پاکستان میں غدار باہر سے نہیں آتے ، ملک کے اندر ہی
بے شمار ہیں ۔جو وقتا فوقتا اپنے زہر آلود بیانات اور لامحدود میڈیا کوریج
سے قومی مفادات اور ملک کے لیے اہم ترین منصوبوں پر کھل کر کچھ اسطرح
مخالفت کرتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو یا تو ڈیموں میں ہی پھینک
دیاجائے یا انہیں غدار قرار دے کر ہمیشہ کے لیے جیلوں میں بند کردیاجائے ۔
حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر اس ملک کا رزق کھانے والے بھی کھلم کھلا جب
ڈیموں اور سی پیک کی مخالفت کریں تو کیا انہیں اقتدار پر رہنے کا حق ہے ۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جالندھر میں کہا کہ ایک قطرہ بھی پانی ہم
پاکستان کی جانب نہیں جانے دیں گے۔بھارتی پنجاب کے کسانوں کو پانی کے لیے
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہم نے دریاؤں کے پانی کا رخ موڑنے کا فیصلہ کر
کے اس پر عمل پر بھی شروع کردیا ہے ۔ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ
بھار ت اس وقت تک 70 تک ڈیم بنا چکا ہے ۔ا ن ڈیموں کا پانی بھارتی پنجاب
میں استعمال ہوگا جبکہ مغربی پنجاب (پاکستانی پنجاب) ایک ایک بوند سے ترسے
گا۔ ایک طرف پاکستان کے ازلی دشمن مودی کی یہ دھمکی تو دوسری طرف وزیر اعلی
سندھ سید مراد علی شاہ کا سندھ اسمبلی میں یہ بیان کہ پیپلز پارٹی کے ہوتے
ہوئے کالاباغ ڈیم نہیں بن سکتا ۔ڈیم کے حمایتوں کو منہ کی کھانی پڑے گی ۔سندھ
حکومت اسے کسی بھی صورت میں تعمیر نہیں ہونے دے گی ۔اگر پانی کے مسئلے پر
پنجاب اور اسلام آباد کو بند کرناپڑا تو ضرور کریں گے ۔ وزیر اعلی سندھ
مزیدفرماتے ہیں کہ سندھ کے پانی پر قبضے کے لیے ون یونٹ بنایاگیا ۔جب تک
پیپلز پارٹی ہے اس وقت تک کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا ۔سندھ کو اس کے حصے کا
پانی نہیں مل رہا ۔سید مراد علی شاہ نے فخریہ اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی نے
اپنے پانچ سالہ دور میں چار مرتبہ کالاباغ ڈیم کے خلاف قرار داد منظور کرکے
ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے ۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی
کامران اختر نے کہا دل نہیں چاہتا کہ پنجاب کو بڑا بھائی کہاجائے ۔پانی
روکنا معاشی قتل ہے اگر پانی پر بدمعاشی کی جاتی ہے تو پنجاب کی گیس کیوں
نہ بند کردی جائے ۔ پانی کے معاملے میں اگر پنجاب یا اسلام آباد بند کرنا
پڑا تو ہم پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں گے ۔ سندھ اسمبلی میں دیئے جانے والے یہ
زہر آلود بیانات اخبارات میں شائع ہوئے جنہیں پڑھ کر میرا خون خول اٹھا۔
لیکن نواز شریف نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر ملک کے غداروں کو آزاد چھوڑ رہے
ہیں ۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص پاکستان سے
