تقریبا پندرہ ہفتے قبل حریت کانفرنس کے اسلام آباد آفس
میں حریت کانفرنس کے تمام نمائندگان کے ساتھ گفتگو کی ایک نشست میں تین
صحافیوں،سردار عاشق،بشیر عثمانی اور مجھے مدعو کیا گیا۔اس تقریب کا
موضوع''مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور ہماری ذمہ داریاں '' تھا۔اس موقع پر
میں نے جو اظہار خیال کیا،وہ پیش خدمت ہے۔ '' مجھ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ
آج یہاں پاکستان کا کوئی عہدیدار،کوئی سیاست دان،کوئی شوبز،کہ اب سیاست بھی
شو بز بن گئی ہے،کوئی شوبز قسم کی شخصیت یہاں نہیں بیٹھی لیکن اس کے باوجود
یہاں موجود تمام نمائندے بڑے غور اور توجہ سے یہ باتیں سن رہے ہیں ۔ہر
انسان کے اندر احساس ہوتا ہے ،خاص طور پر ہماری ذمہ داری ایک پاکستانی کی
ذمہ داری سے بہت زیادہ ہے ۔زیادہ اس لئے کہ یہ ہمارے گھر کا مسئلہ ہے ۔اگر
ہم اپنی مائوں ،بہنوں ،بیٹیوں ،اپنی فیملی کو ایک سائیڈ پر کر کے باقی اپنی
مائوں ،بہنوں سے لاتعلق ہو جائیں گے تو اس سے بڑی بے شرمی،اس سے بڑی بے
غیرتی،اس سے بڑی غداری میری نظر میں اور کچھ نہیں ہو سکتی۔آج عرصے کے بعد
یہ احساس نظر آتا ہے کہ ہمیں کچھ کرنا چاہئے ،۔ہماری پاکستان میں کشمیر کاز
کے حوالے سے کیا ذمہ داری ہے؟ یہاں موجود کشمیری ،چاہیء وہ کسی حوالے سے
ہے،چاہے وہ حریت کے نمائندے ہیں،چاہے وہ کشمیری مہاجر ہے،ہر ایک کا تعلق
ایک ہے ،ہر ایک کی ذمہ داری بھی ایک جیسی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں حریت
قائدین،ایک وقت تھا کہ ان کو موقع ملتا تھا کہ وہ امریکہ ،مغربی ملکوں کی
ایمبیسی کے لوگ آ کے ان سے ملتے تھے لیکن اب عرصے سے اس طرح کا کیمونیکیشن
ہو نہیں پایا ہے۔یہاںحریت اور دوسرے کشمیری جو معاملات کو سمجھتے ہیں ، ان
کی ایک ذمہ داری تو ، جس طرح عثمانی صاحب اور عاشق صاحب نے کہا کہ پاکستان
کے اندر مسئلہ کشمیر اور کشمیر سے متعلق ایک غیر ضروری ذمہ داری کی سوچ
ہے،یہ سوچ کشمیر ہی نہیں پاکستان کی اساس کے بھی خلاف ہے،پاکستان کے اندر
مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے '' لانگ ٹرم'' پروگرام کے تحت
یونیورسٹیوں،کالجز میں،پریس کلبوں میں جا کر،وکلاء یونین میں بات کرنا،یہ
بھی اپنی جگہ بجا ہے ،بہت ضروری ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ اصل کام
ہے۔یہاں پاکستان میں جو پالیسیاں ہیں وہ عوام کو دیکھ کر نہیں بنتیں،عوام
کا پریشر دیکھ کر بالکل بھی نہیں بنتیں۔میرا نہیں خیال کہ یہاں پہ کوئی
ایسی شخصیت،آپ میں سے کئی مجھ سے سینئر ہیں،آپ سے ہم سے بہت کچھ سیکھا
ہے،لیکن ہم نے یہاں جو ،پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی کیا سوچ ہے ،پاکستان کی
اسٹیبلشمنٹ کس طرح سوچتی ہے ،اس کی سوچ اور اپروچ کیا ہے ، ہمیں تو
چھوڑیں،وہ اگر ایک عام پاکستانی کو بھی معلوم ہو جائے تو وہ اپنے کپڑے پھاڑ
دے گااور اپنے جسم پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دے گا،جو ملک کو چلاتے ہیں۔
یہاں پاکستان میں سب سے اہم کام جو ہمارے کرنے کے ہیں ،وہ ہیں پاکستان کے
مختلف اداروں سے ،ٹھوس تجاویز کے ساتھ موثر رابطے ، عاشق صاحب نے اس کی
