بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقبوضہ کشمیر میں اس وقت تحریک آزادی پورے عروج پر ہے۔ برہان وانی کی شہادت
کے بعد چھ ماہ سے زائد عرصہ تک مسلسل کرفیو رکھا گیا‘ ہڑتالیں کی گئیں اور
بھارتی فورسز کی طرف سے ایسی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی کہ کشمیریوں کو بچوں
کیلئے دودھ اور سبزی تک حاصل کرنا دشوار ہو گیا۔ ڈیڑھ سو سے زائد کشمیری
شہید کر دیے گئے۔ ڈیڑھ ہزار کے قریب افراد کی بینائی چلی گئی جن میں معصوم
بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں۔ حریت قیادت نظر بند اور ہزاروں نوجوانوں
پرپبلک سیفٹی ایکٹ لگا کر جیلوں میں قید کر دیا گیا ۔ کشمیری تاجروں کی سیب
کی تجارت تباہ اور فصلوں کو آگ لگاکر برباد کیا جاتا رہا۔ چادر چاردیواری
کا تقدس پامال کرتے ہوئے خواتین سے بداخلاقی کے واقعات پیش آئے۔ہندوستانی
فوج کے درندے گھروں میں گھس کو لوگوں کے قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کرتے رہے۔
بجلی کے ٹرانسفارمر اکھاڑ دیے گئے ۔ نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر
اسرائیلی طرز پر کشمیریوں کی نسل کشی شروع کر دی گئی اور بعض مواقع پر
کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جانے کا بھی انکشاف ہوا جس سے شہداء کی لاشیں
مسخ ہو گئیں اور ان کی پہچان کرنا ممکن نہ رہا۔عبدالماجد زرگر کی شہادت کا
واقعہ انڈیا کی اس بہیمانہ دہشت گردی کی زندہ مثال ہے لیکن افسوسناک امر یہ
ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوج کی یہ ریاستی دہشت گردی اسی طرح جاری ہے لیکن
جانوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازیاں کرنے والے بین الاقوامی اداروں
اور ملکوں نے اس ساری صورتحال پرتاحال مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو تو ان کی غیرت فوری جاگ جاتی ہے لیکن کشمیر میں
ہونے والے ظلم و بربریت پر ان کا حقوق انسانی کے تحفظ کا نام نہاد جذبہ
کبھی بیدار نہیں ہوتا۔ کشمیریوں کو ان عالمی قوتوں اور اداروں سے کوئی خاص
شکوہ بھی نہیں ہے کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے بنائے ہی
مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو تحفظ دینے اور اسلام
پسندوں کو مظلوموں کی مدد سے روکنے کیلئے گئے ہیں مگرکشمیری آج یہ سوال کر
رہے ہیں کہ ارض کشمیر کے گلی کوچوں میں وہ جس ملک کا سبز ہلالی پرچم لہرا
رہے ہیں اور اپنے شہداء کی لاشوں کو جس پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کر
رہے ہیں وہ انہیں ہندوستان کے غاصبانہ قبضہ سے چھڑانے کیلئے کیاعملی کردار
ادا کر رہا ہے؟یہ وہ باتیں ہیں جو جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید نے
مقامی ہوٹل میں سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ ہونے والی نشست میں
کیں اور اہل قلم کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ وہ کشمیر کی تازہ ترین
صورتحال او رمسئلہ کشمیر کے حوالہ سے کی جانے والی سازشوں پر ضرور قلم
اٹھائیں۔ نشست میں سینئر کالم نگاروں کی کثیر تعداد موجود تھی اور ان سب کا
اتفاق تھا کہ وطن عزیز پاکستان کو جس طرح مسئلہ کشمیرزوردار انداز میں
اٹھانا چاہیے حکومت پاکستان اس حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہی۔
پچھلے دنوں بہت شور مچایا گیا کہ حکومت نے پارلیمانی وفود تشکیل دیے ہیں جو
دنیا بھر کے ملکوں میں جاکر مسئلہ کشمیر اجاگر کریں گے اور انہیں انڈیا کی
ریاستی دہشت گردی سے آگاہ کیا جائے گا لیکن نتیجہ بالکل صفر رہا کیونکہ جن
منظور نظر افراد کو باہر بھجوایا گیا تھاسوائے دو چار افراد کے کسی کو بذات
خود مسئلہ کشمیر سے متعلق آگاہی نہیں تھی اورکچھ بے چارے تو ایسے بھی تھے
جنہیں یہ تک پتہ نہیں تھا کہ کشمیر میں اس وقت وزیر اعلیٰ کون ہے اور وہاں
کس کی حکومت ہے؟جبکہ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ انڈیا مسلسل دنیا کی
آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے اور پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ کشمیر کی موجودہ
تحریک کے پیچھے پاکستان ہے اور یہ سارے حالات اسی کے پیداکردہ ہیں جس کا
نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ عالمی ادارے اور ملک جنہیں مظلوم کشمیریوں کے حق
میں آواز بلند کرنی چاہیے تھی وہ پاکستان پر انڈیا کی ناراضگی دور کرنے اور
محب وطن جماعتوں کو کشمیریوں کی مددوحمایت سے روکنے کیلئے دباؤ بڑھا رہے
ہیں۔یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ حافظ محمد سعید پاکستان میں کشمیریوں کی
سب سے مضبوط آواز ہیں لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ پیمرا کی طرف سے
الیکٹرونک میڈیا کو باقاعدہ لیٹر جاری کیا گیا ہے کہ کوئی ٹی وی چینل ان کا
