زباں پہ مہر لگی ہے

 شریف خاندان کی3نسلوں سے مانگا گیاحساب کتاب اعلیٰ عدلیہ کے سامنے رکھ دیاگیا ہے ،یہ ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کی انوکھی اور پہلی مثال ہے جب کسی منتخب وزیر اعظم نے اسقدر تفصیل کے ساتھ اپنے خاندانی اثاثوں اور کاروباری معاملات کو عدالت کے سامنے پیش کیا ہو،عدالتی کارروائی ایک جانب جبکہ عدالت کے باہر روز لگنے والے تماشے کوسن سن کریوں محسوس ہورہاہے کہ پاکستان میں آج تک حکمرانی صرف شریف خاندان کے پاس رہی ہے اورحساب دینا بھی اسی خاندان ہی کا فرض ہے اور اپوزیشن راہنماؤں میں سے ہر کوئی پھدک پھدک کے وہی سوالات دوہرائے جا رہا ہے جن کا جواب بارہا دیا جاچکا اور وزیراعظم اپنی تقاریر میں بھی ذکر کر چکے ہیں ، زیادہ اچھلنے والوں میں خیبر پختونخواہ کی حکمراں جماعت تحریک انصاف جس نے وہاں احتساب کمیشن کو تالے لگا رکھے ہیں پیش پیش ہے اور ہر وہ کام کر گزرنے کو تیار بیٹھی ہے جس سے حکومت کو زیادہ سے زیادہ الجھایا جا سکے اور اسکی توجہ اصل معاملات کی جانب مرکوز نہ ہونے دی جائے حد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے لوگ بھی جن کے منہ سے احتساب کا لفظ ہی مذاق لگتا ہے اب ملک میں کرپشن کے خلاف بات کرتے سنائی دے رہے ہیں ۔اپوزیشن کی ان جماعتوں کے نزدیک منتخب وزیر اعظم کے علاوہ پاکستان میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جسے احتساب کی چھلنی سے گذارا جا ناچاہئے اور بعض راہنماملک پر70سال کی حکمرانی کا طوق اور آج تک ہونے والی کرپشن کا پھندانواز شریف اور انکے خاندان کے گلے میں فٹ کرنے پر بضد ہیں ، باوجود اسکے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور انکے خاندان کا پرویزی آمریت میں کڑا ترین احتساب کیا جاچکا ہے اور انکے بچے بچے کو کھنگال کر تسلی کی گئی کہ وہ کسی قسم کی ہیرا پھیری میں ملوث پایا جائے تو اس خاندان کے خلاف انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے میں اسے استعمال کیا جا سکے لیکن صاف شفاف کاروبار کرنے والوں کے ہاتھ بھی صاف شفاف ہی نکلے، شریف خاندان احتساب اور جلا وطنی کی بھٹی سے گزر کر کندن بن چکا ہے اس سلوک پر بھی نالاں نہیں ہے ، تاہم سوال یہ ہے کہ ملکی آئین میں احتساب کی ساری دفعات کیاشریف فیملی پر ہی لگانے کے لئے ہیں ۔۔۔؟ملک میں اگر احتساب کرنا ہی مقصود ہے تو بلاتفریق سب کا کیا جانا چاہئے ،کئی جمہوری اور غیر جمہوری وارداتئے احتساب کا نعرہ لگا کر ملکی خزانہ چاٹ کر چلتے بنے ان سے کوئی پوچھنے یا سوال کرنے والا نہیں ہے ،تحریک انصاف نے ملکی تاریخ کے وہ 40سال بالکل ہی Deleteکئے ہوئے ہیں جن میں فوجی حکمراں بلاشرکت غیرے سیاہ و سفیدکے مالک رہے ،افغان جہاد ہو یادہشت گردی کے خلاف جنگ بھاری رقوم ملک میں آنے کا کوئی حساب موجود نہیں ہے ،احتساب کرنا ہی ہے تو ایوب خان ،یحییٰ خان،ضیا ء الحق، مشرف اور انکی اولادوں سے بھی پوچھ گچھ کریں کیونکہ یہ چاروں جعلی نجات دہندہ بن کر