وہاب اشرفی نے مجھ سے یہ سوال کیا :
’’آپ امتحان کے پرچوں میں اپنے دوستوں کا بھی تذکرہ کردیتے ہیں؟‘‘ میں نے
پوچھا کہ آٹھویں پرچے کے آپ ممتحن تو نہیں تھے؟ آنکھوں کے اشارے سے انھوں
نے اثبات میں جواب دیا۔ سب سے پہلے میں نے شکریہ ادا کیا کیوں کہ اس پرچے
میں مجھے 86% نمبر آئے تھے۔ ابھی مابعد جدیدیت کا شور شروع نہیں ہوا تھا
اوراس وقت تک وہاب اشرفی بھی اچھے خاصے جدیدیے تھے۔ امتحان میں وہ پرچا
مضمون نویسی کے لئے مخصوص تھا۔ میں نے ’’اردو میں جدیدیت کا ادبی سرمایہ‘‘
عنوان سے پورے چار گھنٹوں میں اپنے اعتبار سے ایک مکمل مضمون لکھنے کی کوشش
کی تھی۔ بالکل تازہ واردانِ ادب کی حیثیت سے جن اصحاب کا تذکرہ ہوا تھا، ان
میں خورشید اکبر، عالم خورشید، منیر سیفی، شمیم قاسمی، قیصر جمال جیسے عظیم
آبادکے شعرا کے چند اشعار بھی بہ طورِ مثال پیش ہوئے تھے۔ میں نے وہاب
اشرفی سے کہا کہ یہ سب لوگ یقینا ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں لیکن اس وجہ
سے یہ مضمون کا حصّہ نہیں بنے تھے بلکہ ہم عصر ادبی فضا میں ان کی باتیں
سنجیدگی سے سُنی جا رہی تھیں۔ وہاب اشرفی نے کہا کہ بھائی میں اعتراض نہیں
کر رہا تھا، میں نے صرف صورتِ واقعہ کا تذکرہ کیا تھا۔
میں نے وہاب اشرفی سے پوچھا کہ میری کاپی آخر آپ نے کیسے پہچان لی؟ نہ اس
میں نام لکھا ہے اور نہ رول نمبر۔ یونیورسٹی اپنی طرف سے کوڈنگ بھی کراتی
ہے۔ اس پر مستزاد کہ میری طرف سے کوئی سفارش بھی آپ کے یہاں نہ پہنچی۔ وہاب
اشرفی نے مجھ سے سرگوشی کے لہجے میں کہا : ’’آپ کے استادِ محترم تشریف لائے
تھے۔ اس وقت تک میں کاپیاں دیکھ چکا تھا۔ آپ کی کاپی میں اضافی کاپیوں کی
تعداد کچھ ضرورت سے زیادہ ہی تھی۔ حیرت اور استعجاب سے اس نوشتے کو سب سے
پہلے ملاحظہ کر چکا تھا۔ اس لیے آپ کے استاد سے آتے ہی میں نے پوچھا کہ ایک
کاپی تو بہت اچھی ہے۔ انھوں نے کاپی دیکھے بغیر یہ جواب دیا کہ صفدر کی
ہوگی۔ پھر کاپی دیکھنے کے بعد انھوں نے اس کی مکمل توثیق فرمادی‘‘۔ وہاب
صاحب نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے مجھ سے کہا : ’’آپ کو معلوم ہی ہے کہ آپ کے
استاد محترم کس غرض سے میرے پاس تشریف فرما ہوئے ہوں گے؟ لیکن میں نے انھیں
صاف لفظوں میں یہ کہہ دیا کہ Highest Marks تو اسی کاپی پر دیا جائے گا اور
سفارشوں کے باوجود دوسروں کے نمبر میں ان سے کافی کم رکھوں گا۔‘‘ وہاب
اشرفی نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کے استاد کو یہ بات گوش گزار کرادی تھی
کہ صفدر امام قادری اب دھیرے دھیرے ادب میں اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہے ہیں
اور مختلف جلسوں یا سے می ناروں میں ان سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ میری جانب
سے ان کی حق تلفی کسی بھی طور نہیں ہونی چاہیے۔ میں ادبی برادری کو کس طرح
منہ دکھاؤں گا۔ میں نے پھر وہاب اشرفی کا شکریہ ادا کیا اور یہ واضح بھی
کیا کہ میرے دوسرے احباب اس پرچے میں واقعتامجھ سے دس بارہ نمبر پیچھے ہی
رہے۔ یونی ورسٹی میں مجھے مقامِ اوّل حاصل ہوا۔
بہار اردو اکادمی نے قاضی عبدالودود کی حیات وخدمات پر ایک قومی سے می نار
کرنے کا فیصلہ کیا۔ غالباً ۱۹۸۹ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں عظیم آباد کی
ادبی محفلوں میں نئی پود کی فصل لہلہا رہی تھی۔ خورشید اکبر، ظفرکمالی،
اخترواصف، قیصر جمال اور خاکسار محفلوں میں اپنے سوالات سے مقالہ خواں
حضرات کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر دیتے تھے۔ہمیں قاضی عبدالستّار نے ’پیشے ور
سوالیے‘ کہ کر پکاراتھا۔ قاضی عبدالودود سے می نار میں مسعود حسین خاں نے
ایک مقالہ پڑھا جس میں ان کے طریقِ تحقیق اور اسلوب پر اعتراضات کیے گئے
تھے۔ مسعود حسین خاں نے افتتاحی جلسے میں ہی یہ اعلان فرمادیا تھا کہ وہ
قاضی صاحب کے اسلوبِ تحقیق کے سلسلے سے اپنے واضح تحفّظات رکھتے ہیں اور اس
کی تفصیل پیش کریں گے۔ مجھے معلوم تھا کہ مسعود حسین خاں کے پاس جو دلیلیں
ہوں گی، وہ کس نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔ اس وقت تک قاضی صاحب کے مضامین رسائل
وجرائد میں بکھرے ہوئے تھے اور بہت سارے افراد کو یہ غلط فہمی تھی کہ اس
وقت تک قاضی صاحب کی جو چار پانچ کتابیں شائع ہو چکی تھیں، انھی تک ان کی
تحقیقی دنیا محدود ہے۔ میں نے گھر پر قاضی صاحب کی پھیلی ہوئی تحریروں سے
سینکڑوں کی تعداد میں مثالیں لکھ کر اور ان کے بکھرے مضامین میں سے ۵۰ سے
زائد کی زیر اکس کاپی کے ساتھ ایک عدد فائل تیار کرلی اور ایک جھولے میں
متعلقہ موضوع کی کتابیں لے کرسے می نار میں حاضر ہوا۔عطا کا کوی مسندِ
صدارت پر جلوہ افروز تھے۔ امیر حسن عابدی، نثار احمد فاروقی، تنویر احمد
علوی، عبدالقوی دسنوی، مظفّر اقبال اور طلحہ رضوی برق جیسے اصحابِ علم
موجود تھے۔ وہاب اشرفی مجلس صدارت کے کم عمر رکن تھے اور نظامت فرمارہے
تھے۔ مسعود حسین خاں تشریف لائے اور تکبرِ علمی اور عصبیت کا مظاہرہ کرتے
ہوئے انھوں نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ پڑھے لکھوں کے انداز میں اسے ایک گالی
ہی کہنا چاہیے۔
مقالے کے فوراً بعد تاثرات پیش کرنے کے مقصد سے میں حاضر ہوا اور مسعود
حسین خاں نے جن جن پہلوؤں سے اپنی گفتگو کی تھی، میں نے انھی نکات کے دوسرے
پہلو پیش کردیے جن سے قاضی صاحب پرعاید کردہ سارے الزامات ختم ہو جاتے تھے۔
مسعود صاحب نے جہاں ایک مثال پیش کی تھی، وہاں میں نے پانچ اور دس مثالیں
دیں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ مسعود حسین خاں نے قاضی صاحب کی صرف چند اور
فلاں فلاں تحریریں پڑھ کر تمام تحریروں کے تعلق سے فیصلہ کردیا۔ کم عمری کا
جوش اورعلمی شدّت پسندی سے ہمارازورِبیان بڑھاہواتھا۔ مجمعے میں سنّاٹا
قائم تھا۔ مسعود حسین خاں کا علمی اور خاندانی رعب بہت تھا لیکن ہماری
گفتگو کے بعد صورت ہی بدل گئی تھی۔ مسعود حسین خاں نے جتنی دیر میں مقالہ
پڑھا، مجلسِ صدارت نے بلاشبہ اس سے دوگنا وقت مجھے دیا۔ اسی دوران وہاب
اشرفی مائک پر تشریف لائے اور انھوں نے یہ اعلان کیا کہ مسعود حسین خاں
اپنے مقالے کے سلسلے سے بحث کا جواب دیں۔ مسعود صاحب اپنی جگہ پر تمتمائے
ہوئے بیٹھے رہے۔ کبھی نثار احمد فاروقی اور کبھی تنویر احمد علوی آواز
لگاتے کہ مسعود صاحب تشریف لائیں۔ دو تین منٹ کی خاموشی کے بعد پھر وہاب
اشرفی مائک پر آئے اور انھوں نے یہ اعلان کیا : ’’پروفیسر مسعود حسین خاں
کے مضمون پر عزیزم صفدر امام قادری نے جو اعتراضات کیے ہیں، اگر ان کے
جوابات مسعود حسین خاں نہیں دیتے تو ان کا مقالہ باطل قرار پائے گا۔‘‘
اب کی بار مسعود صاحب نے اپنے Body Language سے یہ اشارہ دے دیا کہ وہ جواب