محبت کرتا ہے وہ سندھی ہو ،پنجابی ہو یا پٹھان۔ وہ ڈیموں کی مخالفت نہیں
کرسکتا اور اگر کوئی کرتا ہے تو وہ پاکستان کا دوست نہیں، دشمن ہے ۔
خیبر پختوانخواہ میں اسفند یار ولی سرخ ٹوپیاں پہن کر سرخپوشوں سے خطاب
کرتے ہوئے سی پیک کے خلاف دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں کہ سی پیک پر وفاقی
حکومت سے معاہدہ کرکے پرویز خٹک نے پٹھانوں کے حقوق سے غداری کی ہے ۔ انہوں
نے مزید کہا کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم سی پیک کو بھی کالاباغ
ڈیم بنادیں گے ۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ جس کا جو منہ میں آتا ہے وہ اس لیے
کہتا پھرتا ہے ۔ کوئی گرفت کرنے والا نہیں ہے ۔ نہ حکومتی عہدیدار غداروں
کے خلاف کوئی کاروائی کرتے ہیں اور نہ ہی عدالت عظمی از خود نوٹس لے کر
ایسے جہنمی لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص قومی
منصوبوں ا ور سالمیت کے خلاف جی بھر کے بھڑاس نکال رہا ہے ۔
کبھی وہ وقت تھا کہ بھارتی حکومت کے ایما پر جی ایم سید جیسے مکروہ لوگ
پاکستان کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ آج وہی کام پیپلز پار ٹی اقتدار میں رہتے
ہوئے کررہی ہے ۔ کیا ڈیموں اور سی پیک کی مخالفت میں بیانات دینے والے غدار
نہیں ہیں ۔ سندھ ،پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کے عوام کے مابین اختلاف کی
بنیاد رکھنے والے پاکستا ن کے وفادار کیسے ہو سکتے ہیں۔ میری نظر میں جو
شخص بھی قومی منصوبوں کی تضحیک کرتے ہوئے مخالفت کرتا ہے، وہ ملک دشمن اور
غدار ہے ۔
ہم تھرکول کو اس لیے سپورٹ کرتے ہیں کہ اس سے ملک کو انرجی حاصل ہوگی ۔ہم
کراچی میں میٹرو ٹرین اور میٹرو بس سسٹم کی حمایت کرتے ہیں ، اگر سندھ میں
کوئی اور اہم منصوبہ بھی بنتا ہے جیسے بے نظیر آباد کانیا شہر بسا نے کا
منصوبہ بنایاگیااور اربوں پر اس پر خرچ کردیئے گئے شہر بھی نہیں بن سکا ۔
کیا پنجاب کے کسی شخص نے بیا ن دیا کہ تھرکول پراجیکٹ سمیت ان پراجیکٹوں کی
مخالفت کی ۔ کسی نے یہ کہا کہ یہ منصوبے ہماری نعشوں پر بنیں گے ۔اگر سندھی
وڈیر ے ڈیموں کو موت پر ترجیح دے کر ان کی مخالفت کرتے ہیں تو پانی کیوں
مانگتے ہیں ۔ پانی ڈیموں میں جمع ہوگا تب ہی سندھ کو مل سکتا ہے ۔
ہمیں خوشی ہے کہ بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر ، بین الاقوامی اہمیت کا شہر
بن رہا ہے ،جہاں انٹرنیشنل ائیرپورٹ بنے گا ، جہاں سے ایشیا کو دنیا بھر سے
ملانے والے راستے تعمیر ہوں گے ، جہاں چین سے گوادر تک تیزرفتار ٹرینوں کے
لیے ریل پٹڑی بچھائی جارہی ہے ، اس وقت تک بلوچستان میں ایک ہزار کلومیٹر
طویل سڑکیں تعمیر ہوچکی ہیں ۔ باقی پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ ریکوڈک
پراجیکٹ منصوبے سونا ، تانبا اور قیمتی دھاتیں نکالنے کے لیے پیش رفت ہورہی
ہے ۔پنجاب کے کسی شخص نے ان منصوبوں کی مخالفت نہیں بلکہ ہمیں خوشی ہے کہ