قوم پر مسلط ہوئے ، آئین شکنی کی اور یہ بلاشبہ دستور پاکستان کے قاتل ہیں ،مالی کرپشن تو انکے جرائم سے کہیں چھوٹی چیز ہے، کوئی چوں تک نہیں کرنے دیتاکہ 71ء میں ملک دولخت ہوا تو اس وقت کے حکمران سے آج تک کیوں باز پرس نہیں ہوئی ، اگر عوام سے ووٹ لے کر آنے والے 3بار کے وزیر اعظم کو کوئی استثنیٰ نہیں تو پھر آئین شکنوں کے احتساب پر زبانیں کیوں گنگ ہیں ، پھانسی، کوڑے اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنے والے سیاستدانوں کا گریبان ضرور پکڑیں کہ یہ سب سے آسان ٹارگٹ ہے لیکن مگر ان اینکرز پر بھی ہاتھ ڈالا جائے جو ذاتی جہازوں میں گھومنے لگے ہیں اور خود اربوں کی جائیدادیں بنا کر دوسروں کو لعن طعن کرنے میں مشغول ہیں ، عدالتوں میں’’ انصاف‘‘ کی بولیاں لگانے والے ان ججوں سے کوئی نہیں پوچھتاکہ انکا رہن سہن انکی تنخواہوں سے مطابقت کیوں نہیں رکھتا، نظریہ ء ضرورت ایجاد کرنے کا جرم کس کے سر ہے اور جوڈیشل مارشل لاء کی اصطلاح کہاں سے نکلی ۔۔؟سرکاری دفتروں میں ٹکے ٹکے پربکنے اور غریبوں کی کمائی پر ہاتھ صاف کرنے والے چھوٹے بڑے افسروں سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ، ہرجائز کام کی بھی فیس رکھ دی گئی ہے ۔۔جنرل (ر) راحیل شریف پاک فوج کا سابق سالار ہے جس پر ہماری جان بھی نثار ہے ،انہیں زمینیں دینا عین آئینی اقدام سہی مگر دوبار کے آئین شکن مشرف کو گارڈ آف آنر کس آئین کے تحت دیا گیا ۔۔؟ سنا ہے مشرف کو تو ڈی سی کالونی میں بھی پلاٹ دیا گیا تھا۔۔۔،ججوں ،جرنیلوں ،صحافیوں اور مگرمغرور افسروں کی خوشامد چھوڑ کرکاش کوئی میرے ملک کے غریب کو بھی چھوٹا موٹا پلاٹ دینے کی بات کرے جس کی ساری کمائی مکان کے کرایے کی ادائیگی پر اٹھ جاتی ہے اور بچوں کی صحت ،تعلیم ،غذا کے لئے اسکی جیب میں کچھ نہیں بچتا، سرمایہ داروں کے گھروں میں ملاز م ننھی منی بچیاں ماں باپ کی مجبوریوں اور بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کی خاطر جنسی ہوس بجھانے کا آسان ذریعہ بنی ہوئی ہیں،سرمایہ دار بھیڑئیے انکی معصومیت تار تار کر کے بھی معاشرے میں معززبنے ہوئے ہیں ،جوان عورتیں ایک وقت کے کھانے کے لئے مسواکیں بیچتی پھرتی ہیں اور اپنے دوستوں کو ہزاروں روپے کا کھانا کھلا دینے والے چمکتی گاڑیوں میں بیٹھے سرمایہ دار تمسخر اڑاتے ہوئے انہیں ڈرامے باز کہہ کرگزر جاتے ہیں،جی ٹی روڈ کے ساتھ ہی رنگوں اور روشنیوں اور کاایک الگ تھلگ اورچھوٹاشہر بستاہے جو کہنے کو تو گوجرانوالہ کا حصہ ہے مگر پورے گوجرانوالہ سے جدا ہے ، اس سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کا ہر انچ گندی گلیوں میں بسنے والے سرکار ی اداروں کے رحم و کرم پر نالیوں کے بدبو دار پانی میں جینے پر مجبوربے بس اور بے بس عوام کا مذاق اڑاتا ہے اسے دیکھ کر اس سوسائٹی سے باہر بسنے والوں پر ترس آنے لگتا ہے جو بے چارے کروڑوں روپے خرچ کرنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محرومی کی زندگی گزار