نہیں دیں گے۔ لیکن اسی بیچ صدرــ مجلس عطاکاکوی نے اپنے مخصوص لہجے میں
بیٹھے بیٹھے وہاب اشرفی کو مخاطب کرتے ہوئے لطف بیان کا یوں مظاہرہ کیا :’’
ارے بھائی، ان کے پاس کوئی جواب ہو تب تو دیں گے، دوسرے مقالہ نگار کو
بلوائیے۔‘‘ پوری محفل سوا مسعود حسین خاں قہقہہ بردوش ہوگئی۔ وہاب اشرفی
اور ہمارے استاد مظفر اقبال آنکھوں آنکھوں میں ہماری جراتِ رندانہ کی داد
دیتے رہے۔
۱۹۹۴ء میں وہاب اشرفی یونی ورسٹی سروس کمیشن کا چیرمین ہو کر عظیم آباد
تشریف لائے۔ اب ادیبوں، شاعروں سے زیادہ خوشامدیوں کا ایک قافلہ ان کے
اردگرد دکھائی دینے لگا۔ ادبی محفلوں میں ملاقات ہوہی جاتی تھی لیکن اس سے
زیادہ گفتگو کاکوئی موقع نہیں تھا۔یونی ورسٹی اورکا لج اساتزہ کے اہلیتی
امتحان کا بہار اور جھارکھنڈ کے پیمانے پر انعقاد اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ
مختلف مضامین کے لکچررس کی تقرری۔ ضرورت مندوں کا ایک ہالہ وہاب اشرفی کے
ارد گرد بُن جاتا۔ کئی بار ساتھیوں نے وہاب صاحب سے ملاقات کا منصوبہ بنایا
لیکن غرض مندوں کی بھیڑ میں ان تک پہنچنا مجھے مناسب نہیں معلوم ہوا۔ اسی
دوران ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے بمبئی سے افتخار امام صدیقی تشریف لائے۔
وہ ہماری رہائش واقع ہنومان نگر میں ٹھہرے۔ مشاعرے میں وہاب اشرفی سے
افتخار امام صدیقی کی ملاقات ہوئی ہوگی۔ وہاب صاحب نے انھیں دوسرے روز اپنے
گھرکھانے پر بلایا۔ وہاب اشرفی کو افتخار صاحب نے بتادیاتھا کہ وہ میرے
یہاں مقیم ہیں۔ دوسری صبح وہاب اشرفی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ آج شام
افتخار امام صدیقی صاحب کو لے کر آپ کو میرے گھر آنا ہے۔ شام میں جب ان کے
گھر ڈائننگ ٹیبل پر ہماری ملاقات ہوئی تو پروفیسر ابوذر عثمانی بھی وہاں
موجود تھے۔ افتخار امام صدیقی کو مخاطب کرکے وہاب اشرفی نے کہا :’’ آپ
بمبئی سے آئے، تب یہاں گھر پر آپ سے ملاقات ہو رہی ہے۔ لیکن صفدر امام
قادری اسی شہر میں رہتے ہیں اور ان سے بھی آج ہی یہاں ملاقات ہو رہی ہے۔‘‘
اس شکایت کے لیے میں نے ان سے معذرت کی اوران کی بے طرح دفتری مصروفیات میں
خلل انداز نہ ہونے کا بہانہ کرکے رہ گیا۔
۱۹۹۶ء میں بہار اور جھارکھنڈ کی تمام یونی ورسٹیوں میں تقرری کا سلسلہ شروع
ہوا۔ خدا کے فضل سے یہ ملازمت ہمیں پہلے ہی حاصل ہو چکی تھی۔ لیکن کہیں سے
اڑتی پڑتی ایک خبر گشت کر رہی تھی کہ پٹنہ یونی ورسٹی میں اردو کی کچھ
اسامیاں خالی ہیں۔ میں نے درخواست بھیج دی۔ انٹرویو کے دن جیسے ہی ہال میں
داخل ہوا، وہاب اشرفی کرسی سے اچھلتے ہوئے کھڑے ہوگئے : ’’ارے، آپ کہاں
آگئے؟ آپ تو پہلے ہی سے منتخب ہیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ
پٹنہ یونی ورسٹی میں کچھ جگہیں خالی ہیں۔ اسی لیے میں نے اپنے فارم میں بھی
دوسری یونی ورسٹیوں کے آپشنس (options)کاٹ دیے ہیں۔ وہاب اشرفی نے کہا کہ
پٹنہ یونی ورسٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور اگر ہوتی تو آپ کو چُن لیتے۔ اس
بیچ دوسرے ماہرین صدیق الرحمان قدوائی، جعفر رضا، انیس فاطمہ فاروقی دم بہ
خود یہ گفتگو ملاحظہ کررہے تھے۔ وہاب اشرفی نے کہا، خیر انٹرویو دیجیے۔
ماہرین کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ پہلے سے ہی Selected ہیں۔ تو
Selected Candidate کا کیا انٹرویو لیا جائے۔ میں انھیں جانتا ہوں۔ نئے
نقّادجو ابھی ابھر رہے ہیں ‘ان میں انھیں پسند کرتا ہوں۔ اس لیے میں ان سے
کوئی سوال نہیں پوچھوں گا۔ آپ لوگ چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں۔ سب نے تھوڑے بہت
رسمی سوالات اور مطبوعات کے سلسلے سے کچھ پوچھ تاچھ کی اور بس۔
اسی دوران وہاب اشرفی دفتر میں کسی کام سے گئے اوردوچارمنٹ میں وہ پھر وارد
ہوئے۔ آتے ہی انھوں نے پوچھا کہ آپ کا خاص علمی میدان کون ساہے۔ میں نے
’تاریخِ ادب‘ اور ’تحقیق‘ کے موضوعات انھیں بتادے۔ لیکن اچانک وہاب اشرفی
نے مجھ سے سوال کر دیا: ’’Archetypal Criticism کے بارے میں آپ کیا جانتے
ہیں؟‘‘ میں نے محسوس کرلیا کہ وہاب اشرفی مجھے غیر محفوظ علاقے میں لے جانا
چاہتے ہیں۔ میں نے کہا : ’’مغربی تنقید میراخاص میدان نہیں ہے۔ میں نے پہلے
بھی تحقیق اور تاریخِ ادب جیسے موضوعات سے اپنی دل چسپی ظاہر کی تھی۔‘‘
وہاب اشرفی نے مزیدتعرّض نہیں کیا۔ اسی بیچ ایک دو ماہ کے بعد شادی کی ایک
تقریب میں ان سے ملاقات ہوئی۔ ابھی لکچرشپ کا رزلٹ بس آنے ہی والا تھا۔
کھانا میں نے ان کے لیے بھی نکالا اور ایک گوشے میں بیٹھ کر ہم دونوں کھانے
لگے۔ وہاب اشرفی نے مجھ سے کہا کہ پٹنہ یونی ورسٹی میں واقعی کوئی جگہ نہیں
تھی، ورنہ آپ کو لے لیا جاتا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے یہ سوال کردیا:’’ اس روز
انٹرویو میں آپ نے میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘ میں نے کہا کہ یہ
بات آپ بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہArchetypal Criticism
کے بارے میں میں جو دوچار باتیں بتاتا، اس پر آپ جرح کر سکتے تھے۔ اگر آپ
کا ارادہ نیک نہیں ہوتا تو مجھے زیر کر سکتے تھے۔ اس لیے میں اس دلدل میں
کیوں پھنستا۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ ادبی تحقیق اور تاریخ ادب پر آپ جو
بھی سوالات کریں گے تو میں بہت دور تک آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں۔ انھوں نے
بہت دعا دی اور کہا کہ اس دن ہی میں تمہاری ذہانت کا قائل ہوگیا کیوں کہ کس
سوال کا جواب دینا ہے اور کس کا نہیں، یہ امیدوار کو معلوم ہونا چاہیے۔ وہی
امیدوارکا میاب ہوتا ہے۔
لکچر شپ کی تقرری کے سلسلے سے بہت طرح کی چہ می گوئیاں ہو رہی تھیں۔ ہمارے
کچھ دوست اور شاگرد امیدواروں کی بھیڑ میں موجود تھے۔ ان کی ملازمت اگر ہو
جائے تو یہ ہراعتبار سے اچھّا تھا۔ میں نے اپنے چند احباب اور طالب علموں
کی وہاب اشرفی سے سفارش کی۔ ان میں اردو کے بجاے انگریزی اور ہندی کے
امیدوار تھے۔ وہاب اشرفی سے میں نے کہا کہ پڑھائی لکھائی میں یہ لوگ اچھے
ہیں اور ہم عصر ادب میں دھیرے دھیرے ان کی ادیب وشاعرکے بہ طور شناخت قائم
ہو رہی ہے۔ آپ ان سے سوالات پوچھ کر ڈس کو الیفائی (Disqualify) کردیں تو
مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ وہاب اشرفی نے برجستہ کہا کہ جو تمہارے حلقے
میں ہوگا، وہ اچھا طالب علم ہوگا۔ ۱۹۹۶ء اور ۲۰۰۳ء میں وہاب اشرفی کے چُنے
ہوئے جن لوگوں کا تقرّر ہوا، ان میں ہمارے سفارش کردہ کم از کم نصف درجن
افراد کے گھر آج چراغ روشن ہیں۔بے شک، ان میں کوئی تعلیمی اعتبار سے کمزور
نہیں تھا لیکن اس وقت جو ماحول تھا، اس میں اگر وہاب اشرفی کو میں نے ان کے
نام اور رول نمبر نہ لکھا دیے ہوتے تو یہ نا ممکن تھا۔ اس کام میں پانچ