درست نشاندہی کی کہ ہم بہت بڑا گروپ بنا لیتے ہیں،ہم سب کشمیری قوم کی
نمائندگی کر رہے ہیں،کوئی تنظیم یہ دعوی نہیں کر سکتی کہ تحریک آزادی کو
وہی چلا رہی ہے،یہ کشمیری عوام ہیں ،مقبوضہ کشمیر کے عوام ہیں جو اپنی
جدوجہد سے،اپنی بے شمار قربانیوں سے اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بعض
اوقات میں خود اپنی جگہ سوچتا ہوں کہ اگر میرے گھر میں دو مرتبہ پولیس آئے
،میں تو سادہ کاغذ پہ دستخط کر کے دے دوں گا کہ میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں
ہے۔آفرین ہے ان کشمیریوں پہ،جو ہمارے ہی رشتہ دار ہیں،ہمارے بھائی ہیں،حیرت
ہوتی ہے کہ وہ کیسے انسان ہیں کہ آدھی رات کو بھارتی فورسز ان کے گھروں میں
زبردستی داخل ہو کر توڑ ببپھوڑ کرتی ہیں،خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے،ان پر
شدید تشدد کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنے مطالبہ آزادی سے ،اپنے عزم سے دستبردار
ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ہماری سب سے اہم ذمہ داری،کشمیر کاز کو اجاگر کرنا
الگ ہے،اصل کام تحریک آزادی کشمیر کو تقویت پہنچانا ہے،تقویت پہنچانے کے
اقدامات یہ ہیں کہ ہم فارن آفس،وزارت دفاع،آئی ایس پی آر،وزارت امور
کشمیر،وزارت اطلاعات و نشریات ،یہ چھ سات پاکستان کے ایسے وفاقی ادارے ہیں
جو پاکستان کی کشمیر سے متعلق پالیسیوں کوعملی شکل دیتے ہیں۔پاکستان کے ان
وفاقی اداروں کے ساتھ ہمارا باقاعدہ رابطہ تو ہونا ہی چاہے،ہمیں اپنے صاحب
الرائے افراد کی،جو تمام ھساس معاملات کو ،جو سمجھنے کے ہوتے ہیں کہنے کے
نہیں ہوتے،ان کو بھی سمجھتے ہوں،وہ ٹھوس تجاویز کے ساتھ،ہم نے محکمہ
اطلاعات و نشریات سے مسئلہ کشمیر حل نہیں کرانا،وزارت دفاع سے،محکمہ خارجہ
سے مسئلہ کشمیر حل نہیں کرانا،ہم نے ان سے ایسے دو چار امور،جو وہ اپنی
استطاعت ،دائرہ کار میں کر سکتے ہیں،اس سے آپ یقین کیجئے کہ اس سے ہم بہت
بہتر پوزیشن میں آ سکتے ہیں،کشمیر کاز اور کشمیریوں کو بھی فائدہ پہنچا
سکتے ہیں۔
خاص طور پر اب یہ ہمارا ، یہاں کیونکہ سب کشمیری بیٹھے ہوئے ہیں،یہ ایک
بڑا،اگر آپ بھی اس کو محسوس کرتے ہوں،ہو سکتا ہے ،مجھے اس طرح کا شائبہ
ہوتا ہے کہ کشمیر کے نام پہ سفارتی کوششیں،یہ ،وہ ،جو کچھ بھی کیا جا رہا
ہے،یہ جو پاکستان کے اندر انڈیا کی مداخلت کومحض 'کائونٹر' کیا جا رہا ہے۔
میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک کوبچپن سے ہی سنتے دیکھتے آیا
ہوں،لیکن 1979سے میں ذاتی طور پر اس تحریک کا گواہ ہوں۔یہ تاثر،یہ بے جا
تاثر نہیں ہے کہ کشمیر میںصرف اور صرف انڈیا کو'کائونٹر' کرنے کا۔ ہمارا جو
نیا 'وار ڈاکٹرائن ' آیا اس میں بتایا کہ آپ کو ،آپ کا اصل پرابلم ہے وہ آپ
کو مغربی سرحدوں پہ ہے،لیکن چاہے آپ مغرب کی طرف رخ کریں،چاہے مشرق کی طرف
رخ کریں،آپ کا ازلی اور مستقل دشمن ایک ہی ہے اور وہ انڈیا ہے۔یہ بات آپ کو
تسلیم کرنی چاہئے ،نا صرف ہمیں تسلیم کرنی چاہئے بلکہ پاکستانیوں کو بھی یہ
باور کرانا چاہئے۔اصل میں پاکستانیوں کا پرابلم یہ ہے کہ وہ' انڈین مائینڈ
سیٹ 'کو بہتر طور پر' انڈر سٹینڈ 'نہیں کرتے،ہم کشمیریوں کو انڈیا کے ہاتھ
