بھارت کا یوم جمہوریہ شمال مشرقی ریاستوں
اور جموں و کشمیر کے کروڑوں افراد کے لئے عتاب کی نئی داستانیں اپنے ساتھ
لاتا ہے۔ اس کی آمد سے ہفتوں پہلے ہی عوام فورسز کے مظالم اور پابندیوں کا
شکار ہو جاتے ہیں۔ کئی روزتک بھارتی فورسز کشمیریوں کو زیر عتاب لانے کا
سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ جنگ بندی لائن کے آر پار اور پاکستان سمیت دنیا بھر
میں کشمیری 26جنوری کو ہندوستان کا یوم جمہوریہ یوم سیاہ کے طور پر مناتے
ہیں۔یوم سیاہ بھارتی جمہوریت کے خلاف نہیں بلکہ بھارتی جمہوریت کے تضادات
اور دوغلے پن کے خلاف منایاجاتاہے۔بھارتی نام نہاد جمہوریت پٹھانکوٹ پہنچ
کر دھندلا جاتی ہے مگر بانہال کے قریب پہنچتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔انگریزوں
کی غلامی سے نکلنے کے بعداس دن بھارت میں اپنا آئین نافذ ہو۔ مگرانگریز کی
سرپرستی میں بھارتی انتہا پسندوں نے کئی دیگر قوموں کو اپنا غلام بنا لیا۔
جن میں کشمیری بھی شامل ہیں۔26؍ جنوری 1950ء کو بھارت میں انگریزوں کے
قانون گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی جگہ بھارت کے آئین نے لی۔ تب سے ا س دن
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں پریڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ہندوستان
کے صدر سلامی لیتے ہیں۔اس موقع پر بھارت اپنی فوجی طاقت کی بھرپور نمائش
کرتا ہے۔ اس نمائش میں کسی غیرملکی حکمران کو مدعو کیا جاتا ہے اور اسے یوم
جمہوریہ تقریب کا مہمان خصوصی بنایا جاتا ہے۔
26جنوری 2017کو بھارتی یوم جمہوریہ پر دہلی میں ابو ظہبی کے حکمران شہزادہ
محمد بن زاید بن سلطان آل نھیان مہمان خصوصی ہوں گے۔ شہزادہ نھیان متحدہ
عرب امارات کی آرمڈ فورسز کے ڈپٹی سپریم کمانڈر بھی ہیں۔ وہ امارات صدر
خلیفہ زاید النھیان کے سپیشل ایڈوائزر بھی ہیں۔ بھارت کے عرب امارات ہی
نہیں بلکہ سعودی عرب اور دیگر عرب مماللک سے تعلقات استوارک رہے ہیں۔ پوری
دنیا میں یہ سعودی عرب اور عرب امارات ہی تھے جنھوں نے پاکستان کے ساتھ مل
کر افغانستان میں طالبان حکومت تسلیم کی۔ بھارتی یوم جمہوریہ پر شہزادہ کا
چیف گیسٹ کے طور پر شریک ہونا اور کشمیریوں کا یوم سیاہ ایک پیرائے میں
دیکھیں تو بات کچھ سمجھ آ سکتی ہے۔ بھارت مہمان خصوصی پر یہی باور کرے گا
کہ کشمیریوں کو آپ کا خصوصی مہمان بننا گوارا نہیں۔ اس لئے متحدہ عرب
امارات کی حکومت ، وزارت خارجہ اور دنیا بھر میں امارات کے سفارتخانوں کو
ٹیلیفون، ای میل، خطوط، فیکس، سوشل میڈیا یا دیگر زرائع سے یہ پیغام مہذب
انداز میں جائے کہ بھارت کس طرح بھارتی مسلمانوں پر مظالم کر رہا ہے، کشمیر
میں اس نے مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔کس طرح کشمیریوں
کو پیلٹ اور پاوا فائرنگ اور زہریلی گیسوں کی شیلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا
ہے۔سیکڑوں طلباء جن میں کم سن بچے بھی شامل ہیں کو آنکھوں، سر، گردن، سینے
پر پیلٹ فائرنگ سے نا بینا کیا جا چکا ہے۔ کئی دماگ ار دل پر فائرنگ سے
متاثر ہوئے ہیں۔ لا تعداد کی بسارت ہی نہیں بلکہ قوت سماعت بھی بری طرح
متاثر ہوئی ہے۔ اگر چہ وہ اپنے دورے کو ملتوی نہیں کریں گے لیکن ہو سکتا ہے
کہ انہیں کشمیریوں کے جذبات سے آگاہی ہو جائے۔
بھارت نے اصل میں سال 2017کے یوم جمہوریہ پر کنیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈیو
کو دعوت دی تھی۔ بھارتی وزیر خزانہ ارون جھیٹلی اور وزیر مملکت کامرس نرملا
سیتھا رمن نے اکتوبر2016میں کنیڈا کا دورہ کیا اور وزیراعظم کو دعوت دی
لیکن کنیڈا کے وزیر اعظم نے یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی بننے پر رضا مندی
ظاہر نہ کی ۔ تا ہم کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم جسٹن 2017میں بھارت کا دورہ کر