روپے بھی کسی امیدوار کے خرچ نہیں ہوئے۔ البتہ دو ایک بار خود وہاب اشرفی
کی طرف سے ہی ضیافت کا اہتمام ہوا۔ یہ بھی خوب کہ وہاب اشرفی نے کبھی ذاتی
طور پر، نہ ہی اجتماعی طور پر اس کااحسان جتایا۔
دیکھتے دیکھتے یونی ورسٹی سروس کمیشن کی میعاد ختم ہوئی اور وہاب اشرفی ذرا
سا دم لے کر انٹرمیڈیٹ کونسل کے چیرمین بنادیے گئے۔ اس زمانے میں ہمارے ایک
دوست نے عظیم آباد میں نعت گوئی کے سلسلے سے ایک بڑا جلسہ منعقد کیا۔
سوونیرکی اشاعت اور بہار بھر سے نعت گو شعرا کو جمع کرنے کا اتنا مشکل
نشانہ رکھا گیا کہ منتظمین انھی انتظامات میں فنا ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ
وہاب اشرفی کو مہمان خصوصی تو ضرور بنایا لیکن ان تک نہ کارڈ پہنچا ہے اور
نہ ہی اس کی خبر کی گئی ہے۔ ٹھیک فنکشن کے دن ہمارے احباب نے یہ صورت بتائی
اور یہ کہا کہ وہاب اشرفی سے کہنے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی ہے، کہیں وہ
ناراض نہ ہو جائیں کیوں کہ بغیر اجازت کارڈ میں ان کا نام آخر کیوں چھپا؟
میں نے اپنے دوستوں سے ان کے نام کا کارڈ وصول کیا اور کہا کہ چلتا ہوں،
انھیں کسی طرح سے جلسے میں لے کر آنا ہی ہوگا۔ اس بیچ منتظمین میں سے ایک
نے میرے کان میں یہ بھی کہا کہ بہار بھر سے جو شعرا آرہے ہیں، ان کے سفر کے
اخراجات اور طعام و قیام کے سلسلے سے رقم کم پڑرہی ہے ۔میں نے انھیں یقین
دلایا کہ وہاب اشرفی سے چندہ بھی لیا جائے گا۔
پروگرام دس بجے دن سے تھا۔ میں وہاب اشرفی کے گھر بغیر فون کیے پہنچ گیا۔
میں نے پوچھا کہ آپ نے ناشتہ کرلیا تو انھوں نے بتایا کہ بس کھچڑی آنے ہی
والی ہے۔ میں نے کہا کہ میرے لیے بھی منگوا دیجیے کیوں کہ ابھی لکھنؤ سے
پہنچا ہوں اور پھر آپ کے یہاں حاضر ہوگیا۔ انھوں نے گھنٹی بجاکر دوسری پلیٹ
بھی منگالی۔ ناشتے کے بعد وہاب اشرفی نے پوچھا کہ آپ اکثر شام میں آتے ہیں،
صبح سویرے پہنچنے کی کوئی خاص وجہ تو نہیں؟ میں نے کہا کہ آپ کو جلسے میں
لے کر چلنا ہے۔ آج آپ کو نعت گوئی پر منعقدہ سیمنار سے خطاب کرنا ہے۔ وہاب
اشرفی نے مجھ سے کہا کہ اس جلسے کے بارے میں مجھے کسی نے نہیں بتایا۔ میں
نے جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ آپ کو تو بھولنے کی عادت ہے۔ لکھنؤ جانے
سے پہلے ہی میں نے آپ سے اجازت لے لی تھی۔ آج واپس ہوا ہوں تو کارڈ لے کر
آپ کو ساتھ لے چلنے کے لیے حاضر خدمت ہوں۔ وہاب اشرفی کہنے لگے کہ دو چار
دن پہلے کسی نے اخبار میں خبر دیکھ کر مجھے فون کیا تھا۔ ۹ بج رہے تھے۔ میں
نے کہا کہ سر، اب تیار ہوجانا چاہیے۔ وہ فوراً نہا دھوکر کپڑے تبدیل کرکے
تیار ہو گئے۔ اب ایک کام اور بچا ہوا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ پروگرام بڑا
ہے لیکن انتظام کا روں کے حالات دگر گوں ہو چلے ہیں۔ ان کے لیے کچھ چندے کی
بھی ذمّے داری دی گئی ہے۔ ایک سکنڈ کا بھی وقفہ نہیں ہوا ، انھوں نے سامنے
پڑے سوٹ کیس کو منگایا اور چیک بُک کھولتے ہوئے پوچھا کہ کتنی رقم کی ضرورت
ہے۔ میں نے دس ہزار روپے کی بات کہی۔ انھوں نے دس ہزار روپے کی رقم لکھ دی
اور چیک حوالے کردیا۔
۲۰۰۱ء کے بعد وہاب اشرفی انٹرمیڈیٹ کونسل کی سربراہی سے فارغ ہوگئے، اس کے
بعد وہ عظیم آباد کی ادبی محفلوں میں ایک لازمی اور مرکزی شخصیت بن گئے۔
متعدد جلسوں میں وہاب اشرفی کوہر طبقہ باربار زحمت دیتا رہا اور وہ سوفی
صدی پابندیِ وقت کے ساتھ اس میں شریک ہوتے رہے۔ ایسے چھوٹے بڑے دو درجن سے
زیادہ جلسے تو میری طرف سے منعقد ہوئے ہوں گے۔ ایک جلسے میں وہ خود کہنے
لگے کہ صفدر امام قادری کے بلاوے پر میں اس لیے بھی چلا آتا ہوں کیوں کہ ان
کے جلسے میں مَیں جو بات کہتا ہوں، وہ ہو بہ ہو اخبارات ورسائل میں شائع
ہوتی ہے۔ ورنہ یہ عام روش ہے کہ کہیے کچھ اور اخباروں میں کچھ دوسری بات
چھپ جاتی ہے جس سے ہمارا علمی نقصان ہو تا ہے۔
ایک بار عیدیاشاید اس کے اگلے دن دوچار ادیب شاعراُن کے گھر پہنچے۔ سفید
کپڑے میں سجے دھجے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے کہ رمضان کے مہینے میں کوئی ادبی
پروگرام نہیں ہوا ہے۔ جی اُچٹ گیا ہے، کہیں بیٹھنا چاہیے۔ پھر خود ہی
خورشید اکبر کو مخاطب کرکے کہا کہ کل کھانے پینے کا انتظام کیجیے۔ ہم سب
لوگ آئیں گے۔ دس بجے کا وقت بھی طے ہوگیا۔ یہ بھی طے ہوگیا کہ شفیع جاوید
اپنا کوئی افسانہ سنائیں گے۔ دوسرے روز حسبِ معمول اچھی خاصی نشست ہوگئی
اور پُرتکلف ضیافت بھی۔ شفیع جاوید کے ایک افسانے سے گفتگو شروع ہوئی اور
فکشن کے اصولی اور عالمی اطلاقات میں ہم سب گُم ہوتے رہے۔ چارپانچ گھنٹے کی
اس مشقّت کے بعد کھانا کھاتے ہوئے خورشید اکبر نے افسوس ظاہر کیا کہ اتنی
کارآمد گفتگو ہوئی لیکن اسے ٹیپ نہیں کیا جا سکا۔ وہاب اشرفی کے سامنے ہی
میں بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے خورشید اکبر سے کہا
:’’ ٹیپ رکارڈر تو یہ بیٹھے ہوئے ہیں، یہ لکھ لیں گے‘‘۔ اب میرے لیے یہ
مشکل مرحلہ تھا لیکن اخبار میں جب مکمل ایک صفحے کی رپورٹ شائع ہوئی تو
وہاب اشرفی نے فون کرکے یہ داد دی کہ جن لفظوں میں بات کہی تھی، وہی بات ہو
بہ ہو رپورٹ میں درج ہے۔ اس موقعے سے وہاب اشرفی نے Goldsmith اور ناول
Pamela کا تذکرہ چھیڑدیا۔ بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ فکشن کا
کوئی آرٹ ہوتا ہی نہیں۔ میں نے جب یہ یاد دلایا کہ Goldsmith نے اپنے مقدمے
میں صاف صاف یہ بات لکھی ہے : ’’چونکہ میں ایک نئی صنف کا موجد ہوں، اس لیے
مجھے یہ اختیار ہے کہ جس طرح چاہوں، اس طرح لکھوں گا۔ ہمارا لکھنا ہی اس
صنف کی کسوٹی بنے گا۔‘‘ وہاب اشرفی بہت خوش ہوئے۔ وہ بھی اس بحث سے یہی
نتیجہ نکالنا چاہتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد کسی سے سنا کہ وہاب اشرفی میری
تعریف کررہے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اس بات سے زیادہ خوش تھے کیوں کہ
میں نے مغربی ادب کے براہ ِراست مطالعے کا ثبوت دیا تھا۔ وہ اردو والوں کو
دوسری زبانوں سے واقف ہونے کا برا بر مشورہ دیا کرتے تھے۔
لکھنؤ کے ایک سے می نار میں انتظام کار نے گیارہ بجے رات میں مجھے شہریار
کی ایک نظم تھمائی اور یہ گزارش کی کہ کل سے می نار کی پہلی نشست میں اس کا
تجزیہ پیش کرنا ہے۔ نزاکت یہ تھی کہ صبح کے جلسے میں وہاب اشرفی ‘ شہریار
اور ملک کے بہت سارے نامور فنکاروں کا شریکِ بزم ہونا طے تھا۔ گیسٹ ہاوس کے
ایک ہی کمرے میں وہاب اشرفی اور ہم ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں نے ان کی صحت اور
عمر کا دھیان رکھتے ہوئے سونے کا انتظام کردیا اور بغل کے کمرے میں بیٹھ کر
شہریار کی نظم ’’زوال کی حد‘‘ کا مطالعہ کرنے لگا۔ پھر رات میں ہی چار پانچ