رہے ہیں ، اس طرح کی سوسائٹیز میں انسان نما بت بستے ہیں جنہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ساتھ والے گھر میں کوئی رہ بھی رہا ہے یا نہیں،ان رہائشی سوسائٹیز میں ہمسائیگی کا کوئی تصور نہیں ہوتا،معاشرے میں غریب کی تکالیف کا تذکرہ بطور دکھاوا تو کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں نعروں اور بلندو بانگ دعووئں کے باوجود حکومتی سطح پرغربت دور کر نے کی کبھی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی گئی اور غریب کی غربت کو اسکا مقدر قرار دے کر آنکھیں چرالی جاتی ہیں ، چونکہ غریب اور تکلیف دونوں کا چولی دان کاساتھ ہو تا ہے ،غربت اور اسکی بدولت اٹھنے والی پیڑیں بھی عمر بھر ساتھ ساتھ چلتی ہیں، یہ امر اور بھی تکلیف دہ ہے کہ سرمایہ داروں کی ان سوسائٹیز پر ملکی قوانین کابھی پوری طرح اطلاق نہیں ہوتادیر تک فنکشن چلتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں،اسی سٹی ہاوئسنگ سوسائٹی میں آجکل دو صنعتکاروں کے درمیان نئی رشتے داری کے موقع پر منعقدہ فنکشن کا بڑا چرچہ ہے جس میں دولت اور طاقت کے نشے میں چور صنعتکاروں نے ون ڈش کا قانون بنانے اور اسے نافذ کرنے والوں کی موجود گی میں اسے اپنے پاؤں تلے بری طرح روند ڈالا ،ون ڈش کے قانون کا بیسیوں کھانوں کی شکل میں ایسا تمسخر کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آیا ،شادی کے جشن کی کہانی تو ہوش ربا ہے سنا ہے کہ دولت والوں کا یہ جشن کوئی ہفتہ بھر جاری رہا ،اور اس دوران کیا کیا محفلیں بپا نہ ہوئیں تذکرہ ممکن نہیں،اس شادی پر اٹھنے والے اخراجات اتنے زیادہ بتائے جا رہے ہیں کہ انہیں سن کر ہی عام آدمی تو شاید کومے میں چلا جائے ،سرمایہ داروں کے لئے شادی انکی دولت کی نمائش کاسنہری موقع بن کر آتی ہے ،شہر کے کتنے ہی با اختیار اور زور آور لوگ اپنی آنکھوں سے دولت والوں کی یہ انوکھی نمائش دیکھنے گئے ،کہتے ہیں کہ شہر کے بڑے انتظامی افسر ڈی سی خود بھی تقریب میں موجود تھے جوا س قانون شکنی پربھی میزبانوں کے ساتھ مسکراہٹیں بکھیرتے رہے۔۔۔غریبوں کے ٹھیلے اٹھااٹھا کر پھینکنے اور انہیں ٹھوکریں مارنے والا شہر کا بدزبان اے سی (اب تبادلہ ہوگیا ہے) ہو جس کے منہ سے غریبوں کو روزگا ر سے محروم کرتے وقت گالیاں اور جھاگ نکل رہی ہوتی تھی یاچھابڑیوں والوں کے لئے ملک الموت بنے خوفناک افسران سب اس قانون شکنی پر خاموش رہے۔۔۔ سرمایے اور طاقت والوں کے سامنے ان غضبناک ا فسروں کو چوڑیاں پہننے میں ایک لمحہ ہی تو لگتا ہے۔امیر اور غریب سے یکسر مختلف سلوک ہو رہا ہے۔۔۔ہمارے ملک میں طبقاتی فرق اسقدر بڑھ رہا ہے کہ امیر اور غریب طبقے کے پینے کے پانی کا گھونٹ تک ایک سانہیں، حیرت ہوتی ہے جب کسی سے سنتا ہوں کہ قیامت آنے والی ہے بھلا اسکے بعد کسی اور قیامت کی گنجائش ہم نے چھوڑی ہے۔۔۔؟

Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 76297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.