قومیت اور لا دینیت
(Muhammad Saghir Qamar, )
مدت گزری کوٹ لکھپت جیل میں قید ایک سکھ
دوست سے ملاقات ہوئی ۔ وہ پنتھ کا بہت ہی وفادار خالصہ مگر اپنے لیڈروں سے
سخت شاکی تھا‘ اپنی قوم کی بد قسمتی کی ساری ذمے داری ان پر ڈالتا اور کہتا
تھا ۔’’ جب باڑ ہی فصل کو کھانے لگے تو کیا ہو سکتا ہے ۔‘‘
سکھ قیادت پر یہ بات کہاں تک صادق آتی ‘کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ‘ لیکن
مسلمانوں پر بہر حال صادق آتی ہے ۔ مشرق سے مغرب تک دیکھ جائیے ۔غول کے غول
ہیں۔ گروہ در گروہ ’’ رہبروں ‘‘ کی کوئی کمی نہیں ‘اکثریت بھیڑ کی کھالوں
میں لپٹے ہوئے بھیڑیوں کی ہے ۔ ٹیپو سلطان نے کہا تھا سو گیدڑوں کا قائد
شیر ہوتو گیدڑ شیر بن جاتے ہیں اور اگر سوشیروں کا سربراہ ایک گیدڑ ہو تو
سو شیروں کے گیدڑ بن جانے کا خدشہ ہے ۔‘‘
بد قسمتی سے اس شیر دل امت کے قائدین میں شیرکم نظر آتے ہیں ۔ ہمارے سکھ
بھائیوں نے ۱۹۴۷ء میں ہمارے ساتھ ہندوؤں کی شہ پر جو سلوک کیا‘وہ شاید اس
لیے کہ یہ تب ہمارے دوست نہ تھے۔ انہوں نے جس طرح ہمارے چمن کے لاکھوں غنچے
اور پھول مسلے ان کی یاد میں آج دل سے ہوک سی اٹھتی ہے ۔ آج رونا اس بات کا
نہیں ۔بد قسمتی دیکھیے کہ مسلمانوں کے کھیون ہاروں کا کردار آج بھی نہیں
بدلا۔ وہ آج بھی مسلمانوں کی ناؤ کو ڈبو دینے میں غیروں کے ہاتھوں میں چپو
بنے ہوئے ہیں۔
ملت اسلامیہ کی بد قسمتی دیکھیے کہ مدت تک یہ جو لوگ اسلام دشمن اور
پاکستان دشمن حکمرانوں کے دوست رہے ‘ ان کو پاکستان کے قریب لانے کے بجائے
دور کرتے رہے ‘ اپنے ہندو آقاؤں کو خوش رکھنے کے لیے خود لا دینی نظام کے
علمبردار رہے ‘حالانکہ اس سے انہیں کوئی عزت نہ ملی ‘ اس نظام کے کل پرزے
بنے رہے ‘اس نظام کے ماننے والوں نے کبھی ووٹ کی پرچی کی بھیک بھی ان کے
دامن میں نہ ڈالی ۔ ان ہی میں ایک شیخ عبداﷲ بھی تھے۔ شیخ جی قائد اعظم ؒ
کے ’’ گناہوں ‘‘ کی سزا ہمیشہ پاکستان کو دیتے رہے ۔ ہمیشہ اپنے عمل سے
پاکستان کے لیے اپنی نفرت ثابت کرتے رہے‘عوام کو پاکستان سے محبت تھی اس
لیے یہ سبز رومال اور نمک کی ڈلی سے معصوم کشمیری قوم کو بہلاتے رہے ۔ بد
قسمتی سے ان کی پیدائش ایک اسلامی گھرانے میں ہوئی تھی ۔اس ’’ جرم ‘‘ کی
سزا انہوں نے مسلمانوں کو دی ۔قومیت اور لا دینیت کی وکالت میں اتنے آگے
چلے گئے کہ پھر کبھی پلٹ نہ سکے ۔مرنے کے بعد ان کی قبر پر فوج کا پہرہ لگا
دیاگیا۔ فاعتبرو ایا او لو الابصار۔
مشرق میں بسنے والے ہمارے بنگالی بھائیوں کے نام نہاد ’’ رہنماؤں ‘‘ کو
قومیت کا خمار چڑھا۔ بھارت نے شہ دی ۔ سازش کی دھند میں اپنوں کے چہرے
دھندلا گئے ‘ بنگالیت پر انہوں نے پاکستان کو قربان کر دیا ‘جب کہ وہ جانتے
تھے کہ مغربی بنگال کے ہندو بنگالی جو بنگالی ہونے کے باوجود ان کے لیے
ایسے ہی اجنبی ہیں جیسے دوسرے صوبوں کے ہندو …… ان جعلی لیڈروں کے نزدیک
مسلمان ہونا سب سے بڑا گناہ تھا۔ چنانچہ اس گناہ کی انہوں نے پاکستان کو
سزا دی ۔پاکستان ٹوٹ گیا ‘ لیکن اس کو توڑنے والے پنپ نہ سکے…… عوام نے
اپنے جعلی قائدین کو ایسی سزا دی کہ ان کے نظریے سمیت انہیں ایک بنگالی نے
ہی عبرت ناک انجام تک پہنچایا ۔
۱۹۴۷ء میں جن علماء نے کہا تھا کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں‘ جو متحد اور
اکھنڈ بھارت کی خاطر جینے اور مرنے کو ہی مقصد حیات سمجھتے تھے ۔ہندو