صفحات الٹے سیدھے لکھ چھوڑے۔ وہاب اشرفی کے بستر سے متّصل ٹیبل پر میں نے
وہ مضمون رکھ دیا تا کہ وہ صبح جب اٹھیں تو اس کا مطالعہ کرلیں۔ ذرا دن
نکلنے پر جب میں اٹھا تو واقعی وہاب اشرفی اس تجزیے کو پڑھ چکے تھے۔ انھوں
نے کہا کہ اردو سے الگ دوسری زبانوں کے ادب سے دل چسپی کا فائدہ صاف جھلکتا
ہے۔ میں نے ٹی۔ ایس۔ الیٹ اور ہندی شاعرا گیے کی نظموں سے شہریار کی شاعری
کا موازنہ کیا تھا اور کچھ واضح نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہاب اشرفی
نے کہا کہ کثیر لسانی مطالعہ جاری رکھیے۔
اسی سے می نار میں شریک ہونے کے لیے جب ہم پٹنہ سے کچھ دور آگے نکل گئے تب
اچانک وہاب اشرفی کو اپنے سفری پرس کی یاد آئی۔ کوٹ کی تمام جیبوں اور بریف
کیس کو تلاش کرنے کے بعد وہ خاصے پریشان نظر آئے۔ گھرفون کیا تو معلوم ہو
گیا کہ بستر پر ہی وہ چیز دھری رہ گئی۔ وہاب اشرفی کی پریشانی بڑھنے لگی۔
میں نے انھیں یقین دلایا کہ میرے پاس چار پانچ ہزار روپے ہیں، کسی ناگہانی
ضرورت میں انشاء اﷲ کوئی دشواری نہیں آئے گی۔ تب جاکر انھیں اطمینان ہوا۔
لکھنؤ میں سے می نار سے فراغت کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کچھ چکن کے
کپڑے خریدنے کے لیے بازار چلنا چاہیں گے؟ وہاب اشرفی کی باچھیں کھل اٹھیں۔
انھیں لے کر میں اپنے ایک پسندیدہ دکان دار کے پاس پہنچا۔ عید میں بھی
زیادہ دن نہیں تھے۔ وہاں مردو خواتین کے سادہ اور نظرفریب ہر ڈھنگ کے کپڑے
موجود تھے۔ وہاب اشرفی نے اپنا، اپنے صاحب زادوں، اہلیہ اور بہوؤں کے کپڑوں
کے بعد دائی، نوکر اور ان کے بال بچوں کے کپڑوں کی خرید کا ایک سلسلہ شروع
کردیا۔ ہر دو منٹ کے بعد گھر پر فون کرکے کچھ تفصیل دریافت کرتے اور پھر
نئے سرے سے سارے کپڑوں کی تعداد طے ہوتی۔ سے می نار میں چھے سات ہزار روپے
ملے تھے لیکن جب سارے کپڑوں کی قیمت کا حساب جوڑا گیا تو وہ اس سے کافی
زیادہ تھا۔ میں نے وہ حساب مکمل کرادیا۔ لکھنؤ سے پٹنہ آئے۔ پٹنہ اسٹیشن پر
ان کی گاڑی آئی تھی۔ اولاً وہ بہ ضد ہوئے کہ اسی وقت چل کر ان سے اپنے پیسے
لے لوں۔ میں نے کہا، کسی روز آکر میں یہ کرلوں گا، آپ فکر مند کیوں ہو رہے
ہیں۔ دو چار دنوں کے بعد پھر فون آیا۔ ارے صاحب، آپ کی امانت میرے پاس پڑی
ہوئی ہے، لے تو جائیے۔ میں نے آنے کا وعدہ کیا لیکن کچھ مصروفیات کے سبب ان
کے یہاں نہیں پہنچ سکا۔ ایک ہفتے کے بعد ایک سے می نار کے سلسلے سے ہمیں
دربھنگا جانا تھا اور مجھے ہی گاڑی لے کر وہاب اشرفی کے گھر پہنچنا تھا۔
وقت چار بجے صبح کا طے ہوا۔ ان کے گھر پہنچ کر میں جب ان کے کمرے میں داخل
ہوا تو وہ سوٹ پہن چکے تھے۔ جلدی سے انھوں نے ایک چیک بُک نکالا اور میرے
نام سے وہ رقم درج کرکے چیک کو میرے حوالے کر دیا۔ اس کے بعد ہی وہ سفر کے
لیے گھر سے نکلے۔
دلّی کے ایک سرکاری پروگرام میں جانے کے لیے میں نے ذرا ٹکٹ دیر سے بنوایا
تھا، اس لیے وہ ویٹ لسٹڈ رہ گیا تھا۔ اسٹیشن پہنچا تو چارٹ میں جس بوگی میں
میرا اور میری بیٹی کا برتھ تھا، اسی کے ساتھ وہاب اشرفی کا بھی نام درج
تھا۔ میں نے انھیں فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ پہنچنے ہی والے ہیں۔ وہ
اکیلے سفرکے لیے نکلے تھے۔ میں نے نیچے کے برتھ کا انتظام کردیا اور ان کا
بستر بچھا دیا۔ ٹرین میں کھانا بھی ہم لوگوں نے ساتھ کھایا۔ پھر ان سے پوچھ
کر دوا اور صحت کے معمولات طے کرا کر انھیں وقت سے سلادیا۔ صبح دہلی میں
اترنے کے بعد قلیوں نے جو ہمارا سامان اٹھایا، وہاب اشرفی نے ایک سرپرست کی
حیثیت سے ان کی ساری ادایگی کی۔ الگ الگ ٹیکسیوں میں ہم بیٹھنے لگے تو
انھوں نے میری بیٹی کے ہاتھ میں ایک رقم مٹھائی کھانے کے نام سپرد کی۔ بیٹی
کے نہیں کرنے پر انھوں نے سر پرستانہ ڈانٹ بھی پلائی کہ ہم لوگوں کا یہی
دستور ہے۔
اس سفر کے بعد وہاب اشرفی کے بعض قریبی کے لوگوں سے جب میری ملاقات ہوئی تو
انھوں نے کہا کہ وہاب اشرفی آپ کی تعریف کررہے تھے۔ان لوگوں سے وہاب صاحب
نے کہا تھا کہ صفدر کا انداز اردو کے بیش تراساتذہ کی طرح کا نہیں ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنی صاحب زادی کو بھی وہ راجدھانی اکسپریس سے
لے کر آتا جاتا ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ سرکاری پروگرام کے اخراجات میں
ساتھی مسافر یابال بچوں کے اخراجات کی ادا یگی نہیں ہو سکتی۔ ان کا نقطۂ
نظر تھا کہ معیارِ زندگی میں بھی کچھ رنگ و روغن چاہیے۔
دربھنگا میں ہمارے دوست مشتاق احمد نے ایک سے می نار منعقد کیا اور مجھے
ذمے داری دی کہ وہاب اشرفی اور شفیع جاوید صاحبان کو لے کر آنا ہے۔ دوسو
کیلو میٹر سڑک سے سفر اور ہمارے بزرگوں کی صحت؛ ہر پہلو سے امتحان ہی
امتحان تھا۔ پٹنہ سے صبح سویرے نکلنا تو تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ
دربھنگا پہنچتے ہی سے می نار میں شامل ہو جانا پڑے گا۔ میں نے بزرگوں کے
لیے موزوں سادہ ناشتے کا انتظام اپنے گھر سے ہی کر لیا تھاتاکہ راستے میں
رُکے بغیر گھریلو قسم کا ناشتہ ممکن ہو سکے اور کھاتے وقت وہ گرم بھی رہے۔
وہاب اشرفی کی صحت جتنی بھی خراب ہو لیکن وہ اپنی وجہ سے دوسروں کو کم سے
کم پریشانی کا موقع دیا کرتے تھے۔ مظفر پور سے جیسے ہی گاڑی آگے بڑھی، میں
باری باری ناشتہ نکال کر پلیٹ میں سب کے سامنے بڑھاتا گیا۔ ساتھی مسافروں
کی تعداد آٹھ دس کے آس پاس پہنچ رہی تھی۔ وہاب صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ
پانی کا بھی انتظام ہے؟ میں نے انھیں بسلری کی ٹھنڈی بوتل پیش کی۔ میں اُن
کے عمومی طور سے واقف تھا۔ وہ گھر سے باہر منرل واٹر ہی پیتے تھے۔ شفیع
جاوید کہنے لگے کہ جتنا سادہ کھانا ہمیں چاہیے تھا، ویسا ہی ملا۔ میں نے
انھیں بتایا کہ آپ دونوں بزرگوں کے لیے ہی تو سارے انتظامات ہوئے ہیں۔ اب
تو صرف شفیع جاوید ہی ہماری بزم میں رہ گئے۔ اﷲ انھیں اور عمر نصیب کرے۔
وہاب اشرفی کے گھر پر ایک روز میں اور خورشید اکبرحاضر ہوئے۔ ’مباحثہ‘ کا
تازہ شمارہ آیا تھا۔ انھوں نے ہمیں بڑھایا اور چار پانچ اضافی کاپیاں بھی
دونوں کو دیں۔ خورشید اکبر سے انھوں نے کہا کہ اس کے پیسے دے دیجیے۔ انھوں
نے اس کے پیسے ادا کردیے۔ لیکن خورشید اکبر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے
کہا کہ صفدر سے بھی پیسے لیجیے۔ وہاب صاحب نے کہا :’’یہ جب تک اپنا گھر
نہیں بنا لیتے ہیں، تب تک انھیں پیسے نہیں دینے ہیں۔‘‘
بات شاید ۲۰۰۴ء کی ہے۔ میں علی گڑھ کے ایک پروگرام میں شریک تھا۔ وہیں یہ
خبر ملی کہ وہاب اشرفی گرفتار کرلیے گئے۔ وہاں بھی سارے اہالیانِ اردو اس
خبر سے پریشان تھے۔ تیسرے چوتھے روز میں جیسے ہی عظیم آباد پہنچا، خورشید
اکبر سے دریافت کیا کہ وہاب صاحب سے ملنے کی صورت پیدا کی جائے۔ پانچ چھے
دوست بیور جیل پہنچے۔ زندگی میں ہمارا بھی پہلا تجربہ تھا۔ بازو پر سرکاری
