تنخواہ وہ بہت مناسب لیتے ہیں، تنخواہ کی وصولی ان
کی ’ڈیوٹی‘ پر حاضری سے مشروط بھی نہیں، جب چاہیں جائیں، چاہیں تو نہ جائیں۔
چاہیں تو جائیں اور واپس چلے آئیں او رچاہیں تو جائیں مگر ایک تنکا اِدھر
سے اُدھر نہ کریں۔ ان کی ڈیوٹی میں تنکوں کے اٹھانے رکھنے کا کوئی دخل ہی
نہیں، معاملہ صرف زبان کے استعمال تک ہی محدود ہے، اس کے باوجود بیشتر
صاحبان ایسے ہیں جو زبان کو بھی تکلیف نہیں دیتے۔ ان کے استحقاق کا آبگینہ
اس قدر نازک ہے کہ ذرا سی ٹھیس بھی برداشت نہیں کرتا گویا اشارے سے ہی ٹوٹ
کر کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ فرائض اور اختیارات ایسے کہ ملک کی تقدیر وہی
لکھا کرتے ہیں، یقینا اسی کارِ خیر کی وہ بھاری تنخواہ، آنے جانے کا کرایہ
، اسلام آباد میں محفوظ اور اچھی رہائش اور دیگر اختیارات و استحقاق کی
صورت میں سہولتیں استعمال کرتے ہیں۔ خود اعتمادی تو ایسے ماحول میں خود ہی
آجاتی ہے، ویسے بھی لاکھوں لوگ ان کی پشت پر ہوتے ہیں، گویا وہ بہت بڑی
اکثریت کی نمائندگی کا فریضہ بھی نبھاتے ہیں۔ یہ ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ ہیں،
ایوانِ بالا، ایوانِ زیریں، صوبائی اسمبلیاں انہی کے دم سے آباد ہیں، کسی
بھی رکن پارلیمنٹ کے ساتھ ’معزز‘ کے لفظ کا اضافہ نہ کیا جائے تو اُن کا
موڈ خراب ہو جاتا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس نے بظاہر پورے ماحول
کو بظاہر ہلا کر رکھ دیا، بظاہر اس لئے کہ ہم لوگ اتنے ہلکے نہیں، اتنی
جلدی یا اتنی چھوٹی موٹی باتوں پر ہلتے نہیں۔ کسی محقق نے یہ تحقیق نہیں کی
کہ قومی اسمبلی میں یہ سانحہ کتنے برس بعد پیش آیا ہے، یا یہ بھی نہیں
بتایا گیا کہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ معزز لوگ بھی ایک دوسرے کو
تھپڑمار رہے تھے، گھونسے چلا رہے تھے، لاتیں مار رہے تھے۔ انسان کی مجبوری
ہے کہ وہ ایک وقت میں کسی کو ایک ہی ٹانگ مار سکتا ہے، دولتّی مارنے کا شرف
اسے کم ہی حاصل ہوتا ہے، اس کی سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ ایسا جگہ کی کمی
کی وجہ سے ہوتا ہے، جہاں رش اور ہنگامے میں کھڑا ہونا مشکل ہو، وہاں دولتّی
مارنے کا ماحول بن ہی نہیں سکتا، دوسرا یہ کہ دولتّی مارنے کے لئے بہت
زیادہ پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے، ٹی وی پر ریسلنگ وغیرہ میں یہ کام ہوتا ہے،
مگر وہاں خاص قسم کا ماحول ہوتا ہے، اور بلندی سے چھلانگ لگا کر دوسرے کو
دونوں پاؤں سے کِک ماری جاتی ہے، یہ دولتّی کی ہی جدید قسم ہے۔ اگر انسان
کے بس میں عام روایتی دولتّی نہیں ہے تو یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کوئی
دولتّی مارنے والا جانور بھی انسان کی طرح دولتّی نہیں مار سکتا، یعنی
دونوں ہی اپنی اپنی فطرت و جبلت کے پابند ہیں۔ انسان چونکہ اشرف المخلوقات
ہے، اس لئے وہ کسی بھی دوسری مخلوق کی نقل کرتا ہے تو اس میں حیرانگی کی
کوئی ضرورت نہیں۔
بات تھپڑوں اور گھونسوں وغیرہ سے شروع ہوئی تھی، پہنچ گئی دولتّی تک۔ دست و
گریبان ہونے کا ایک فطری تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان گالیاں بھی دیتا ہے،
پہلے زبان کا استعمال ہوتا ہے، یعنی انسان دلائل وغیرہ دینے کی کوشش کرتا
ہے، اگر بات نہ بنے تو مغلظات کا سہارا لینا پڑتا ہے، اور ہاتھ کے استعمال
کے بعد تو دلائل کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے، بس پھر تو وہی کچھ ہوتا ہے،
جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا۔ اب سنا ہے کمیٹیاں بنیں گی، جو یہ اندازہ
لگانے کی کوشش کریں گی کہ قصور کس کا ہے؟ ممکن ہے بعد میں اس بات پر بھی
غور کیا جائے کہ اس ہنگامے کا سدّ باب کیا ہے؟ یہ بات بھی یقین سے کہی
جاسکتی ہے کہ کوئی کمیٹی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے گی، یہ خطرہ بھی یقینی
ہے کہ آئندہ بھی اس عمل کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہ کام پہلے سے
ہوتا آیا ہے، اور یہ بھی کہ اِ ن ممبران کو پارلیمنٹ کے ایوانوں تک پہنچانے
والے بھی تو ہر وقت دست وگریبان ہی رہتے ہیں، کونسا مقام ہے جہاں ہر وقت
توتکار نہیں ہوتی، اسمبلی تو پورے معاشرے کا عکس ہے، جیسے عوام ویسے
نمائندے اور ویسے ہی حکمران۔ مگر معزز ارکانِ اسمبلی کی انفرادیت یہ ہے کہ
وہ اسمبلی کو میدانِ جنگ بھی بنادیں، گھونسے، تھپڑ، لاتیں ماریں، مغلظات سے
اپنی کارکردگی کو توانا اور باوزن بنانے کی کوشش کریں، اسمبلی میں ان کی
کارکردگی صفر ہو، وہ چھٹیاں کریں ، لاجز میں جو بھی کریں، وہ یہ تمام کام
کرنے کی تنخواہ وصول کرتے ہیں، ہے کوئی اُن جیسا؟
|