ٹرمپ کے خطرناک عزائم
(Saeed Ullah Saeed, Sawat)
امریکی بھی کیا خوب چالاک ہیں۔ پہلے ایک
معتصب، تنگ نظر اور انتہا پسند شخص کو صدر منتخب کرلیا۔ بعد میں اس کے خلاف
احتجاج بھی شروع کیا ۔گویا امریکی دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ ڈونلڈ
ٹرمپ ہمارا منتخب کردہ صدر نہیں بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کی طرح وہ
دھاندلی کے ذریعے ہماری گردنوں ر سوار ہوئے ہے۔ اس گیم سے شائد امریکیوں کا
مقصد یہ ہے کہ مسٹر ٹرمپ جب،جب بھی بے گناہ لوگوں باالخصوص دہشت گردی اور
انتہا پسندی کے نام پر مسلمانوں کا خون بہائیں گے تو ردعمل سے بچنے کے لیے
وہ کہیں گے کہ ہم تو شروع ہی سے ٹرمپ کے مخالف ہیں۔ حالانکہ ہر ذی شعور یہ
جانتا ہے کہ امریکہ پاکستان نہیں، جہاں ایک دوسرے کا مینڈیٹ چرانا کوئی
اچھنبے کی بات نہیں۔بلکہ امریکہ میں باقاعدہ ایک سسٹم اور طریقہ کار کے تحت
تبدیلی کا عمل پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ ایسے میں امریکیوں کا یہ حربہ
کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔البتہ اب یہ مسلمان ممالک کا امتحان ہے کہ
وہ نو منتخب امریکی صدر کی اس پالیسی کے جواب میں کیا حکمت عملی اپناتے
ہیں،جن میں موصوف نے انتہا پسندی کے خاتمے کی بات کرنے کی بجائے اسلامی
انتہا پسندی کے خاتمے کی بات کی ہے۔ اب اسلامی انتہاپسندی کے خاتمے سے
امریکا کا کیا مراد ہے ۔تو اہل فکرو شعور جانتے ہیں کہ امریکی ڈکشنری میں
ہر وہ مسلمان انتہا پسند کہلاتا ہے جو قرآن کریم کو راہنماء اور نبی مہربانﷺ
کے لائے ہوئے شریعت کو دین و دنیا میں کامیابی کا ضمانت سمجھتا ہواور اسے
نافذ کرنے کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے حصے کا کوشش کررہا ہو۔ لہٰذا
تقریب حلف برداری کے وقت ٹرمپ کے خطاب کا اسان الفاظ میں یہی مطلب لیا جا
سکتا کہ ہر وہ مسلمان جو قول و فعل اور دل و زبان سے اﷲ تعالی کے وحدانیت
اور محمدﷺ کے رسالت کا قائل ہووہ جلد یا بدیر امریکہ کا نشانہ بنے گا اب یہ
حالات پر منحصر ہے کہ وہ امریکی فوج کے گولی کا نشانہ بنتا ہے یا میزائل کا۔
ڈرون حملے کا خوراک بنتا ہے یا برستے بموں کا۔ وہ امریکی سرپرستی میں چلنے
والی عیسائیت پھیلانے والوں کے لیے تر نوالہ بنتا ہے یا پھر ہالی ووڈ کے
ثقافتی ریلے میں بہ کر روشن خیالی کے کنارے لگتا ہے ۔چونکہ امریکہ کے طاقت
ور اداروں میں یہ سوچ پروان چھڑرہا ہے کہ امریکی کے توسیع پسندانہ عزائم کے
خلاف مسلمان ہی مزاحم ہیں۔ اس لیے وہ گذشتہ کافی عرصے سے مسلمانوں کا صفایا
کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ
مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح دین سے جدا کردیں۔ اس مقصد کے لیے اس وقت بھی
اسلامی ممالک میں کئی غیر ملکی تنظیمیں مسلمانوں کو عیسائیت کی جانب راغب
کرنے میں مصروف عمل ہے۔ دوسرے نمبر پر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے
زیادہ مسلمانوں کو دین سے بے زار کرکے انہیں روشن خیالی کے ٹریک پر چڑھا
دیا جائے۔ پرویز مشرف، حسین حقانی ، شکیل آفریدی ،حسینہ واجد مصر کے السیسی،
زلمے خلیل زاد، عاصمہ جہانگیر، حناء جیلانی فرزانہ باری اور ان جیسے کئی
لوگ مثال کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مذکورہ بالا طریقوں سے جاب دال
نہیں گلتی تو پھر امریکہ مختلف قسم کے الزامات لگا کر مسلمانوں کو تہ و تیغ
کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔عراق میں خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا
پروپیگنڈہ کرکے اس کا اینٹ سے اینٹ بجا دینا، القاعدہ سربراہ پر ورلڈ ٹریڈ
سنٹر کو اڑانے کا الزام لگا کر ثبوت پیش کرنے کی بجائے ان کے میزبان ملک
افغانستان میں خون کی ہولی کھیلنا، پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے نام پر
ڈرون طیاروں سے میزائل برسانا ،مصر میں کے منتخب حکومت کا تختہ الٹا کر
غاصب کی حمایت کرناجبکہ ترکی کے نمائندہ حکوت کو گرانے کی سازش کرنا،
جمہوریت کے نقاب میں چھپے امریکہ کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے
کافی ہے۔ ایسے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کرنا صاف ظاہر کرتا ہیکہ
امریکیوں کی پیاس ابھی نہیں بجھی۔ بلکہ وہ مسلمانوں کا مزید خون پینے کے
لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ افغانستان کے ہارے ہوئے جنگ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں
مزید امریکی فوجوں کا جھونکنااس بات کی واضح دلیل ہے۔ اب یہ مسلم حکمرانوں
کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مسٹر ٹرمپ کو خیر سگالی کے پیغامات بھیجنے کے
ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالے سے ان کے خطرناک عزائم کے آگے بند بانھنے کی
بروقت کوشش کریں۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے ان خطرناک عزائم اور ان کے ممکنہ
معاشی و جانی نقصانات کے بارے میں بھر پور طریقے سے عالمی برادری کو بھی
اگاہ کریں تاکہ وہ نئے صدر کو ان کے مذموم عزائم سے باز رکھ سکے ۔نہیں تو
کم از کم کسی نئی مہم جوئی میں امریکہ کو مالی و افرادی قوت فراہم نہ
کریں۔مسلم ممالک کو چاہیے کہ اب OICکو فعال بنائیں تاکہ اس متفقہ پلیٹ فارم
سے مسلم دنیا باالخصوص کشمیر، فلسطین، شام اوربرمی مسلمانوں سمیت تمام کچلے
ہوئے مسلمانوں کی حالت زار سے دنیا کو اگاہ کیا جا سکے۔ مجھے امید ہے کہ
تمام اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان و سعودی عرب اس آنے والے خطرے سے نمٹنے
کے لیے بروقت اقدامات اٹھائی گی، کہ اس کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں۔ لیکن اگر
مسلم ممالک نے سابق صدور بش اور اوبامہ کی مسلم دشمنی میں ڈونلڈ ٹرمپ کابھی
اسی طرح ساتھ دیا تو پھر تباہی و بربادی کے جس طوفان کا ہمیں سامنا کرنا
پڑے گا اس کے تصورسے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔
|
|