مہر لگا کر ہم لوگ اندر گئے۔ جیلر کے کمرے میں عجیب بے سروسامانی کے عالم
میں وہاب اشرفی سے ہماری ملاقات ہوئی۔ سفید پینٹ شرٹ تو انھوں نے پہن رکھی
تھی لیکن جس حالت میں ان کو رہنے کی عادت ہو چکی تھی، اس کے برعکس یہ صورت
تھی۔ اس کے باوجود ہم سب سے زیادہ وہی حوصلے میں تھے اور ہمیں بھی دلاسا
دیتے رہے۔ ایسی بے چارگی پہ واقعی ہمیں رونا آیا۔
چند دنوں کے بعد وہ پٹنہ میڈیکل کالج اسپتال منتقل ہوگئے۔ جس روز یہ معلوم
ہوا کہ وہاب اشرفی اسپتال منتقل ہو گئے، ہم بھی اسپتال پہنچے۔ ہمارا کوچنگ
انسٹی ٹیوٹ ذرا قریب ہی ہے۔ اسپتال کے کمرے میں بھی بے سروسامانی کی کچھ
کیفیت کم نہ تھی۔ اسی بیچ سبزی باغ سے کوئی دوا منگانے کی ضرورت پڑی۔ وہاب
اشرفی ادھر اُدھر کاغذ تلاش کرتے رہے۔ پھر اخبار کے کونے کو پھاڑ کر خالی
جگہ میں اس دوا کا انھوں نے نام لکھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں کچھ
کتابیں اور کاغذات وغیرہ آپ کے پاس نہیں ہیں؟ انھوں نے ایک اداس ہاں سے
جواب دیا۔ میں اسی وقت واپس کوچنگ انسٹی ٹیوٹ آکر دو تین نئے نوٹ بکس، ایک
دو ڈائریاں اور اردو انگریزی کی دس بارہ کتابیں لے کر ان کی خدمت میں حاضر
ہوا۔ اس دوران ہی انھوں نے اپنی خود نوشت شروع کردی تھی۔ مجھ سے بارہا یہ
بات کہتے تھے کہ یہ خودنوشت آپ کے پیش کردہ اسی نوٹ بک سے شروع ہوئی۔
جیل ہو یا اسپتال، وہاب اشرفی کااصل مسئلہ ان کی تنہائی تھا۔ اہل وعیال
پیچیدہ قانونی داو پیچ سلجھا نے میں پٹنہ اور دلّی میں الجھے ہوئے تھے۔ میں
نے اپنے ایک دو عزیز شاگردوں پر یہ لازم کردیا کہ انھیں روزانہ دن میں ایک
بار ضرور اسپتال جانا ہے اور وہاب اشرفی کے پاس گھنٹہ دو گھنٹہ رہ کر ان سے
باتیں کرنی ہیں،ان کی دل جوئی کرنی ہے۔ دوپہر میں کالج سے واپس ہوتے ہوئے
میں سیدھے اسپتال پہنچتا اور گھنٹہ دو گھنٹہ وہاب اشرفی کے ساتھ ان کی خوشی
کے لیے دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو کرتا رہتا۔ یہ سلسلہ تقریباً چھے ماہ
سے زیادہ قائم و دائم رہا۔ ان کے رشتے دار، احباب اور بہت سارے شاگرد بھی
آتے جاتے رہتے۔ تنہائی میں بعض لوگوں کے بارے میں وہاب اشرفی نے بہت دکھ
بھرے جذبات کا بھی اظہار کیا۔ کہنے لگتے تھے کہ جیل سے نکل کر میں ایک بدلا
ہواآدمی ہونا چاہتا ہوں۔ بہت سارے لوگ جنھیں میں نے ہزار فائدے پہنچائے
لیکن وہ میری اس مشکل گھڑی میں مجھ سے کنارہ کش ہوگئے۔
ان کی ضمانت کے مسائل بھی بار بار الجھتے رہے۔ یہ سلسلہ آج اور کل پر ٹلتا
رہا۔ اسی بیچ مجھے’ ۱۹۸۰ کے بعد اردو افسانہ‘ موضوع پر سے می نار منعقد
کرنا تھا۔ وہاب اشرفی کے صاحب زادے سے ضمانت کی عرضی کے سلسلے سے میری
گفتگو ہوتی رہتی تھی اور میں ہمیشہ سے می نار کی تاریخ سے اس کی مطابقت
بٹھاتا رہتا تھا۔ سے می نار کا کارڈ بھی چھپنا تھا لیکن وہاب اشرفی کے جیل
سے نکلنے کا پروانہ ابھی سامنے نہیں آیا۔ میں نے دن جوڑ جوڑ کر اپنے طور پر
انداز کرلیا کہ افتتاحی جلسے میں وہاب اشرفی کسی بھی طور پر شامل نہیں ہو
سکتے۔ لیکن خدا کی ذات سے یہ امید تھی کہ وہ اختتامی جلسے میں ضرور شریک
ہوپائیں گے۔ میں نے ہمّت کرکے کارڈ چھپوایا اور اختتامی اجلاس کی صدارت کے
لیے پروفیسر وہاب اشرفی کا نام چھپ گیا۔ کارڈ تقسیم ہونے کے مرحلے میں کئی
لوگوں نے یہ اشتباہ ظاہر کیا کہ سپریم کورٹ سے ان کی رہائی شاید ہی ممکن ہو
پائے۔ وہاب اشرفی کے ایک دیرینہ کم عمر دوست جن پر وہاب اشرفی کے اچھے خاصے
احسانات بھی رہے ہیں، انھوں نے کارڈ دیکھتے ہی ناراضگی کے لہجے میں مجھ سے
کہا کہ یہ آپ بہت غلط کام کررہے ہیں۔ جیل میں بند آدمی کو آپ نے سرکاری
جلسے میں صدارت کیوں دے دی۔ میں نے انھیں بتایا کہ مجھے یقین ہے کہ پروگرام
کے دن تک خدا کی مہربانی سے وہاب اشرفی ضرور باہر آجائیں گے۔ میں نے ان سے
یہ بھی کہا کہ اسے آپ نیک خواہشات کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
خدا کا فضل کہیے کہ سے می نار کے دوسرے دن ہی وہاب اشرفی اس عذاب سے نجات
حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے اور سے می نار کے تیسرے دن گذشتہ چھے سات
ماہ کی گرد جھاڑتے ہوئے ادبی دوستوں کے بیچ حاضر تھے۔ انھوں نے نہ صرف یہ
کہ بھرپور تقریر کی بلکہ اگلے روز کئی مہمانوں کے ساتھ اپنے گھر ہماری
پُرتکلّف ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔
جیل اور اسپتال کے دور کے چند اور بھی واقعات یاد آتے ہیں۔ دس برسوں کی
شعری خاموشی کے بعد میں نے ہماچل کے پہاڑوں اور ان کے متعلقات پر ۲۵ نظمیں
کہی تھیں۔ ایک افسانہ نگار دوست سے وہاب اشرفی کو پتہ چل گیا کہ ایسی کچھ
سلسلے وار نظمیں میں نے لکھی ہیں۔ انھوں نے پَے بہ پَے کئی لوگوں سے ان
نظموں کی طلب کا حکم نامہ بھجوایا۔ اس دور میں وہاب اشرفی کی دل جوئی کے
علاوہ اور کچھ ادب آداب وغیرہ ہمیں نہیں سوجھتا تھا۔ ناچار میں ان نظموں کے
پُلند ے کے سا تھ اسپتال حاضر ہوا۔ وہاں ان کے سمدھی پروفیسر شکیل احمد بھی
موجود تھے۔ وہاب اشرفی نے ایک کے بعد ایک، ساری نظمیں پڑھ ڈالیں؛ پھر گویا
ہوئے :’’ ایسی نظمیں اردو میں کہاں ملتی ہیں؟ انگریزی کی فطری شاعری
بالخصوص رومانی عہد کے شعرا کے یہاں یہ کیفیت ہوتی ہے۔‘‘ اسی رومیں وہ
دعائیہ انداز میں تعریفیں کرتے رہے۔ دوران گفتگو شکیل احمد صاحب کو بھی
نظمیں سناسنا کر انگریزی شعرا کے فطرت سے اندازِ تکلم کی یاد کرتے رہے۔
شکیل احمد صاحب بھی انگریزی زبان کے ہی استاد رہے ہیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد
میں نے دیکھا کہ ’مباحثہ‘ کا جو تازہ شمارہ آیا، اس میں وہ نظمیں شامل تھیں
اور کچھ تاثرات بھی درج تھے۔ وہاب اشرفی کا جب میں نے شکریہ ادا کیا تو
انھوں نے بتایا کہ تاثرات تو میرے ہی تھے لیکن جیل اور اسپتال کی نزاکت کے
سبب وہ میرے نام سے شامل نہں ہو سکتے تھے۔
ایک سیمینار میں شریک ہونے کے لیے ایک بار لکھنؤ ہم لوگ ساتھ ساتھ گئے۔
گیسٹ ہاوس میں پہنچنے کے بعد دس ساڑھے دس بجے رات میں وہاب اشرفی کو یاد
آیا کہ انھوں نے اپنا کریم برائے آرائش چھوڑ دیا ہے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ
چلیے مارکٹ سے ابھی خریدلیا جائے۔ میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ابھی آپ
تھکے ہوئے ہیں، کل صبح میں لے لیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ صبح دیر سے
دکانیں کھلتی ہیں اور سے می نار تو نوبجے سے ہی شروع ہو جائے گا۔ اب چارہ
ہی کیا تھا، رکشے سے ہم لوگ ساڑھے دس بجے رات میں سردی کے زمانے میں سڑکوں
پر گھومتے رہے۔ اکثر دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ ایک گھنٹے کی تگ و دو کے بعد
ایک پان کی دکان میں Fair & lovely کا سیشے ملا۔ تب جاکر وہاب اشرفی کا