انٹرویو یا کسی جلسہ سے خطاب وغیرہ نشر نہ کرے۔ بی جے پی لیڈر ایڈوانی اور
دوسرے انتہا پسند مسلسل پاکستان کیخلاف زہر اگل رہے ہیں۔ وہ اعلانیہ سندھ
کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے فوجی کاروائی کے مطالبات کر رہے ہیں اور
بلوچستان میں علیحدگی پسندی پروان چڑھانے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اس
ہرزہ سرائی کا جنہوں نے صحیح جواب دینا ہے ان کے بارے میں حکومت کی پالیسی
یہ ہے کہ ان کی آواز کو میڈیا کے ذریعہ دنیا تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ بہرحال
کشمیر میں اس وقت تحریک جس موڑ پر پہنچ چکی ہے انڈیا کا پروپیگنڈا اور
سازشیں اسے کمزور نہیں کر سکتیں ۔ حافظ محمد سعید نے ایک بہت ہی حساس
معاملہ کی طرف توجہ دلائی کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے نتیجہ میں بھارت
کو یقین ہو چکا ہے کہ بالآخر اسے اپنی آٹھ لاکھ فوج کو کشمیر سے نکالنا پڑے
گا اس لئے وہ خاص طور پر جموں میں مسلم آبادی کا تناسب بگاڑنے کی خوفناک
سازشیں کر رہا ہے۔ انہوں نے حریت رہنماؤں کی طرف سے فراہم کردہ تازہ ترین
اطلاعات سے حاضرین کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بی جے پی ، آر ایس ایس،
بجرنگ دل اور شیو سینا جیسی ہندو انتہاپسند تنظیمیں سب ایک ہی ایجنڈے پر
کام کر رہی ہیں۔ مسلح مارچ کئے جارہے ہیں، مندروں میں اسلحہ جمع کر کے
آہستہ آہستہ اسے ہندوؤں میں تقسیم کیاجارہا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ایسا
ماحول بنادیا جائے کہ یہاں سے بھارتی مظالم کیخلاف آواز اٹھے تو اس آواز کو
خاموش کرنے کیلئے بھارتی فوجی کی بجائے ایک عام ہندو یہ کام کرنے کیلئے
تیار ہو۔حقیقت ہے کہ یہ بہت خوفناک سازش ہے۔بی جے پی سرکار مقبوضہ کشمیر
میں غیر کشمیریوں کومستقل آباد کرنے کیلئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس دینے کا
سلسلہ شروع کر چکی ہے۔ کہاجارہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو یہاں دوبارہ
بسایاجائے گا ۔ جب پنڈت یہاں سے گئے تو ان کی تعداد دو لاکھ بتائی گئی مگر
اب یہ تعداد بڑھا چڑھا کرنولاکھ بیان کی جارہی ہے اس سے انڈیا کی طرف سے
پنڈتوں کے نام پر لاکھوں غیر کشمیریوں کو بسانے کے خوفناک عزائم کو بخوبی
سمجھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں ڈیوٹی دینے والے ہندوستانی فوجیوں اور
ان کے خاندانوں کیلئے الگ سے سینک کالونیاں بنانے کی کوششیں کی جارہی
ہیں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں کشمیرکے متنازعہ علاقہ ہونے
اور استصواب رائے کروائے جانے تک غیر کشمیریوں کو یہاں مستقل آباد ہونے کی
اجازت نہیں ہے لیکن یو این کی قراردادوں کو پاؤں تلے روندنے والی بھارت
سرکار بین الاقوامی دنیا سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے کیلئے کسی صورت
تیار نہیں ہے۔ایسے میں حکومت پاکستان کو بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت
ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حق میں وزیر اعظم نواز شریف
کا تقریر کرنا اچھی بات ہے مگر یہ سمجھ لینا کہ بس یہ کام کر کے حکومت کی
ذمہ داری ادا ہو گئی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ حافظ محمد سعید کی یہ بات جسے
تمام سینئر کالم نگاروں اور صحافیوں نے بہت پسند کیا وہ یہ تھی کہ حکومت
پاکستان کو چاہیے کہ وہ سی پیک میں شامل ہونے والے ملکوں کو آزادی کشمیر
کیلئے بھارت پر دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کرے۔ پاک چین اقتصادی راہداری
منصوبہ کو گیم چینجر منصوبہ قرار دیا جارہا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ملکوں
کی توجہ اس طرف ہے۔ وہ اس میں شامل ہونے کیلئے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھا
رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر پاکستان ان ملکوں کے سامنے یہ بات رکھتا ہے
کہ کشمیر جل رہا ہے‘ وہاں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے اور
مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ اس لئے
وہ پاکستان کا ساتھ دیتے ہوئے انڈیا کو کشمیرپر سے غاصبانہ قبضہ ختم کرنے
پر زور دیں تو اس کے یقینی طور پر مثبت اثرات مرتب ہو ں گے۔ قائداعظم نے
کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ آج انڈیا سندھ طاس معاہد ہ توڑ کر
پاکستان کاپانی بند کرنے اور اسے بنجر بنانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔میں
سمجھتاہوں کہ انڈیا کی ان دھمکیوں کا علاج بھی کشمیر پر سے بھارتی قبضہ ختم
کرنا ہے۔ ویسے بھی یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کا سارا پانی کشمیر سے آتا
ہے۔اگر ہم وطن عزیز میں لہلہاتی فصلوں کو آباد رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں
کشمیر کو ڈیموں سمیت انڈیا سے واپس لینا ہو گا۔ |