ہمارے وطن کا یہ بھی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہورہا ہے اور مقامی لوگوں
کی طرز زندگی میں انقلاب برپا ہونے والا ہے ۔
خیبر پختوانخواہ میں بجلی گھر اور موٹر وے بن رہے ہیں ۔ہم نے تو کبھی انکی
مخالفت نہیں کی۔ہم چاہتے ہیں کہ خیبرپختوانخواہ کے تمام سیاحتی مقامات تک
نہ صرف موٹرویز تعمیر ہوں بلکہ تمام سیاحتی مقامات پر فائیو سٹار ہوٹل ،
ہیلی پیڈ اور ائیرپورٹ بھی بنیں تاکہ پاکستانیوں سمیت دنیا بھر سے سیاحت
میں دلچسپی رکھنے والے لوگ جنت نظیر پاکستان کو دیکھنے کے لیے خیبر
پختوانخواہ آئیں اور یہاں کے مقامی لوگوں کو باعزت روزگار ملے اور ان کا
طرز زندگی تبدیل ہو ۔ اگر پنجاب کے لوگ سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختوانخواہ
میں تعمیرہونے والے میگا پراجیکٹس کی مخالف نہیں کرتے بلکہ خوش ہوتے ہیں تو
پھر سندھی وڈیرے اور بھارتی حکمرانوں کے ٹاؤٹ یہ سرخ پوش اپنے سروں پر سرخ
ٹوپیاں پہن کر کیوں ڈیموں اور سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبوں کی مخالفت کے
لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ سندھ اسمبلی میں زہر آلود تقریر کرنے والے سید
مراد شاہ وزارت اعلی کے عہدے پر فائز رہنے کے حق دار ہیں ۔ ایم کیو ایم کے
کامران اختر جن کی آستین میں آج بھی ہزاروں قاتل اور دہشت گرد چھپے ہوئے
ہیں -اسے کس نے یہ حق دیا کہ وہ پنجاب کے خلاف اپنی گندی زبان کھولیں
۔افسوس در افسوس ہم نے ہمیشہ غداروں کو اپنے سینے پر رکھ کر پالا ہے ۔اس
لمحے جبکہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں وزیر اعلی سندھ زہر اگل رہے تھے
،بھارت نے پاکستانی دریاؤں کا بھی نصف سے زیادہ پانی بھی روک لیا ہے۔ کیا
ہی اچھا ہوتا اگر وہ کالا باغ ڈیم کے خلاف زبان درازی کرنے کی بجائے بھارتی
وزیر اعظم کو دھمکی دیتے کہ ہم سندھی ، بلوچی ، پٹھان اور بلوچ ایک باپ کے
بیٹے ہیں۔ ہمارا جینا مرنا ایک ہے ۔تم نے کیا سمجھ کر پاکستانی دریاؤں کا
پانی روکا ہے۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم اپنا ابائیل میزائل فائر کرکے تمہیں
راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے ۔ اگر ایسا بیان سامنے آتا تو ہر پاکستانی سید
مراد علی شاہ کو تحسین کی نظر سے دیکھتا لیکن افسوس کہ بھارت کے جارحانہ
رویے کے خلاف بولنے کی بجائے وہ اس اہم ترین ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہی بیان
دے رہے ہیں جو نہ صرف بجلی بلکہ ملکی زراعت کے حوالے سے اہم ترین ڈیم تصور
کیاجاتاہے ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سندھی وڈیر ے بجلی بھی بلا تعطل
مانگتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سارا سال ان کی ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی
فصلوں پانی بھی وافر مقدار میں میسر آئے لیکن ڈیم کوئی بھی نہیں بننا