اعتماد بحال ہوسکا۔ اسی طرح ایک بارادبی سفر میں دربھنگا پہنچ رہے تھے اور
سے می نار کے آغاز کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ منتظمین کے فو ن پر فون آرہے تھے
کہ آپ لوگ سیدھے سے می نار میں ہی چلے آئیے۔ سے می نار گاہ ہمارے راستے میں
ہی پڑتا تھا۔ لیکن وہاب اشرفی اس بات پر مصر ہیں کہ پہلے ہوٹل چلیں گے، اس
کے بعد سے می نار ہال آئیں گے۔ ناچار ہمیں ہوٹل کی طرف بڑھنا پڑا۔ ہوٹل
پہنچنے پر انھوں نے منہ ہاتھ دھوئے اور خوبصورتی بڑھانے والی کریم کی
بھرپور مالش کی۔ سوٹ کیس سے ایک دوسرا کوٹ نکالا، اسے جسم میں ڈالا گیا اور
وہاب اشرفی ہوگئے تیار۔ میں نے سمجھا تھا کہ چار گھنٹے کے سفر میں وہ تھک
گئے ہیں اور آرام کرنے کی غرض سے ہوٹل جانا چاہتے ہیں لیکن یہاں تو سارا
معاملہ آرائش کا تھا۔ لباس کا تو انھیں ایسا خیال رہتا تھا کہ ایک بار
لکھنؤ میں Lunch کے بعد سے می نار ہال میں بغیر کوٹ کے آکر بیٹھ گیا۔ وہاب
اشرفی کی جیسے ہی مجھ پر نظر پڑی، اشارے سے بلایا اور جھڑکی کے لہجے میں
کہا کہ جائیے، کمرے سے کوٹ پہن کر آئیے۔ میں نے ان کے حکم پرویسا ہی کیا۔
ایشوریہ رائے کی اداکاری والی ’امراؤجان‘ جیسے ہی آئی، اسے دیکھنے کے لیے
پہلے ہی دن میں سنیماہال پہنچا ہوا تھا۔ انٹرول میں خورشید اکبر سے فون پر
بات ہوئی تو میں نے بتادیا کہ’ امراؤ جان‘ دیکھ رہا ہوں۔ اسی دوران خورشید
اکبر کی وہاب اشرفی سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔ وہاب اشرفی نے میری خیریت
دریافت کی۔ خورشید اکبر نے انھیں بتادیا کہ حضرت سنیما ہال میں’’ امراوجان
‘‘دیکھ رہے ہیں۔ وہاب اشرفی نے ان سے ایشوریہ رائے کی خوبصورتی کے بارے میں
اپنے تاثرات پیش کیے اور یہ بھی کہا کہ بھائی میں بھی یہ فلم دیکھنا چاہتا
ہوں۔ فلم ہال سے نکلنے کے فوراً بعد خورشید اکبر سے میری بات ہوئی۔ انھوں
نے ساری تفصیل بتادی۔ میں نے وہیں کاونٹر پر اگلے دن کے سب سے مناسب سیٹنگ
رو (Row) کے چھے ٹکٹ خرید لیے اور خورشید اکبر کو اس کی اطلاع دے دی کہ
وہاب اشرفی ٹھیک ساڑھے پانچ بجے ریجنٹ ہال پہنچ جائیں۔
دوسرے روز چار بجے شام میں ہی وہاب اشرفی کو یافلم کی یاد دلادی گئی۔ انھوں
نے فون پر بتایا کہ دو مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان کے رخصت ہوتے ہی وقت پر پہنچ
جاؤں گا۔ یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ دومہمان ارتضا کریم اور قاسم خورشید
تھے۔ وہاب اشرفی انھیں باربار تاکید کرتے کہ بھائی مجھے پانچ بجے نکل جانا
ہے، آپ لوگوں سے رخصت لے لوں گا۔ وہ بھی تیار بیٹھے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ
وہاب اشرفی بھی اپنا ٹھیک ٹھیک پروگرام انھیں بتانا نہیں چاہتے۔ بے دلی سے
کہہ دیا کہ گاندھی میدان کی طرف چلنا ہے۔ اب شامت آگئی کیوں کہ دونوں نے
بتادیا کہ ہم بھی ساتھ چل چلیں گے۔ یعنی آبیل مجھے مار۔ ادھر ہمارا فون
وہاب اشرفی تک پہنچ رہاہے کہ جلدی نکلیے۔ ناچار تینوں گاڑی پر سوار ہوئے
اور گاندھی میدان کے ایک سرے پر جب گاڑی رکتی ہے تب وہاں پہلے سے ہمیں
دیکھتے ہی ارتضا کریم اور قاسم خورشید تاڑ گئے کہ یہی خفیہ پروگرام طے ہوا
تھا۔ انھوں نے کہا کہ فلم تو ہم لوگ بھی دیکھیں گے۔ جلدی جلدی کسی طرح اسی
رو (Row) کے دو ٹکٹ اور حاصل کیے گئے اور ہم سب پروفیسر وہاب اشرفی کی
رہنمائی میں’ امراوجان ادا ‘دیکھنے پہنچے۔ وہاب اشرفی نے خود بتایا کہ بیس
برس سے زیادہ ہوئے ہوں گے ، انھوں نے کوئی فلم سنیما گھر میں نہیں دیکھی۔
وہاب اشرفی کے بازو میں خورشید اکبر بیٹھے کیوں کہ ان سے ذرا وہاب اشرفی کی
بے تکلفی زیادہ تھی۔ سنیما دیکھنے کے دوران دونوں ایشوریہ رائے کے حسن وادا
کے سلسلے سے سرگوشیاں کرتے رہے۔ ہال سے نکلنے کے بعد میں نے وہاب اشرفی کی
زبان سے بھی سنا کہ واقعی عجیب خوبصورت اداکارہ ہے۔ فلم کے فن اور ناول کا
کس حد تک ا س میں سلیقے سے استعمال ہوا، ان موضوعات پر اُن سے کبھی میری
گفتگو نہیں ہو سکی۔
ایک روز وہاب اشرفی کے یہاں محوِ گفتگو تھا کہ تازہ ڈاک آئی۔انھوں نے مجھے
ہی لفاف چاک کرنے کو کہا۔ لفاف سے پروفیسر ابوالکلام قاسمی کا مضمون برآمد
ہوا۔ مجھ سے کہا کہ پڑھ کر سنائیے۔ میں نے پورا مضمون انھیں سنایا۔ مضمون
سننے کے بعد انھوں نے ایک ساتھ غصّے اور محبت میں مجھ سے پوچھا : ’’آخر آپ
کب لکھیے گا مجھ پر مضمون۔ نارنگ، فاروقی کے پہلے سے ہی مضامین آ چکے ہیں۔
ابوالکلام قاسمی نے بھی لکھ دیا۔ اب میں کس کا انتظار کروں؟ آپ سے تو یہ
بھی کہا تھا کہ میرے خلاف ہی لکھ دیجیے۔‘‘ میں نے بہت ٹھنڈے دل سے جواب دیا
کہ ’’جو مضمون میں لکھنا چاہتا ہوں، وہ کسی کے ذہن میں نہیں ہے۔ آپ کی ادبی
خدمات کا احتساب آپ کی تمام تحریروں کے آئینے میں کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے
وعدہ کیا کہ اب اسی ہفتے اس کام کو مکمل کر لوں گا۔
میں نے گھر آنے کے بعد وہاب اشرفی کی کتابیں ایک جگہ رکھیں، فہرست بنائی کہ
کون کون سی کتاب میرے پاس ہے اور کون کون سی نہیں۔ صبح سویرے وہاب اشرفی کو
فون پر اس کی اطلاع دے دی کہ فلاں فلاں دوتین کتابیں میرے پاس نہیں مل رہی
ہیں، آپ ان کا انتظام کردیجیے۔ انھوں نے وعدہ کیا۔ شام میں ان کے گھر
پہنچا۔ مضمون کے ابتدائی صفحات لکھ لیے تھے۔ شفیع جاوید کی موجود گی میں،
مَیں نے انھیں سنا یا۔، خوش ہوئے اور مطلوبہ دو کتابیں عنایت کیں اور ایک
کتاب کے لیے ہمیں سبزی باغ لیتے آگئے۔ بک امپوریم سے نئی کتاب خرید کر مجھے
دی۔ چھے سات دن میں اچھا خاصا طول طویل مضمون تیار ہوگیا۔ میرا نقطۂ نظر
احتساب کا تھا، اس لیے جگہ جگہ تحسین وعقیدت سے علاحدہ رویّہ بھی فطری تھا۔
اس بات کی خود وہاب اشرفی نے بھی پہلے ہی سے اجازت دے رکھی تھی کہ اُن پر
لکھتے ہوئے میں جتنا چاہوں، ان سے اختلاف کرسکتا ہوں۔ مضمون مکمل ہونے کے
بعد کمپوزنگ کے لیے میں نے اسے بھیج دیا۔ جس دن کمپوزیٹر نے مضمون بھیجا،
اسی روز ظفر کمالی بھی سیوان سے آدھمکے۔ انھوں نے وہاب اشرفی سے ملاقات کی
خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے وہاب اشرفی سے فون کر کے اجازت لی۔ انھوں نے
پوچھا کہ مضمون کمپوز ہو کر آگیا؟ میں نے بتایا کہ ابھی آیا ہے، اس کی پروف
ریڈنگ باقی ہے۔ انھوں نے حکم دیا کہ اسی شکل میں لیتے آئیے۔ ہم دونوں شام
میں وہاب اشرفی کے یہاں پہنچے۔ دنیا جہان کی خوش گپیاں ہوتی رہیں۔ بیچ بیچ
میں دو ایک بارانھوں نے مضمون طلب کیا لیکن بات بدل جاتی اور ہم پھرکسی
دوسری گفتگو میں مبتلا ہوجاتے۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے مضمون سے وہ خوش
نہیں ہوں گے۔ اس لیے پہلوتہی کرتا رہا۔ دو گھنٹے کی خوش گوار گفتگو کے بعد
آخر اس مضمون کی کاپی وہاب اشرفی کے ہاتھ میں پہنچی۔
