راڈرک (ظالم حکمران )اور طارق ابن زیاد ؒ
کے لشکر جب وادی لکہ کے مقام پر آمنے سامنے ہوئے تو طارق نے وہ تاریخی خطبہ
دیا جو آج بھی عربی ادب اور تاریخ کی کتابوں میں تواتر سے نقل ہوتا چلا
آرہا ہے ۔اور جس کے ایک ایک لفظ سے طارق کے عزم ،حوصلے اور سرفروشی کے
جذبات کا اندازہ ہوتا ہے ۔اس خطبے کے چند جملے یہ ہیں ۔
لوگو ! تمہارے لیے بھاگنے کی جگہ ہی کہاں ہے ؟تمہارے پیچھے سمندر ہے اور
آگے دشمن لہٰذا خدا کی قسم تمہارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تم خدا
کے ساتھ کیے ہوئے عہد میں سچے اترو اور صبر سے کام لو ،یاد رکھو کہ اس
جزیرے میں تم ان یتیموں سے زیادہ بے آسرا ہو جو کسی کنجوس کے دسترخوان پر
بیٹھے ہوں ۔دشمن تمہارے مقابلے کے لیے اپنا پورا لاؤ لشکر اور اسلحہ لے کر
آیا ہے ۔اس کے پاس و افر مقدار میں غذائی سامان بھی ہے اور تمہارے لیے
تمہاری تلواروں کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں ،تمہارے پاس کوئی غذائی سامان اس
کے سوا نہیں جو تم اپنے دشمن سے چھین کر حاصل کر سکو ۔اگر زیادہ وقت اس
حالت میں گزر گیا کہ تم فقر و فاقہ کی حالت میں رہے اور کوئی نمایاں
کامیابی حاصل نہ کر سکے تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اورا بھی تک تمہارا جو
رعب دلو ں پر چھایا ہو اہے ،اس کے بدلے دشمن کے دل میں تمہارے خلاف جرأت و
جسارت پیدا ہو جائے گی ۔لہٰذا اس بد انجام کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے
ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ تم پوری ثابت قدمی سے اس سرکش بادشاہ کا
مقابلہ کرو ،جو اس کے محفوظ شہر نے تمہارے سامنے لا کر ڈال دیا ہے ۔اگر تم
اپنے آپ کو موت کے لیے تیار کر لو تو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے
۔اور میں نے تمہیں کسی ایسے انجام سے نہیں ڈرایا جس سے میں خود بچا ہو ا
ہوں ،نہ میں تمہیں کسی ایسے کام پر آمادہ کر رہا ہوں جس میں سب سے سستی
پونجی انسان کی جان ہوتی ہے اور جس کا آغاز میں خود اپنے آپ سے نہ کر رہا
ہوں ،یاد رکھو ! اگر آج کی مشقت پر تم نے صبر کر لیا تو طویل مدت تک لذت و
راحت سے لطف اندوز ہو گے ۔
اﷲ تعالیٰ کی نصرت و حمایت تمہارے ساتھ ہے ۔تمہارا یہ عمل دنیا و آخرت
دونون میں تمہاری یاد گار بنے گا اور یاد رکھو کہ جس بات کی دعوت میں تمہیں
دے رہا ہوں اس پر پہلا لبیک کہنے والا میں ہوں ۔جب دونوں لشکر ٹکرائیں گے
تو میر ا عزم یہ ہے کہ میر احملہ اس قوم کے سر کش ترین فرد راڈرک پر ہو گا
،اور انشاء اﷲ میں اپنے ہاتھوں سے اسے قتل کروں گا ۔تم میرے ساتھ حملہ کرو
اگر میں راڈرک کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہوا تو راڈرک کے فرض سے تمہیں سبکدوش
کر چکا ہوں گا اور تم میں ایسے بہادر اور ذی عقل افراد کی کمی نہیں جن کو
تم اپنی سر براہی سونپ سکو اور اگر میں راڈرک تک پہنچنے سے پہلے ہی کام
آگیا تو میرے اس عزم کی تکمیل میں میری نیابت کرنا تمہارافرض ہو گا ،تم سب
مل کر حملہ جاری رکھنا ،اور پورے جزیرے کی فتح کا غم کھانے کے بجائے اس ایک
شخص کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لینا تمہارے لیے کافی ہو گا کیونکہ دشمن اس
کے بعد ہمت ہا ربیٹھے گا ۔
طارق کے رفقاء پہلے ہی جذبہ ٔجہاد اور شوق شہادت سے سر شار تھے ۔طارق کے اس
خطبے نے ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ، وہ وادی لکہ کے معرکے میں اپنے
جسم و جان کو فراموش کر کے لڑے ۔یہ جنگ متواتر آٹھ دن تک جاری رہی ،کشتوں
کے پشتے لگ گے ،اور با لا ٓخر فتح و نصرت مسلمانوں کے حصے میں آئی ،راڈرک
کا لشکر بری طرح پسپا ہو ،اور خود راڈرک بھی اس تاریخی معرکہ میں کام آیا ،بعض
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے خود طار ق بن زیاد نے قتل کیا ،اور بعض
روایتوں میں ہے کہ اس کا خالی گھوڑا دریاکے کنارے پایا گیا جس سے یہ اندازہ
لگا یا گیا کہ وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو ا۔(دنیا مرے آگے ص ۲۰تا ۲۳) |