بڑی اچھی طرح اور بار بار لگے ہوئے ہیں،ہم انڈین مائینڈ سیٹ کو انڈر سٹینڈ
کرتے ہیں لیکن پاکستانی 'انڈین مائینڈ سیٹ' کو بالکل بھی نہیں سمجھتے اسی
لئے وہ انڈیا کو صحیح طور پر' ٹیکل' نہیں کر سکتے،موٹے دماغ کی طرح فیصلے
کئے جاتے ہیں،جن فیصلوں کا پاکستان کو کشمیریوں کو فائدہ کا الٹا نقصان ہو
جاتا ہے۔جس طرح میں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنمائوں کو بیرون
دنیا سے رابطے رکھنے میں بڑی دشواری ہے،ہماری ایک ذمہ داری یہ بھی ہے ۔جیسا
میں نے کہا کہ پاکستان کے چھ سات ادارے ،ان کے ساتھ ٹھوس تجاویز کے
ساتھ،نمبر دو ،پاکستان میں امریکہ ،روس،دنیا کے اہم آٹھ دس ممالک کے ساتھ
ہمارا اصرار ہونا چاہئے ۔ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ انسان کی' باڈی
لینگویج'ہی ساری حقیقت بتا دیتی ہے۔چھوٹی سی مثال دوں گا کہ باڈی لینگویج
کیا اثر رکھتی ہے۔یہ1988-89کی بات ہے کہ کیرن 1947سے پہلے ایک ہی گائوں
تھا،وہاںمقبوضہ اور آزاد کشمیر میں دریا کے آر پار ایک دوسرے کے رشتہ دار
رہتے ہیں،وہاں پار مقبوضہ کشمیر کاایک دولہا نئے کپڑے، ہار پہنے، دو آدمیوں
کے ساتھ اس طرف آزادکشمیر میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو سلام کرنے،ان
کی دعا لینے کے لئے دریا کے کنارے آیا۔آزا د کشمیر کی طرف تقریبا پینتیس
چالیس عورتیں ،بچے ،بزرگ اور دوسرے افراد کھڑے تھے،وہ اشاروں سے ایک دوسرے
کو دعائیں بھی دے رہے تھے،پیار بھی کر رہے تھے،وہ دولہا انڈین آرمی کو
بتائے بغیر نیچے دریا کے کنارے آ گیا تھا۔ابھی وہ دریا کے آر پار سے آپس
میں ملاقات کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں دو انڈین فوجی مورچے سے نکل کر ان کے
پاس آ گئے ،انہوں نے پہلے دولہا کے ساتھ موجود دو افراد کو مارنا شروع کیا
،وہ بھاگ گئے ،دولہا کو انہوں نے پکڑ لیا ،اس کے کپڑے پھاڑ دیئے،اسے بوٹوں
کے ٹھڈے مارے ،بندوقوں کے بٹ مارے،اس کو زمین پر گرا دیااور وہ مٹی میں لوٹ
پوٹ ہو گیا۔یہ مناظر دیکھ کر دریا کے پار موجود اس کے رشتہ دار
عورتیں،بچے،بوڑھے ،سب تڑپ اٹھے،وہ بے چین تھے کہ ہم کیا کریں کہ اپنے اس
دولہا کو بچائیں۔انہوں نے واویلا کرتے ہوئے اپنے کپڑے پھاڑ دیئے،وہ کیا کر
سکتے تھے دریا کے پار سے،انہوں نے اپنے آپ کو اتنا پیٹا،اتنا شور غل مچایا
کہ دریا کے پار موجود انڈین فوجی،انہیں معلوم تھا کہ درمیان میں دریا کی
رکاوٹ ہے،مظاہرین ان کا کچھ نہیں کر سکتے لیکن وہ ان کی تڑپ دیکھ کر گھبرا
کر، دولہا کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے اپنے مورچے میں چلے گئے۔یہ ہوتی ہے باڈی
لینگویج۔ ،ہم سب کشمیری، ابھی تک ہم اس روئیے کا اظہار کرنے سے قاصر
ہیں،مجھے وہ کشمیری بڑا چھا لگتاہے جو چاہے ٹھنڈے مزاج کا ہولیکن اس کے
اندر آزادی کے شعلے نظر آئیں،نہیں نظر آتے،بجھی ہوئی کانگڑی میں بھی اگر
راکھ کو ہلائو تو نیچے کوئی نہ کوئی چنگاری نظر آ ہی جاتی ہے لیکن ادھر
کوئی شعلہ،،چنگاری نہیں نظر آتی،حقیقت پسندی سے دیکھنا چاہئے ۔ہماری
ترجیحات اور ہیں،ہم ہر چیز بناوٹی،نمائشی طور پر کرتے ہیں،ایسا کام کرتے
ہیں کہ جس سے فوری فائدہ نہ ہو تو آئندہ چل کر کوئی فائدہ ہو جائے۔اپنی قوم