چالیس پینتالیس منٹ بہت سنجیدگی سے وہ ایک ایک لفظ کرید کر پڑھتے رہے۔ مجھے
ٹھیک سے یاد نہیں لیکن ظفر کمالی وہاب اشرفی کے چہرے کے آوبھاو پڑھتے رہے۔
پڑھنے کے بعد کوئی ایک گھنٹے تک نہایت غصّے کے عالم میں وہاب اشرفی بولتے
رہے : ’’آپ نے میری اس بات کو نہیں سمجھا، میرے فلاں مضمون کی گہرائی تک
نہیں گئے‘‘۔ غرض ایک عالم تھا، وہ بولتے رہے اور میں نے سنتا رہا۔ آخر میں،
میں عرض کیا کہ آپ کی باتوں کی روشنی میں اس پر نظرثانی کرنے کی کوشش کروں
گا۔ گیارہ بجے رات میں ان کے گھر سے اجازت لے کر واپس ہوا۔ گھر آنے کے بعد
میں نے یہ فیصلہ کیا کہ مضمون تو وہاب اشرفی کی فرمائش پر لکھا گیا اور جب
انھیں ہی پسند نہ آیا تو کیا کرنا؟ میں نے مضمون کی کاپی کو ٹھنڈ ے بستے
میں ڈال دیا۔ چار پانچ دنوں کے بعد خدابخش لائبری میں ایک جلسے میں ان سے
ملاقات ہوگئی۔ مجھ سے پوچھا کہ مضمون فائنل ہوگیا؟ میں نے ان سے کہہ دیا کہ
ابھی نظرثانی کا کام پورا نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے تاکید کی کہ جلد ازجلد
مکمل کرلیجیے۔ اُسے کتاب میں شایع ہونا ہے۔ چند دنوں کے بعد میں علی گڑھ
چلا گیا جہاں ان کی گرفتاری کی جاں کاہ خبر ملی۔ اب تو یہ طے کرلیا کہ وہ
مضمون ضائع کردوں گا۔ جیل کے بعد جب وہ اسپتال منتقل ہو گئے تو ایک روز کسی
کے ذریعے یہ خبر آئی کہ وہ مضمون چھپنے کے لیے مانگا جا رہا ہے۔ پہلے تو
مجھے یقین نہیں آیاکہ ابھی ان ناگفتہ بہ حالات میں اس کتاب کی اشاعت کی کیا
ضرورت ہے؟ لیکن وہاب اشرفی نے اسپتال میں مجھ سے بھی براہِ راست کہا کہ
لوگوں کی یہ راے ہوئی ہے کہ اسی دوران وہ کتاب چھپ جائے۔ شاید اس سے بھی
کچھ غم ہلکا ہوگا۔ میں نے دوسرے دن اُس مضمون کے صفحات کھولے اور یہ ارادہ
کیا کہ ایسے حالات میں اسے جتنا Tone Down کر سکتا ہوں، کروں گا لیکن سچّی
بات یہ ہے کہ میں پروف خوانی سے زیادہ کچھ نہیں کر سکا اور اُسے کتاب کے
مرتّب کے پاس بھجوا دیاگیا۔ یہ وہاب اشرفی کا ظرف تھا کہ انھوں نے نہ صرف
یہ کہ اُسے شایع کیا بلکہ میرے اور ان کے تعلقات میں اس کی وجہ سے کوئی
تلخی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ مرتب کتاب نے میرے مضمون کا آخری پیراگراف شاید
اپنی غیر وسیع القلبی کی بنا پر ہٹا دیا اور اداریے میں ایک ایسا منفی جملہ
لکھا جس کی وجہ سے پڑھنے والوں نے دوسرے مضامین سے پہلے میرے مضمون ہی کو
پڑھناچاہا۔ عظیم آباد کے بعض ادیبوں نے وہاب اشرفی پر یہ دباو بنانے کی
کوشش کی کہ تعلقات ختم کر لیجیے، لیکن وہاب اشرفی دل گردے کے ایسے کم زور
آدمی نہیں تھے۔
رسالہ ’مباحثہ‘ کا پہلا شمارہ آیا اور بڑے اہتمام سے اے۔ این ۔سنہا انسٹی
ٹیوٹ، پٹنہ میں اس کا افتتاحی جلسہ منعقد ہوا۔ صدارت جسٹس آفتاب عالم
فرمارہے تھے۔ انھوں نے اپنے خطبے میں پہلے شمارے میں شایع ہوئے عبدالمغنی
صاحب کے مضمون کے سلسلے سے یہ عرض کیا کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے مجھے یاد
آتا ہے کہ ’’شیشے کا گھر‘‘ عنوان سے قرۃالعین حیدر کا ایک افسانوی مجموعہ
شائع ہواتھا۔ لیکن نہ جانے کیوں اس مضمون میں اُسے ناول قرار دیا گیا ہے۔
صدارتی خطبے کے بعد محفل انجام کو پہنچی۔ لیکن اب ایڈیٹروہاب اشرفی پر
سوالیہ نشانات قائم ہونے لگے تھے۔ میرے گھر پہنچنے کے فوراً بعد وہاب اشرفی
کا فون آیا۔ انھوں نے جسٹس آفتاب عالم کی گفتگو کے سلسلے سے میری راے
پوچھی۔ میں نے انھیں بتادیا کہ انھوں نے درست اعتراض کیا تھا۔ میں نے اسی
دوران کتاب دیکھ کر اس سلسلے سے مزید تفصیلات بھی انھیں پیش کردیں۔ انھوں
نے تبایا کہ جلدی جلدی میں چھپنے کی وجہ سے اس مضمون کو وہ پڑھ نہیں سکے
تھے۔ پھر وہاب اشرفی نے پوچھا :آخر کیا کرنا چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ
خود کو اس بحث سے الگ کرلیجیے اور قارئین کے پتھّربراہِ راست عبدالمغنی
صاحب پر پڑنے دیجیے۔ وہ خود بہت بڑے عالم فاضل ہیں، اپنا بچاو کرلیں گے۔ اس
زمانے میں عظیم آباد کی ادبی محفلوں میں یہ معاملہ لطیفے کی طرح پیش کیا جا
تا تھا۔ اسرار جامعی نے اپنے قطعے میں یہ چٹکی لی کہ کیا پچاس برس میں کوئی
افسانہ بڑھ کر ناول کیوں نہیں ہو سکتا۔ ’مباحثہ‘ اور دوسرے رسائل میں
عبدالمغنی صاحب کی خوب خوب گت بنی اور وہاب اشرفی تماش بیں سے آگے نہیں
بڑھے۔
وہاب اشرفی مرّوت کے آدمی تھے۔ تنقید و تحقیق کا مرّوت سے ایک معکوسی لگاو
ہے لیکن وہ بزرگانہ شفقت اور رواداری کو ننانوے فی صدی ایمان کی طرح اپنے
ساتھ رکھتے تھے۔ جب کبھی کسی محفل میں ادبی دائرے سے بڑھ کرکوئی ادیب بغض،
عداوت اور ناشایستگی پر اترتا، اس وقت ان کا جلال دیکھنے سے تعلق رکھتاتھا۔
خدا بخش لائبریری میں وہاب اشرفی کا مابعد جدیدیت کے تعلق سے توسیعی خطبہ
طے تھا۔ ایک صاحب نے خطبے پر بچکا نہ انداز کے چند سوالات پیش کردیے۔ انھوں
نے وہاب اشرفی کے مغربی ادب کی معلومات پر بھی تھوڑے سوالات نہایت بے
سلیقگی سے کیے تھے۔ وہاب اشرفی کی غضب ناکی اس روز دیکھنے سے تعلق رکھتی
تھی۔ ثروت خاں کی پٹنہ آمد پر ان کے ناول ’’اندھیرا پگ‘‘ کے تعلق سے اچھی
خاصی محفل سجی۔ شوکت حیات نے مجلسی آداب کا خیال نہیں رکھا اور کچھ تہذیبی
اعتبار سے دوسری حدوں تک پہنچ گئے۔ محفل کی صورت ہی بدل گئی۔نظامت میرے
ذمّے تھی۔ میں نے وہاب اشرفی کو اُس بُرے ماحول میں خصوصی خطاب کے لیے آواز
دی۔ وہاب اشرفی نے اپنا سرپرستانہ رول ادا کیا اور اسی قدرتلخ لہجے میں
شوکت حیات کی برسرِ محفل مذمّت کی۔ لکھنؤ میں وہاب اشرفی کی کتابوں کی
تعدادسے نہ جانے کیوں انیس اشفاق سوتیا ڈاہ کا شکار ہوگئے۔ اپنی گفتگو میں
انیس اشفاق نے وہاب اشرفی کو نازیبا انداز میں مخاطب کیا۔ پوری محفل کو
انیس اشفاق کا تفخر اور تکبر بُرا معلوم ہوا۔ وہاب اشرفی سے پہلے ہی شہریار
مائک پر آئے اور تمام محفل کی طرف سے وہاب اشرفی سے معذرت طلب کی اور بہت
تلخی سے یہ جملہ بھی کہا : ’’انیس اشفاق نے جس لہجے اور زبان میں گفتگو کی
ہے، یہ انداز اردو کے کسی استاد اور پروفیسر کو زیب نہیں دیتا۔‘‘
مقابلہ جاتی امتحانات کے سلسلے سے میرے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں سے وہ
واقف تھے۔ کئی بار انھوں نے مجھ سے کہا کہ اردو کے طالب علموں کو صیقل کرنا
بہت بڑا کام ہے۔ آپ کی کوششوں سے اگر انھیں روزگار مل جاتا ہے تو یہ بڑی
بات ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اخبارات میں کامیاب طلبہ کے بارے میں بھی پڑھتا
رہتا ہوں، اس کام کو جاری رکھیے۔ میرے بعض شاگردوں کے کچھ مضامین شایع ہونے
لگے تو اُن پر بھی ان کے تاثرات ضرور مجھ تک پہنچتے۔ میرے دو چند دوستوں کے
سامنے ایک روز مذاق کے لہجے میں کہنے لگے کہ آج کل صفدر صاحب بعض خواتین کے
نام سے بھی لکھنے لگے ہیں۔ میں نے ان سے اختلاف کیا۔ انھوں نے کہا، میاں