مسلمان بھائی بھائی کے نعرے الاپے ‘جناح کیپ کی مخالفت میں گاندھی اور نہرو
کی دو پلی ٹوپیاں سروں کی زینت بنائیں ‘ان کی ہندو سے محبت ان کے کسی کام
نہ آئی ۔ عافیت پسندی اور عدم تشدد کی پالیسی نے کیا رنگ دکھایا ۔ ساٹھ
برسوں میں ستر ہزار ہندو مسلم فسادات ہوئے ۔ لاکھوں مسلمان تہہ تیغ کر دیے
گئے ۔ زندہ جلا دیے گئے ۔ ہندو نواز مسلمان دیکھتے رہے ‘ ہندو ان کی آنکھوں
کے سامنے مسلمانوں کا لہو پیتے رہے وہ کسی ظالم کا ہاتھ نہ روک سکے نہ کسی
مظلوم کی اشک شوئی کر سکے ۔ اہنسا کے پجاریوں کی پیاس کبھی نہیں بجھی ۔ ان
کی ہوس مسلم کشی بڑھتی گئی ۔ ابھی شاید پاکستان دشمن ’’ مسلم رہنماؤں ‘‘ کی
خوش فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوتا کہ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ پیش آ گیا
‘ جس نے ان کی غیروں سے امید اور ایک قومی نظریے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن
کر دیا ۔ہندوؤں کی روایتی مکاری اور مسلم دشمنی ایسی کھل کر سامنے آئی کہ
اب منہ چھپانے کی جگہ نظر نہیں آتی۔
کوٹ لکھپت جیل کی سلاخوں کے اس پار سزا کے باقی دن کاٹتا ہوا سکھ مجھے آج
نہ جانے کیوں یاد آر ہا ہے ۔ شاید اس لیے کہ اس کی قوم کی طرح میری حرماں
نصیب قوم میں بھی ایسے رہنما موجود ہیں جو خود باغ کو اجاڑنے کے درپے ہیں
…… سکھ دوست کا فقرہ ذہن میں تازہ ہی تھا کہ بھارت کے شہر بنگلور سے ہمارے
بھائی ابو مسلم کی ایک تحریر سامنے آگئی …… انہوں نے بھارت کے مسلم قائدین
کے بارے میں جس کرب کا اظہار کیا ہے وہ ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمالیں۔
’’ دکھ اس بات کا نہیں کہ غیروں نے ہمیں چرکے لگائے‘ یہ سوچ کر کلیجہ
پھٹاجاتا ہے کہ ہمارے اپنے بزرگ جنہوں نے ماضی میں بہترین دینی خدمات سر
انجام دیں ‘ آج کسی طور پر بھی وہ بات نہیں کہہ رہے جو مسلمانوں کے حق میں
جاتی ہو ۔ہمیں بھارت کا شہری ہونے کے باوجود اپنے حقوق نہیں ملے۔ ہماری
مساجد ہمارے مدرسے ہندوؤں سے کبھی محفوظ نہیں رہے۔ ہماری عزتیں ہمارے مال
ہمیشہ داؤ پر لگے رہے۔ ہندو کی دوستی بری اور دشمنی گھٹیا ہے۔ جو لوگ اس
بیری کے درخت سے آم اتارنا چاہتے ہیں وہ یا تو خوش فہمی کا شکار ہیں یا
تجاہل عارفانہ دکھا رہے ہیں۔ ہمارے قائدین کو اس کانٹے دار بیری سے ہوشیار
رہنا چایے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ درست لیکن بھارت سے دوستی دہشت گردی کو
تقویت دیتا ہے۔‘‘
ابو مسلم بھائی ! آپ کی باتیں سچ ‘ آپ کا خیال درست لیکن آپ کے سوالوں کا
جواب میرے پاس ہے نہ امت کے پاس …… سینہ خاک پر ناگوار لوگ امت کے سردار بن
بیٹھے اگر یہ لوگ ہمیں بھٹکا دیں اور گمراہی کی طرف لے جائیں تو اﷲ سے دعا
کرنی چاہیے کہ وہ انہیں ہدایت دے اور اگر ہدایت ان کے مقدر میں نہیں پھر
ہمیں صابر دل دے ۔جب دریائے آمو کے اس جانب روسی سیاہ لشکر اترے تھے پشتون
تہہ تیغ کر دیے جاتے تھے تب پشتونوں کی جنگ لڑنے کے دعویدار روس کے ساتھ
کھڑے ہو گئے تھے اور جب پشتون امریکی جارحیت تلے کراہ رہے ہیں تو یہ
علمبردار امریکی مدد کے طلب گار اور مفادات کے لیے پشتونوں کے خون کا تماشا
کر رہے ہیں ۔ مدت بعد آج وہ خالصہ یاد آیا تو دل میں کرب کی ایک لہر پھیل
گئی۔
جی کرتا ہے پنتھ کے وفادار خالصے سے کہوں یہ مسئلہ تمہارا نہیں ہمارا بھی
ہے۔
##
|
|