کے ساتھ تو ظلم نہ کرو یار،ہماری بہت مظلوم قوم ہے۔اگر میری اپنی عمر کی
بات ہوتی تو میں بھی کمپرومائیز کر گیا ہوتا،لیکن میں جب اپنے والد کی
زندگی دیکھتا ہوں کہ 14سال کا معصوم بچہ بھارت کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کر
کے پاکستان آیا،کس مشقت ،جدوجہد سے اس نے اپنی زندگی گزاری،میرا نانا
مقبوضہ کشمیر سے آیا اس نے کس کسمپرسی میں اور آخر دم تک اپنے عزم پر قائم
رہے کہ نہیں ہم نے کشمیر آزاد کرانا ہے،ہم نے واپس جانا ہے،میں تین چار
نسلوں کی قربانیوں کا جو قرض ہے ،میں اس کی سودے بازی نہیں کر سکتا۔ہم نے
اپنی بھرپور صلاحیتوں کے مطابق ،اپنی اہلیت کے مطابق،ہم کشمیری اللہ کا شکر
ہے کہ پاکستان میں جو اچھے اچھے عہدوں پر بیٹھے ہیں،ان سے بہت اچھے ہیںلیکن
ہمیں احساس کمتری کا شکار بنا دیا گیا ہے،ہمیں بوجھ بنا دیا گیا ہے،اور تو
اور آزاد کشمیر سے ہمیں باتیں سننے کو ملتی ہیں،اور اگر ہمارا یہی روئیہ
رہا،ہم نے ان باتوں کا احساس نہ کیاتو پھر ایسی ہی آوازیں پاکستان سے بھی
آئیں گی،پھر آپ کیا کریں گے؟.
کرنے کے دو کام،ایک تو پاکستان کے اداروں سے،مختصروفد کے ساتھ
ملاقاتیں،نمبر دو،ہمارا سفارت خانوں سے باقاعدہ رابطہ،ٹھوس تجاویز کے
ساتھ،ان کے سامنے آپ اپنا کیس خود پیش کریں،پاکستان پر سو فیصد انحصار کر
کے نہ بیٹھ جائیں۔کسی ادارے میں ہم جائیں گے تو اس کو موثر بنانے کے لئے
ہمیں پاکستان کی سیاست سے حمایت ،معاونت حاصل کرنا ہو گی،پالیمنٹ اور خاص
طور پر پارلیمانی پارٹیز سے ہمیں اچھا رابطہ رکھنا پڑے گا۔آج میڈیا کا دور
ہے ،جھوٹ کو اتنا پھیلائو کہ دنیا کہتی ہے کہ یہی سچ ہے۔انڈیا نے صرف کشمیر
کے موضوع بپر کئی ریڈیو اور ٹی وی چینلز قائم کئے ہیں جو اس کے جھوٹے
پروپیگنڈے کوسچ ثابت کر دیتے ہیں ،اور ہمارا یہاں پہ ،پاکستانی جو بات کرتے
ہیںکشمیر پر کہ یہاں کشمیر پر بات کرنے کا آج کل فیشن چلا ہوا ہے،مختلف
اوقات میں مختلف ٹی وی چینلز پہ پاکستانیوں کی کشمیر پر رائے پیش کی جاتی
ہے،وہ پاکستانی احساسات پیش کرتے ہیں،کشمیریوں کی تو کوئی نمائندگی نہیں
ہے،بالکل بھی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔کشمیری عوام کیا سوچتے ہیں،کشمیری عوام
کی کیا رائے ہے ،ان پر کیا ظلم ہو رہا ہے،وہ چاہتے کیا ہیں کہ کیا ہونا
چاہئے ،پاکستان سے وہ کیا توقعات کرتے ہیں،اس پر تو کوئی بات نہیں
ہوتی۔انڈیا سے پروپیگنڈے کے محاذ میں ہم بری طرح ،ہماری اس طرف توجہ ہی
نہیں ہے،ہمارعی حکومتوں کی،وزارت اطلاعات و نشریات وغیرہ،ان کی اپنے سیاسی
مقاصد ہیں،وزراء کے اپنے سیاسی عزائم ہیں،اپنی دلچسپیاں ہیں،ہم نے ان کو
مجبور کرا کے کرانا ہے۔جب ہم ہی ٹھنڈے ہو کر بیٹھیں گے تو ان کو کیا پرواہ
ہے کہ وہ کچھ کریں گے۔جس طرح میں نے کہا کہ ہم امریکہ ،روس مبرطانیہ ،اہم
ممالک کے سفارت کاروں سے،ان کے سفارت خانوں کے مختلف شعبوں سے باقاعدہ
رابطہ رکھیں،ان کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ کشمیریوں کی طرف سے خود پیش بھی
کریں۔تقریبا چارسال پہلے امریکہ کا ریڈیو وائس آف امریکہ ،جو امریکی انٹیلی
جنس ایجنسیوں کا پروپیگنڈے کا ایک ذیلی ادارہ ہے،اس میں ایک لفظ بھی ایسا
