پاکستان کے ممتاز ایٹمی سائنس اور میزائل
ٹیکنالوجی کے بانی ڈاکٹر ثمر مبارک مندسے چند ماہ پہلے ملاقات ہوئی ۔ دوران
گفتگو انہوں نے فخریہ انداز میں بتایا کہ ہم اندھے میزائل نہیں بناتے ۔ہم
ایسے میزائل بناتے ہیں جودرمیان حائل تمام رکاؤٹوں کو عبور کرکے اپنے ٹارگٹ
کو سو فیصد ہٹ کرتے ہیں ۔اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے ہماری میزائل ٹیکنالوجی
دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے ۔انہوں نے ایک واقعہ سنایا جس کو یہاں شیئر
کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ انہوں نے کہا جب میں 1998ء میں کامیاب ایٹمی
دھماکے کرکے واپس اسلام آباد پہنچا تو ایک شخص مجھے ملنے آیا۔ اس نے بتایا
کہ آپ کو ایک بزرگ ملنا چاہتے ہیں ۔میں نے کہا اگر وہ واقعی بزرگ ہیں تو
میں خود انہیں ملنے جاؤں گا ۔بتائے گئے ایڈریس پر جب میں پہنچا تو ایک مکان
میں بے شمار لوگ ایک بزرگ کے اردگردجمع تھے ۔ جونہی میں دروازے میں کھڑا
ہوا تو بزرگ کی نظر مجھ پر پڑ گئی وہ اسی وقت اپنی جگہ سے اٹھ کر میرے پاس
آگئے اور کہا آپ ہی ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہیں ، میں نے جی ہاں میں ہی ڈاکٹر
ثمر ہوں ۔ وہ مجھے لے کر بالائی منزل پہنچے ۔انہوں نے پوچھا ۔آپ حیران نہیں
ہوئے کہ میں نے آپ کو کیسے پہچانا ۔میں نے کہایقینا یہ میرے حیرت کی بات ہے
۔بزرگ نے کہا جب آپ چاغی اور خاران میں ایٹمی دھماکے کررہے تھے کیا وہاں
سانپ اور بچھو بھی تھے ۔میں نے کہا جی بہت تھے ۔بزرگ نے کہاکیاکسی ایک بچھو
یا سانپ نے آپ کو یا آپ کی ٹیم کے کسی فرد کو ڈسا ۔میں نے کہا ہرگز نہیں ۔بزرگ
پھر بولے کیا سانپ اور بچھو کا کام ڈسنا نہیں ہے ۔اس لیے نہیں ڈسا کہ اﷲ
تعالی کی طرف سے جیسے آگ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے سے منع
کردیاگیا تھا اسی طرح سانپ اور بچھووں کو بھی ڈسنے سے منع کردیاگیا تھا ۔ ۔اچھا
یہ بتائیں ایک ایٹم بم کواسمبل کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے ۔میں نے جواب دیا
تین سے چار دن۔ پھر آپ نے چھ گھنٹے میں چھ ایٹم بم کیسے اسمبل کرلیے بزرگ
بولے اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ میں نے ہم جو پرزہ بھی اٹھاکر فٹ کرتے وہ نہ
چھوٹا ہوتا اور نہ بڑا ۔ ہم فٹ کرتے گئے اور ایٹم بم تیار ہوتاگیا۔ تین
گھنٹوں میں حیرت انگیز طریقے سے چھ ایٹم بم تیار کرلیے۔ پھر انہی ایٹم بموں
کے اوپر بیٹھ کر ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے متعلقہ مقامات تک جاپہنچے ۔ بزرگ
بولے یہ کام بظاہر آپ کررہے تھے لیکن پس پردہ فرشتے آپکے مددگار تھے ۔ جب
آپ چھٹا ایٹمی دھماکہ کرنے والے تھے تو ایٹم بم اور کمیپوٹر کے درمیان
رابطہ وائر میں پانی کی وجہ سے نمی آگئی تھی ۔عمومی طور پر یہ نمی کتنے وقت
میں خشک ہوتی ہے ۔میں نے کہا کم ازکم تین چار دن تو لگتے ۔ بزرگ بولے اﷲ کے
حکم پر فرشتوں میں منٹوں کو نمی کو خشک کرکے کمپیوٹر کو ایکٹ کر دیاتھا کہ
کامیاب دھماکہ بھی ہوگیا ۔ میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بزرگ سے پوچھا
کہ آپ نے ان سب باتوں کا آپ کو کیسے پتہ چلا اور آپ نے مجھے کیسے پہچانا
جبکہ میری تصویر بھی (اس وقت ) اخبار میں شائع نہیں ہوئی تھی۔ بزرگ نے
فرمایا ۔جب آپ ایٹمی دھماکوں کی تیاری میں مصروف تھے ، ان لمحات میں مسجد
نبوی میں بارگاہ رسالت ﷺ میں صحابہ کرام سمیت پوری کائنات کے ولی ، قطب ،ابدال
جمع تھے ۔نبی کریم ﷺ نے تمام کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ پاکستان اسلام کا
قلعہ ہے یہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے والا ہے
اس ٹیم کی ہر ممکن حفاظت کی جائے جو ٹیم ایٹمی دھماکے کرنے پر مامور ہے ۔
