سیاست ایک منافع بخش کاروباربن چکا ہے اس میں کئی گناہ
اضافے کے علاوہ دیگر سہولیات بھی مفت فراہم ہو جاتی ہیں اس لیے آج کل
پاکستان کے ہر امیر شخص کا مشغلہ سیاست ہی ہے ۔
کچھ سال پہلے سیاست ایک فلاحی ، رفاعی عمل کا نام ہوا کرتی تھی ۔تب سیاست
مکاری ،چلاقی، جھوٹ کا پلندہ نہیں تھی بلکہ خدمت خلق کے جذبے والے لوگ
سیاست میں آتے اور بھرپور طریقے سے عوام کی خدمت کرتے۔ یہی وجہ تھی ان کی
لوگ عزت کرتے تھے آج تک ان کا نام زندہ ہے ان کے ناموں پر پارٹیاں بنا کر
آج تک لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔
پاکستان میں موجودہ سیاستدانوں میں بزنس مین تو بہت ہونگے مگر سیاستدان کم
ہی نظر آتے ہیں ان کی آپس میں الزام تراشیوں اور گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے
وہ پڑھے لکھے جاہل ہیں ۔یہ اعزاز کسی ایک پارٹی کو حاصل نہیں ہے سب کے سب
سیاستدان ایک ہی تھالی کے چٹے وٹے ہیں ۔ان سے کی گفتگو ٹی وی پر آن ائر
ہوتے ہیں نا صرف ان کا مذاق بنتا ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کو لوگ پوچھتے
ہیں یہ آپ کے ملک کے سیاستدان ہیں ان کو تو تمیز ہی نہیں کہ بات کیسے کرتے
ہیں ۔اب تو اسمبلی میں بھی ہاتھاپائی شروع ہو چکی ہے -
ہمارا ہر سیاستدان اتنی جلدی امیر کیسے بن جاتا ہے ان کے اثاثہ جات کچھ
سالوں بعد اتنے ہو جاتے ہیں کہ ان کو یاد ہی نہیں رہتا یہ کب خریدی اور کب
ہمارے نام ٹرانسفر ہوئی مطلب یہ ہوا کہ سیاست کے کھیل کے پیچھے کچھ نہ کچھ
پس پردہ حقائق ضرور ہیں جن کی بدولت ہمارا ہر سیاستدان امیر سے امیر تر
ہوتا جاتا ہے آئیے آج کچھ اس پر بات کرتے ہیں ۔
پاکستان میں ابھی حکومت نے چیئرمین کے الیکشن کرواے آپ کو معلوم ہے کہ ان
الیکشنز میں کتنا پیسہ خرچ ہوا ایک چھوٹی سی تحصیل کے چیئرمین کے لیے 20
کروڑ روپے لاگت آئی اور بڑے شہروں کے لیے یہ کھیل اربوں میں کھیلا گیا ۔تمام
ملک کے چیئرمین حضرات پر اگر ایک نظر دوڑائیں تو ایک بات ثابت ہوتی ہے ان
میں سے کوئی بھی عام اور غریب انسان نہیں ہے سب کے سب اپنے علاقے کے امیر
ترین لوگ ہیں ان کی شہرت سیاسی خدمت کرنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ الیکشن
میں سب سے زیادہ پیسے آفر کرنے کی وجہ سے ہے ۔
چیئرمین کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ اپنے علاقے کے تمام کونسلروں کو خرید لے
ایسا ہی ہوا ۔دس لاکھ سے تیس لاکھ تک سب کونسلروں کو آفر دی گئی۔کئی شہروں
میں ایک عدد کار اور پیسوں کی آفر بھی موجود تھی یہ پیسہ چیئرمین لگا رہا
تھا کسی بھی ادارے نے نہیں پوچھا کہ ایک کونسلر کو کس بناء پر اتنے پیسے
دئے جا رہے ہیں اب کہاں ہے ہمارا قانون ۔۔۔ انٹی کرپشن ۔۔ نیب۔۔۔۔ایک
کونسلر کو راتوں رات دس سے تیس لاکھ روپے دے کر چیئرمین تو بن گئے ۔ مگر آج
تک کسی نے بھی یہ نہیں پوچھا ایک کونسلر کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آے ۔یہ
کرپشن کی سب سے چھوٹی مثال ہے ۔جب نیب اور باقی ادارے سب جانتے ہوے بھی
خاموش رہیں گے تو نتیجہ یہی ہو گا بے شمار کرپشن ہو گی ۔
کروڑوں روپے لگا کا ایک چیئرمین کے ہاتھ میں جھاڑو دے کر اس کو اپنے شہر کو
صاف کرنے اور کروانے کا ٹاسک دے دیا گیا ۔آپ کو کیا لگتا ہے لوگوں نے
کروڑوں روپے لگا کر سڑکوں کو صاف کرنے کا ٹھیکہ لینا تھا ۔کیا اتنے پیسے
انویسٹ کر کے کوئی شہر کی صفائی ہی کرواتا رہے گا ؟..جی نہیں .۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا
ممکن نہیں اس پورے عمل میں ایک مکمل راز چھپا ہے وہ راز جو ایک عام انسان
کی سوچ میں بھی نہیں ہے ۔