شامل نہیں ہوتا جو کسی اور حوالے سے ہو،ان کے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں،اس کے
ایک پروگرام میں دلچسپ بات سنی ،ان کے ایک ڈیڑھ گھنٹے کے ایک پروگرام
میںایک آئیڈیا سننے کو ملا،انہوں نے کہا کہ دنیا کے ایسے سیاسی تنازعات جن
کے حل میں پیش رفت نہیں ہو پا رہی،ان میں پیش رفت کے لئے اگر ان میںانسانی
ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات کئے جائیں تو اس سے سیاسی مسئلہ بھی حل ہو جاتا
ہے۔اس کی انہوں نے مثال دی جرمنی کے مسئلے کی،کہ سنگین مسئلہ تھا،آئیڈیا
لوجی کا مسئلہ تھامشرقی اور مغربی جرمنی کا،وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر
ایک اقدام ہوا،پبلک نے کہا،اس کی حکومتوں کی طرف سے حمایت بھی کی گئی کہ
دیوار برلن گر گئی،اس کا سیاسی مسئلہ بھی حل ہو گیا۔
اب دنیا میں ہم جو سفارت کاری کر رہے ہیں،اس سے میری زیادہ امیدیں نہیں ہیں
کیونکہ سفارت کاری وغیرہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کی ترجیحات میں اولین ترجیح
مسئلہ کشمیر ہو،پھر وہ آپ کی بات سنتے ہیں ،اس پر توجہ دیتے ہیں کہ واقعی
اگر ہم نے ان کی بات نہ سنی تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔جب وہ یہ دیکھتے ہیں
کہ پاکستان کمپرو مائیہز کرتا ہے اور کمپرومائیز کرنے کو تیار ہے۔مشرف دور
میں ایک اعلی سطحی اجلاس میںفوج کے اعلی افسران،صوبوں کے گورنر اور دو تین
وفاقی وزیر تھے،اس میں کھل کر سخت تر باتیں ہوئیں،ادھر بریفنگ میں بتایا
گیا کہ ہم نے انڈیا سے جنگ نہیں کرنی ،ہم نے ایسے تمام آپشنز پر ہم نے کام
کیا ہے کہ جس کی وجہ سے انڈیا سے لڑائی ہو سکتی ہے،ہم نے ایسے ہر آپشن پر
کام کر کے ایسے امکانات کو ختم کر دیا ہے کہ جس سے انڈیا سے لڑائی کی نوبت
آ سکے،لازمی اس میں کشمیر بھی شامل ہو گا،انہوں نے کہا کہ لیکن ایک پوائنٹ
ایسا ہے کہ جسے ہم ختم نہیں کر سکے،اس پر کام جاری ہے لیکن ختم ہونا بہت
مشکل ہے،وہ ہے پانی کا مسئلہ،اگر انڈیا پانی کو پاکستان کے خلاف واٹر بم کے
طور پر استعمال کرتا ہے کہ جب دوتین مہینے ہمیں فصلوں کے لئے پانی ضرورت ہو
تو انڈیا پانی روک لے،انڈیا نے اس سلسلے میں مقبوضہ کشمیر میں کافی اقدامات
کر لئے ہیں،وہ پانی کو سٹاک کر کے کچھ عرصے کے لئے پانی کو روک سکتا ہے اور
سیلاب کے موسم میںوہ پانی چھوڑ کر ہمیں،پوے پاکستان کو تباہ وبرباد کر سکتا
ہے،خشک سالی سے بھی اور سیلاب سے بھی۔بریفنگ میں یہ بتایا گیا کہ اگر انڈیا
اس طرح کا اقدام کرتا ہے تو پھر پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ
انڈیا کے خلاف جنگ شروع کر دے یا جنگ کی طرح کے اقدامات کرے۔اسی کی ایک
مثال کہ پرسوں ہی ہمارے مشیر خارجہ کو یہی بیان دیا گیا کہ اگر انڈیا پانی
بند کرتا ہے تو پھر ہم جنگ کریں گے۔۔آپ دیکھ لیں کہ پاکستان کس موضوع پر
جنگ کی بات کرتا ہے۔میں تو یہ دیکھتے آیا ہوں کہ انڈیا تو کشمیر کے لئے سب
کچھ کرنے کو تیار ہے،جنگ کرنے کو بھی تیار ہے،ہم جنگ تو جنگ ،جنگ کے علاوہ
جو اقدامات کرنے چاہئیں، وہ بھی نہیں کئے جاتے ۔ کشمیریوں کا پاکستان پر
بہت زیادہ انھصار ہے،ہم کشمیری جدوجہد کر سکتے ہیں،تحریک کو ایک پوائنٹ تک