تمام عمر اسی کوچے کی سیّا حی کی ہے۔ اس میں کون ساجملہ اس معلّنہ مضمون
نگار کا ہے اور کون سا آپ کا، یہ میں سمجھ کر پڑھتا ہوں۔ میں نے کہا کہ ہر
استاد کو شاگردوں کو تیار کرنے کے لیے آگے آنا ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ
مجھے معلوم ہے، اِسے جاری رکھیے۔
اپنی خودنوشت میں وہاب اشرفی نے خاکسار کے سلسلے سے بعض حوصلہ افزاباتیں
لکھی ہیں۔ میرے خیالات ان کی تنقید نگاری کے سلسلے سے کیا ہیں، وہ اِسے
دوسروں سے زیادہ مناسب طریقے سے جانتے تھے۔ تین چار ماہ پہلے کی بات ہے۔
ایک ادبی تقریب میں ہماری ملاقات ہوگئی۔ انتظام کا روں نے ایک گھنٹے کی
دیری سے پروگرام شروع کیا۔ شاید وہاب اشرفی ہی سے ہم نے پروگراموں میں وقت
سے پہنچنے کا انداز اپنالیا تھا۔ ایک گھنٹے تک ہم پاس پاس بیٹھے۔ اس بیچ
کسی سے یہ سنا تھا کہ وہاب اشرفی کلیم الدین احمد پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔
میں نے موقع غنیمت جان کر ان سے دریافت کرلیا کہ وہ کتاب کب سامنے آرہی ہے؟
انھوں نے بتایا کہ ساہتیہ اکادمی کا مونوگراف ہے اور چھپنے کے لیے بھیجا جا
چکا ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہے کہ کلیم الدین احمد کے سلسلے
سے آپ کے خیالات کیا ہیں۔ میں نے فوراً سے پیش تر ان سے کہا کہ اس پر مَیں
لکھوں گا۔ انھوں نے بھی خوش آمدید کہا۔ پھر بہت تفصیل سے ان پہلوؤں کی طرف
اشارے کرتے رہے کہ کلیم الدین احمد کس طرح ہماری زبان کے ہیرو نہیں ہو
سکتے۔ حسبِ عادت ان سے ان کے معروضات سنتا رہا۔ اسی وقت میں نے اپنے ذہن
میں ایک خاکہ تیار کرلیا تھا کہ اس کتاب کا بھر پور جائزہ لوں گا۔ کیوں کہ
جب کوئی معتبر نقّاد اپنے بزرگ نقّاد کا بے لاگ جائزہ لے، تب یہ ضروری
ہوجاتا ہے کہ اس جائزے کا منصفانہ محاسبہ کیا جائے۔ جشنِ وہاب اشرفی کے
موقعے سے وہ کتاب بازار میں آئی اور پھر میں نے اپنے طور پر اس کا ایک
جائزہ لینے کی کوشش کی۔ رسالہ ’’آمد‘‘ میں وہ تحریر شایع ہوئی۔ میری بھی
خواہش تھی کہ اُسے وہاب اشرفی چھینے کے بعد ضرور پڑھیں۔
۱۳؍اپریل ۲۰۱۲ء کو میں پٹنہ سے دلّی پہنچا۔ ’’آمد‘‘ دلّی میں چھپ چکا تھا۔
جامعہ ملّیہ پہنچا تو غضنفر صاحب وہاب اشرفی کا خاکہ لکھنے میں مصروف تھے۔
دودنوں میں انھوں نے اُسے مکمل کرلیا۔ اسی بیچ اس خاکے کو وہاب اشرفی تک
بھجوانے کے لیے انھوں نے وہاب صاحب کے نمبر پر فون کیا۔ دوسری طرف سے یہ
آواز آئی کہ وہ نرسنگ ہوم میں بھرتی ہیں۔ کلیجہ دھک سے کرگیا۔ تین چار دنوں
میں جب میں پٹنہ پہنچا تو وہ ڈاکٹروں کی انتہائی نگہداشت میں تھے۔ پھر دلّی
گئے۔ علاج کی جو بہترین صورتیں ہو سکتی تھیں، ان کے اہالیان نے وہ سب انجام
دیں۔ پھر واپس عظیم آباد آئے۔ پچھلے سولہ سترہ برسوں میں وہاب اشرفی کا
اسپتال جانا اور پھرواپس آکر ادبی محفلوں کی صدارت اور خطابت ایک عام سی
بات تھی۔ نہ جانے کتنی بار ہوا ہوگا کہ دن میں وہ اسپتال میں ہیں اور شام
میں ادبی جلسے کی صدارت فرمارہے ہیں۔ یہ بھی ہوا کہ حج بھون میں سے می نار
کی صدارت فرماکر وہاب اشرفی واپس گئے اور مشاعرے میں شرکت سے انھوں نے
معذرت کی۔ دوسرے دن انھوں نے مجھے دوپہرمیں گھر پر بُلایاتھا۔ ہم مشاعرے
میں ہی موجود ہیں کہ یہ خبر آگئی کہ وہاب اشرفی نرسنگ ہوم میں بھرتی ہوگئے۔
ہم سب نے ان کی صحت یابی کی دعائیں کیں۔ دوسرے دن ہم نے ان کے گھر تازہ
احوال جاننے کے لیے فون کیا تو ان کی اہلیہ نے خیریت بتانے کے بعد وہاب
اشرفی کے ہاتھ میں فون تھمادیا اور انھوں نے پہلا جملہ یہی کہا کہ آپ تو دن
میں ہمارے یہاں آنے والے تھے، کیا ہوا؟ میں نے ان کی بیماری کی وجہ سے آرام
کا مشورہ دیا لیکن انھوں نے حکم دیا کہ حسبِ پروگرام آپ تشریف لائیں۔
ڈاکٹروں نے اپنا کام کرلیا، اب ہم لوگ بھی اپنا کام کرتے رہیں۔
اس بیماری میں بھی ہمیں یہی لگتا رہا کہ وہاب اشرفی اپنی دیرینہ عادتوں کو
ملحوظ رکھتے ہوئے اسپتال اور بیماری کی گرد جھاڑ کر پھر سے اُسی طرح سے
کھڑے ہوجائیں گے۔ اسی لیے کبھی اتنی تشویش نہیں پیدا ہوئی کہ وہاب اشرفی
اپنی بیماریوں سے مات کھاجائیں گے۔ بیماریوں سے لڑنے کی ان کی مشق اتنی ہی
تھی جس قدر ان کی تصنیف وتالیف کی عمر ہے۔ ایسا آدمی جلدی ہارتا نہیں۔ لیکن
’الہلال‘ صدی تقریبات کے سلسلے سے میں رانچی میں تین دنوں سے ٹھہرا ہوا
تھا۔ چودہ جولائی کی رات میں جب میں سویا تو مجھے یہ ہرگز اندازہ نہیں تھا
کہ اگلی صبح بہت ڈراونی پیداہوگی۔ پانچ بجے سے پہلے ہی کچھ کال اور SMS
پہنچ چکے تھے۔ ان میں ایک وہاب اشرفی کے رفیق دیرینہ شفیع جاوید کا بھی
تھا۔ میں سب سے پہلے انھیں ہی فون کرنے کی ہمت کر سکا۔ لیکن کچھ لفظ، کچھ
آنسو اور کچھ خاموشی کی عجیب کیفیت تھی۔ سرگوشیوں میں معنی بھر دینے والے
افسانہ نگار کے پاس لفظ بھی نہیں بچے تھے۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ خود کو
سنبھالیے، میں پٹنہ پہنچ رہا ہوں۔
رانچی میں وہاب اشرفی نے اپنی ادبی زندگی کی سب سے ٹھوس بنیاد رکھی۔ وہیں
وہ بہار سے نکل کر ہندستان گیر شخصیت کے مالک بنے۔ اسی بیچ وہاب اشرفی کے
شاگرد رشید جمشید قمر نے مجھے بتایا کہ جن وادی لیکھک سنگھ نے ایک تعزیتی
نشست رکھی ہے اور اس میں وہ آپ کی شمولیت چاہتے ہیں۔ میں بہ سروچشم وہاں
پہنچا جہاں کئی ایسے چہرے بھی تھے، جنھوں نے وہاب اشرفی کو اپنی آنکھوں کے
سامنے ابھرتے دیکھا تھا۔ ان کے شاگرد اور رفقا بھی بڑی تعداد میں تھے۔ اردو
کے علاوہ ہندی کے ادبا وشعر ابھی جمع تھے۔ سب سے پہلے مجھے ہی تعزیت پیش
کرنے کی ذمے داری عطا ہوئی۔ میں بے اختیارانہ تفصیل سے وہاب اشرفی کی زندگی
کے بہت سارے پہلوؤں کو لفظوں اور اَن کہے بول میں پیش کرتا رہا۔ وہاب اشرفی
کے بہت پُرانے دوست حسین کچھوی اٹھ کر میرے پاس آگئے اور وہاب اشرفی کے
کھونے کا ہم سے ماتم کرتے رہے۔
وہاب اشرفی کے نہیں رہنے پر آج عظیم آباد خالی ہوگیا۔ حالی نے غالب کی وفات
پر جو مرثیہ کہا، اس کے مصرعے یاد آتے ہیں۔ کوئی ہمیشہ کے لیے اس دنیا میں
نہیں آتا ہے۔ لیکن اہالیانِ عظیم آباد تبائیں کہ وہاب اشرفی کے بغیر اب کون
سی محفل برپا ہوگی۔ کون ایسا علم داں ہے جس کا نام کارڈ میں چھپ جائے اور
سننے والوں کا کارواں پروانہ وارجلسہ گاہ میں پہنچ جائے۔ کون ہے جس کی
سربراہی، سربلندی سب مانتے ہوں؟ وہ بھی مانتے ہوں جو انھیں پسند نہیں کرتے۔
اب ادبی پروگرام برپا کرنے والے منتظمین چراغ لے کر ڈھونڈیں کہ ان کی محفل
میں کوئی ایک ایسی شخصیت آجائے، جس کی وجہ سے اس سے می نار یا اس خطبے کا
بھرم رہ جائے۔ عظیم آباد ویران ہوا اور بعد کی صف میں کوئی ایسا نہیں جو
امیرِ کا رواں بن سکے ؛جس میں خوے دل نوازی ہو اور جو نگہہ بلند، سخن دل
نواز اور جاں پُرسوز رکھتا ہو۔حیف، صدحیف!!! |
|