موجودہ چیئرمینز خواہ وہ کسی بھی شہر سے وابستہ ہوں ان کے اختیارات دیکھ کر
ان پر ترس آتا ہے لگتا یوں ہے کہ ان کے کروڑوں رو پے ڈوب گئے اور ان کو اس
بار سیاست کے بزنس میں بھی نقصان ہوا ہے جو آج تک کبھی نہیں ہوا ۔اسی لیے
ایک حکومتی وزیر کے قریبی چیئرمین صاحب نے تو صاف صاف حکمرانوں سے شکایت کی
کہ انھوں نے ساری زندگی کبھی کام کو ہاتھ نہیں لگایا اب آپ لوگوں نے مجھے
جھاڑو پکڑا دیا ہے جو سراسر میرے ساتھ زیادتی ہے جلدی سے جلدی فنڈز دیئے
جائیں اور ان کو کیسےہضم کرنا ہے طریقہ بھی بتایا ہے مجھے بہت سے تحفظات
ہیں اس چیئرمین شپ کی کرسی سے کیونکہ ابھی تک تو میری جیب سے خرچ ہو رہا ہے
-
آپ کو شاید نہیں معلوم کیا جواب ملا ۔۔۔۔بھئ اتنی جلدی کیوں ہے کیوں آگ لگی
ہے ؟ سب تم لوگوں میں برابر بانٹا جاے گا فی الحال تین ماہ میں پورے شہر کو
چمکا دو ۔سابقہ سارا فنڈ ختم کر دو جس کا حساب سابقی افسران سے لیا جاے گا
اس کے بعد جو نئے فنڈز جاری ہونگے اس میں آپ سب چیئرمین کا چالیس پرسنٹ ہو
گا وہ اتنا ہو جاے گا کہ آپ کے لگاے ہوے پیسے دوگنا ہو جائیں گے اس کے بعد
ہر سال فنڈز ہی فنڈز اور تم اور تمھاری کرسی ۔سیاست ایک مکمل آرام دہ بزنس
ہے اس میں جلد بازی کرنے والہ کرپٹ کہلاتا ہے پس آپ اجتناب کریں ایسی گفتگو
سے کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں بے شک یہاں لوگ سننے سے قاصر ہیں
مگر حوصلہ اور بردباری سیاستدان کا شیواء ہونی چاہئے ۔
ایم پی اے ۔ایم این اے مدت پوری ہونے پر گھر چلیں جائیں گے ۔ اگلا الیکشن
ہو گا مگر چیئرمین حضرات کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں گی کیونکہ گورنمنٹ
ان کو کبھی بھی اپنا شریک سفر نہ کرتی اگر کو آنے والے وقت میں ان سے کوئی
فائدہ نظر نہ آتا اور چیئرمین حضرات اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم الیکشن پر
پانی کی طرح نہ بہاتے اگر ان کو کوئی سبز باغ نہ دیکھایا جاتا سیاست میں ہر
کسی کو اپنی اپنی دولت کو دوگنا کرنے کے لیے سیاست کرنی ہوتی ہے ملک کے
بارے میں ان کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا کیونکہ ملک کی فکر ان کو اگلے
الیکشن میں ہو گی ۔
سیاست اس وقت پاکستان کا سب سے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے ہر امیر شخص
شروع شروع میں چند فلاحی کام کرتا ہے تاکہ لوگ اس کو اچھا سمجھ جائیں
۔سیاستدانوں کو پیسہ چاہیے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے وہ گریز نہیں کرتے
۔جعلی ادویات ،جعلی کھاد ،جعلی کھانے کی اشیاء ،جعلی ڈگریاں , اور تو اور
پاکستان میں ایک جعلی وفاقی وزیر بھی بہت مقبول عام رہا ہے ۔
ہمارے سیاستدانوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے کہ کس وقت کس قسم کی کرپشن
کی جاتی ہے ۔بنی ہوئی سڑک کو کیسے دوبارہ بنایا جاتا ہے ٹھیکہ جات کیسے
اپنے من پسند لوگوں کو دیا جاتا ہےکرپشن کے معاملے میں ہمارے سیاستدان بہت
تربیت یافتہ ہیں وہ کرپشن بھی کرتے ہیں اور ہر کرپشن کے بعد عمرہ بھی کرتے
ہیں ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کس جگہ کیا ہو رہا ہے لیکن ہم سب سو رہے ہیں ہمارے پاس
ملک وقوم کے لیے وقت ہی نہیں کہ ہم اپنی آواز ہی بلند کر لیں کوئی احتجاج
ہی کر لیں کسی کی کرپشن کا پول ہی کھول دیں ۔ ہم اپنی سہولت کی خاطر پورے
ملک کا امن و امان خراب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے پھر بھی ہم سچے
پاکستانی ہیں اور ہمارے حکمران بھی ہمارے اچھے اور سچے لیڈر ہیں ۔ ہم محب
وطن پاکستانی ہیں ۔ |