ایک ولی نے اٹھ کر پوچھا کہ یارسول ﷺ ہم اسے کیسے پہچانیں گے تو نبی کریم ﷺ
نے آپ کی شبیہ دکھائی تھی کہ یہ شخص اس ٹیم کا سربراہ ہے ۔ڈاکٹر ثمر کہتے
ہیں کہ میں یہ باتیں سن کر میں بہت خوش تھا کہ ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے
میرا ذکر نبی کریم ﷺ تک جاپہنچا ۔ جب میں یہ حیران کن باتیں سن کر واپس آنے
لگا تو بزرگ نے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا آپ "پاکستان "کے دفاع کوناقابل
تسخیر بنانے کے لیے کام کررہے ہیں۔ آپ اطمینان کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں
فرشتے آپ کی اور دیگر پاکستانی سائنس دانوں کی حفاظت پر مامور ہیں ۔ دشمن
آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچاسکتا ۔ ڈاکٹر ثمر نے ہمیں بتایا کہ اس واقعے کے
بعد ہم پوری دلجمعی اور اطمینا ن کے ساتھ باوضو ہوکر ایٹمی تحقیق کا کام
کرتے ہیں اور اﷲ کی تائید اور مدد کی وجہ سے کامیابیاں اور کامرانیاں ہمارے
قدم چومتی ہیں ۔دنیا میزائلوں کو صرف ہوامیں بلند ہوتا دکھاتی ہے لیکن ہم
میزائلوں کو ٹارگٹ پر گرتادکھاتے ہیں ۔یہی فرق ان کی اور ہماری ٹیکنالوجی
میں ہے ۔ ایک طرف یہ باتیں تو دوسری طرف 25 جنوری 2017ء کوپاکستان نے بائیس
سو کلومیٹر تک مارکرنے والے پہلے ابابیل ایٹمی میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے
یہ ثابت کردیا کہ پاکستان اور اس کے سائنس دانوں پر حقیقت میں اﷲ تعالی کا
خاص فضل ہے ۔ ایک سے زائد ایٹمی وار ہیڈز لے جانے والا اور موثر انداز میں
دشمن کے ریڈار کو چکمہ دے کر اپنے ا ہداف کو سو فیصد نشانہ بنانے والا یہ
ایٹمی میزائل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے سائنس دنیا بھر سے زیادہ ذہین اور
باصلاحیت ہیں ۔ابابیل میزائل کے تجربے سے بہت سے ذہنوں میں یہ سوال پیدا
ہوتاہے کہ زمین سے زمین پر مارکرنے والے غوری ، ابدالی ، نصر ، شاہین ون
اور شاہین ٹو بیلسٹک میزائلوں کے بعد ایک اور نئے بیلسٹک میزائل نظام وضع
کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ مئی 2016ء میں بھارت نے
اسرائیل کے تعاون سے ایک ایسا میزائل سسٹم وضع کرلیا تھا جس سے وہ بھارت کی
حدود میں پاکستانی میزائلوں کو ٹارگٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کرنے کی
صلاحیت حاصل کرچکا تھا۔ گویا بھارت پاکستان کے جوابی حملے سے بچنے کے لیے
خود کو محفوظ بنا چکا تھاچونکہ ہمارا پہلا میزائل سسٹم ایک وقت میں صرف ایک
ایٹم بم لے جانے کے لیے ڈیزائن کیاگیا تھا ۔ میزائل شکن بھارتی نظام نے
پاکستان کے روایتی میزائل سسٹم کا توڑ کرکے اس پر سوالیہ نشان لگادیا تھا
جس سے میزائل سسٹم میں مزید جدت اور تحقیق کا راستہ کھل گیا۔ چنانچہ
پاکستان کے عظیم اور ذہین سائنس دانوں نے بھارتی جدید سسٹم کاتوڑ کرنے کے
لیے ابابیل ایٹمی میزائیل تیار کرلیا جو ایک ہی وقت میں کئی ایٹم بم لے
جاسکتا ہے ایک خاص بلندی پر پہنچ کر یہ وقفے وقفے سے اپنے ایٹم بم گرا تا
ہے ۔ہر ایٹم بم کا ہدف مختلف اور ہر ایٹم بم آزادانہ طور پر اپنے ہدف کی
جانب بڑھتا ہے ۔گویا اس پر نصب ایسے اسمارٹ ایٹم بم ہوتے ہیں جو مطلوبہ
بلندی سے گرائے جانے کے بعد نہ صرف اپنے اہداف کی جانب بڑھتے ہیں بلکہ
میزائل شکن سسٹم اور ریڈار کو چکمہ دے کر اپنے ہدف کی جانب تیزی سے بڑھتے
ہیں ۔یہ ایسی صلاحیت ہے جو آج سے پہلے صرف امریکہ ، برطانیہ ، روس ، چین
اور فرانس کے پاس تھی۔ پاکستان اس ٹیکنالوجی کا حامل دنیا کا چھٹا ملک بن
چکا ہے ۔ جبکہ ڈاکٹر ثمر کے مطابق نصر میزائل ابھی تک امریکہ کے پاس بھی
نہیں ہے ۔ اﷲ تعالی نے جتنے ذہین اور محب وطن سائنس دان ہمیں عطا کیے ہیں
کاش اتنے ہی محب وطن اور باکردار سیاست دان بھی عطا کردیتا تو میں دعوی سے
کہتا ہوں کہ پاکستان اس وقت امریکہ سے بھی آگے نکل چکا ہوتا ۔ |