سکتے ہیں۔ کنیڈا کے وزیراعظم کے انکار کے بعد ہی شہزادہ النھیان کو مدعو
کیا گیا۔ جو کہ ایک طرح عرب شہزادہ کی بے عزتی اور بے توقیری ہے کہ کنیڈا
کے انکار پر امارت کے در پر دستک دی گئی۔ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے
برعکس مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاکھوں لوگوں کوایک ماہ تک ان کے گھروں میں
بند رکھ کر اور سخت محاصرے میں پریڈوں کا بندو بست کیا جاتا ہے اور سب سے
بڑی تقریب سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں ہوتی ہے۔ بھارتی فورسز26 جنوری کی
آمد سے ہفتوں پہلے ہی بخشی اسٹیڈیم اور اس کے نواحی علاقوں پر قبضہ جما
لیتے ہیں، سرکاری عمارتوں کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارتوں پر بھی جبری قبضہ
کرکے چھتوں پرمورچہ بندی کی جاتی ہے۔ بخشی اسٹیڈیم کے نزدیک لعل دید چلڈرن
ہسپتال کے مریضوں تک کو نہیں بخشا جاتا اور اُن کو تشدد کا نشانہ بنایا
جاتا ہے۔ لیکن کشمیری عوام اس دن ہندوستان کے ناجائز قبضے کے خلاف اور
آزادی کے حق میں مکمل ہڑتال کرتے ہیں۔ دن کو یومِ سیاہ منایا جاتا ہے اور
رات کو مکمل بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کشمیری عوام بھارتی جبری قبضے
اور نسل کش پالیسی و مظالم کے خلاف اپنے سخت ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ
سلسلہ جاری ہے۔ لوگ کرفیو کو تور کر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ جگہ جگہ سیاہ
پرچم لہراتے ہیں اور ہندوستانی پرچم کو اور بھارتی حکمرانوں کے پتلوں کو
نذر آتش کیا جاتا ہے۔ اس طرح کشمیری جنگ بندی لائن کے آرپار اور دنیا بھر
میں ہندوستانی نام نہاد جمہوریت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہندوستان اپنی
جمہوریت پسندی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور کہا جاتا ہے ہندوستان دنیا کی ایک
بڑی جمہوریت ہے۔ اگرچہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے والے ہندوستان نے جموں
و کشمیر کے عوام کی آزادی کو چھین رکھا ہے اور مقبوضہ ریاست کو اپنی فوجی
چھاؤنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ دنیا پر جنت کا منظر پیش کرنے والے خطے کو قید
خانہ بنا دیا ہے۔ جہاں معصوم عوام کا قتل عام جاری ہے اور اس سرزمین کو لہو
لہاں کر دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان کو اپنا آئین بنانے میں 3سال لگ
گئے۔ 26 جنوری1950ء کو آئین نافذ کردیاگیا۔ لیکن یہ آئین کشمیریوں کی آزادی
اور ہندوستانی حکمرانوں کے وعدوں یا بھارتی فوج کے جبری قبضے کو ختم کرنے
کے سلسلے میں خاموش ہے۔ اس لئے کشمیری ہندوستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے
اور ہندوستان کے اس غیر حقیقت پسندانہ آئین کے تحت مسئلہ کشمیر کا حل بھی
قبول نہیں کرتے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہندوستان کے جن لوگوں نے انگریزوں سے
آزادی کیلئے جنگ لڑی، انہیں بھارتی آئین فریڈم فائٹرز اور کشمیر کی آزادی
کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ ایسے آئین کی کیا اہمیت ہے جو
تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ تضادات کے شکار اس آئین کا جشن منانے کیلئے ہر سال
26جنوری کو تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ دہلی میں لال قلعہ کے سامنے پریڈیں
ہوتی ہیں۔ 21توپوں کی سلامی دی جاتی ہے۔ فوجیوں کو سب سے بڑے ایوارڈز
’’اشوک چکر، کیرتی چکر اور پرم ویر چکر‘‘ دیئے جاتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و
کشمیر میں معصوم اور مظلوم و نہتے کشمیریوں کو قتل کرنے پر بھی ہندوستانی
فوج کو تمغے دیئے جاتے ہیں۔ اور یہ تمغے 26 جنوری کو ہی دیئے جاتے ہیں۔ اس
سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ کشمیری نہتے لوگوں، بچوں اور بزرگوں کو
قتل کرنے پر ہندوستانی فوج کو26جنوری کے دن تمغے دیئے جاتے ہیں۔ جن وردیوں
پر لاکھوں کشمیریوں کے خون کے چھینٹے ہیں ان پر تمغے سجا دیئے جاتے ہیں۔
ہندوستان کے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں اور جنونیوں کی فوج اپنے یومِ
جمہوریت پر جشن مناتی ہے۔
26 جنوری کو ہر سال ہندوستان دنیا کو گمراہ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیتا۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ہندوستان کے پہلے نام نہاد یوم جمہوریہ پر
انڈونیشیا کے صدر سکارنو کو ہندوستان نے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا
تھا اور انہوں نے ہندوستانی فورسز کی پریڈ کا معائنہ کیا اور 60 سال بعد
2011ء کے ہندوستانی یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی کے طور پر انڈونیشیا کے صدر
کو ہی مدعو کیا گیا تھا۔ اوریہ بھی ایک حیرت ناک بات ہے کہ پاکستان کے
گورنر جنرل ملک غلام محمد1955ء اور پاکستان کے وزیر خوراک و زراعت رانا
عبدالحمید1965ء کو ہندوستانی یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی کے طور پر شریک
ہوئے۔ ایک ایسا ملک جس نے جموں و کشمیر پر ناجائز قبضہ کیا، کشمیری
مسلمانوں کا قتل عام کیا اس کے یوم جمہوریہ پر پاکستان کی دو بار مہمان
خصوصی کے طور پر شرکت اور قابض افواج کی پریڈ اور جشن میں شریک ہونا ایک
انوکھا واقعہ ہے جو کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں کی تذلیل اور زخموں پر نمک
پاشی کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس ہندوستان میں قیام پاکستان کے وقت
لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور مسلم کش فسادات میں ایک لاکھ سے زیادہ
مسلمانوں کو ریاستی پشت پناہی میں انتہائی بے دردی سے شہید کیاگیا اور جس
ملک کے آئین میں مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے۔
مسلمانوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اسی ملک کے یوم جمہوریہ کے جشن میں
مسلم ممالک سعودی عرب، ایران اور انڈونیشیا کی بطورِ مہمان خصوصی شرکت ایک
سوالیہ نشان ہے۔
جن بھارتی فوجیوں کو لاکھوں کشمیریوں کے قتل عام کے سنگین جرم میں مجرم
قرار دے کر انٹرنیشنل ٹریبونل میں مقدمہ چلا کر پھانسی دی جائے، انہیں
میڈلز دیئے جاتے ہیں، ترقیوں سے نوازا جاتا ہے۔ پتھری بل میں فوجیوں نے بے
گناہ اور نہتے سکھ شہریوں کو قتل کیا۔ یہ ثابت بھی ہوا لیکن بھارتی فوج نے
اس کیس کی فائل ہی بند کر دی۔ کر لو جو کرنا ہے۔
26جنوری سے پہلے ہی کشمیری زیر عتاب ہو جاتے ہیں۔ محبوبہ مفتی حکومت بھی بی
جے پی کے ساتھ مل کر شہری آزادیوں کا گلا گھونٹنے میں مصروف ہے۔ عام شہری
کشمیر میں بار بار قتل ہو رہا ہے۔ لیکن قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ سرکاری
وردی کی آڑ میں چلے گئے ہیں۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل بھی بڑی طاقتوں کا
کھلونا ہے۔ ان واقعات و حالات کو سامنے رکھ کر اگر کشمیریوں کو جدوجہد ترک
کر کے بھارت سے نام نہاد بات چیت کا کہا جائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
حکومت پاکستان کو اپنی پالیسی پر از سر نو گور کرنا چاہیئے۔وزیراعظم نواز
شریف جان لیں کہ دنیا میں پاکستان کے دوست یکے بعد دیگرے بھارت کے قریب ہو
رہے ہیں۔ اس سلسلے میں نئی ڈاکٹرائنز تشکیل دینے کی ضرورت ہو گی۔کیوں کہ
پرویز مشرف اور زرداری ڈاکٹرائن ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ
سعودی عرب، امارات، قطر جیسے پاکستان دوست بھارت کی طرف کیوں جا رہے ہیں۔
اگر انہیں روکا نہیں جا سکتا تو کوئی متبادل طریقہ کار اپنایا جا سکتا ہے۔
|