کیا اس سے خفت مٹ سکتی ہے؟

کسی بھی اسلامی ملک میں ملت اسلامیہ کے معمار کو قرآن سکھانا اور اس کو اپنے عمل میں لانا ایک اچھا اقدام ہے،کیونکہ یہی بچے کل بڑے ہوکر ہمارے حکمران بنیں گے،مملکت خداداد پاکستان میں الحمد اﷲ تعلیمی ادارے اپنے تعلیم وتعلم میں مصروف ہیں،آج کل جو یہ نصاب میں تبدیلی کی آوازیں ہر جگہ سے گونج رہی ہیں،تو اس کی حقیقت کیا ہے؟صرف ناظرہ اور ترجمہ کو لازمی قرار دینے سے یہ خفت مٹ سکتی ہیں،نہیں بھیا،آپ کے کرتوتوں کو صرف یہ چیزنہیں چھپا سکتی۔

سکولوں میں ناظرہ قرآن کو لازمی قرار دینے سے انصافی بچوں کو طویل عرصہ بعد ایک چیز بغلیں بجانے کو ملی ہے،جس سے امریکی اور مغربی این جی اوز کی طرف سے خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم میں خطرناک اور شرمناک تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی خفت کو مٹانے اور تاریکی میں پڑے ہوئے لاعلم انصافیوں کو طفل تسلی دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

اصل حقیقت کیا ہے ؟تو سنیں !اٹھارویں ترمیم سے قبل نصاب کی منظوری اور تیاری کا اختیار فقط مرکز کے ساتھ تھا،اب یہ اختیار صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے ،لیکن یہ حالیہ اقدام کیا صوبائی حکومت نے از خود کیا ہے ؟بات یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اجلاس میں اسکو آئیں پاکستان کا تقاضہ قرار دے کر اس سفارش کو قومی اسمبلی کے پاس بھجوایا-پھر قومی اسمبلی نے اسکی منظوری دے کر صوبوں کے پاس اسکو عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے بھیج دیا-جس کے نافذ کرنے کے صوبائی حکومتیں قانونا بھی پابند ہیں۔ یہ نہیں کہنا کہ یہ ہمارا کارنامہ ہے،بلکہ یہ کارنامہ تو جمعیت علماء کی ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں وفاق کو یہ خط لکھا تھاکہ سکولوں میں پانچویں تک ناظرہ اور دسویں تک ترجمہ کے ساتھ قرآن سکھا نا لازمی قرار دیا جائے،یہ تب کی بات ہے جب استادی وشیخی ،شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن حفظہ اﷲ ورعاہ نفاذ شریعت کونسل کے چئیر مین تھے اور انہوں نے پانچویں جماعت کا اس لیے کہا تھا کہ اگر کوئی بچہ پانچویں پڑھ کر اور نہیں بھی پڑھنا چاہتا تو تب بھی وہ قرآن کریم ناظرہ مکمل کر چکا ہوگا جبکہ دسویں تک ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھنا ہوگا کیونکہ ہمارے معاشرے میں عام طور پر غریبوں کی تعلیم یہی دسویں پر جاکر رکھ جاتی ہے،تو اس میں ان غریب اور نادار لوگوں کے لیے بھی یہی فوئدہ ہوگا کہ اگر کوئی بچہ دسویں کلاس پڑھ چکا ہو تو وہ قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ مکمل کر چکا ہوگا۔

یہ بات بہت پہلے سے چلی آرہی تھی مگر اب چونکہ پاکستان تحریک انصاف اس میں پہل کر گئی ،اب تحریک انصاف والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اس بات کوصرف چی میگویوں تک محدود نہ رکھے بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنائے،یہ حکومت اس عمل پر تحسین اور داد کے لائق ہیں،ہر کسی کے اچھے عمل کو اچھا ہی کہنا پڑے گا،مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اب ان میں غرور اور تکبر آجائے کہ بس ہم نے تو ایک کارنامہ کر ڈالا،نہیں نہیں ہر گز نہیں،یہ تو آپ کا حق ہے کہ آپ اپنے رعایہ کو ایسا نظام تعلیم مہیا کر دے کہ اگر کوئی بچہ یہی سے نکلے تو اسے دین کی بھی کچھ نہ کچھ سمجھ بوجھ ہو۔

پاکستان تحریک انصاف کے اس عمل پر بعض علمائے کرام نے اپنے طفلانہ ذہن کے بسب انصافیوں کو اتنا داد دیا کہ اپنے اکابر کے موقف کو بھی پس پشت ڈال دیا اور موقف کو پس پشت کیا ڈالنابلکہ اپنے اکابر کے اقوال کی بھی تردید کی،اے اپنے آپ کو افلاطون کہنے والے!آپ کا تو سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے،آپ ک تو ’’چہ پدی اور چہ پدی‘‘کے شوربا کے مترادف ہیں۔آپ نے ان نا انصافیوں کی تائید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ انصافیوں کے اس عمل سے ان لوگوں کو بھی جواب مل گیا جو یہ کہ رہے تھے کہ یہ موجودہ حکومت یہودی ایجنڈوں پر کام کر رہی ہے،یہ بات تو بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے م مستقبل کے معمار کے ساتھ کیا کیا؟کیا صرف ناظرہ اور ترجمہ کو نصاب میں داخل کرنے سے یہ خفت مٹ سکتی ہے؟نہیں بھیا ہر گز نہیں۔
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 190073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.