لا سکتے ہیں لیکن فیصلہ کن اقدامات کے لئے پاکستان اور مختلف ملکوں کی'
انوالمنٹ' بہت ضروری ہے،اس' انوالمنٹ' کا طریقہ یہی ہے کہ جس طرح کشمیریوں
نے ،مقبوضہ کشمیر میں اربوں،کھربوں روپے کا اپنا مالی نقصان برداشت کیا
ہے،تاجر کو سب سے پیاری چیز پیسہ ہی ہوتا ہے لیکن ہمارا تاجر بھی کہہ رہا
ہے ،ہمارے باغات کے مالکان،فروٹ کا کاروبار کرنے والے،ہمارے چیمبر آف کامرس
والے ،سب یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے عوام کے ساتھ ہیں،ہم نے اربوں کا
نقصان برداشت کیا ہے ،اربوں کا اور بھی نقصان برداشت کریں گے لیکن اس مرتبہ
ہم آزادی کی منزل حاصل کر کے رہیں گے ۔ہماری بڑی توقعات ہیں وزیر اعظم نواز
شریف سے،میاں صاحب نے امریکہ جانے سے پہلے مظفر آباد میں حریت نمائندوں سے
ملاقات کی،لیکن میاں صاحب سے تعلق کا تقاضہ تو یہ ہونا چاہئے کہ وہ
کشمیریوں کے ساتھ بیٹھ کر،مخصوص افراد کے ساتھ بیٹھ کر ان معاملات پر تفصیل
سے ڈسکس کریں۔کیونکہ ہمارے ایسے کئی معاملات بھی ،جو سیاسی معاملات ہیں
کشمیر کے لیکن وہ غیر سیاسی بنیادوںپر چلائے جا رہے ہیں یہاں سے۔ہم یہ
باتیں کیوں نہیں کرتے جن لوگوں سے کرنے کی ہیں؟اس طرح کی اصلاح ہم کیوں
نہیں کرتے ہیں؟محض یہ کہ اخبارات میں بیان آ جائے،تصویر آجائے،' فنگشن'
ہوجائے،گروپ تصویر ہو جائے،یہی کام نہیں ہیں ہمارے کرنے کے،یہ بھی ضروری
ہیں لیکن اصل کام جو ہے ہمیںاپنی توجہ اس پر مرکوز رکھنی چاہئے۔
اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر جسے تحریک آزادی کشمیرکا بیس کیمپ کہتے ہیں،تمام
ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت کے طور پر اس کا وجود قائم ہوا،لیکن
پھر وہ ،1974کے ایکٹ کی اگر بات کریں،اس کے ذریعے آزاد کشمیر کو اس کے
جغرافیائی حدود میں محدود کر دیا گیا آئینی طور پر،لیکن اس کے باوجود آزاد
کشمیر حکومت کا تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے سیاسی کردار موجود ہے۔ہم
پہلے اپنے گھر کو تو سیدھا کریں ،آزاد کشمیر بھی ہمارے گھر کا حصہ ہے۔کشمیر
لبریشن سیل،آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں،کل جماعتی رابطہ کونسل جو بنی تھی،اس
کا کیا حال ہوا،آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔( اس موقع پر سردار عاشق نے کہا
کہ آج کا اجلاس اسی لئے ہے کہ آپ اپنا سارا غصہ نکال لیں)اس پر میں نے کہا
کہ بات غصہ نکالنے کی نہیں ہے،یہاں چودھری اور کمی کلچر ہے،جو کہتا ہے
زبردست ،شاندار،بے مثال،ہم کہتے ہیں کہ یہ میرا وفادار ہے،جو کہتا ہے کہ آپ
کا ازار بند لٹک رہا ہے،اس کو ٹھیک کر لیں،آپ کہتے ہیں کہ یہ میرا پکا دشمن
ہے۔کیونکہ بادشاہی نظام ہے،جس کے پاس طاقت ہے ،اس کی جی حضوری ہے،اگر آپ
کسی سے اخلاق سے بات کرتے ہیںتو وہ کہتا ہے کہ یہ بہت ہی گیا گزرا آدمی
ہے،اگر کسی کو اوئے کر کے بلاتے ہو تو وہ بھاگ کر آتا ہے کہ' یس سر۔یہ
ہمارا کلچر ہے ادھر،ہم کشمیریوں کایہ کلچر نہیں ہے۔ہم کشمیری بڑے تہذیب
یافتہ،بڑے رکھ رکھائو والے لوگ ہیں۔کشمیر اور پاکستان کو جو گہرا تعلق ہے
اس میںبڑا یک کردار ہے قائد اعظم محمد علی جناح کا،جو گورنر جنرل پاکستان