چاہیئے ۔ میں سمجھتا ہوں کی مخالفت کرنے والے بھارتی ایجنٹ اور تنخواہ دار
غلام ہیں ۔ جو پاکستان کا رزق کھانے کے باوجود بھارتی عزائم کی تکمیل کرتے
ہوئے نفرت کے ایسے بیج بونا چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کبھی ایک قوم نہ بن
سکے ۔
مجھے یاد ہے کہ ایک اور سندھی وڈیرے مخدوم خلیق الزمان مرحوم کہاکرتے تھے
کہ ہم سر تک سیلابی پانی میں ڈوب جائیں گے لیکن کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیں
گے جبکہ ہر سال سندھ کا نصف علاقہ( جس میں ہزاروں دیہات شامل ہیں) سیلابی
پانی کی نذر ہوجاتاہے اور غریبی سندھی عوام سارا سال جو اگاتے ہیں یا جو
گھر بار بناتے ہیں ، وہ سب کچھ سیلاب بہاکر لے جاتاہے ۔ ڈیموں کے مخالفین
اپنے عالیشان بنگلوں میں عیش وعشرت کے ساتھ زندگی انجوائے کرتے ہیں۔انہیں
اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ سیلاب میں ڈوبے ہوئے غریب سندھی عوام کی داد رسی کے
لیے ان کی کچھ مددہی کردیں ۔ پیپلز پارٹی گزشتہ پچیس سال سے کسی نہ کسی طرح
سندھی عوام کے سر پر سوار ہے۔ آج بھی اگر اندرون سند ھ کی حالت زار دیکھی
نہیں جاتی۔بے چارے سندھی آ ج بھی غربت اور بے وسائلی کی دلدل میں ڈوبے ہوئے
اٹھارویں صدی کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں انسان اور جانور اکٹھے
پانی پیتے ہیں ، جہاں پینے کا پانی دور دور تک دستیاب نہیں ۔ تھر کے علاقوں
میں ادویات اور خوراک کی کمی کی وجہ سے ہونے والی ہزاروں انسانی ہلاکتیں کس
سے چھپی ہیں۔ جہاں انسان بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے ہیں ۔ جہاں
بلاول زرداری وائسرائے کی طرح جاتے ہیں اور تھر کے بھوکے اور پیاسے لوگوں
کو سسک سسک کرمرتا ہوادیکھ کراسی طرح واپس لوٹ آتے ہیں ۔غریب سندھیوں کا
خون چوس چوس یہ مکروہ لوگ بھٹو ازم کو پرموٹ کررہے ہیں ۔یہ لوگ بھٹو کو قبر
میں بھی سکون نہیں لینے دیتے اور بھٹو کے نام پر آج بھی لوگوں کو بیوقوف
بناکر اپنا اقتدار مضبوط کرتے ہیں ۔
جہانگیر بدر کی وفات پر جب پیپلز پارٹی کے سرکردہ سندھی رہنما لاہور آئے تو
یہاں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ
گئیں ۔ وہ تحسین کی بجائے حاسدانہ جلن کاشکار ہوکر زبان درازی کرنے لگے
۔سندھ حکومت کو ٹیکسوں کی صورت میں حاصل ہونے والی آدھے سے زیادہ آمدنی تو
بلاول سمیت پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کی تجوریوں میں بند ہوجاتی ہے
۔پھر وہاں ترقیاتی کام کیسے ہوسکتی ہے ۔ یہ پیپلز پارٹی کے بدترین دور ہی
کا کارنامہ ہے کہ کراچی جیسے اقتصادی حب قرار دیاجاتا تھا آج دنیا کا بیمار
، بے سکون اور گندہ ترین شہر بن چکا ہے ۔ جہاں سرکاری عہدے اور محکمے بھی
منہ بولی قیمت پر فروخت کیے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی غیرت مند سرکاری افسر غلطی
سے وہاں تعینات ہوجاتاہے توراتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے ۔ جن دنوں سندھ
حکومت کے آقا اور مولا آصف علی زرداری دوبئی سے خود ساختہ جلا وطنی ختم
کرکے کراچی پہنچ رہے تھے اسی دن رینجر ان کے فرنٹ مین کے گھر اور آفس میں
چھاپہ مارا اور وہاں سے اسلحے کے انبار ملے ۔ رینجر کے اس چھاپے کی تکلیف
کے آثارسندھ حکومت کے وزیر اعلی کے ساتھ ساتھ ان کے مونہہ زور وزیر اطلاعات
قادربخش چانڈیو کے چہرے پر واضح دیکھے جاسکتے تھے وہ لہک لہک کر کہہ رہے
تھے کہ چھاپہ مارنے سے پہلے اگر ہم سے اجازت لے لی ہوتی تو ہم یہ سارا
اسلحہ کسی اور جیالے کے گھر میں چھپالیتے ۔ میں سمجھتا ہوں کراچی میں رینجر
کی موجودگی اور وجود ایک نعمت ہے وگرنہ ایم کیوایم کے دہشت گرد ، قاتل
،جرائم پیشہ اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے کام کرنے والا بھتہ خور اور
جرائم پیشہ مافیا کراچی کو دنیا کا بدترین شہر بناچکا ہوتا ۔ یہ کارنامہ
جنرل (ر) راحیل شریف کاہے یا نواز شریف کا ۔ اس کا کریڈٹ یقینا محرک کو
ضرور ملے گا ۔ آج معذرت خواہانہ رویہ رکھنے والے ایم کیوایم کے دہشت گرد
سیاست دان پہلے فوج کو بھی دھمکیاں دیا کرتے تھے آج خود کو معصوم بنا کر
پیپلز پارٹی کی چمچہ گیری پر لگے ہوئے ہیں کہ شاید انہیں اقتدار میں کچھ
حصہ مل جائے ۔
جہاں تک سیدمراد علی شاہ کی اس بات کا تعلق ہے کہ سندھ کو مطلوبہ پانی میسر
نہیں ہے ۔ تو پھر وہ سندھ میں ہی دو تین ایسے ڈیم بنا لیں جہاں کم ازکم
سیلابی پانی کو محفوظ کرکے سندھ کی زراعت کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں ۔ پھر
وہ سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کو کیوں نہیں روک پاتے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے
کہ پیپلز پارٹی کی حکومت صرف بھٹو ازم کی کمائی کھاکر اپنی تجوریاں بھررہے
ہیں انہیں سندھ عوام کی حقیقی پریشانیوں کا کوئی خیال نہیں ہے ۔ سندھ عوامی
دو وقت کی روٹی مانگتے ہیں تو سندھ حکومت انہیں سندھی اجرک پہنا کر آ ج بھی
بھٹو زندہ ہے تو کل بھی بھٹو زندہ تھا کہہ کر خاموش کروا دیتے ہیں ۔
میری نظر میں اس بھیانک صورت حال کے نواز شریف بھی ذمہ دار ہیں جو سندھی
عوام سے براہ راست رابطہ کرکے ان کے مسائل وفاقی حکومت کی جانب سے کیوں حل
نہیں کرتے - اندرون سندھ بڑے بڑے پراجیکٹ شروع نہیں کیے جارہے اگر سندھی
عوام کو قومی دھارے میں نہ لایاگیا اور ان کے حالات تبدیل نہیں ہوئے تو وہ
ہمیشہ کے لیے بھٹو ازم کا شکار ہوکر زرداری ٹولے کی لو ٹ کھسوٹ کا شکار ہی
رہیں گے ۔
اگر الطاف حسین کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں
تو پھر سید مراد علی شاہ اور کامران اختر کے خلاف ابھی غداری کا مقدمہ کیوں
نہیں بنایاجارہا ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جو شخص بھی ملک کو گالی دیتا
ہے اور اس کے خلاف زہر اگلتاہے ہمارا میڈیا اس کی اتنی ہی زیادہ کوریج دیتا