تھا،اس کا چھوٹا بھائی احمد علی جناح کراچی ائیر پورٹ پہنچتا ہے،وہ بڑے
غرور میں ہوتا ہے کہ میرا بھائی گورنر جنرل پاکستان ہے،پاکستان کا بانی
ہے،اس کا چہرہ بھی قائد اعظم سے مماثل تھا اور قائد اعظم اپنے اس چھوٹے
بھائی سے بہت پیار کرتے تھے،ٹیکسی پر بیٹھ کر گورنر جنرل ہائوس جاتا
ہے،کاغذ پر لکھتا ہے '' احمد علی جناح برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح
گورنر جنرل پاکستان''،وہ کاغذ قائد اعظم کے پاس جاتا ہے ،قائد اعظم اپنے
پین نکال کر قائد اعظم اور گورنر جنرل پاکستان کے الفاظ کاٹ کر کہتے ہیں کہ
اس کو کہو کہ'' تم احمد علی جناح ،محمدعلی جناح کے بھائی ہو،قائد اعظم یا
گورنر جنرل پاکستان کے نہیں،یہ گورنر جنرل ہائوس ہے ،شام کو گھر پہ
آنا''۔ہمارے یہاں لیڈر کیاہمارے لیڈر کا رشتہ دار کیا اس کا ملازم بھی سب
سے بڑا ہوتا ہے کہ یہ صاحب کے ہر وقت قریب رہتا ہے،صاحب کی چاپی کرتا رہتا
ہے،جو قریب کی بات کرنی ہے،ادھر سے کرو،ہم کشمیریوں کایہ مزاج نہیں
ہے،ہماری یہ سیاسی تربیت بالکل بھی نہیں ہے،ہم آزادی کی تحریک لڑنے والے
لوگ ہیں،ہماری 'باڈی لینگویج'،ہماری اخلاقیات،اس میں فرق واضح طور پر نظر
آنا چاہئے(سردار عاشق نے اپنی گفتگو میں کہا تھا کہ حریت کے نمائندے
تقریبات وغیرہ میں اچھی جگہ بیٹھنے کے لئے آپس میں دھکم پیل کرتے ہوئے
تماشہ نہ بنا کریں)۔کل ہی میں نے ایک وفاقی ادارے میں دیئے گئے اپنے لیکچر
میں موضوع پر بات کرتے ہوئے پہلے یہ بیان کیا کہ پہلے یہ دیکھ لو کہ کشمیر
کا علاقہ کیا ہے اور وہاں رہنے والے لوگ کون اور کیسے ہیں،اس کے بعد ان کے
روئیے اور رجحانات دیکھو۔عام طور پر پاکستان میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ
آزاد کشمیر ہے،اس کے آگے پہاڑ ہیں،جوں جوں سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول)
کی طرف جاتے جائو،بیک ورڈ علاقہ آتا جاتا ہے،اس سے بھی پار جائو مقبوضہ
کشمیر تو وہ تو بہت ہی بیک ورڈ علاقہ ہو گا۔یہ یہاں پہ تاثر ہے،ان کو پہلے
میں نے کشمیر کی ہیت بتائی،پھر میں نے بتایا کہ یہ لوگ کون ہیں۔جب پورے
برصغیر میں تعلیمی ادارے نہیں تھے،ریاست کشمیر میں1868میںپہلی مرتبہ
پرائمری سطح کے سکول قائم ہوئے۔کشمیر میں کوئی اجڈ ،گنوار لوگ نہیں ہیں کہ
قبائیلیوں کی طرح اٹھ گئے ،اسلحہ اٹھا کر کسی کی نہیں مانتے،بڑے باشعور لوگ
ہیں،اپنی تہذیب پر فخر کرنے والے لوگ ہیںجنہوں نے بدترین غلامی کے باوجود
بھی اپنی شاندار روایات کوترک نہیں کیا ۔ہمیں اسی کو ساتھ لے کر چلنا
ہے،اسی کی ہم نے پاکستان میں ایک زندہ مثال بننا ہے،ہم نے پاکستان میں مروج
کامیابی کے طور طریقے ہم نے نہیں اپنانے،اس سے شاید ہمارے پاس کچھ مادیت تو
آ جائے، لیکن ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں،ہم
اللہ تعالی کو بھی مانتے ہیں،تو یہ دو متضاد باتیں ساتھ ساتھ تو نہیں چل
سکتیں۔
آزاد کشمیر میں بھی وزیر اعظم اور دوسری شخصیات کے ساتھ بیٹھ کر ان سے
رسمی،غیر رسمی طور پر بات کی جائے،ان سے کہا جائے کہ آپ نے کشمیر سیل جو
بنایا ہوا ہے،اس بارے بھی ہمارے پاس ٹھوس تجاویز ہونی چاہئیںکہ کس طرح آزاد