ہے ۔ یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے ۔ ہم سب پاکستانی ہیں ڈیم سندھ میں بنیں
یا بلوچستان میں ، خیبر پختوانخواہ میں بنیں یا پنجاب میں ۔ اگر ہم پاکستان
سے پیار کرتے ہیں تو ہمیں کھلے دل سے ڈیموں کی بھی حمایت کرنی چاہیئے
کیونکہ ڈیم میں جمع ہونے والا پانی ہی بوقت ضرورت تقسیم ہوسکتا ہے اگر پانی
موجود ہی نہ ہو تو پھر تقسیم کیسی ۔ اگر سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے
وسیع رقبہ خشک سالی کا شکار ہے تو آدھے سے زیادہ بھی پنجاب (جن میں
بہاولنگر ، بہاولپور ، رحیم یار خاں ، مظفر گڑھ ، لیہ ، راجن پور ، ڈیرہ
غازی خاں کے علاقے شامل ہیں) پانی کو ترس رہا ہے ۔ جبکہ بلوچستان کا نصف سے
زیادہ علاقہ یا تو پانی کی قلت کا شکار ہوتا ہے یا سیلابی پانی کی نذر
ہوجاتاہے کیاوہاں بھی ڈیم بنانا گناہ کبیرہ ہے ۔
کاش ہم پاکستانی بن کر سوچیں اور ایسی گھٹیاسوچ رکھنے والے افراد کو حکومتی
ایوانوں سے باہر نکال پھینکیں ۔ جوشخص ملک کا وفادار نہیں ،وہ صوبے کا کیسے
ہوسکتا ہے ۔ یہ قوم پرستی قومی یکجہتی کے لیے زہر قاتل ہے ۔ اگر ہم دنیا
میں باوقا ر قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں قوم پرستی کی
بجائے ملک پرستی کو ہر قدم پر پیش نظر رکھنا ہوگا اور تمام قومی منصوبوں جن
میں ڈیم ،موٹرویز ، بجلی گھر ، ائیرپورٹس ، فوجی چھاؤنیاں ، صنعتی زون ،
تعلیمی ادارے شامل ہیں ) کی مخالفت ترک کرکے ہر سطح پر ان کی حمایت کرنی
ہوگی ۔ اگر خدانخواستہ ایسانہ ہوا تو قوم پرستی کا زہر ہمیں تقسیم در تقسیم
کے عمل سے دوچار کرکے قبروں میں اتارسکتااور ہم دنیا میں ایک ذلیل اور غیر
ذمہ دارقوم کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے ۔ہم سندھی ،پنجابی ،پٹھان اور بلوچ
بعد میں سب سے پہلے پاکستانی ہیں ۔دوسرے ملکوں میں روزگار کے لیے جانے
والوں سے پوچھا جائے کہ پاکستان کی قدر کیا ہے ۔ وہاں کوئی سندھی ،پنجابی ،
بلوچی اور پٹھان نہیں ہوتا سب پاکستانی کہلاتے ہیں ۔ ہمارا جینااور مرنا
ایک ساتھ ہے ہمارے دکھ اور سکھ سب سانجھے ہیں ۔ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو
پھر یہ نفرت انگیز باتیں اور اخباری بیانات کیوں سامنے آتے ہیں ۔
آخر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو شخص بھی ڈیموں ، سی پیک اور ایسے ہی
دیگر قومی منصوبوں کی مخالفت کرے یا ان کے خلاف اسمبلیوں میں یا صحافتی
میدان میں گفتگو کرے اسے ہر سطح کے عوامی اور انتظامی عہدوں کے لیے نااہل
قرار دے کر میڈیا کا بلیک آؤٹ بھی کردیا جائے اور میڈیا کو پابندکردیا جائے
کہ آئندہ ایسے شخص کی کوئی بات یاپریس کانفرنس کی کوریج نہ جائے اور اگر
کوئی صحافتی ادارہ پھر بھی کوریج کرے تو اس ادارے کو بھی بین کردیاجائے ۔
شاید اسی طرح ملک میں کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والوں کا محاسبہ کیاجاسکتا
ہو۔ |