کشمیرحکومت اپنا مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔کل جماعتی رابطہ کونسل کی بحالی
ہونی چاہئے،یہ ادارہ تو ّج کل بہت موثر طور پر کام کر سکتا تھا،پہلے تو
معمول کے حالات تھے،اب تو ان کی ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔میں نے
وزیر اطلاعات پرویز رشید،وزیراعظم پاکستان کے سیاسی معاون آصف کرمانی سے
بھی کہا کہ دنیا کے آٹھ دس اہم ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں
کشمیر ڈیسک قائم کئے جائیں،لیکن صرف کشمیر ڈیسک قائم کرنے سے بات نہیں بنتی
کہ اگر وہاں روائیتی طور پر سرکاری افسران لا کر بٹھا دیتے ہیں تو اس کا
کوئی فائدہ نہ ہو گا۔اس کشمیر ڈیسک میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے یورپ
،امریکہ میں بڑے قابل ،جو یورپ ،امریکہ ،عالمگیر سطح پر مسئلہ کشمیر کے
حوالے سے بہت اچھا کام کر سکتے ہیں،بڑے قابل لوگ ہیں،یہ ہماری وزیر اعظم
پاکستان کو تجویز ہونی چاہئے،اس پر اصرار ہونا چاہئے،ہمارا مطالبہ ہونا
چاہئے کہ آپ کشمیر کے حوالے سے سرگرم سفارتی مہم کی بات کر رہے ہیں،اس
حوالے سے آپ دنیا کے مختلف ملکو ں میں کشمیر کاز کے حوالے سے کام کرنے والی
شخصیات کوتعینات کریںتاکہ وہ کشمیر ڈیسک میں سرکاری ملازم کے طور پر کام نہ
کریں بلکہ کاز کے لئے کام کریں۔
میرا خیال ہے کہ تجاویز اور اہم امور پر توجہ دلانے کے لئے یہ ایک اچھی
نشست ہے،چند شعبوں سے متعلق سنجیدہ امور سے متعلق اچھی شخصیات پر مبنی ایک
گروپ بنا کرمتحرک ہونا ہے کہ اب بات وہی ہے کہ کشمیری غم و غصے سے بھرے
ہوئے تھے کہ برہان وانی کی شہادت کا واقعہ ہو گیا جس سے کشمیریوں کو اپنے
جذبات کے اظہار کا موقع ملا۔انڈیا تو اب آ گیا ہے کشمیر کوہتھیانے کے لئے
فیصلہ کن اقدامات پرڈیموگریفک چینجز کے لئے سابق فوجیوں وغیرہ کی مخصوص
آبادیاں،اس نے کام شروع کر دیا ہوا تھا،کشمیری بے چارے پریشان تھے کہ ہم
کریں تو کریں کیا،بھارت 'سٹیپ بائی سٹیپ'' یہ کرتا جا رہا ہے،کیا کریں
ہم؟اللہ کا شکر ہے،شہادت بھی اللہ تعالی کی طرف سے ایک بڑا اعزاز ہے،میں
ہلاک لکھتا ہوں تو کئی کہتے ہیں کہ شہید کیوں نہیں لکھا تو میں کہتا ہوں کہ
یہ اللہ تعالی کی طرف سے دیا جانے والا اعزاز ہے،میراکوئی خطاب نہیںہے،یہ
اللہ تعالی کا عطا کئے جانے والا مقام ہے جو اللہ تعالی ہی دے گا،ہاں ہم
لکھتے ہیںجاںبحق ہو گیا،اس کی شہادت ہوئی تو کشمیریوں نے ایک بار پھر دکھا
دیا ہے کہ انڈیا اپنی تمام تر سازشوں،تمام تر دہشت گردی،تمام تر ظلم و ستم
کے باوجود انڈیا ناکام ،نامراد ہو گیا ہے۔ایک بات میری یاد رکھنا
دوستو،انڈیا ناکام ہے،انڈیا بالکل ناکام ہے،68سالوں سے اس نے کوئی سی سازش
نہیں کی،پوری دنیا اس کی پشت پر ہے،ہر ملک اس کی مدد کر رہا ہے،وہ بھرپور
طور پر کشمیریوں پرظلم کر رہا ہے لیکن دنیا میں کوئی اس کا نوٹس بھی نہیں
لیتا،یہ مسلسل جاری ہے لیکن اس کے باوجود بھارت ناکام ہے،کشمیریوں کی
جدوجہد،قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے،نسل درنسل جاری ہے،یہی کشمیریوں کی
کامیابی کی نوید ہے،اب انڈیا کی طرف سے فیصلہ کن اقدامات کی صورتحال
ہے،ہمیں فیصلہ کن طور طریقوںپر غور کرنا پڑے گا،شکریہ''۔ |